ازدوج کے آداب و رسوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نذرحافی
ازدواج کا مسئلہ بلاتفریقِ دین و مسلک ہر دور میں انسانی سماج کے درمیان اہمیّت کا حامل رہا ہے۔ مختلف ادیان و مذاہب اور مسالک کے پیروکاروں کے مابین ازدوج کے آداب و رسوم میں تو فرق ہوسکتا ہے لیکن ازدواج کی اہمیّت سے کسی باشعور انسان کو انکار نہیں۔
کون نہیں جانتاکہ ازدواج ہی وہ مقدّمہ ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل کے لئے خاندان جیسی بنیادی اکائی فراہم کرتا ہے۔معاشرے میں خاندان کی اہمیّت ایک ستون کی سی ہے ۔ا گرکہیں پر خاندانی نظام کھوکھلا ہونا شروع ہوجائے تو وہاں کا معاشرہ روبہ زوال ہو کرنہ صرف یہ کہ اپنی اخلاقی و دینی روایات کھو دیتاہے بلکہ اپنی تہذیب و تمدّن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔
تاریخِ عالم شاہد ہے کہ جو قومیں اخلاقی و دینی روایات کھودیں اور اپنی تہذیب و تمدّن سے ہاتھ دھوبیٹھیں وہ کسی بھی طرح آبرومندانہ زندگی نہیں گزار سکتیں۔معاشرتی استحکام اور اقوام کا وقار خاندانوں کی تشکیل پر ہی موقوف ہے۔
کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ آج یورپ میں علم و فنون کی ترقّی ایک طرف تو آفاق کی بلندیوں کو چھورہی ہے اوردوسری طرف معاشرتی پستی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ماں ،بہن یا بیٹی کا تقدّس بھی محفوظ نہیں۔
اسی یورپ میں جہاں پر حقوقِ نسواں کے بلند و بالا دعوے کئے جاتے ہیں وہاں عورت کومحض جنسی حیوان بنا کر نیز اس کا مادرانہ تقدّس،خواہرانہ احترام ، دخترانہ حیاء اورخاندانی سرپرستی چھین کر اسے زندگی کی خاردار راہوں میں بے یارومددگارچھوڑ دیاگیا ہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ آج صرف یورپ کی عورت ہی در در کی ٹھوکریں نہیں کھا رہی بلکہ یورپ کا مرد بھی در بدر ہے اور وقت کا قاضی عصرِ حاضر کے سینے پہ شب و روز یہ لکھتا جا رہا ہے کہ اکیسویں صدی میں علوم و فنون کے بل بوتے پراہلیانِ یورپ ،دنیابھر میں انسانیّت کے بجائے حیوانیّت کے فروغ میں مصروف ہیں۔
اہلیانِ یورپ نے مادی مفکرین کی صدا پر لبّیک کہتے ہوئے اپنے ہاں توازدواج و خاندان کامذاق اُڑاکراپنے معاشرتی نظام کو کھوکھلا کیا ہی ہے لیکن ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں،فحش فلمیں،عریاں تصاویر،شرم آور ڈرامے اوراخلاق سوز ادب پھیلانے میں بھی مصروف ہیں۔وہ جنسی اشتعال پھیلا کرازدواج کے مقدس حکم کو روندنا چاہتے ہیں۔
صاحبانِ فکرودانش بخوبی جانتے ہیں کہ فریضہ ازدواج کے خلاف ،مادّی دانشمندوں کی یہ کارستانیاں،تمام الٰہی ادیان کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔اسلام چونکہ کامل ترین دین ہے چنانچہ دین ِاسلام نے فریضہ ازدواج کی بجاآوری پر بہت زوردیا ہے۔اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی آئندہ نسلوں کوبدبختی اور بے راہ روی سے بچانا چاہتے ہیں توہمیں دینِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق فریضہ ازدوج کو عملی طورپر اہمیّت دینا ہوگی۔
اب آئیے نکاح کی شرائط پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
۱۔ احتیاط کی بنا پر نکاح کا صیغہ صحیح عربی میں پڑھا جائے اور اگر خود مرد اور عورت صیغہ صحیح عربی میں نہ پڑھ سکتے ہوں تو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے ہیں اور کسی شخص کو وکیل بنانا لازم نہیں ہے۔ البتہ انہیں چاہئے کہ وہ الفاظ کہیں جو زَوَّجتُ اور قَبِلتُ کا مفہوم ادا کر سکیں۔
۲۔ مرد اور عورت یا ان کے وکیل جو کہ صیغہ پڑھ رہے ہوں وہ "قصد انشاء" رکھتے ہوں یعنی اگر خود مرد اور عورت صیغہ پڑھ رہے ہوں تو عورت کا "زَوَّجتُکَ نَفسِی " کہنا اس نیت سے ہو کہ خود کو اس کی بیوی قرار دے اور مرد کا قَبِلتُ التَّزوِیجَ کہنا اس نیت سے ہو کہ وہ اس کا اپنی بیوی بننا قبول کرے اور اگر مرد اور عورت کے وکیل صیغہ پڑھ رہے ہوں تو "زَوَّجتُ وَقَبِلتُ" کہنے سے ان کی نیت یہ ہو کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہیں وکیل بنایا ہے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں۔
۳۔ جو شخص صیغہ پڑھ رہا ہوضروری ہے کہ وہ عاقل ہو اور احتیاط کی بنا پر اسے بالغ بھی ہونا چاہئے۔ خواہ وہ اپنے لئے صیغہ پڑھے یاکسی دوسرے کی طرف سے وکیل بنایا گیا ہو۔
