پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کےحامی ومددگار حضرت ابوطالب علیہ السلام کے اشعار کا مجموعہ (دیوان ابی طالب)
۔۔۔ ڈاکٹرمخدوم پیر سید علی عباس شاہ
نقیبِ مصطفٰی
اَبَا طَالِبٍ عِصْمَۃ الْمُسْتَجِیْرِ، وَغِیْثَ الْمَحُوْلِ وَنُوْرَ الْظُّلَمِ
لَقَدْ ھَدَّ فَقْدُکَ اَھْلَ الْحِفَاظ، فَصَلّٰي عَلَیْکَ وَلِيَّ الْنِّعَمْ
وَلَقَاکَ رَبُّکَ رِضْوَانِہٖ، وَقَدْ کُنْتَ لِلْمُصْطَفیٰ خَیْرِ عَمٍّ
ابو طالب ؑ ! اے پناہ لینے والوں کی پناہ گاہ!اور اے رحمت کی زوردار بارش! اور اے اندھیروں کی روشنی!سچ تو یہ ہے کہ آپ ؑ کے نہ رہنے سے غیرت مندمردوں کے دل ٹوٹ گئے اور وہ سست پڑگئے ہیں اور نعمتوں کے مالک پروردگار نے آپ ؑ پر نعمت نازل کی اور آپ ؑ کو اپنی خوشنودی سے نوازتا رہاکیونکہ آپ ؑ ،پیغمبر ؐ کے لیے واقعی بہترین تایاتھے۔ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب
۵۷۹ء میں سیدنا عبدالمطلب ؑ کی وفات کے بعد آغوشِ ابوطالب ؑ (۵۴۰تا۶۱۹ء)میں،درّ یتیم کی پرورش کا آغاز ہوا۔ذاتِ قدرت نے نورِ رسالت ؐ کو ابو طالب ؑ کے گھرانے میں ضم کر دیا اور سیدنا ابوطالب ؑ نے آپ ؐ کی حفاظت و خدمت گزاری کا حق ادا کر دیا۔اپنے بچوں سے بڑھ کر حضور کوپیار فرمایا۔ایک لمحہ بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا۔رات اپنے پہلو میں سلایا۔کھانے کے وقت حضور ؐ سے پہلے کسی کو کھانا نہ کھانے دیا۔قلتِ خوراک ہوئی تو اپنی اولاد کو بھوکا رکھااور حضور کوسیرفرمایا۔ انہی باتوں کا تذکرہ فرما تے حضور ؐ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ قادرِ مطلق نے اسی آغوشِ ابوطالب ؑ کا قرآنِ مجید میں ذکر فرماتے اپنی آغوشِ رحمت سے تشبیہ دی ہے۔ یہ ایسی موزوں اور مامون پناہ تھی کہ جس کی بدولت دینِ متین کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ آپ کی ولادت باسعادت سے پہلے سید العرب کو آپ کی بشارت دی گئی ،’’ اَنَّ عَبْدُالْمُطَّلِبْ رَأیٰ فِیْ مَنَامِہٖ کَانَ قَاءِلاً یَقُوْلَ لَہُ: اِبْشِرْ یا شَیْبَۃِالْحَمْد بِعَظِیْمِ الْمَجْدِ بِاَکْرَمِ وُلْدٍ، مِفْتَاحُ الْرُّشْدِ،لَیْسَ لِلْاَرْضِ مِنْہُ مَنْ بِدُّ‘‘،حضرت عبدالمطلب ؑ نے بعالمِ رؤیاملاحظہ فرمایاکہ کہنے والے نے اُن سے کہا، جنابِ شَیْبَۃِالْحَمْد آپ کوعدیم النظیر، سرچشمہء رشد وہدایت مکرم فرزندکے عظیم الشان شرف و مجد کی بشارت ہو ۔حضرت عبدالمُطّلب ؑ کے انتقالِ پرملال کے بعدنورِرسالتؐ کی حفاظت کے لیے سیّدناابو طالب ؑ کمربستہ ہوگئے اور ہر محاذ پر کفّارِ مکہ اور جہلائے عرب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛
وَلَمَّا رَاَیْتُ الْقَوْمَ لاَ وُدَّ فِیْھِمْ
وَقَدْ قَطَعُوْاکُلَّ الْعُریٰ وَالْوَسَاءِلِ
وَقَدْصَارَحُوْنَابِالْعَدَاوَۃِ وَالْاَذیٰ
وَقَدْ طَاوَعُوْااَمْرَالْعَدُوِّالْمُزَاءِلِ
وَقَدْحَالَفُوْاقَوْماًعَلَیْنَااَظِنَّۃً
یَعَضُّوْنَ غَیْظاًخَلْفَنَابِالْاَنَامِلِ
صَبَرْتُ لَھُمْ نَفْسِیْ بِسُمْرَاءَ سَمْحَۃٍ
وَاَبْیَضَ عَضْبٍ مِنْ تُرَاثِ الْمُقَاوِلِ ۱
وَاَحْضَرْتُ عِنْدَالْبَیْتِ رَھْطِیْ وَاِخْوَتِیْ
وَاَمْسَکْتُ مِنْ اَثْوَابِہٖ بِالْوَصَاءِلِ
قِیَاماً مَعاً مُسْتَقْبِلِیْنَ رِتَاجَہُ
لَدَیْ حَیْثُ یَقْضِیْ حَلْفَہُ کُلُّ نَافِلِ
جب میں نے قوم میں چاہت کا فقدان ،بے مروتی دیکھی کہ انہوں نے تمام تعلقات اور رشتہ داریوں کوپس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ساتھ کھلی دشمنی اور ایذارسانی کی اور ہم سے الگ ہو جانے والے دشمن کی بات مانی ۔نیز ہمارے خلاف تہمت زدہ لوگوں سے معاہدے کیے جو پسِ پشت غصے سے انگلیاں چباتے ہیں۔تو میں بذاتِ خود ایک لچکدار نیزہ اور شاہانِ سلف سے وراثت میں ملی ہوئی ایک چمک دار تلوار ۱لے کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گیا اور میں نے اپنے جماعت اور اپنے بھائیوں کو بیت اللہ کے پاس بلوایا اور اس (بیت اللہ )کا سرخ دھاری دار غلاف تھام لیا۔اس کے عظیم الشان دروازے کے مقابل اس مقام پر جہاں برأت ثابت کرنے والا حلف اٹھاتا ہے ۔ سب کے ساتھ کھڑے ہو کر (اس کے غلاف کوتھام لیا۔) ۱۔ مقاول ،مِقْوَلْ کی جمع ہے جویمن کے حمیری بادشاہوں کا لقب تھا۔ سیف بن ذی یزن حمیری نے دیگربیش قیمت تحائف کے ساتھ سفیدچمک دار تلوار حضرت عبدالمطلب ؑ کی خدمت میں پیش کی جووراثت میں حضرت ابوطالب ؑ کے پاس آئی جس کی جانب آپ نے یہاں اشارہ فرمایاہے ۔
