غدیر اور تاریخ کی قدامت، دو متضاد مفہوم
اس رسالہ میں ہم، تاریخی مصادر اور معتبر روایات پر تکیہ کرتے ہوئے، اس نظریہ کی نقد و بررسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا بھی اہل سنت کے محدثین کی کتابوں کی چھان بین کریں تو ہمیں ان کتابوں میں جگہ جگہ پر حدیث غدیر کی جھلک ضرور نظر آئیگی۔ بہت ساری روایتیں غدیر اور اسکے متعلق بالخصوص روز غدیر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ تاریخی خطبہ اہل سنت کی کتابوں میں ملے گا۔ جیسے یہ حدیث:
اَلَسْتُ اَوْلٰی بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟ …فَمَنْ کُنْتُ مَوْلاَہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاَہُ، اَللّٰہُمَّ وَالِ مَنْ وَالاَہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ…
علم حدیث کے قواعد کے اعتبار سے یہ حدیث احادیث متواترہ کا جزء بن گئی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ایک سو دس (۱۱۰) صحابہ اور پچاسی (۸۵) تابعین سے زیادہ لوگوں نے اس واقعہ غدیر کو نقل کیا ہے۔۱#
چنانچہ ضیاء الدین مقبلی (متوفی ۱۱۰۸ئھ) اہل سنت کے عالم فرماتے ہیں:”اگر (ان تمام مدارک اور مصادر کے باوجود) ہم حدیث غدیر کو محرز و مسلم نہ مانیں تو ہمیں یہ ضرور ماننا پڑیگا کہ دین اسلام میں کوئی بھی واقعہ قابل اثبات نہیں ہے۔“۲# اسی طرح شمس الدین جزری (متوفی ۷۳۹ئھ) بھی منکرین حدیث غدیر کو جاہل و نا آگاہ شمار کرتے ہیں۔۱#
ایک طرف تو بے شمار قرائن و دلائل جو تاریخ اور متن خطبہ میں موجود ہیں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ حدیث امیر المومنین حضرت علی کی جانشینی اور خلافت بلافصل کو واضح کرتی ہے اور دوسری طرف … ان آیات کی وجہ سے جو اس دن نازل ہوئیں۔۲#
خداوند عالم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ۲۳/ سالہ زحمات اور حضور کے واقعی فداکار اصحاب کی زحمتوں کو اس شرط پر قابل قبول سمجھتا ہے کہ وہ (آنحضرت) امیر المومنین حضرت علی کو منصب امامت و خلافت پر فائز فرمائیں اور لوگوں کو انکی پیروی کا حکم دیں یعنی اللہ ایک ایسا دین چاہتا ہے جو تمام اور کامل جس میں حضرت علی کی ولایت کے ساتھ اس کی مرضی شامل ہو۔
اسی لئے شیعہ اس واقعہ غدیر کو صرف خلافت اور ایک تاریخی مسئلہ کے عنوان سے نہیں دیکھتے بلکہ قرآن مجید کی نص صریح کی روشنی میں دین اسلام کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کے بغیر ایک ناقص دین جانتے ہیں۔
جس طرح آیہٴ اکمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روز قیامت صرف دین اسلام ہی بندوں سے قبول کیا جائیگااسی طرح ان لوگوں کا بھی اسلام جو حضرت علی کی ولایت کو قبول نہیں کرتے کامل نہیں ہوگا اور وہ دین ناقص، قابل قبول اور مورد رضایت پروردگار نہیں ہے۔
شیعوں کے نظریہ اور عقیدے کے اعتبار سے امامت، ہرگز حکومت اور زمامداری تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ تو امامت کی شئون میں سے ایک ہے۔ لہٰذا امامت کا لازمہ یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے مقام علمی کو قبول کیا جائے وہ بھی اس عنوان کے تحت کہ اہل بیت علیہم السلام ہی علوم و معارف قرآن اور سنت نبوی کے حقیقی عالم ہیں، یعنی صرف اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں جو قرآن اور سنت رسول کو بغیر کسی کمی اور زیادتی کے جانتے اور دوسروں کو بھی صحیح تعلیم دیتے ہیں۔ لہٰذا تمام لوگوں پر واجب ہے کہ انہیں کی طرف رجوع کریں اور دین کو صرف انہیں سے حاصل کریں بلکہ کلی طور پر انکی اطاعت و پیروی کریں لیکن عملی میدان میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے مسلمانوں نے اہل بیت علیہم السلام کی راہ و روش کو اختیار نہیں کیا بلکہ دوسروں کی پیروی کو اہل بیت علیہم السلام کی متابعت و پیروی پر فوقیت دی ہے۔
دین اسلام کو صحیح اور حقیقی منبع سے نہ لینے بلکہ الٰہی نمائندوں کے علاوہ دوسروں کی پیروی کی وجہ سے جو منحوس نتائج اور ناگوار مسائل پیدا ہوئے – سنت پیغمبر کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے – وہ آج تک امت کے دامن گیر ہیں۔
