دو ملین یمنی بچے غذائی قلت کا شکار، اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو کوترس نے جنیوا میں یمنی عوام کے لیے امداد کی فراہمی سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ پچاس کے قریب بچے دشوار انسانی صورتحال کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یمن کی مدد کرنے والے ملکوں نے مالی امداد کا صرف پندرہ فی صد ادا کیا ہے، یمن کی اہم اور حساس تنصیبات تباہ ہوگئی ہیں اور بچوں کے لیے صورتحال انتہائی تباہ کن بنی ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کو اتنہائی دشوار صورتحال کا سامنا ہے لہذا یمنی عوام کی مدد کی ضرورت اور امداد رسانی کے ساتھ ساتھ جنگ کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔
اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر برائے انسانی امداد، اسٹیفن اوبرائن نے بھی مذکورہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، یمن میں قحط کی بابت خبردار کیا اور یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ یمن کو ایک بڑے انسانی المیے کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تقریبا نو ملین یمنی شہریوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے اور تقریبا سترہ ملین لوگ بھوک کا شکار ہیں۔
سوئیزرلینڈ کے سابق وزیر خارجہ ڈیڈیئر بورخالٹر نے مذکورہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر مغربی یمن کی بندرگاہ الحدیدہ کو عارضی طور پر بھی بند کیا گیا تو یمن کی صورتحال انتہائی خطرناک ہوجائے گی۔
دوسری جانب عالمی ادارہ خوارک کی جاری کردہ تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سات ملین یمنی شہریوں کو براہ راست بھوک جیسے انتہائی خطرناک بحران کا سامان ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ دو ملین سے زیادہ یمنی بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں جن میں سے ایک ملین شدید بھوک میں مبتلا ہیں اور اگر انہیں فوری طور پر امداد فراہم اور ان کا معالجہ نہ کیا گیا تو وہ موت کے منہ میں چلے جائیں گے
Add new comment