۴۔ اگر عورت اور مرد کے وکیل یا ان کے سرپرست صیغہ پڑھ رہے ہوں تو وہ نکاح کے وقت عورت اور مرد کو معین کرلیں مثلاً ان کے نام لیں یا ان کی طرف اشارہ کریں۔ لہذا جس شخص کی کئی لڑکیاں ہوں اگر وہ کسی مرد سے کہے "زَوَّجتُکَ اِحدٰی بَنَاتِی" یعنی میں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو تمہاری بیوی بنایا اور وہ مرد کہے "قَبِلتُ" یعنی میں نے قبول کیا تو چونکہ نکاح کرتے وقت لڑکی کو معین نہیں خیا گیا اس لئے نکاح باطل ہے۔
۵۔ عورت اور مزد ازدواج پر راضی ہوں۔ ہاں اگر عورت بظاہر ناپسندیدگی سے اجازت دے اور معلوم ہو کہ دل سے راضی ہے تو نکاح صحیح ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی شریعت میں ازدواج کی دو قسمیں ہیں: ازدواج دائمی اور ازدواج موقت
۱۔ازدواجِ دائمی:ازدواج دائمی سے مراد وہ عقد ہے جو ہمارے ہاں عام طور پر رائج ہے اورغیر معیّنہ مدت کے لئے یہ عقد قائم کیا جاتاہے۔عقد دائم کے مخصوص احکام مندرجہ زیل ہیں:
؎جس عورت کا دائمی نکاح ہو جائے اس کے لئے حرام ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے خواہ اس کا نکلنا شوہر کے حق کے منافی نہ بھی ہو۔ نیز اس کے لئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہر جنسی لذتیں حاصل کرنا چاہے تو اس کی خواہش پوری کرے اور شرعی عذر کے بغیر شوہر کو ہم بستری سے نہ روکے۔ اور اس کی غذا، لباس رہائش اور زندگی کی باقی ضروریات کا انتظام جب تک وہ اپنی ذمے داری پوری کرنے شوہر پر واجب ہے۔ اور اگر وہ یہ چیزیں مہیانہ کرے تو خواہ ان کے مہیا کرنے پر قدرت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو وہ بیوی کا مقروض ہے۔
؎ اگر کوئی عورت ہم بستری اور جنسی لذتوں کے سلسلے میں شوہر کا ساتھ دے کر اس کی خواہش پوری نہ کرے تو روٹی، کپڑے اور مکان کا وہ ذمے دار نہیں ہے اگرچہ وہ شوہر کے پاس ہی رہے اور اگر وہ کبھی کبھار اپنی ان ذمے داریوں کو پورا نہ کرے تو مشہور قول کے مطابق تب بھی روٹی، کپڑے اور مکان کا شوہر پر حق نہیں رکھتی لیکن یہ حکم محل اشکال ہے اور ہر صورت میں بلااشکال اس کا مہر کالعدم نہیں ہوتا۔
؎ مرد کو یہ حق نہیں کہ بیوی کو گھریلو خدمت پر مجبور کرے
؎بیوی کے سفر کے اخراجات وطن میں رہنے کے اخراجات سے زیادہ ہوں تو اگر اس نے سفر شوہر کی اجازت سے کیا ہو تو شوہر کی ذمے داری ہے کہ وہ ان اخراجات کو پورا کرے۔ لیکن اگر وہ سفر گاڑی یا جہاز وغیرہ کے ذریعے ہو تو کرائے اور سفر کے دوسرے ضروری اخراجات کی وہ خود ذمے دار ہے۔ لیکن اگر اس کا شوہر اسے سفر میں ساتھ لے جانا چاہتا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کے سفری اخراجات برداشت کرے۔
؎جس عورت کا خرچ اس کے شوہر کے ذمے ہو اور شوہر اسے خرچ نہ دے تو وہ اپنا خرچ شوہر کے اجازت کے بغیر اس کے مال سے لے سکتی ہے اور اگر نہ لے سکتی ہو اور مجبور ہو کہ اپنی معاش خود بندوبست کرے اور شکایت کرنے کے لئے حاکم شرع تک اس کی رسائی نہ ہوتا کہ وہ اس کے شوہر کو ۔ اگرچہ قید کرکے ہی ۔ خرچ دینے پر مجبور کرے تو جس وقت وہ اپنی معاش کا بندوبست کرنے میں مشغول ہو اس وقت شوہر کی اطاعت اس پر واجب نہیں ۃے۔
؎اگر کسی مرد کی مثلاً دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کے پاس ایک رات رہے تو اس پر واجب ہے کہ چار راتوں میں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گزارے اور صورت کے علاوہ عورت کے پاس رہنا واجب نہیں ہے۔ ہاں یہ لازم ہے کہ اس کے پاس رہنا بالکل ہی ترک نہ کردے اور اولی اور احوط یہ ہے کہ ہر چار راتوں میں سے ایک رات مرد اپنی دائمی منکوحہ بیوی کے پاس رہے۔
؎ شوہر اپنی جوان بیوی سے چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک نہیں کرسکتا مگر یہ کہ ہم بستری اس کے لئے نقصان دہ یا بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہو یا اس کی بیوی خود چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کرنے پر راضی ہو یا شادی کرتے وقت نکاح کے ضمن میں چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کرنے کی شرط رکھی گئی ہو اور اس حکم میں احتیاط کی بنا پر شوہر کے موجود ہونے یا مسافر ہونے یا عورت کے منکوحہ یا مَمتُوعہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
؎ اگر دائمی نکاح میں مہر معین نہ کیا جائے تو نکاح صحیح ہے اور اگر مرد عورت کے ساتھ جماع کرے تو اسے چاہئے کہ اس کا مہر اسی جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق دے البتہ اگر متعہ میں مہر معین نہ کیا جائے تو متعہ باطل ہوجاتا ہے۔