واقعاً! باب مدینة العلم، علوم الٰہی کے مخزن اور حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والے کو چھوڑ دینا اور قدرت و ثروت کے بھوکے اور غاصبین خلافت کی پیروی کرنا، کیا یہ سب امت کے متفرق ہونے اور مسلمانوں کے گمراہی کا سبب نہیں ہے۔
وہ خلیفہ! جو خاندان رسالت پر حملہ کرنے کا حکم صادر کرے۳# اور منبر رسول پر بیٹھ کر جگر گوشہٴ رسالت حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کو (نعوذ باللہ) جھوٹا خیال کرے،۱# اس حالت میں کہ قرآن مجید کے کتنے کلمات ایسے ہیں جن کا معنی وہ خود نہیں جانتا اور انہیں کلمات کو اپنی مرضی و رأی سے تفسیر کرتا ہے۔۲# یا وہ کہ جو ایک گروہ کے ساتھ حضرت علی کے بیت الشرف کی طرف سدھارے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لخت جگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حرمت و احترام کا پاس و لحاظ نہ رکھتے ہوئے شہزادی کے گھر میں آگ لگائے اور شیر کردگار اور امام المتقین حضرت علی کو قتل کی دھمکی دے تاکہ حضرت سے سقیفائی خلیفہ کی بیعت لے۔۳# یا وہ کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت و حدیث نقل کرنے پر پابندی عائد کرے اس زعم میں کہ کہیں لوگ قرآن مجید کو بھول نہ جائیں!؟۴# اور اسی دلیل کی بنیاد پر اپنی خلافت کے زمانے میں عبد اللہ بن مسعود اور دیگر چند اصحاب کو -اسی وجہ سے کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے حدیثیں نقل کرتے ہیں – مدینہ میں قید کر دے۔۵# اور یا وہ خلیفہ جو جناب ابو ذر کو – محض بیت المال کو اپنی مرضی سے تصرف کرنے پر اعتراض کرنے کی وجہ سے – ربذہ بھیج دے۔۶# انصافًا کیا یہ لوگ خانوادہٴ عصمت و طہارت سے مقایسہ کے قابل ہیں؟؟! اور کیا واقعاً ان لوگوں کا رویہ و کردار اس لائق ہے کہ یہ مسلمانوں کی ہدایت کیلئے مشعل راہ بن سکے؟!۷#
اسکے بعد طرّہ یہ کہ معاویہ نے بھی قسم کھائی تھی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کو اس دنیا سے ختم کر دے۔۸#لہٰذا اس نے حدیثیں گڑھنے والوں کو اپنے دربار میں بلایا تاکہ اُسکے سکّوں کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخی زندگی اور آنحضرت کی سنت میں تحریف ہو جائے اور خلفاء (غاصبین خلافت) کی مدح میں جھوٹی حدیثیں گڑھی جائیں۔۹# لہٰذا ان لوگوں کی کج فکری اور دین کے متعلق فہم نارسا نہ رکھنے کی بنیاد پر بیچارے مکتب اہل سنت کے کتنے صالحین و زاہدین نے محض خوشنودئ پروردگار کی خاطر جھوٹی حدیثیں گڑھنا شروع کر دیا۔۱۰#
اس طرح بہت سارے مختلف موضوعات کی کتابوں کی بنیاد انہیں جھوٹی روایتوں پر رکھی گئی۔ لہٰذا رفتہ رفتہ تراشے اور گڑھے ہوئے مذاہب یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہوئے اور مسلمانوں کو – جو صراط مستقیم سے دور ہو چکے تھے – متفرق کر دیا اور روز بروز وحدت اسلامی کی بنیاد متزلزل ہوتی چلی گئی۔ در آنحالیکہ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق کامیابی اور اتحاد کا تنہا راستہ اللہ کے حبل متین یعنی حضرت علی سے تمسک ہے۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَ لاَ تَفَرَّقُوْا…۱#
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:
اللہ کی وہ رسی جس سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے علی اور انکے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔۲#
دوسری جگہوں پر بھی ملتا ہے کہ حضرت علی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا:
یا رسول اللہ! نجات پانے والا فرقہ کون ہے؟
تو اس وقت آنحضرت نے فرمایا:
وہ جو تمہاری اور تمہارے چاہنے والوں کی روش و سیرت کو اپنائے اور اس سے تمسک کرے۔۳#
اسی لئے شیعہ، غدیر کو قرآن و سنت نبوی اور حقیقی اسلام کو کامل کرنے والا سمجھتے ہیں بلکہ جب تک اسلام کا نام و نشان باقی ہے اور جب تک مسلمانوں کو ہدایت و سعادت کی تشویش ہوگی اس وقت تک پیغام غدیر – جو خود صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والا اور اس کی نجات کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے – زندہ و جاوید ہے اور ہمیشہ باقی رہے گا۔
………………………………………………………..
