اهل بیت علیهم السلام
اس راستے میں موکب (وہ خیمے جو زائرین کی خدمت کے لئے نجف سے کربلا تک لگائے جاتے ہیں) والے آپ سے اس قدر کرامت اور سخاوت سے پیش آتے ہیں کہ آپ کو اپنے ساتھ کھانے وغیرہ کے سامان لے جانے کی ضرورت نہیں پڑتی
جب زوار غسل کرتا ہے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اس کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں : اے اللہ کے مسافر! تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ
اس میں مردے کا ثواب بھی لکھا جاتا ہے اور اسی طرح اس کے لئے بھی ثواب لکھا جاتا ہے
امام عصر حجۃ ابن الحسن علیہ السلام کی زیارت دوسروں کی نیابت کے ساتھ چاہے وہ دنیا سے کوچ کرگئے ہوں یا زندہ ہو کرنا مستحب ہے، اور حدیث میں ہے کہ داود صرمی نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے عرض کیا: میں نے آپ کے ثواب کی نیت سے آپ کے والد کی زیارت کی ۔۔۔
اس کے علاوہ انہوں نے آنحضرت ۖ کے حصہ کی زمینوں کی کاشتکاری بھی اپنے ذمہ لی، اپنی کاشتکاری کی زحمت کی اجرت وہ آنحضرت ۖ سے وصول کرتے تھے۔ا
جب ابوبکر نے ارث نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفی والی حدیث کا حوالہ دیا تو علی علیہ السلام نے کہا: اور سلیمان داؤد کا وارث ہؤا اور زکریا نے کہا (خداوندا مجھے ایسا ولی عنایت عطا فرما جو) میرا اور آل یعقوب کاوارث بنے
اسلام کے مسلم اصولوں میں سے ایک قانون یہ ہے کہ ہر وہ زمین جو بغیر جنگ اور بغیر فوجیوں کے غلبہ کے مسلمانوں کے ذریعے فتح ہو، وہ حکومت اسلامی کے اختیار میں ہوتی ہے اور عمومی مال میں اس کا شمار ہوتا ہے اور وہ رسول خدا کا حصہ ہوتی ہے۔
اس خطبے کو بہت سے محدثین اور ثقہ راویوں نے کئی اسناد سے نقل کیا ہے ان میں سے ہم صرف چار اسناد کا ذکر کرتے ہیں۔
ان فضائل کے علاوہ امام علیہ السلام کے پاس ایک ایسی چیز تھی جس کی وجہ سے ممکن تھا کہ آئندہ، خلفاء اس کی وجہ سے مشکل میں گرفتار ہوتے اور وہ اقتصادی و آمدنی جیسی قدرت تھی جو فدک کے ذریعے آپ کو حاصل ہو رہی تھی۔
جناب زہرا کو معلوم ہوا کہ حکومت کے اہلکاروں نے ان کے باغات پر قبضہ کرلیا ہے ان کے کا رندوں کو نکال دیا ہے آپ دربار خلافت میں
عالمی اردو خبررساں ادارےنیوزنور کی رپورٹ کے مطابق موسسہ امام خمینی حوزہ علمیہ قم کے چانسلر حضرت علامہ مصباح یزدی نے خطبہ فدکیہ کی تفیر میں فرمایا: یہ خطبہء مبارکہ اس قدر خوبصورت اور فصاحت و بلاغت کی بلندی پر ہے کہ ماہرین فن بھی ان عبارتوں میں بیان شدہ نکا
دوسرے خلفاء کے زمانے میں اگرچہ فدک کے غصب کرنے کی جو علت تھی یعنی خلافت کو مالی اعتبار سے مضبوط کرناوہ ختم ہوگئی تھی لیکن سرزمین فدک اور اس کی آمدنی پھر بھی سیاسی شخصیتوں اور خلیفہ وقت کی ملکیت تھی اور ان کی خاندان پیغمبر سے جیسی وابستگی ہوتی تھی اس لحاظ
شاید خلیفہ اول کے فیصلےکے بے بنیاد ہونے کی اصلی ترین دلیل یه ہو که تاریخ نے اس فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور فدک کئی بار اهل بیت علیهم السلام کو واپس کردیا گیا.
کتا ب کنزالعمال، جو مسند احمد کے حاشیہ پر لکھی گئی ہے،میں صلہ رحم کے عنوان کے تحت ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ جس وقت مذکورہ بالاآیت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو طلب کیا اور فرمایا:
وہ مال کہ جو خدا نے اپنے پیغمبر(ص)کو دلوایا ہے اور تم نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑاۓ لیکن اللہ اپنے پیغمبر(ص)کو جس پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا تمام چیزوں پر قادر ہے ۔ یہ اموال اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کے لۓ مخصوص ہیں
کسی چیز کو منسوب کرنے کے لۓ معمولی سی مناسبت بھی کافی ہوا کرتی ہے جیسے کراۓ پر مکان لے لینا یا اس میں رہ لینے سے بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارا گھر، چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے ہر ایک بیوی کے لۓ ایک ایک کمرہ مخصوص کررکھا تھا
کیا پیغمبر(ص)کو اسلامی حکومت کے اموال اپنی بیٹی کو بخش دینے کا حق تھا یا نہیں
دوسرا طریقہ یہ کہ اسے علی(ع)اور فاطمہ(ع)کے خاندان پر جو مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا گھر تھا وقف کردیا ہو کہ یہ بھی ایک دائمی صدقہ اور وقف ہو جو کہ ان کے اختیار میں دیدیا ہو۔