؎ اگر دائمی نکاح پڑھتے وقت مہر دینے کے لئے مدت معین نہ کی جائے تو عورت مہر لینے سے پہلے شوہر کو جماع کرنے سے روک سکتی ہے قطع نظر اس سے کہ مرد مہر دینے پر قادر ہو یا نہ ہو لیکن اگر وہ مہر لینے سے پہلے جماع پر راضی ہو اور شوہر اس سے جماع کرے تو بعد میں وہ شرعی عذر کے بغیر شوہر کو جماع کرنے سے نہیں روک سکتی۔
۲۔ازدواجِ موقت۔تمام علمائے اسلام اس بات کے قائل ہیں کہ نکاح مُوَقَّتْ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں رائج تھااور خلیفہ ثانی نے اپنے دور خلافت میں اس عمل کو منع کیاہے۔چونکہ فقہ جعفریہ میں تمام احادیث و روایات اہلبیتؑ سے لی جاتی ہیں اس لئے فقہ جعفریہ میں ازدواجِ موقت زمانہ رسولؐ کی مانند آج بھی حلال و مستحب ہے۔
فقہ جعفریہ کے مطابق اگر خود عورت و مرد عقد متعہ کا صیغہ پڑھنا چاہیں تو بعد اس کے کہ مدت اور مہر معین کرلیں۔ اگر عورت کہے ’’ زوجت نفسی فی المدۃ المعلوم علی مہر المعلوم ‘‘ اور اس کے بعد مرد بلا فصل کہے ’’ قبلت ‘‘ تو صحیح ہے اور اگر کسی دوسرے شخص کو وکیل کریں اور پہلے عورت کا وکیل کہے ’’ متعت موکلتی موکلک فی المدۃ المعلوم علی المہر المعلوم ‘‘ پھر مرد کا وکیل فوراً بغیر کسی فاصلہ کے کہے ’’ قبلت لموکلی ھکذا ‘‘ تو صحیح ہے۔
مذہب اہلبیتؑ میں عورت کے ساتھ متعہ کرنا اگرچہ لذت حاصل کرنے کے لئے نہ ہو تب بھی صحیح ہے۔نکاح متعہ کے مخصوص احکام کو ہم یہاں ذکر کئے دیتے ہیں:
؎احتیاط واجب یہ ہے کہ شوہر نے جس عورت سے متعہ کیا ہو اس کے ساتھ چار مہینے سے زیادہ جماع ترک نہ کرے۔
؎جس عورت کے ساتھ متعہ کیا جا رہا ہو اگر وہ نکاح میں یہ شرط عائد کرے کہ شوہر اس سے جماع نہ کرے تو نکاح اور اس کی عائد کردہ شرط صحیح ہے اور شوہر اس سے فقط دوسری لذتیں حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر وہ بعد میں جماع کے لئے راضی ہو جائے تو شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے اور دائمی عقد میں بھی یہی حکم ہے۔
؎ جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو خواہ وہ حاملہ ہو جائے تب بھی خرچ کا حق نہیں رکھتی۔
؎ جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو وہ ہم بستری کا حق نہیں رکھتی اور شوہر سے میراث بھی نہیں پاتی اور شوہر بھی اس سے میراث نہیں پاتا۔ لیکن اگر ۔ ان میں سے کسی ایک فریق نے یا دونوں نے ۔ میراث پانے کی شرط رکھی ہو تو اس شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔ لیکن احتیاط کا خیال رکھے۔
؎ جس عورت سے متعہ کیا گیا ہو اگرچہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خرچ اور ہم بستری کا حق نہیں رکھتی اس کا نکاح صحیح ہے اور اس وجہ سے کہ وہ ان امور سے ناواقف تھی اس کا شوہر پر کوئی حق نہیں بنتا۔
؎ جس عورت سے متعہ کیا گیا ہو اگر وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے اور اس کے باہر جانے کی وجہ سے شوہر کی حق تلفی ہو تو اس کا باہر جانا حرام ہے اور اس صورت میں جبکہ اس کے باہر جانے سے شوہر کی حق تلفی نہ ہوتی ہوتب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔
؎ اگر کوئی عورت کسی مرد کو وکیل بنائے کہ معین مدت کے لئے اور معین رقم کے عوض اس کا خود اپنے ساتھ صیغہ پڑھے اور وہ شخص اس کا دائمی نکاح اپنے ساتھ پڑھ لے یا مدت مقرر کئے بغیر یا رقم کا تعین کئے بغیر متعہ کا صیغہ پڑھ دے تو جس وقت عورت کو ان امور کا پتا چلے اگر وہ اجازت دے دے تو نکاح صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔
؎ اگر محرم ہونے کے لئے ۔ مثلاً ۔ باپ یا دادا اپنی نابالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح معینہ مدت کے لئے کسی سے پڑھیں تو اس صورت میں اگر اس نکاح کی وجہ سے کوئی فساد نہ ہو تو نکاح صحیح ہے لیکن اگر نابالغ لڑکا شادی کی اس پوری مدت میں جنسی لذت لینے کی بالکل صلاحیت نہ رکھتا ہو یا لڑکی ایسی ہو کہ وہ اس سے بالکل لذت نہ لے سکتا ہو تو نکاح کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
؎ اگر باپ یا دادا اپنی بچی کا جو دوسری جگہ ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں محرم بن جانے کی خاطر کسی عورت سے نکاح کر دیں اور زوجیت کی مدت اتنی ہو کہ جس عورت سے نکاح کیا گیا ہو اس سے استمتاع ہوسکے تو ظاہری طور پر محرم بننے کا مقصد حاصل ہوجائے گا اور اگر بعد میں معلوم ہو کہ نکاح کے وقت وہ بچی زندہ نہ تھی تو نکاح باطل ہے اور وہ لوگ جو نکاح کی وجہ سے بظاہر محرم بن گئے تھے نامحرم ہیں۔