ابوطالب،جن کی رفاقت و نصرت اسلام کا محکم حصار بن گئی۔ابو طالب ؑ ،جنہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ابوطالب ؑ ،جن کی قربانیوں سے محسنِ انسانیت کے بازو مضبوط ہوئے۔ابوطالب ؑ ،جن کے آہنی ارادوں اور کارگزاریوں سے جمعیتِ کفار و مشرکین لرزہ براندام رہی۔ابوطالب ؑ ،جن کی حکمتِ عملی سے کفار کی نیندیں حرام تھیں۔ابوطالب ؑ جو گلشنِ رسالت کی حفاظتی دیوار تھے۔ابوطالب ؑ ،جو حضور ؐ کے شفیق تایااور کفیل تھے۔ابوطالب ؑ ،جو مولائے کائنات علی مرتضیٰ ؑ شیر خدا ،جعفر طیّا ر ؑ اور عقیل ؑ کے والد تھے۔ابو طالب ؑ ،جو سید الشہدا امیر حمزہ ؑ ،شیر رسالت کے بھائی تھے۔ابو طالب ؑ ،جو حسنین کریمین ؑ ،سردارانِ جنت کے داداحضور تھے۔ابوطالب ؑ ، جو سیدہ زینب ؑ و امکلثوم ؑ کے دادا تھے۔ابوطالب ؑ ، جو شہدائے کربلا،شہدائے فَخْ،شہدائے بغداد،شہدائے شیراز،اصفہان و ساوِہ اور شہدائے نیشاپورکے مورثِ اعلیٰ تھے۔ابو طالب ؑ ، جن کی اولاد نسبِ رسول ؐ ہے۔ابو طالب ؐ،جنہوں نے ہزاروں فرزند اسلام پہ قربان کر دیے۔وہ فرزند جو حافظِ قرآن و حدیث،شب بیدار،تہجد گزار،عابد،زاہد،عالم،فقیہ،محدث اور مفسر قرآن و شارح اسلام تھے۔ جن کی آغوش کو ذاتِ قدرت نے اپنی پناہ قرار دیا وہ سوائے سیدنا ابو طالب ؑ کے اور کون ہے؟سیدنا ابو طالب ؑ نے آنحضرت ؐ کے لیے جو جانثاری فرمائی ،اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔اپنے جگر گوشے آپ ؐ پہ نثار کر دیے ۔آپ ؐ کی محبت میں تمام عرب دشمن بنا لیا۔ فاقے اٹھائے،شہر بدر ہوئے،تین برس تک آب و دانہ بند رہا۔تاریخ کے دھارے جدھر موڑ دیے جائیں ’’شِعْبِ اَبیْ طَالِبؑ ‘‘کے حصار کا تمغہ کس کے سینے پر سجے گا؟مقاطعہ قریش میں حصارِ رسالتؐکے لیے شعبِ ابی طالب ؑ سے کون واقف نہیں اور اس دوران پیارے مصطفٰی ؐ کے بستر پر علی مرتضٰی ؑ شیرِخُدا اور جعفرطیار کو سلا کردشمنانِ اسلام کی تلواروں کے سامنے اپنے لختِ جگر پیش کرنے والے ابو طالب ؑ کے علاوہ اور کون ہیں۔کائنات ابدالآباد تک نعت گوئی کرتی رہے تو حضور ؐ کی نعلین مبارک پر جلوہ نما ذرۂ خاک کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتی۔شہنشاہِ انبیا و مرسلین ؐ کے غمگسار و محافظ،سیدنا ابوطالب ؑ ؑ کے فضائل و مناقب اور شان و عظمت کون بیان کر سکتا ہے؟امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں مَثَلُ اَبِیْ طَالِبٍ مَثَلُ اَصْحَابِ الْکَہْفِ ،ابوطالب !اصحابِ کہف کی مانند ہیں کہ جیسے اللہ نے انہیں اپنی نشانی قرار دیا ویسے ہی آپ اللہ رب العزت کی بزرگ وبرتر نشانی ہیں۔
ناصر رسولؐونکاح خوانِ رسالتؐ
وَاِذْ اَخَذَاللّٰہُ مِیْثٰقَ الْنَّبِیِّیِنَ لَمَآءَ اَتَیْتُکُم مِّنْ کِتٰبٍ وَحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہُ ج 3:81
حضور نبی کریم ؐ نے بیالیس سال خانہء ابوطالب ؑ میں گزارے اور جس طرح نصرتِ رسول ؐ کا فریضہ سیدنا ابو طالب ؑ نے ادا فرمایا اور بعد ازاںآپ ؑ کی ذریت طیبہ ؑ نے ادا فرمایا ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔عہدانبیاومرسلین سے لیاگیا،ایفائے عہدبصورتِ ابوطالب وعترتِ آنحضرت ؑ سامنے آیا۔آپ ؑ بلاشبہ ناصر رسول ؐ ہیں اوریہ اعزاز صرف آپ ؑ ہی سے متعلق ہے۔ وَالَّذِیْنَ ءَ آمَنُوْا وَھَاجَرُواْ وَجٰھَدُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْن ءَ اوَواْوَّنَصَرُوٓاْ اُولیٰٓکَ ھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ حَقّاً ج 8:74
فَاعْلَمُوْا اَنَّنِیْ لَہُ نَاصِرٌ
وَمُجِرُّ بِصَوْلَتِیْ الْخَاذِلِیْنَا
فَانْصُرُوْہُ لِلْرِّحْمِ وَالْنَّسَبِ الْاَدْنِیْ
وَکُوْنُوْا لَہُ یَداً مُصْلِتِیْنَا
پس جان لو کہ میں اُ ن کی مددونصرت کرتا رہوں گا اور جو لوگ اُن کا ساتھ چھوڑیں گے ان سے جنگ کروں گا
لہٰذا تم سب ان کی مدد ونصرت کرو۔ رشتہ و قرابت ہی کا خیال کرتے ہوئے ان کی حمایت میں دشمنوں کے خلاف تلوار اٹھا لو
