حضرت علی(ع) کے متعلق قرآن کریم کی آیتیں

 

 

 

حضرت علی(ع) کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ھو ئی ھیں ، قرآن نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد آپ(ع) کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ھے ،اللہ کی نگاہ میں آپ(ع) کی بڑی فضیلت اوربہت اھمیت ھے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ(ع) کی شان میں تین سو آیات نازل ھوئی ھیں[1] جو آپ(ع) کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ھے۔

یہ بات شایان ذکر ھے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نھیں ھوئیں آپ کی شان میں نازل ھونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ھیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ھوئی ھیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اھل بیت(ع)کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ(ع) اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ھو ئی ھیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ(ع) کی شان اور آپ(ع) کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ھو ئی ھیں ۔

ھم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رھے ھیں :

آپ(ع) کی شان میں نازل ھونے والی آیات

آپ(ع)کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ھوئی ھیں ھم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ھیں :

۱۔اللہ کا ارشاد ھے :”انماانت منذرولکل قوم ھاد“۔[2]

”آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ھوں اور ھر قوم کے لئے ایک ھادی اور رھبر ھے “۔

طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے کہ جب یہ آیت نازل ھو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:”اناالمنذرولکل قوم ھاد “،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“۔[3]

”آپ ھا دی ھیں اور میرے بعد ھدایت پانے والے تجھ سے ھدایت پا ئیں گے “۔

۲۔خداوند عالم کا فرمان ھے :”وتعیھااذن واعیة“۔[4]

”تاکہ اسے تمھارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں“۔

امیر المو منین حضرت علی(ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ھیں کہ مجھ سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا:

”سالتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَھَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شَیْئاًفنَسِیْتُہُ “۔[5]

”میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمھارا ھے لہٰذا میں نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جو کچھ سنا ھے اسے کبھی نھیں بھولا“۔

۳۔خداوند عالم کا فرمان ھے :<الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔ فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ>۔[6]

”جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ھیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ھے اور انھیں نہ کو ئی خوف ھو گا اور نہ حزن و ملال “۔

امام(ع) کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ(ع) نے ایک درھم رات میں خرچ کیا ،ایک درھم دن میں ،ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) سے فرمایا : آپ(ع) نے ایساکیوں کیا ھے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ھوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ھو ئی۔[7]

۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ھے :<إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ >۔[8]

”اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ھیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ھیںوہ بہترین خلائق ھیں “۔

ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ھے : ھم نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی(ع) وھاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “۔”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ھے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ھیں “۔

اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ھو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کھا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ھیں۔[9]

۵۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< فَاسْاٴَلُوا اٴَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ >۔[10]

”اگر تم نھیں جانتے ھو تو جاننے والوں سے دریافت کرو“۔

طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ھے :جب یہ آیت نازل ھو ئی تو حضرت علی(ع) نے فرمایا :”ھم اھل ذکر ھیں “۔[11]

۶۔خداوند عالم کا فرمان ھے :< یَااٴَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیَہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِین>۔[12]

”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پھنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نھیں پھنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ھدایت نھیں کرتا ھے“۔

جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حجة الوداع سے واپس تشریف لا رھے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ھوئی جب آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنے بعد حضرت علی(ع) کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ(ع) نے اپنا مشھور قول ارشاد فرمایا :”من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،اللّھم وال من والاہ،وعادِمَن عاداہ، وانصرمَن نصرہ،واخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“۔

” جس کا میں مو لا ھوں اس کے یہ علی بھی مو لا ھیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “ ۔

عمر نے کھڑے ھو کر کھا :مبارک ھو اے علی بن ابی طالب آپ(ع) آج میرے اورھر مومن اور مومنہ کے مولا ھوگئے ھیں ‘ ‘۔[13]

۷۔خداوند عالم کا ارشاد ھے :< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا>۔[14]

”آج میں نے تمھارے لئے دین کو کا مل کردیاھے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاھے اورتمھارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ھے“۔

یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ سن ھ کواس وقت نازل ھو ئی جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد کےلئے حضرت علی(ع) کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ھونے کے بعد فرمایا : ”اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَالْوِلایَةِ لِعَلِيْبنِ اَبِیْ طَالِب“۔[15]

”اللہ سب سے بڑا ھے دین کا مل ھو گیا ،نعمتیں تمام ھو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت سے راضی ھو گیا “۔

جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ھے :میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظھر پڑھ رھا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نھیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ھاتھ اٹھا کر کھا :خدا یا گواہ رھنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نھیں دیا ، حضرت علی(ع) نے رکوع کی حالت میں اپنے داھنے ھاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی(ع) کے سامنے ھاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ(ع) نے تجھ سے یوں سوال کیا : <رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔وَیَسِّرْلي اٴَمْرِي۔وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی۔یَفْقَہُوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِیرًامِنْ اٴَہْلِي ہَارُونَ اٴَخي اشْدُدْ بِہِ اٴَزْرِي۔وَاٴَشْرِکْہُ فِي اٴَمْرِی >۔[16]

”خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اھل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ھارون کو جو میرا بھا ئی بھی ھے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے “تونے قرآن ناطق میں نازل کیا :< سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاٴَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا>۔[17]

” ھم تمھارے بازؤوں کو تمھارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمھارے لئے ایسا غلبہ قراردیں گے کہ یہ لوگ تم تک پھنچ ھی نہ سکیں گے “۔

”خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ھوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اھل میںسے علی(ع)کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ‘ ‘ ۔

جناب ابوذر کا کھنا ھے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نھیں ھونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ھوئے ،اے رسول پڑھئے :<اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔۔۔>۔ [18]

اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین(ع) میں محصور کر دیا ھے ،آیت میں صیغہ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ھے ،جو جملہ اسمیہ کی طرف مضاف ھوا ھے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ھے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ھے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام(ع) کی شان میں نازل ھونے کو یوں نظم کیا ھے :

مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً

وَاَسَرَّھَافِيْ نَفْسِہِ اِسْرارا۔[19]

”علی(ع) اس ذات کا نام ھے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ(ع) نے نھایت مخفیانہ انداز میں دیا“۔

حوالہ جات

[1] تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

[2] سورئہ رعد، آیت ۷۔

[3] تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یھی مطلب درج ھے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔

[4] سورئہ حاقہ، آیت ۱۲۔

[5] کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔

[6] سورئہ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔

[7] اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مولف واحدی، صفحہ ۶۴۔

[8] سورئہ بینہ، آیت ۷۔

[9] در المنثور ”اسی آیت کی تفسیر میں “جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔

[10] سورئہ نحل، آیت ۴۳۔

[11] تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔

[12] سورئہ مائدہ ،آیت ۶۷۔

[13] ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔

[14] سورئہ مائدہ ،آیت ۳

[15] دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔

[16] سورئہ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔

[17] سورئہ قصص، آیت ۳۵۔

[18] تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔

[19] در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔ 
http://www.abp-ashura.com/ur.php/page,26162A72697.html?PHPSESSID=ec88dfa...

Add new comment