؎ جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو اگر مرد اس کی نکاح میں معین کی ہوئی مدت بخش دے تو اگر اس نے اس کے ساتھ ہم بستری کی ہو تو مرد کو چاہئے کہ وہ تمام چیزیں جن کا وعدہ مہر کے طور ہرکیا تھا اسے دے دے اور اگر ہم بستری نہ کی ہو تو آدھا مہر دینا واجب ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سارا مہر اسے دیدے۔
؎ مرد یہ کرسکتا ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے پہلے متعہ کیا ہو اور ابھی اس کی عدت ختم نہ ہوئی ہو اس سے دائمی عقد کرلے یا دوبارہ متعہ کرلے۔
آئیے قرآن و سنّت کی روشنی میں ازدواج کے ثمرات و فوائد پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
١۔ ازدواج ،خداکی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے :
خداوندعالم نے قرآن مجید میں ازدواج کواپنی آیات اور نشانیوں میں سے قرار دیا ہے،ملاحظہ فرمائیے سورہ روم کی آیت٢١:
وَمِنْ آیَاتِہِ َنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ َنفُسِکُمْ َزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا ِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو اورپھر تمہارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبانِ فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں (٢١)
اسی طرح سورہ نور کی آیت٣٢ میں خداوندعالم نے ازدواج کو اپنے فضل میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی فقیر ازدواج کرے تو خدا اسے غنی کردے گا۔
٢۔ ازدواج ،فضل پروردگار کا باعث ہے :
وََنکِحُوا الَْیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَِمَائِکُمْ ِنْ یَکُونُوا فُقَرَائَ یُغْنِہِمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ وَاﷲُ وَاسِع عَلِیم
اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے (٣٢)
مندرجہ بالاآیت کی تفسیر کے بارے میں مفسّرین نے کہا ہے کہ َنکِحُوا ایک عربی کلمہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق امرکا صیغہ ہے جو کہ ازدواج کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔اس آیہ مجیدہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ازدواج کی ضرورت رکھتے ہیں ،ان پر ازدواج کرنا واجب ہے اور یہ زمہ داری والدین اورسرپرستوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے لئے مقدمات فراہم کریںتاکہ ان کے بچّے صحت و سلامتی کے ساتھ قرآن و سنّت کی روشنی میں اپنی زندگیاں گزاریں۔
اس آیہ مجیدہ میں نہ صرف سرپرستوں کو اپنے ماتحتوں اور زیرکفالت افراد کے لئے ازدواج کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رازقِ حقیقی فقط خدا کی ذات ہے،اس لئے ازدواج کے سلسلے میں رزق کی تنگی سے نہ ڈرا جائے ،جو بھی ازدواج کرے گا اگر وہ فقیر ہوگا تو خدا اسے پنے فضل و کرم کے ساتھ غنی کر دے گا۔
اسی طرح بحارالانوارج١٠٠ ص ٢٢٠ و ٢٢١ پر حضور ۖ کا رشاد مبارک درج ہے کہ تم میں سے شریر ترین لوگ کنوارے(عزب) ہیں اور کنوارے شیطان کے بھائیوں میں سے ہیں۔
٣۔ ازدواج ،آرام و سکون: کا سبب ہے:
انسان اپنی ساری زندگی آرام و سکون کی تلاش میں صرف کر دیتا ہے ،وہ مال و دولت سمیٹتاہے ، ایک برّاعظم سے دوسرے برّاعظم کا سفر کرتا ہے حتّیٰ کہ منشیات کا سہار لیتا ہے تا کہ کسی طرح اسے سکون میسّر آجائے جبکہ خداوندعالم نے قرآن مجید میں سکوں کو اپنی یاد میں اور ازدواج میں قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ روم کی آیت ٢١ جس میں خدا وند عالم نے ازدواج کو آرام و سکون کا باعث قرار دیا ہے۔
وَمِنْ آیَاتِہِ َنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ َنفُسِکُمْ َزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا ِلَیْہَا
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تم ہی میں سے پیدا کیاہے تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔
٤۔ ازدواج ،جنسی بے راہروی خصوصاً زنا سے نجات کا ذریعہ ہے:
ازدواج کے بے شمار فوئد میں سے ایک اہم فائد ہ جنسی بے راہروی اور زنا سے نجات ہے۔یعنی ایک باغیرت اور غیّور معاشرے کی تشکیل کے لئے ازدواج کو کلیدی اہمیّت حاصل ہے۔حضور اکرم ۖ کا رشادِ مبارک ہے:
"زنا سے دور رہو،زنا میں دس نقصانات پوشیدہ ہیں:
١۔عقل ضعیف ہو جاتی ہے۔ ٢۔دین برباد ہو جاتاہے۔ ٣۔رزق تنگ ہوجاتاہے۔ ٤۔عمر کم ہو جاتی ہے۔ ٥۔تفرقہ و جدائی جنم لیتی ہے۔ ٦۔خدا کا غضب نازل ہوتا ہے۔٧۔نسیان اور فراموشی زیادہ ہوجاتی ہے۔٨۔صاحبانِ ایمان سے بغض و حسد پیدا ہوجاتا ہے۔