حضور نبی کریم ؐ کادنیاوی سن اقدس پچیس برس ہوا تو آپ ؐ نیمَلِیْکَۃُالْعَرَبْ،اُمّ الْزَّھْراؑ ،اُمَّ الْمُؤمِنِیْن سیدہ خُدَیْجَۃُالْکُبْریٰ صلوٰۃاللہ و سلامہ علیہا سے عقد فرمایا۔سیدہ طاہرہ عرب کی نجیب ترین،ثرو ت منداور انتہائی پرہیزگار خاتون ذی وقار ،سنِ دنیا کے اٹھائیسویں برس میں مبشراتِ ایزدی کے تحت ،وقتِ مقرر کا انتظار فرما رہی تھیں۔مقررہ تاریخ پر قبیلہ مضر کے رؤسا،مکہ کے شرفاو امرا اکٹھے ہوئے۔سیدہ خدیجہ ؑ کی طرف سے عمروْبن اسد وکیل بنے۔سرکار دوعالم کی وکالت رئیس بطحا، سیدنا ابوطالب ؑ نے فرمائی۔حضور ؐکے نکاح کا خطبہ زبانِ ابوطالب ؑ سے اسطرح ادا ہوا؛
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلْنَا مِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰہِیْمِ وَذَرْعِ اِسْمَاعِیْلَ وَضِؤِئ مَعْدً وَ عُنْصُرِ مَضَرٍ، وَجَعَلْنَاحَضَنَۃَ بَیْتِہٖ وَسَوَّاسَ حَرَمِہْ وَجَعَلَنَا بَیْتاً مَحْجُؤجاً وَحَرَمََاً اٰمِنَاً وَجَعَلَنَا الْحُکَّامَ عَلَی النّاسِ، ثُمَّ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْ ھٰذَا مُحَمَّدٌ اِبْنُ عَبْدِ اللّٰہ لَا ےُؤ زَنُ بِرَجَلٍ اِلَّارَجَحَ بِہٖ وَاِنْ کَانَ فِیْ الْمَالِ قَلاًّ وَاِنَّ الْمَالَ ظِلُّ زَاءِلٌ وَاَمْرٌ حَاءِلٌ وَمُحَمَّدٍ مَنْ قَدْ عَرَفْتُمْ قَرَابَتِہٖ وَ قَدْ خَطَبَ خَدِیْجَۃَ بِنْتَ خُوَیْلَدِِ، وَ قَدْ بَذَلَ لَھَا مِنْ الصِّدَاقِ مَاٰ اَجَلَہُ مِنْ مَالِیْ اِِثْنَا عَشَرَۃَ اَوْقِےَۃَذَھَباً، وَنَشَاءَ وَ ھُوَوَاللّٰہِ بَعْدَ ھٰذَا لَہُ نَبَاءٌ عَظِیْمُ وَخَطَرُُجَلِیْلٌ۔سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد سے، حضرت اسماعیل ؑ کی عترت سے ،معد ؑ کی نسل سے اور مضر ؑ کی اصل سے پیدا فرمایا۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر فرمایا،ہمیں ایسا گھر دیاجس کا حج کیا جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے۔نیز ہمیں لوگوں کا حکمران مقررفرمایا۔حمد کے بعد! میرے برادرزادے جن کا اسم گرامی محمدؐ ابنِ عبداللہؐ ہے،ان کا دنیا کے بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو ان کا پلڑا پھر بھی بھاری ہو گا۔ اگر قلتِ مال ہے تو کیا ہوا،مال تو ایک ڈھلتی چھاؤں ا ور بدل جانے والی چیز ہے اور محمد ؐجن کی قرابت کو تم جانتے ہو ،انہوں نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور بارہ اوقیہ سونا مہر مقرر کیا ہے اور اللہ کی قسم !مستقبل میں ان کی شان بہت بلند ہو گی،ان کی قدر ومنزلت بہت جلیل ہو گی۔
پھرفرمایا؛
’’ اِنَّ اِبْنَ اَخِیْنَا خَاطِبٌکَریْمَتَکُمْ الْمَوْصُوْفَۃُ بالْسَّخَاءِ وَالْعِفَّۃِوَھِیَ فَتَاتُکُمُ الْمَعْرُوْفَۃِالْمَذْکُوْرَۃُ فَضْلِھَاالْشَّامِخُ خَطَبِھَا ‘‘
اے دختر نیک،سخی وباعفت !!ہمارے برادرزادے آپ کے خواستگارہیں۔ان کے خواستگار ہیں جو تمہارے درمیان مشہور ومعروف بلند مرتبہ خاتون ہیں ،
جن کی سخاوت اور فضل وشرف لوگو ں کی زبان پر ہے اور جن کی شان نمایاں اور عظیم ہے ۔
اس جلیل الشان خطبہ کے بعد جس میں اللہ رب العزت کی ثنا،انبیا کی نبوتوں کا اقرار،خاندانِ بنی ہاشم کی سرداری،عظمتِ خانہ کعبہ اور عظمتِ نبوت کے واضح مضامین ہیں اور سیدنا ابو طالب ؑ واشگاف الفاظ میں فرماتے ہیں کہ میرا ابنِ اخی ،افضل الناس ہے اور آپ ؑ نے بنی ہاشم ؑ کی سیادت و قیادت کا سکہ بٹھا دیا،سیدہ خُدَیْجَۃُالْکُبْریٰؑ کے چچازادبھائی حضرت ورقہ بن نوفلؓ نے تقریر فرماتے ہوئے حضرت ابو طالب ؑ کو مخاطب کر کے کہا؛
’’سب حمد و ستائش اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں وہ سب کچھ بنایا جس کا آپ ؑ نے اپنے خطبہ میں ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں پر ہمیں فضیلت عطا فرمائی ہے جن کا ذکر آپ ؑ نے کیا ہے۔بلاشبہ ہم عرب کے سردار اور سربراہ ہیں اور آپ ؑ ان تمام باتوں کے اہل ہیں اور عرب کا کوئی خاندان بھی آپ ؑ کی اس بزرگی اور فضیلت کا انکار نہیں کر سکتا ہے۔ کوئی شخص آپ ؑ کے اس مجدوافتخارکو مسترد نہیں کر سکتا ہے۔ ہم لوگوں نے آپؐ کے شرف کے ساتھ ناطہ جوڑنے کو پسند کیا ہے۔‘‘
بنی ہاشم ؑ نگاہِ ابو طالب ؑ میں
اِذَا اجْتَمَعَتْ یَوْماً قُرَیْشٌ لِتَفْخَرٍ، فَعَبْدِ مَنَافٍ سِرِّھٰا وَصَمِیْمِھٰا
