سعودیہ کے حرام مال سے جہاد کرنے والی کٹھ پتلی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ شامی عوام کے لیے وبال بن گئی ـ

 

 

سعودیہ کے حرام مال سے جہاد کرنے والی کٹھ پتلی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ شامی عوام کے لیے وبال بن گئی ـ

ٹی وی شیعہ[ریسرچ ڈیسک]گزشتہ دنوں تفتان میں ایران سے واپس آنے والے زائرین پر حملہ ہوا تو گزشتہ حملوں کی طرح اس حملےکی ذمہ داری بھی ـجیش الاسلام ـ نامی تنظیم نے قبول کرلی۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق زائرین پر دہشت گردی کے ممکنہ حملوں سے متعلق حساس اداروں نے ایک ماہ قبل آگاہ کر دیا تھا تاہم حکومتی سطح پر دہشت گردی کے ممکنہ حملوں سے متعلق کسی قسم کے ٹھوس عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔حکومتی اداروں کی طرف سے عملی اقدامات کے نہ کرنے سے بخوبی ظاہر ہے کہ ہمارے سرکاری ادارے اور دہشت گرد مل جل کر ایک ہی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔دوسری طرف  جیش الاسلام نے یہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ شام میں اپنی شکست کا بدلہ پاکستانی شیعوں سے لے رہے ہیں۔[1]

دینی لحاظ سے یہ سوال ہر مسلمان کے ذہن میں اٹھتاہے کہ  کیا کسی مسلمان کو یہ زیب دیتاہے کہ وہ ایک ملک کی داخلی جنگ میں  اپنی شکست کا انتقام دوسرے ملک کے بے گناہ لوگوں کو اور  نہتے مسافروں کو مار کرلے؟

اس سوال کو اپنی جگہ رہنے دیجئے اور اب یہ جانئے کہ  یہی جیش الاسلام  جو پاکستان میں لوگوں کو مار کر اپنی آتش شکست کو ٹھنڈا کرنا چاہ رہی ہے اس کا شام میں کیا کردار رہاہے  ،اس بارے میں ایک جہادی تنظیم باب الااسلام کی من و عن رپورٹ ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ حقیقت کیاہے؟

اس رپورٹ میں ایران اور شیعوں کے بارے میں جوکچھ کہاگیاہے وہ بھی غیر جانبدارانہ طریقے سےاسی طرح موجود ہے تاکہ قارئین کو پتہ چل سکے کہ شیعہ دشمنی اور ایران دشمنی میں یہ ساری جماعتیں مشترک ہیں البتہ آل سعودی عرب اور امریکہ سے ملنے والی امداد کی بندر بانٹ کے باعث ان میں کبھی کبھار وقتی اختلاف دیکھنے میں آتاہے جو اگلی گرانٹ ملتے ہی کم ہوجاتاہے۔

ہم یہاں پر یہ بھی واضح کردیناچاہتے ہیں کہ یہ دہشت گرد ٹولے صرف ایران یا شیعہ دشمنی پر متحد نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے سوا باقی سب مذاہب اور مکاتب کو ختم کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔اس کا ثبوت ان کی دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں جو کسی ایک فرقے یا ملک تک محدود نہیں ہیں اور حضرت اویس قرنی کے مزار سے لے کرلاہور میں داتا دربار تک اور مساجد و امام بارگاہوں سے لے کر چرچ اور کلیسا سمیت کو ئی بھی مکتب ان کے ظلم سے محفوظ نہیں ہے۔

اب انصار اللہ کی رپورٹ ملاحظہ کریں جس کا عنوان ہےـسعودیہ کے حرام مال سے جہاد کرنے والی کٹھ پتلی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ شامی عوام کے لیے وبال بن گئی ـ