٩۔انسان بے آبرو ہوجاتاہے۔ ١٠۔دعائیں اور عبادات قبول نہیں ہوتیں۔
ازدواج کاایک فائدہ وسعتِ رزق ہے۔جس کاآیات و روایات میںخصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔آئیے آیات و روایات کی روشنی میں وسعتِ رزق اورازدواج
کے باہمی تعلق پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
٥۔ ازدواج ،وسعتِ رزق کا باعث ہے:
وسائل الشّیعہ جلد ١٤ صفحہ ٢٦ پر اسحاق بن عمّار فرماتے ہیں کہ میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا یہ قصّہ صحیح ہے جو لوگ سناتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور ۖ کی خدمت میں آکر اپنی غربت اور فقرو ناداری کی شکایت کی تو حضورۖ نے اسے ازدواج کرنے کا حکم دیا،کچھ عرصے بعد وہی شخص دوبارہ حضورۖ کی خدمت میں آیا اور اس نے وہی شکایت دہرائی،حضورۖ نے پھر اسے ازدواج کا حکم دیا اور اس نے ازدواج کیا،حتّیٰ کہ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ امام صادق نے فرمایا جی ہاں یہ قصّہ درست ہے،اور پھر فرمایا:
الرّزقُ معَ النِّسآئِ وَالعیالِ رزق بیویوں اور بچّوں کے ساتھ ہے۔
اسی طرح قرآن مجیدکی سورہ نور میں بھی ازدواج کو وسعتِ رزق کا باعث کہا گیا ہے:
وََنکِحُوا الَْیَامَی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَِمَائِکُمْ ِنْ یَکُونُوا فُقَرَائَ یُغْنِہِمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ وَاﷲُ وَاسِع عَلِیم
اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں مالدار بنادے گا کہ خدا بڑی وسعت والا اور صاحب علم ہے (٣٢)
ازدواج کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ انسانی جذبات اور بشری تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں کتاب و سنّت میں کیا ارشادات ہیں:
٦۔ ازدواج ،تکمیلِ بشریت: کی کڑی ہے۔
خداوند عالم نے انسانوں کو اس طرح خلق کیا ہے کہ مردوعورت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے کے جذبات کی تسکین اور بشری تقاضوں کی تکمیل کا باعث ہیں۔دونوں کی زندگی کاحسن اور سلامتی ایک دوسرے سے وابستہ ہے۔اسی لئے قرآن مجید نے کہا ہے کہ
ھنّ لباس لکم و انتم لباس لھن
خواتین تمہارالباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔
قرآن مجید نے شوہر اور بیوی کے لئے لباس کی اصطلاح اس لئے استعما ل کی ہے چونکہ لباس انسان کی گرمی و سردی میں حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کے عیوب و نقائص کو بھی چھپاتاہے۔پس میاں بیوی کو بھی ایک دوسرے کے لئے ایسے ہی ہونا چاہیے تاکہ وہ مل جل کر رشد و ارتقاء کی منازل طے کریں۔
جس طرح لباس کے بغیر انسان ادھورا رہتا ہے اسی طرح ازدواج کے بغیر بھی اس کی شخصیت نامکمل اور ناقص رہ جاتی ہے ۔چنانچہ پیغمبرِ اکرم ۖ کا ارشاد مبارک ہے:
خیرُ امّتی اوّلھامتزوجون و آخِرُھاالفرّاب۔میری امّت کے صفِ اوّل کے بہترین لوگ شادی شدہ ہیں اور غیرشادی شدہ لوگ آخری صف میں ہیں۔
اس کے علاوہ ازدواج حفاظتِ دین کے لئے بھی بہترین ذریعہ ہے۔
٧۔ ازدواج ،حفاظت ِ دین کا باعث ہے۔
حضور ۖ کا ارشادِ مبارک ہے:
من تزوَّجَ فقد احرز نصف دینہ ،فلیتق اللہ من نصفہ الباقی:
جس نے بھی ازدواج کیا یقیناًاس نے اپنا نصف دین محفوظ کرلیا اور باقی نصف دین کے لئے وہ خدا سے مدد مانگے اورالٰہی تقویٰ اختیار کرے۔
اسی طرح بعض روایات میں ازدواج کو باعثِ تکامل ایمان بھی بتایاگیاہے۔
٨۔ ازدواج ،سیرت انبیاء و معصومین کی بجاآوری ہے
انبیاء و معصومین کی سیرت یہ ہے کہ انھوں نے شادیاں کیں،خاندان آباد کئے اور عوام النّاس کے درمیان زندگیاں گزاریں۔جوشخص بھی ازدواج کرتا ہے وہ انبیاء و معصومین کی سیرت بجا لا تا ہے۔
سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک عورت نے امام رضا کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے فضیلت و کمال حاصل کرنے کے لئے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
امام نے فرمایاتواپنے اس فیصلے سے دستبردار ہو جا،اس لئے کہ اگر شادی نہ کرنے میں کوئی فضیلت اور کمال ہوتا تو دخترِ رسول حضرت فاطمہ کیوں ازدواج کرتیں۔کیوں کہ کوئی بھی فضیلت ایسی نہیں جو حضرت فاطمہ کو حاصل نہ ہو۔
حضور اکرم ۖ کا ارشادِ مبارک ہے:
النّکاحُ سنّتی فمن رغبتی عن سنتی فلیس مِنّی