وَاِنْ فَخَرَتْ یَوْماً فَاِنَّ مُحَمَّداً، ھُوَالْمُصْطَفٰی مِنْ سِرِّھٰا وَکَرِیْمِھٰا
’’اگر کبھی تمام اہل قریش اپنی اپنی قابل فخر باتوں کو لے کر جمع کریں تو جناب عبد مناف ؑ کے خاندان کے کارنامے سب سے ممتازو منور نظر آئیں گے اور جب جناب عبد مناف ؑ کے خاندان
کے اشراف کو جمع کیاجائے تو جناب ہاشم ؑ سب سے بلند واشرف نظر آئیں گے۔اگر جناب ہاشم ؑ کی اولاد فخر کرے تو جناب محمد مصطفٰی ؐ کی ذات گرامی سب سے مکرم و محترم،قابل فخر ہستی دکھائی
دے گی۔جن کے مقابلہ میں قریش کے برے بھلے لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں لیکن یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔یہ لوگ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں۔زمانہ ماضی میں بھی ہم نے کبھی ظلم برداشت نہیں کیااور اگر کوئی شخص ہمارے خلاف اپنا جبڑا ٹیڑھا کرے گا تو ہم اسے سیدھا کرنے والے ہیں۔ہم لوگ حضور کی حفاظت کی خاطر ہر روز میدان جنگ میں کود پڑنے کو تیار ہیں اور پتھر
جس طرف سے بھی آئے گا اسی طرف اسے پلٹا دیں گے۔سوکھے ہوئے پتوں کو بھی ہماری حمایت ونصرت کی بنا پر شادابی نظر آنے لگے گی اور وہ ہرے بھرے ہو جائیں گے۔ہمارے ہی خاندان کے لوگ ہر دور میں سید و سردار رہے ہیں ،جن کی عظمت کو کوئی للکار نہیں سکا۔ ساری دنیا ان کی اطاعت کے آگے سرنگوں ہو گی اور زمین کے چپہ چپہ پر ان کی عزت و احترام کے نشانات رقم ہوں گے‘‘۔
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْْوٰجَ کُلَّھَا مِمَّاتُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ مِمَّا لاَ یَعْلَمُوْنَ ۃ 36:36
نقیبِ مصطفٰی حجر اسماعیل کے قریب حطیم میں آرام فرما تھے ۔بعالمِ رؤیا ملاحظہ فرمایاکہ آسمان کادروازہ کھلا جس میں سے نور نکلا جو ایک پیکر نوری میں ڈھل کرصداکیش ہوا؛
اِبْشِرْ اَبَاطَالِبٍ عَنْ قَلِیْلْ، بِالْوَلَدِ الْحُلاَحِلِ الْنَّبِیْل
یَالَ قُرَیْشٍ فَاسْمَعُوْا تَاوِیْلْ، ھٰذَانَ نُوْرَانَ عَلیٰ سَبِیْلْ
جنابِ ابو طالب !سماعت فرمایئے کہ آپ کونازشِ قریش بہادر وسردار فرزند کی نادرالوجودبشارت ہو،یہ دونوں انوار اسی سلسلے کانزول ہیں
سیدِ بطحانے یہ دیکھ کر خانہ کعبہ کاطواف شروع کیا اور فرمایا؛
اَطُوْفُ لِاِلٰہِ حَوْلَ الْبَیْتِ، اَدْعُوْکَ بِالْرَّغْبَۃِ مُحْیِ الْمَیْتِ
بِاَنْ تَرِیْنِیْ الْسِّبْطِ قَبْلَ الْمَوْتِ، اَغَرَّ نُوْراً یَاعَظِیْمَ الْصَّوْتِ
مُنصُلِّتاً یُقْتَلُ اَھْلَ الْجِبْتِ، وَکُلَّ مَنْ دَانَ بِیَوْمِ الْسَّبْتِ
میں اس گھر کے مالک کے لیے اس کے گرد طواف کرتاہوں اوربہ رضاورغبت مردوں کوزندہ کرنے والے سے دعاکرتا ہوں کہ اے بلند وبالابشارت دینے والے!!
مجھے مرنے سے پہلے چمکتے نور کادیدار عطا فرماکہ جو اعدائے الٰہی ،جبت وطاغوت کے پیروکاروں کے لیے خدائی تلوارہے
طواف سے فارغ ہو کر آپ حطیم تشریف لائے اور حجر اسماعیل کے قریب محوِ استراحت ہوئے ۔بعالم رؤیا مشاہدہ فرمایاکہ خلہ بہشت میں ملبوس ، یاقوت سے مرصعتَاجُ الْمَلُوْک کوزیب دیے ہیں اور صدائے غیب دی جا رہی ہے ،’’ اَبَاطَالِبٍ! قَرَّتْ عَیْنَاکْ، وَظَفَرَتْ یَدَاکْ، وَحَسَنَتْ رُؤیَاکْ، فَاتیٰ لَکَ بِالْوَلَدْ وَمَالِکَ الْبَلَدْ، وَعَظِیْمَ الْتَلَدْ عَلیٰ رَغْمِ الْحُسَّدْ‘‘جنابِ ابو طالب !آپ کی نگاہیں مفرح ہوں اور آپ کے امور ظفرمندہوں اور آپ کے مکاشفات حسنِ حقائق میں سامنے آئیں کہ آپ کو صاحبِ جاہ وحشم،محسودِ جہاں عظیم المرتبت فرزندکی بشارت دی جاتی ہے ۔ملاحظہ فرما کر نقیبِ مصطفٰی نے طواف کیااور فرمایا؛
اَدْعُوْکَ رَبِّ الْبَیْتِ وَالْطَّوَافِ، وَالْوَلَدِالْمَحْبَوِّ بِالْعِفَافِ
تُعَیِّنَنِیْ بِالْمِنَنِ الْلِّطَافِ، دَعَاءَ عَبْدَ بِالْذُّنُوْبِ وَافِیْ
یَاسَیِّدُالْسَّادَاتِ وَالْاَشْرَافِ
اے تمام افضل سرداروں کے بلند تر سردار!ربِ بیت اللہ وصاحبِ طواف سے پاک وپاکیزہ محبوب فرزند کے وسیلے سے ملتجی ہوں کہ اپنے جودوکرم سے مجھ پر امور واضح فرما
پھر حجر اسماعیل حطیم کے پاس مکاشفہ فرمایاکہ کہاگیا،’’مَا یُثَبِّطْکَ عَنْ اِبْنَۃِ اَسَدٍ؟‘‘آپ بنتِ اسد سے کیا مختص فرماتے ہیں ؟واضح توجیہہ سے متنبہ ہوکرآپ نے ۵۶۸ء میں نجیبالطرفین اور روئے زمین پر اولین ہاشمیہ فاطمہ بنتِ اسد سے عقد کیا۔
