اهل بیت علیهم السلام

رسول اللہ(ص) 24 یا 25 ذوالقعدہ سنہ 10 ہجری کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ اعمال حج بجا لانے کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[1]۔۔[2]۔[3] رسول اللہ(ع) کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ ‌البلاغ کہلاتا ہے۔ اس وقت امام علی(ع) تبلیغ اسلام کے ل
رسول اکرم (ص) نے فرمایا : جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی(ع) مولا ہیں غدیرخم میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا : " من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ اللہم وال من والاہ، وعاد من عاداہ واحب من احبہ وابغض من ابغضہ وانصر من نصرہ وخذل من خذلہ وادر ا لحق معہ حیث دا
یغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حج کے فرائض انجام دینے والے مسلمانوں کے اس عظیم کاروان کے کچھ لوگ آگے بڑھ چکے تھے،آنحضرت نے کچھ لوگوں کو انہیں بلانے کے لئے بھیجا اور پیچھے رہ جانے والوں کا انتظار کیا، وہاں ایک عظیم اجتماع عمل میں آ گیا،کچھ ل
درحقیقت غدیر کا دن آل محمد علیھم السلام کےلئے عید اور جشن منا نے کا دن ھے اسی وجہ سے اھل بیت علیھم السلام کی جا نب سے خاص طور پر اس دن جشن و سرور کا اظھار اور عید منا نے پر زور دیا گیا ھے۔عمر کی بزم میں موجود ایک یہودی شخص نے کھاتھا :اگر (غدیر کے دن نازل
زید بن ارقم کہتے ہیں کہ : حضرت ابوبکر، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، طلحہ اور زبیر مہاجرین میں سے وہ افراد تھے جنہوں نے سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور مبارکباد پیش کی ۔ بیعت اور مبارکبادی کا یہ سلسلہ مغرب تک چلتا رہا ۔ غدیر خم کے واقعے
کسی بھی قوم اور ملت کے درمیان، جو دن عید قرار پاتا ہے اس کا بنیادی عنصر، ایک سعادت بخش اور مسرت انگیز واقعہ ہوتا ہے جو کسی بھی وقت رونما ہوکر اس دن کو تمام دنوں سے ممتاز کر دیتا ہے ، اسی وجہ سے لوگ اس دن کو عید کا دن قرار دیتے ہوئے اپنے آئین اور رسومات کے
جنگ صفين ميں معاويہ کے ايلچيوں کا ايک گروہ اميرالمۆمنين عليہ السلام کے پاس پہنچا جو بقول خود، اميرالمۆمنين (ع) اور معاويہ کے درميان صلح برقرار کرنا چاہتا تھا-
کسی بھی واقعہ کی اھمیت اور اسکی صداقت اس وقت مسلّم ھو جاتی ھے جب منکر خود مدعی بن جائے ایسی صورت میں صدیوں سے چلتاجھگڑا لمحوںمیں ختمھو جاتا ھے، اگر چہ بعض لوگ باطنی عناد اور ھوا وھوس کی بنا پر حقائق سے آگاہ ھوتے ھوئے بھی نہ ماننے کی قسم کھا لیتے ھیں اور
اسکی عظمتوں تک الفاظ کی رسائی نہیں ،اور نہ ہی اس اقیا نوس فضیلت کو الفاظ کے کوزہ میں سمویا جا سکتا ہے فقط دور سے ہی اس اقیا نوس فضیلت کا نظارہ کیا جا سکتا ہے اور پھر مجھ جیسے کج بیان کے امکان میں کہاں کہ اسکی وسیع و عریض فضائل کو ضبط تحریر کر سکوں۔ آب دری
مانہٴ قدیم سے غدیر، کلام اور اسلامی معتقدات میں تاریخ کے اہم ترین مباحث میں سے ہے اور یہ مسئلہ امامت و خلافت کے حساس ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف کا نقطہٴ آغاز، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانشینی کا مسئلہ