نکاح میری سنّت ہے جو بھی اس سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں(یعنی میری امّت سے نہیں) چونکہ ازدواج کرنا حکم خدا اور سنّتِ انبیاء و مرسلین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک شادی شدہ آدمی کی عبادت کو بھی غیر شادی شدہ آدمی کی عبادت پر فضیلت عطا کی گئی ہے۔جیسا کہ حضورۖ کی حدیث ہے:
المتزوج النّائم افضل عنداللہ من الصّائم القائم العزب
اللہ کے نزدیک ایک شادی شدہ سویا ہوا شخص ،غیرشادی شدہ عبادت گزار، روزہ دار سے افضل ہے۔
اسی طرح ایک مقام پر امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ
رکعتان یصلیھماالمتزوج افضل من سبعین رکعة یصلیھااعزب
شادی شدہ شخص کی دو رکعت نماز ،غیر شادی شدہ شخص کی ستّر رکعت سے افضل ہے۔ دین اسلام میں نہ صرف یہ کہ ازدواج کے فواید گنوائے گئے ہیں بلکہ جلد ازجلد ادواج کرنے بھی پر زور دیا گیاہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی اقدار کے مطابق ازدواج کے لئے مناسب عمر کیا ہے:
ازدواج کے لئے مناسب عمر
حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ ایک روز پیغمبراسلام ۖ منبرپر تشریف لے گئے اور آپ نے فرمایا:
اے لوگو ! جبرائیل نے خدا کی طرف سے کہا ہے کہ کنواری لڑکیاں درختوں کے پھلوں کی مانند ہیں،جیسے اگر پھلوں کو بروقت درختوں سے اتار نہ لیاجائے تو سورج کی شعاعیں انھیں خراب کردیتی ہیں اور ہوائیں انھیں بکھیر دیتی ہیں ۔اسی طرح بیٹیاں جب بالغ ہوجاتی ہیںتو خواتین کی طرح ان میں جنسی احساس بیدار ہوتا ہے،جس کی تسکین ازدواج میں ہے،اگر ان کا ازدواج نہ کیا جائے توان کے فسادو شر میں مبتلاہونے کا امکان ہے۔اس لئے کہ یہ انسان ہیں اور انسان لغزش و خطا ء سے محفوظ نہیں ہے۔
ازدواج کے فوائد و اہمیت کے بعد یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کس کے ساتھ ازدواج کیا جائے اور کس کے ساتھ ازدواج نہ کیا جائے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نے ازدواج کرنے کے لئے کیا معیار مقرر کیا ہے:
دین اسلام میں ازدواج کرنے کا معیار
حضورۖ کا ارشاد مبارک ہے کہ کسی عورت کو اس کے حسن کی خاطر اپنی بیوی مت بنائو اس لئے کہ ممکن ہے کہ اس کی خوبصورتی اس کے اخلاقی زوال کا باعث ہو اور اسی طرح کسی سے اس کے مال کی وجہ سے شادی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اس کا مال اس کی سرکشی اور بغاوت کا باعث بن جائے بلکہ اس کے دین کو دیکھو اور باایمان عورت سےشادی کرو۔
اسی طرح ایک شخص نے حضرت امام حسنؑ کی خدمت میں عرض کی کہ مولا میرے ہاں ایک بیٹی ہے ،میں اس کا ازدواج کس سے کروں ؟آپ نے فرمایا:کسی بایمان شخص سے اس کی شادی کرو۔اس لئے کہ وہ اگر خوش رہے گا تو تمہاری بیٹی کو بھی عزّت و احترام دے گا اور اگر نارض ہو گا تو اس پر ظلم نہیں کرے گا۔
حضور اکرمۖ کی حدیث ہے کہ مرد کی خوش بختی اور سعادت یہ ہے کہ اس کی بیوی نیک اور بافضیلت ہو۔
حضور اکرم ۖ کا ہی ارشادِ مبارک ہے کہ جوشخص کسی فاسق کے ساتھ اپنی بیٹی کا ازدواج کرے گاوہ قطع رحم کا مرتکب ہوا ہے۔
اسی طرح حضور ۖ کا ارشادمبارک ہے کہ
لاتنکحواالقرابة القریبةفانّ الولد یخلق ضاویاً:
اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں ازدواج نہ کروکہ اس سے اولاد کمزور اور ضعیف پیدا ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ دین اسلام نے نہ صرف یہ کہ ازدواج کرنے کی فضیلت بیان کی ہے بلکہ دوسروں کا ازدواج کرانے کابھی بہت اجروثواب بیان کیا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے مقدمہء ازدواج فراہم کرنے کے بارے میں دین اسلام کیافرماتاہے:
دوسروں کاا زدواج کرانے کا اجروثواب
حضرت امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ قیامت کے دن خدا چار افراد پر نظرِ کرم فرمائے گا:
١۔ایسے شخص پرجس نے فروخت کی ہوئی چیز واپس لی ہو ٢۔ایسے شخص پر جس نے کسی کے دل سے غم ختم کیاہو
٣۔ایسے شخص پر جس نے غلام کوآزادی دلائی ہو ٤۔ایسے شخص پر جس نے کسی غیرشادی شدہ شخص کاازدواج کرایاہو
حضور اکرم ۖ کا ارشاد ِ مبارک ہے کہ جوشخص بھی باایمان لڑکے اور لڑکیوں کے ازدواج کے لئے زحمت اٹھائے گا اس کی جزا ،ہزار حوریں ہیں اوراس سلسلے میں وہ جو قدم بھی اٹھاتا ہے یا جو بات بھی کرتاہے ،اس کا ثواب ایک سال کی عبادت ساہے۔
دینِ اسلام میں جس طرح مقدماتِ ازدواج فراہم کرنے کا اجروثواب بیان کیا گیا ہے اسی طرح میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی مذمّت بھی کی گئی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس ضمن میں اسلامی تعلیمات کیاکہتی ہیں:
میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنے کی سزا
حضور ۖ کا ارشادِ مبارک ہے کہ جو کوئی بھی معائدہ ازدواج کوتوڑے اور میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جداکرے ،دنیا اور آخرت میں غضب و لعنت میں مبتلا ہوگا اور خدا پر لازم ہے کہ خدا اس کے سرپرہزار شعلہ ور پتھر برسائے اور جوکوئی بھی میاں بیوی کے درمیان جدائی کی کوشش کرے لیکن کامیاب نہ ہو وہ دنیا اور آخرت میں اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہوگا اور اللہ کی رحمت اس پر حرام ہوجائے گی۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ازدواج کے راستے میں حائل رکاوٹیں کونسی ہیں اور ان کا حل کیا ہے:
ازدواج کے راستے میں حائل رکاوٹیں اوران کا حل
١۔بے جا توقعات
ازدواج کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ بے جا توقعات ہیں جو کبھی والدین اپنی اولاد سے وابستہ کرلیتے ہیں اور کبھی خود بچے اپنی متوقع بیوی یا شوہر کے بارے میںفرض کرلیتے ہیں اور پھر انہی مفروضات کی بناء پر اپنے بچوںکے لئے یا اپنے لئے شوہر یا بیوی تلاش کرناچاہتے ہیں۔
ہمیں اپنی طرف سے مفروضات قائم کرنے کے بجائے دینِ اسلام کے مقرّر کردہ معیارات کو ہی ترجیح دینی چاہیے اور خوابوں اور افسانوں کی دنیا میں زندہ رہنے کے
بجائے زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار کو بھی مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔
٢۔والدین اور سرپرستوں کی عدمِ توجہ
ازدواج کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ والدین اور سرپرستوں کی بچّوں کے جنسی بلوغ اور روحانی و جسمانی ضروریات سے چشم پوشی اور عدم توجہ بھی ہے۔ اس چشم پوشی اور عدمِ توجہ کے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اس لئے والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیرت معصومین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں اور اپنے بچوں کے لئے مقدمہ ِ ازدواج فراہم کریں۔
٣۔ غرور وتکبّر
ازدواج نہ ہونے کی ایک وجہ غرور و تکبّر بھی ہے ممکن ہے پورے کا پورا خاندان ہی اس مرض میں مبتلا ہو یا خود لڑکا یالڑکی غرورو تکبّر کی شکار ہو ۔غروروتکبّر کے بہت سارے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس بری عادت کے باعث نیک اور صالح رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں جس کے بعد افسوس کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ہمیں شریکِ زندگی کا انتخاب کرتے وقت صرف اورصرف دینداری اور دین کی پاسداری کو ہی مدّنظر رکھنا چاہیے۔
٤۔معاشی مسائل
ایک اور مسئلہ جے ازدواج کے سلسلے میں بہت اچھالا جاتاہے وہ معاشی مسئلہ ہے۔حضرت امام صادق کا ارشادِ مبارک ہے کہ غربت اور معاش کے خوف سے ازدواج نہ کرے وہ در حقیقت خدا سے ناامید ہو چکاہے۔
ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ قرآن مجید نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہاگر کوئی فقیر ہو اور ازدواج کرے تو خدا اسے اپنے فضل سے غنی کردے گا۔
٥۔دنیاوی زرق و برق
دنیاوی زرق و برق بھی ازدواج کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے،بہت سارے خاندان دوسرے خاندانوں کی دیکھادیکھی عقد کے لئے سخت ترین شرائط مقرّر کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ حق مہر اورجہیزتجویز کرتے ہیں۔حالانکہ حضور ۖ کا ارشاد مبارک ہے کہ میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں کہ جن کی شکل و صورت زیبا اور مہر کم ہو۔
امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی مہر مقرّر کرے اور مہر ادا نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ چور کی مانند ہے۔
اسی طرح ولیمے کے موقع پر غیر ضروری اخراجات اور غیراسلامی رسومات پر بھی بے دریغ روپیہ پیسہ صرف کیا جاتا ہے۔یہ ساری خرافات تعلیماتِ انبیاء و مرسلین نیز سیرتِ اہلبیت سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم ازدواج کے بارے میں مکمل طور پر علماء دین سے حرام و حلال نیز مستحبات و مکروہات کے بارے میں معلومات حاصل کریں اورخرافات کے بجائے دینی تعلیمات کی روشنی میں اپنے گھروں کو آباد کریں۔ ٦۔غیر مسلم میڈیا اور مفکرین کی کارستانی