حواله جات
۱۔ مراجعہ فرمائیں عبقاب الانوار تالیف علامہ میر حامد حسین ہندی؛ الغدیر تالیف علامہ امینی
۲۔ الغدیر، ج ۱، ص ۳۰۷
۱۔ اَسْنٰی المطالب، ص ۴۸
۲۔ آیہٴ اکمال، سورہٴ مائدہ، آیت نمبر۳، اور آیہٴ ابلاغ سورہٴ مائدہ ، آیت نمبر ۶۷
۳۔ تاریخ ابو الفداء، ج ۱، ص ۱۵۶؛ العقد الفرید، ج ۲، ص ۲۵۳
۱۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی، ج ۴، ص ۸۰ (طبع قدیم)
۲۔ سنن دارمی، ج ۲، ص ۳۶۵؛ سنن بیہقی، ج ۶، ص ۲۲۳؛ تفسیر ابن کثیر، ج ۱، ص ۴۶۰
۳۔ تاریخ ابو الفداء، ج ۱، ص ۱۵۶؛ الامامة و السیاسة، ج ۱، ص ۱۲؛ تاریخ طبری، ج ۳، ص ۱۹۸؛ شرح نہج البلاغہ، ج ۱، ص ۱۳۴؛ انساب الأشراف بلاذری، ج ۱، ص ۵۸۶
۴۔ سنن دارمی، ج ۱، ص ۸۵؛ مستدرک الصحیحین، ج ۱، ص ۱۰۲
۵۔ مستدرک الصحیحین، ج۱، ص ۱۱۰؛ تذکرة الحفاظ، ج ۱، ص ۷؛ مجمع الزوائد، ج ۱، ص ۱۴۹
۶۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۷، کتاب الزکاة؛ انساب الأشراف، ج ۵، ص ۵۴-۵۲؛ فتح الباری، ج ۳، ص ۲۱۳؛ کامل ابن اثیر، ج ۳، ص ۴۳
۷۔ کتاب الغدیر، ج ۹-۶ میں اہل سنت کی کتابوں سے بہت سارے مطاعن اور انکی بدعتوں کی تحقیق ہوئی ہے اور ان لوگوں کی مدح میں جو حدیثیں گڑھی گئی ہیں علامہ امینی نے انکی نقد و بررسی کیا ہے۔
۸۔ مروج الذہب مسعودی، ج ۲، ص ۳۴۱-۳۴۲؛ الاخبار الموفقیات، ج ۵۷۶؛ الغدیر، ج ۱۰، ص ۲۸۳
۹۔ شرح نہج البلاغہ، ج ۱، ص ۳۵۸ (طبع قدیم)؛ الغدیر، ج ۱۱، ص ۷۳
۱۰۔ صحیح مسلم، ج ۱، ص ۱۳؛ تاریخ بغداد، ج ۲، ص ۹۸
۱۔ سورہٴ آل عمران، آیت ۱۳۰
۲۔ الصواعق المحرقہ، ص ۹۳
۳۔ الاصابة فی تمییز الصحابہ، ج ۲، ص ۱۷۴
Add new comment