وَمِنْ ءَ ایٰتِہِےٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوٰجاً لِتَسْکُنُوْاْ اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَرَحْمَۃًج اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاَیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ ۃ 30:21
اس پرمسرت موقع پرتمام قبائلِ عرب نے شرکت کی اور بارگاہ عبدالمطلب ؑ میں تہنیت پیش کی۔سیدنا ابو طالب ؑ نے اپنا خطبہ نکاح ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ؛
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم وَالْمَقَامِ الْکَرِیْم وَالْمَشْعَرِ وَالْحَطِیْم اَلَّذِیْ اصْطَفَانَا أعْلاَماً وَسَادَۃً وَعُرَفَاءَ وَخُلَصاءً وَّ قَادَۃً وَحجَبۃ بھَالیْل، اَطْہَاراً مِّنَ الْخَنِیَ وَالْرَّیْبِ وَالْاِذَی وَالْعَیْبِ وَ اَقَامَ لَنَا الْمَشَاعِرْ وَفَضَّلْنَا عَلَی الْعَشَائرِ، نَحْنُ آلَ اِبْرَاہِیْمَ وَصِفْوَتِہِ وَذِرْعِ اِسْمٰعِیْلْ ثُمَّ قَالَ وَقَدْ تَزَوَّجْتُ فَاطِمَۃْ بِنْتِ اَسَدٍ وَ سُقِطَ الْمَھْرِ وَ نَفَذْتَ الْاَمْرَ فَاسْءَلُوْہ وَ اُشْھِدُوْا فَقَالَ اَسَدٌ زَوْجَتُکَ رَفِیْقاً لَکَ ثُمَّ نَحْرَاَبَاطَالِبِ اَلْاِبِلْ وَاُطْعِمُ الْنَّاسَ سَبْعَۃَ اَیَّامٍ ’’ سب تعریفیں پروردگارِ عالمین کے لیے ہیں جو عرشِ عظیم کا پروردگار ہے ،جو مقام ابراہیم ،مشعر الحرام اور حطیم کا پروردگار ہے۔ جس نے ہمیں سرداری، کعبہ کی دربانی و خدمت، انتہائی بلند مقام دوستی اور اپنی حجت کی سرداری کے لیے منتخب فرمایا ۔جس نے ہمارے لیے مشاعر کو قائم کیا اور ہمیں تمام قبائل پر فضیلت عطا فرمائی اور اس نے ہمیں آلِ ابراہیم کے برگزیدہ احفاد میں سے چن لیا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے قرار دیا ۔میں فاطمہ بنت اسد سے عقد کرتا ہوں ،حق مہر ادا کرتا ہوں اور معاملہ نافذ کرتا ہوں ،تم ان سے پوچھ لو اور گواہی دو‘‘۔جناب اسدؓ نے فرمایا ،’’ہم نے ان کی آپ سے شادی کی اور ہم آپ سے راضی ہوئے ‘‘۔ اس کے بعد سات دن تک وفودِعرب کی ضیافت کی گئی ۔
عرب کے ایک معروف شاعر نے سپاسِ تہنیت پیش کیا ؛
اُغْمِرْنَا عُرْسَ اَبِیْ طَالِبٍ
وَکَانَ عُرْساً بَنِ الْجَانِبٍ
اَقْرَاءَہُ الْبَدُّ وَ بِاَ قْطَارِہِ
مَنْ رَاجِلٌ خِفَّ وَمَنْ رَاکِبٍ
فَتَاْزِلُوْہ سَبْعَۃَ اَحْصَیْتَ
اَیَّامُھَا لِلْرَّجُلٍ الْحَاسِبٍ
ہمیں ابو طالب کے ولیمہ نے اپنی نعمتوں سے چھپا لیا اور یہ دعوت نہایت خوشگوار تھی۔ انہوں نے اپنے ارد گرد کے بادیہ نشینوں کو ضیافت کے لیے جمع کیا
کہ اِن میں پیادہ پا بھی تھے اور سوار بھی۔ان کے پاس وہ سب مہمان بن کر اُترے اورمحاسب کے حساب میں ضیافت کا سلسلہ سات دن تک جاری رہا۔
نقیبِ مصطفٰی سیدناابوطالب عبدِ مناف کی زوجہ معظمہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسد ؑ نے علمی و روحانی گھرانے میں آنکھ کھولی۔آپ ؑ کے دادا سیدنا ہاشم بن عبدمناف ؑ سردار قریش اور کَعْبَۃُاللّٰہْ کے متولی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با صلاحیت اور سخی انسان تھے۔انہوں نے اپنے ہی خاندان کی ایک باوقار خاتون ’’قیلۃ بنتِ عامر‘‘سے عقد کیا جن سے ایک صاحبزادے اسد تشریف لائے جوسیدنا ہاشم کی عرب پروری کے محرک بنے ۔آپ حضرت فاطمہ بنتِ اسد کے والد تھے۔ جنابِ اسد بن ہاشم ؑ نے فاطمہ بنت قیس سے عقد کیا جن سے ۵۵۴ء میں پہلی نَجِیْبُ الْطَّرَفَینْ ہاشمیہ فاطمہ بنتِ اسد متولد ہوئیں ۔ آپ جناب اسد بن ہاشم ؑ کی اکلوتی دختر نیک اختر تھیں ۔قبائلِ عرب میں ہاشمی خاندان اپنی اخلاقی و روحانی اقدار اور انسان دوستی کی بلندیوں کے باعث منفرد احترام رکھتا تھا ۔ وقاروعظمت ،سخاوت وصداقت،شجاعت وبسالت اور ان گنت خصائل بنی ہاشم کے ا وصاف ہیں۔آپ مساتیرِ عرب میں انتہائی عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھیں۔حضرت فاطمہ بنت اسد ؑ نے جناب ابو طالب ؑ کے ہمراہ زندگی گزارنا شروع کی ۔آپ نے خانگی امور ومسائلِ زندگانی کے جملہ حقوق وفرائض انتہائی ذمہ داری ،صبر و صداقت ، خلوص ، پاکیزہ سوچ ، شفاف دل ، انتہائی محبت اور پاکیزگی کے ساتھ پورے کیے ۔بوقتِ عقد آپ حیاتِ فانی کے چودہویں سال میں تھیں۔آپ سے عقد کے بعد سید بطحا نے طواف کرتے فرمایا؛