 خاص رپورٹ: انصاراللہ اردو

ایران کی طرح سعودی حکومت کا جہاد ومجاہدین کیخلاف جنگ لڑنا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور جو کوئی بھی ایران وسعودیہ سمیت کسی بھی ملک کی حکومت یا ایجنسیوں سے نفاذِ شریعت سے دستبردار ہونے کے عوض پیسے لیکر ان کی سرپرستی میں جہاد کرتے ہیں تو ان کا جہاد اللہ کی راہ میں کیا جانے والا جہاد نہ ہونے کی وجہ سے باعث رحمت نہیں باعث عذاب بن جاتا ہے اور اس کے نتائج کبھی بھی اسلام ومسلمانوں کے حق میں نہیں نکلتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ شامی عوام کے ساتھ ہوا، جب انہیں ایجنسیوں کی کٹھ پتلی جہادی تنظیموں کے ہاتھوں سے مصائب، بھتہ خوری، لوٹ مار اور مختلف مشکلات کو جھیلنا پڑا تو انہیں حکومتوں اور ایجنسیوں کے حرام مال سے جہاد کرنے والی تنظیموں کے خطرات اور نقصانات کا علم ہوا۔

مگر اس سے بھی زیادہ بری صورتحال اور اجتماعی نقصانات کا سامنا شامی عوام کو سعودی حکومت کے مرجئہ پر مشتمل جعلی جہادی جماعت ’’جیش الاسلام‘‘ سے کرنا پڑا جس کا امیر زہران علوش ہے، جو سعودی حکومت کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حج کے موسم میں شام میں جہاد چھوڑ کر آل سعود کی مہربانی سے حج ادا بھی کرنے گیا اور اس شخص کی جعلی جہادی جماعت کو چلانے والا آل سعود کا بندر بن سلطان ہے، جس کی اسلام دشمنی اور امریکہ کی ایجنٹ گری کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

سعودی حکومت اور خود زہران علوش نے اپنے آپ کو ’’جبھۃ النصرۃ‘‘ جیسے جہادی جماعتوں کا حامی اور بھائی قرار دینے کے گمراہ کن ویڈیو بیانات دیئے تاکہ شامی عوام کے دلوں میں جو ’’الدولۃ الاسلامیۃ‘‘ اور ’’جبھۃ النصرۃ‘‘ کا مقام ہے، وہی اس کی کٹھ پتلی جماعت کا بن سکے۔

اس مقصد کے لیے یوٹیوب، ڈیلی موشن سے لیکر عام عربی فورمز اور سماجی ویب سائٹوں میں زہران علوش اور اس کی جماعت کو نمایاں کرنے کے لیے باقاعدہ میڈیا مہم سعودی حکومت نے چلائی اور شامی عوام کا اعتماد اس جماعت پر بیٹھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی۔

اس سے بھی آگے جیش الاسلام کا فری سیرئین آرمی کی باقیات اور دیگر تنظیموں کے ساتھ اتحاد قائم کرکے ’’ فری سیرئین آرمی‘‘ کی طرز پر ’’الجبھۃ الاسلامیۃ‘‘ تشکیل دینے کا ڈرامہ رچایا گیا اور زہران علوش کو اس کا عسکری ونگ کا سربراہ بنایا گیا۔

مگر گزشتہ دنوں شام میں ایسے واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے شامی عوام کو مجبور کردیا کہ وہ دیگر جہادی جماعتوں سے بھی پہلے زہران علوش اور اس کی جیش الاسلام تنظیم سے اعلان برأت کرتے ہوئے اسے غدار قرار دیں۔

ہوا کچھ یوں کہ شام کے شہر النبک میں گزشتہ دنوں بشار اسد کی نصیری فوج نے زبردست تباہ کن حملہ شروع کیا اور وہاں شہری آبادی پر گھمسان کی جنگ مسلط کرتے ہوئے اندھا دہند بمباری سمیت شہریوں کا قتل عام کرنا شروع کیا۔

شامی عوام نے ایجنسیوں اور غیر ایجنسیوں کی جہادی جماعتوں کے فرق کو معمولی سمجھا اور کھوکھلے بیانات سے متاثر ہوکر زہران علوش کی جیش الاسلام پر اعتماد کرتے ہوئے ان پر بھروسہ کیا کہ وہ انہیں بشار اسد کی نصیری فوج سے بچائیں گے۔