قدیم ترین اسلامی تاریخ مغازی ابن اسحاق اور اس كی تلخیص سیرت ابن ہشام دوسری اور تیسری صدی ہجری میں لكھی گئیں۔ اس كے بعد تاریخ طبری تیسری صدی ہجری میں لكھی گئی۔ یہ ذہن میں ركھنا چاہئے كہ قدیم اسلامی تاریخیں حدیث كا ایك شعبہ تھیں اور حدیث ہی كی طرح ان میں من
غدیر خم میں رو نما هو نے والے واقعات ایک ھی مقام پر اور ایک ھی شخص سے نقل نھیں هو ئے ھیں حاضرین میں سے ھر ایک نے اس باعظمت پروگرام کے بعض پھلوؤں پر روشنی ڈالی ھے اور کچھ مطالب ائمہ معصومین علیھم السلام نے نقل کئے ھیں ۔ ھم نے اخبار و احا دیث کے مطالعہ
اللہ کا حکيمانہ ارادہ ہے کہ غدير کا تاريخي واقعہ ايک زندہ حقيقت کي صورت ميں ہر زمانے ميں باقي رہے اور لوگوں کے دل اس کي طرف جذب ہوتے رہيں- اسلامي قلمکار ہر زمانے ميں تفسير، حديث، کلام اور تاريخ کي کتابوں ميں اس کے بارے ميں لکھتے رہيں اور مذہبي خطيب، اس کو
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کے پوری ہستی کا سارا دار و مدار ولایت سے قائم ہے اور روح ولایت ذرہ ذرہ پر حاکم ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے۔
واقعۂ غدیر کی جانب بے توجّہی کی ایک اور وجہ، بعض لوگوں کا سطحی عقیدہ ہے جنہوں نے ہمیشہ غدیر کے بارے میں یہ لکھا اور کہا ہے : ( غدیر کا دن حضرت امیر المؤمنین ۔ کی ولایت کا دن ہے ) انہوں نے روز غدیر کو صرف حضرت علی ۔ کی ولایت کے لئے مخصوص کردیا ہے ؛ اور واق
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای: سامراجی طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو تشکیل دیا لیکن اب یہ تنظیمیں خود ان کے دامنگیر ہوگئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز پیر
مورخین نے اس واقعه کو درج کر کے اور اس داستان کو سینه به سینه قابل اعتماد لوگوں اور گونا گون گروھوں کی زبانی سن کر اس کے صحیح هو نے کا اعتراف کیا هے اس مطلب کی حجیت اس قدر واضح هے که یه واقعه ادبیات، کلام ، تفسیر اور حتی که شیعه و اهل سنت کے قابل اعتبار ح
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تبلیغ رسالت کے تیئیس برسوں کے دوران بڑی زحمتوں ، مشقّتوں اور مصیبتوں کا تحمل کرتے ہوئے اسلام کا درخت لگایا۔ پیغمبر اکرمۖ نے اس عرصے میں بے پناہ رنج ومصا ئب برداشت کیے لیکن تبلیغ رسالت کے حوالے سے اپنے فریضے ک
مورخین نے اس واقعه کو درج کر کے اور اس داستان کو سینه به سینه قابل اعتماد لوگوں اور گونا گون گروھوں کی زبانی سن کر اس کے صحیح هو نے کا اعتراف کیا هے اس مطلب کی حجیت اس قدر واضح هے که یه واقعه ادبیات، کلام ، تفسیر اور حتی که شیعه و اهل سنت کے قابل اعتبار ح
کسی شئی کی خصوصیت یا اہمیت کیا صرف مادیت ہی میں منحصر ہوسکتی ہے؟ کسی واقعہ کا تاریخی ہونا کیا یہ اس کی کم اہمیت کی دلیل ہو سکتی ہے؟ شیعہ لوگ کیوں غدیر کے جشن کو پر کشش اور با عظمت طور سے منعقد کرتے ہیں؟ ۱۸؍ذی الحجۃ اس عظیم دن کی یاد ہے جسے ہم شیعہ لوگ عید

صفحات