قَدْ صَدَّقْتَ رُؤیَاکَ بِالْتَّعْبِیْر، وَلَسْتَ بِالْمُرْتَابَ فِیْ الْاُمُوْرِ
اَدْعُوْکَ رَبِّ الْبَیْتِ وَالْنُّذُوْرِ، دَعَاءَ عَبْدَ مُخْلِصٍ فَقِیْر
فَاعْطِنِیْ یَا فَالِقَ الْسَّرُورْ، بِالْوَلَدِ الْحُلاَحِلِ الْمَذْکُوْرِ
یَکُوْنُ لِلْمَبْعُوْثِ کَالْوَزِیرْ، یَا لَھُمَا یَا لَھُمَا مَنْ نُورِ
قَدْ طَلْھَا مِنْ ہاشِمِ الْبُدُّوْرِ، فِیْ فَلَکِ عَالٍ عَلیَ الْبَحُوْرِ
فَیَحْنَ الْاَرْضِ عَلیَ الْکَرُوْرِ، طَحْنَ الْرَّحیٰ لِلْحَبِّ بِالْتَّدْوِیْر
اِنَّ قُرَیْشاً بَاتَ بِالْتَّکْبِیْر، مَنْہُوْکَۃً بِالْغَیِّ وَالْثَّبُوْرِ
وَمَا لَھَا مِنْ مُوْءِلِ مُجِیْر، مِنْ سَیْفِہِ الْمُنْتَقِمِ الْمُبِیْر
وَصِفْوَۃِ الْنَّامُوْسِ فِیْ الْسَّفِیْر
حُسَّامُہُ الْخَاطِفُ لِلْکَفُوْرِ
آپ نے دکھائے گئے خواب کی تعبیر کو سچ کر دکھلایااور یقیناآپ اپنے امور میں محکم ہیں ۔میں خانہ کعبہ ومافیہاکے مالک سے ایک مخلص بندے کافقیرانہ سوال کرتاہوں کہ اے مفرحِ قلوب ! مجھے نازشِ قریش بہادر وسردار فرزند عطا فرماتاکہ وہ تیرے بھیجے گئے پیغمبر کادستِ راست ہو۔اے اُن دونوں کے منبعِ انوار !بنی ہاشم کے دمکتے مہ ونجوم میں بے کراں سمندروں کے بلند وبالاافق پراسے چمکادے ۔روئے زمین کو اُس کی آمد سے مسرور وشاداں اور اصنامِ باطل کو ریزہ ریزہ کرکے اُس کی محبت کے دائرے میں رکھ ۔قریش تیری کبریائی سے بے بہرہ ہوکر اپنی گمراہی اور ہلاکت کے اسیر ہیں اور انہیں کیا ہوگیا کہ خیروبرکات کے سرچشمہ سے روگرداں وفراموش کنندہ ،منہدم ونیست ونابود کردینے والی انتقامی تلوار سے غافل ہیں ۔ عزت و جاہ وحشم فقط تیرے بھیجے ہوئے نمائندے کی اطاعت میں ہے کہ جس کی لہراتی ہوئی تلوار تجھ سے روگردانی کرنے والوں کے لیے یقینی ہلاکت کی دلیل ہے ۔
آغوشِ مصطفٰی وبشارتِ مرتضٰی ؑ
سیدتنافاطمہ بنتِ اسد فرمایا کرتی تھیں؛’’جب حضرت عبدالمطلب ؑ کا انتقال ہوگیا تو حضرت ابو طالب ؑ آپ (سیدنا محمد ؐ) کواپنے ساتھ لے آئے ۔میں ان کی خدمت کیا کرتی اور وہ مجھے ’’اماں ‘‘ کہہ کر پکارا کرتے ۔ ہمارے گھر کے باغیچہ میں کھجوروں کے درخت تھے ۔تازہ کھجوروں کے پکنے کا موسم شروع ہوا ،حضرت محمد کے دوست بچے ہر روز ہمارے گھر میں آتے اور جو کھجوریں گرتیں وہ چن لیتے ۔میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ ؐ سے پہلے کسی بچے نے کوئی کھجور اٹھائی اور محمد ؐ نے اس سے چھینی ہو، جب کہ دوسرے بچے ایک دوسرے سے چھینتے رہتے ۔میں ہر روز محمد ؐ کے لیے دونوں ہاتھ بھر کے چن لیتی ۔اسی طرح میری کنیز بھی دونوں ہاتھ بھر کے رکھ لیتی ۔ایک دن میں اور میری کنیز بھول گئیں اور ہم کھجوریں نہ چن سکیں۔محمد ؐسو رہے تھے ۔بچے داخل ہوئے اور جو بھی کھجوریں گری تھیں وہ چن کر چلے گئے ۔میں سو رہی اور محمد ؐ سے شرم و حیا کی وجہ سے اپنے چہرے کو ڈھانپ کر سو گئی۔ محمدؐ بیدار ہوئے اور باغ میں تشریف لے گئے ۔لیکن وہاں زمین پر کوئی کھجور نظر نہ آئی سو واپس لوٹ آئے ۔کنیز نے ان سے کہا ،’’ہم کھجوریں چننا بھول گئے تھے ،بچے آئے اورگری ہوئی ساری کھجوریں چن کر کھا گئے ‘‘۔محمد ؐ دوبارہ باغ میں گئے اور ایک کھجور کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا، ’’مجھے بھوک لگی ہے‘‘۔میں نے دیکھا کھجور نے اپنے شگوفوں کو جھکا دیا جن پر تازہ کھجوریں تھیں۔محمدؐ نے جی بھر کر کھا لیں ،پھر وہ شگوفے اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔ میں نے بہت تعجب کیا ۔ حضرت ابو طالب ہر روز گھر سے باہر چلے جایا کرتے تھے۔جب بھی واپس آتے تو دروازے پر دستک دیتے۔ میں کنیز سے کہتی کہ وہ دروازہ کھولے۔ابو طالب ؑ نے دستک دی اور میں خود ننگے پاؤں دوڑتی ہوئی دروازے پر گئی ،دروازہ کھولا اور جو کچھ دیکھا تھا بیان کر دیا ۔ ابو طالب ؑ نے فرمایا؛’’وہ یقیناًنبی ہیں اوران کے وصی تیس سال بعد آپ کے ہاں تشریف لائیں گے۔ ‘‘