لیکن زہران علوش کی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ نے وہاں بشار اسد کی افواج کا دیگر جہادی جماعتوں کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے کی بجائے وہاں سے پیٹھ پھیر کر راہ فرار اختیار کرلی اور عام شہریوں کو بشار اسد کے درندے فوجی اور شیعی غنڈوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے چھوڑدیا۔

زہران علوش نے یقینی طور پر ایسا آل سعود کے حکم پر کیا تاکہ اس شہر پر بشار اسد کا کنٹرول قائم ہوسکے۔

بھگوڑی سعودی مرجئہ کی جہادی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ کا سربراہ زھران علوش

جیش الاسلام نے سعودی ایجنسیوں کے حکم آجانے پر بھگوڑا بن کر میدان جہاد سے راہ فرار اختیار کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ میڈیا اور سماجی ویب سائٹوں پر جھوٹے دعویں کیے کہ جیش الاسلام نے النبک شہر کے کئی علاقوں کو فتح کرلیا ہے۔

اب اس جھوٹی خبر سے شامی عوام کا نقصان یہ ہوا کہ اس خبر کو سن کر سچ ماننے والے کئی شامی خاندان نے پناہ لینے کی خاطر النبک شہر کا رخ کیا اور وہاں بشار اسد کی نصیری فوجیوں اور شیعی غنڈوں اہلکاروں کے ہاتھوں بے دردی سے شہید ہوگئے۔

ان وجوہات کی وجہ سے شامی انقلاب کے سرگرم میڈیا نمائندوں نے ’’جیش الاسلام‘‘ کو بھگوڑی جماعت قرار دیتے ہوئے یہ بیانات دیئے کہ: پچاس ہزار سے زائد اپنے مجاہدین کی تعداد بتانے والی جیش الاسلام نے النبک شہر سے جنگ کے وقت راہ فرار اختیار کیوں کی اور ’’جبھۃ النصرۃ‘‘ اور ’’کتیبۃ الخضراء‘‘ جماعتوں کو تنہا بشار اسد کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ کر النبک شہر کے محاذ سے بھگوڑا بن کر کیوں بھاگی۔

شام کی اندرونی صورتحال کی خبریں نشر کرنے والے شامی انقلاب کے بیسیوں میڈیا نمائندوں نے النبک شہر سے جیش الاسلام کے بھاگ جانے کی خبریں نشر کیں اور اس کا اعلان سب سے پہلے "خبیب عمار، ابو زید الجولانی، عبدالرحمن شيخو، او زینب القلمونی جیسے معروف میڈیا نمائندوں نے کیا۔

اسی طرح بشار اسد نظام کے مخالف ویب سائٹوں اور سماجی ویب سائٹوں پر صفحات نے جیش الاسلام کے النبک شہر سے انخلاء کرنے کی تصدیق میں خبریں جاری کیں جبکہ ٹی وی چینلز پر شامی اپوزیشن صحافی موسی العمر نے بتایا کہ: انہیں القلمون شہر سے 20 سے زائد میڈیا نمائندوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ’’جیش الاسلام‘‘ نے النبک شہر میں جنگ لڑنا چھوڑ کر راہ فرار کو اختیار کیا ہے۔

زہران علوش اور اس کی تنظیم ’’جیش الاسلام‘‘ پر پہلی مرتبہ یہ الزام نہیں لگا ہے بلکہ اس سے پہلے دیر سلمان، غوطہ، قارۃ، جوبر اور معلولا علاقوں سے انخلاء کرکے انہیں بشار اسد نصیریوں اور شیعی غنڈوں کے حوالے کرنے کا الزام پہلے بھی شامی عوام کی طرف سے لگ چکا ہے۔

زہران علوش کی تنظیم جیش الاسلام جہادی میدانوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے بھگوڑی فوج کہلاتی ہے، جو دشمن کے سامنے کسی ایک بھی محاذ پر ثابت قدمی کا مظاہرہ نہیں کرسکی کیونکہ ان کی لگام آل سعود کے ہاتھوں میں ہے، جن کے اشاروں پر یہ سب کچھ جہاد کے نام پر کیا جاتا ہے۔[2]

 

Add new comment