مغربی افکار کی ترویج کرنے والے رسائل و جرائد نیز فلموں اور ڈراموں کے ذریعے نوجوانوں کوغیر محسوس انداز میں حرام محبت کی لذت سے آشنا کیا جاتاہے۔نامحرموں کے ساتھ تعلقات کو جدید معاشرے کے لوازمات کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔اسی طرح تاخیر سے ازدواج کرنے کی یا بغیر ازدواج کے زندگی گزارنے کی بھی ترغیب دی جاتی ہے اور اس طرح نامکمل اوربے ڈھنگی زندگی کو آئیڈیل بنا کر پیش کیا جاتاہے۔ ہمیں چاہیے کہ میڈیا کی کارستانیوں سے آگاہ رہیں اور فقط اسلامی ذرائع ابلاغ کو ہی ا پنے لئے معلومات و تفریح کا ذریعہ قرار دیں۔
٧۔ازدواج نہ کرنے کے نتائج سے عدمِ آگاہی
ازدواج میں تاخیریا عدمِ ازدواج کی ایک وجہ ازدواج نہ کرنے کے نتائج سے عدمِ آگاہی بھی ہے۔بہت سارے لوگ اپنے لئے ازدواج کو ضروری خیال نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ جب تک انسان جنسی اضطراب کا شکار نہ ہو اس وقت تک اسے ازدواج کی ضرورت ہی نہیں۔حالانکہ ازدواج میں جنسی تسکین کے علاوہ انسان کے بہت سارے نفسیاتی،معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔ازدواج سے نہ صرف انسانی زندگی کی مشکلات حل ہوتی ہیں بلکہ انسان کی اجتماعی ومخفی صلا حیتوں کو بھی
نکھرنے کا موقع ملتاہے۔ازدواج کے بغیر انسان زیرِ زمین چھپے ہوئے ان ذخائر کی مانند ہے ،جنہیں صفحہ ہستی پر ابھر کر اپنے جوہر کے اظہار کا موقع نہیں ملا۔فلسفہء ازدواج سے حقیقی آگاہی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم زندگی کی راہوں میں ٹھوکریں کھانے والوں کے بجائے علمائے دین سے رہنمائی حاصل کریں ۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر قرآن و سنّت کی تعلیمات کی روشنی میں ازدواج کو عام کیا جائے تو منشیات کا استعمال،گھٹیا ڈائجسٹوں کی اشاعت،والدین کی نافرمانی،ہمسائیوں کی ایذاء رسانی،گندی فلموں کی بھرمار اور جرائم کی شرح میں ،ناقابلِ یقین حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ازدواج کرنے کے بعد میاں بیوی کے حقوق کے اور باہمی تعلقات کے بارے میں تعلیماتِ دین کیا ہیں:
ازدواج کے بعد آدابِ زندگی
حضورِ اکرم ۖ کا رشادِ مبارک ہے:
تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے خاندان کے لئے بہترین ہے اور میں اپنے خاندان کے بارے میں تم سب سے بہتر ہوں۔
اسی طرح ایک اور مقام پر حضورۖ کا ارشاد ہے کہ بیوی اور بچے اسیروں کی مانند ہیںاور اللہ کے نزدیک محبوب ترین آدمی وہ ہے جو اپنے اسیروں کے ساتھ بہت اچھا برتائو کرے۔
امام صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورۖ نے فرمایا: خدا سے ڈرو!خدا سے ڈرو!دوکمزوروں کے بارے میں خدا سے ڈرو!ایک یتیم اور دوسرے عورت کے بارے میں چونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ بہتر ہے۔
امام صادق کا ارشاد مبارک ہے کہ تم میں سے بہترین بیوی وہ ہے کہ جسے اگر کوئی چیز دی جائے تو شکریہ ادا کرے اور اگر کوئی چیز نہ دی جائے تو پھر بھی راضی رہے۔
حضورۖ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے تو تمام فرشتے اور جنّ و انس اس پر اس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ واپس گھر پلٹ نہیں آتی۔
حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ بیوی کا جہاد شوہر کا اچھی طرح خیال رکھنا ہے،ایک مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے لئے خوشبو لگائے۔
نتیجہ:
ازدواج در اصل انسانی فطرت کی آواز پر لبیک کہناہے۔انسانی شخصیت کے کمال اور رشد کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے فطری تقاضوں کو بطریق احسن پورا کرے۔بہت سارے لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ازدواج کے سلسلے کو فطری تقاضا نہیں سمجھتے اور اسے تعلیم اور نوکری کے بہانے سے ٹالتے رہتے ہیں۔جس کے منفی نتائج کبھی کھل کر فورا سامنے آجاتے ہیں اور کبھی صرف بچے اکیلے ہی اس آگ میں جلتے رہتے ہیں اور مخفی گوشوں میں بیٹھ کر اپنے برے اعمال کے ساتھ اپنے والدین کے گناہوں اور بدبختیوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
بہت سارے لوگ یہ احمقانہ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو بہت شریف ہیں ،ابھی انہیں ازدواج کی ضرورت نہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ازدواج کی شدید اور سب سے زیادہ ضرورت شریف اور نیک بچوں کو ہی ہوتی ہے۔اگر والدین کی سستی و ہٹ دھرمی اولاد کے لئے گناہ و بدبختی کا باعث بنے تو علماے دین کے نزدیک ایسے والدین خدا کے ہاں جوابدہ ہیں ۔
Add new comment