ایک روز آپ فواطمِ بنی ہاشم (ہاشمی مستورات جن کے نام فاطمہ تھے۔سیدہ فاطمہ بنتِ اسد ، فواطمِ بنی ہاشم میں بھی منفردیگانہ مقام رکھتی ہیں کہ آپ کا اپنااسمِ گرامی فاطمہ ،آپ کی خوشدامن اور چچی فاطمہ ، آپ کی بہو سیدۃ النسا فاطمہ ،آپ کی صاحبزادی ام ہانی کا نامِ نامی اسمِ گرامی بھی فاطمہ ہے ۔اس طر ح حدیثِ نبوی ’’اَنَا اِبْنُ الْفَوَاطِمْ ‘‘ میں آپ اہم مقام ومنزلت رکھتی ہیں ۔ سیدنا امام حسن ؑ اور سیدنا امام حسین ؑ کو ’’ اِبْنُ الْفَوَاطِمْ ‘‘کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ معظمہ سیدہ فاطمہ زہرا ، آپ کی دادی صاحبہ سیدہ فاطمہ بنتِ اسد ، آپ کی نانی جان ام المؤ منین خُدَیْجَۃُالْکُبْریٰ کی والدہ جناب فاطمہ بنتِ زائد بن الاصم اور آپ کے پڑناناسیدناعبداللہ ؑ کی والدۂ گرامی فاطمہ بنتِ عائذسب کے اسمائے گرامی فاطمہ ہیں۔)میں تشریف فرما تھیں اور گفتگو فرما رہی تھیں کہ رسول اللہ نورِ روشن کے ساتھ تشریف لائے ۔ چند کاہن انہیں دیکھتے ان کے پیچھے وہاں پہنچ گئے اور ان فواطم بنی ہاشم سے آپ کے بارے میں پوچھا ۔انہوں نے بتایا ،’’یہ انتہائی عظمت و شرف اور بلند ترین فضل و کمال کے مالک حضرت محمدؐہیں۔‘‘کاہن نے ان خواتین کو آپ کی عظمت اور بلند مرتبہ کے بارے میں بشارت دی کہ مستقبل قریب میں آپ مبعوث بہ نبوت ہوں گے اور بلند و بالا مقام ومرتبہ کے مالک ہوں گے ۔تم عورتوں میں سے جو ان کی بچپن کی کفالت کا شرف حاصل کریں گی وہ ایک ایسے فرزند کی کفالت کا بھی شرف حاصل کریں گی جو ان کے مدد گاروں اور اصحاب میں سے ایک ہو گا۔وہ ان کے رازوں کا امین اور ان کا ساتھی ہو گا ۔دوستی و اخوت اور بھائی چارے کی بنا پر ان سے محبت کرے گا ۔حضرت فاطمہ بنت اسد نے اس کاہن کو بتایا ، ’’میں ان کے تایا کی زوجہ ہوں ۔وہ ان کے بارے میں ہر وقت فکر مند اور پر امید رہتے ہیں ۔ یہ میری کفالت میں ہیں۔‘‘ اس نے کہا ؛
’’ عنقریب آپ ایک بہت بڑے عالم اور اپنے پروردگار کی اطاعت کرنے والے بیٹے کو جنم دیں گی ،جن کا نام تین حروف پر مشتمل ہو گا ۔وہ ان نبی کے تمام معاملات اور امور میں ولی ہوں گے اور ہر چھوٹے بڑے کام میں ان کی مدد کریں گے ۔وہ ان کے دشمنوں کے لیے تلوار ہوں گے اور دوستوں کے لیے دروازہ اور باب ہوں گے ۔وہ ان کے چہرہ مبارک سے پریشانیوں کو دور کریں گے ۔ ظلمت و تاریکی کی گھٹاؤں کو دور کریں گے ۔ گہوارے ہی میں بہادری و حملہ ،رعب و دبدبہ پیدا کرنے والے ہوں گے ۔لوگ ان کے خوف سے کانپیں گے۔ ان کے بہت زیادہ فضائل و مناقب اور بلند و بالا مقام و مرتبہ ہو گا ۔ وہ ان کی اطاعت میں ہجرت کریں گے ۔اپنی جان سے بڑھ کر ان کی حفاظت کے لیے جہاد کریں گے ۔وہی ان کی وصیت کے مطابق انہیں ان کے کمرے میں دفن کریں گے‘‘۔
سیدہ کا خواب
سیدہ فرماتی ہیں کہ میں یہ سن کر سوچ و بچار کرنے لگی۔را ت خواب میں دیکھا کہ شام کے پہاڑ رینگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔اُن کے اوپر لوہے کی چادریں تنی ہیں اور اُن کے سینوں سے خوفناک قسم کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں اور وہ تیزی سے جبالِ مکہ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مکہ کے پہاڑ بھی جواباً اسی طرح چیخ و پکار کی صورت میں خوفناک آوازیں بلند کر رہے ہیں جس طرح تیز دھار آلہ کی آواز ہو ۔کوہ ابو قبیس گھوڑے نگل رہا ہے ۔اس کی بلند چوٹی دائیں بائیں گر رہی ہے ۔لوگ اس وجہ سے گر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ہی چار تلواریں اور ایک لوہے کا انڈہ جس پر سونا چڑھا ہوا ہے گرے۔ ان میں سے سب سے پہلے جو مکہ میں داخل ہوا اس کے ہاتھ سے تلوار پانی میں گری اور ڈوب گئی ۔دوسری زمین پر گری اور ٹوٹ گئی ۔تیسری تلوار ہوا میں اڑی اور اڑتی ہی گئی ۔چوتھی میرے ہاتھ میں تنی رہی۔ وہ میرے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ وہ نوجوان کی صورت میں ڈھل گئی جو خوفناک شیر کی طرح بن گیا ۔ وہ میرے ہاتھ سے نکلا اور پہاڑوں کی طرف چلا گیا اور ان کے پیچھے پیچھے رہا ۔ان کی چٹانوں کو توڑتا رہا ۔ لوگ یہ دیکھ کر ڈرتے رہے اور خوفزدہ ہو کر بھاگتے رہے ۔ یہاں تک کہ حضرت محمدتشریف لائے ۔انہوں نے اسے گردن سے پکڑ لیا ،جس سے وہ ایک مانوس اور پیار کرنے والے ہرن کی طرح رام ہو گیا ۔میں خواب سے بیدار ہو گئی ۔مجھ پر تھکان اور خوف نے غلبہ کر لیا۔ میں نے اس کی تعبیر دریافت کی تو بتلایا گیا ؛
’’آپ کے ہاں چار صاحبزادے اور ایک صاحبزادی متولد ہو ں گی ۔بیٹوں میں ایک غرق ہو جائے گا ،دوسرے کوموت آئے گی ۔تیسراجنگ میں قتل ہو جائے گا ، اُن کے بعد ایک باقی رہ جائے گا جو مخلوقِ خدا کا امام قرار پائے گا ۔وہ صاحبِ سیف ہو گا اور بہت بڑی فضیلت کا مالک ہو گا ۔نبیِ مبعوث کی بہت احسن طریقہ سے اطاعت کرے گا ‘‘سیدہ فرماتی ہیں ، ’’میں سوچتی رہی یہاں تک کہ تین لڑکے طالب،عقیل اور جعفر متولد ہوئے ۔پھر علی کے مقدس وجود کی امینہ بنی۔ یہاں تک کہ وہ مہینہ جس میں ان کی ولادت ہوئی میں نے خواب میں لوہے کا ایک ستون دیکھا جو میرے سر کے اوپر سے بلند ہوا ،پھر ہوا میں پھیل گیا اورآسمان تک پہنچ گیا ۔پھر میری طرف لوٹا ۔میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ مجھے بتایا گیا کہ کافروں کا قتل کرنے والا،مدد کا وعدہ پورا کرنے والا ، اِن کی جنگ بہت شدید ہو گی جس کے خوف سے لوگ ڈریں گے ۔وہ اللہ کے نبی کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور ان کے دشمنوں کے خلاف اللہ کی تائید ہے‘‘۔ اس کے بعد میرے ہاں علی تشریف لائے۔ ‘‘
لاَِنَّا سَیُوْفُ اللّٰہِ وَالْمَجْدُ کُلُّہْ
اِذَاکَانَ صَوْتَ الْقَوْمِ وَجِیَ الْغَمَاءِمْ
یقیناقوم کی مایوس کن صداؤں کی گھمبیرگھٹاؤں میں ہم شر ف ومجد والی خدائی تلواریں ہیں ۔نقیبِ مصطفٰی
خصائل وخصائص
سیدہ فاطمہ بنت اسد ؑ تاریخِ اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ذاتِ واحد پر ایمانِ کامل اور تقویٰ و پر ہیز گاری کے ساتھ انبیائے ماسبق اور ان پر نازل ہونے والی کتب و ہدایات پر یقین رکھتے ہوئے عمل پیرا تھیں۔آپ کے شوہر نامدار نقیبِ مصطفٰی سیدنا ابوطالب عبدمناف بن عبدالمطلب ،وارثِ انبیا ومرسلین تھے ۔سیدہ فاطمہ بنت اسد مستجاب الدعوٰۃ تھیں کہ آپ کے دہنِ اقدس سے نکلی ہر بات سریع الاثر اجابت رکھتی تھی ۔مدینہ منورہ مہاجرت کے دوران سیدہ فاطمہ بنت اسد ،سیدہ فاطمہ زہرا ؑ اور جناب فاطمہ بنت زبیرؓ ، سیدنا علی ابن ابی طالب ؑ کے ہمراہ تھیں ۔سارا رستہ اٹھتے بیٹھتے ،لیٹتے ذکر خدا کیا ۔منزلِ صحنان پہ پہنچے تو شب وروز قیام فرمایا ۔یہ ذکر وخلوصِ بنتِ اسد ،خالقِ کائنات کو پسند آیا کہ آیتِ قرآں بنا کر آپ کی قبولیت اور مقاماتِ اعلیٰ کاتذکرہ کیا؛
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَٰمِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثیٰج بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍٍج فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْریْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُج ثَوَاباً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِطوَاللّٰہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْثَّوَابِ ۃ آلِ عمران۱۹۵:۳ ’’ پس ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی اور فرمایا کہ ہم تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو اکارت نہیں کرتے مرد ہو یا عورت ،تم ایک دوسرے سے ہو، پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور شہر بدر کیے گئے اور انہوں نے ہماری راہ میں اذیتیں اٹھائیں اور (کفار سے )جنگ کی اور شہید ہوئے میں ان کی برائیوں سے ضرور درگزر کروں گا اور انہیں جنت کے ان باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔خدا کے ہاں یہ ان کے کیے کا بدلہ ہے اور اللہ کے ہاں تو اچھا ہی بدلہ ہے ‘‘
چار دیواری میں تمام زندگی گزار دینے کے باوجود آپ ایک مثالی خاتون تھیں۔انہوں نے اپنے شوہر ،اولاد اور سب سے بڑھ کر آنحضرت کا بے حد خیال رکھا ۔ہر محاذ پہ سیدنا ابو طالب ؑ کا مکمل ساتھ دیتے حضرت محمد مصطفٰی کی حفاظت و خدمت گزاری اور مادرانہ شفقت و محبت کا بے مثال مظا ہرہ فرمایا جس کے باعث آنحضرت ؐ آپ کے انتہائی ممنون اورسپاس گزار رہے۔آپ نبی کریم ؐکے دستِ اقدس پر بیعت فرمانے والی پہلی معظمہ ہیں ۔
لِیْ خَمْسَۃٌ ،آغوشِ پنجتن
سیدہ فاطمہ بنتِ اسد کی نورانی آغوش میں پنجتنِ پاک کی پرورش ہوئی ۔سیدنا محمد مصطفٰی ؐ،سیدنا علی المرتضٰی ؑ ،سیدہ فاطمہ زہراؑ ،سیدنا امام حسن مجتبیٰ ؑ اورسیدنا امام عالیمقام حسین شہید کربلا ؑ ،آپ کی آغوشِ عاطفت میں پروان چڑھے۔یہ اعزاز کامل آپ کی انفرادیت ہے اور کوئی دوسری خاتون
اس میں آپ کی شریک نہیں۔آپ مہاجراتِ مدینہ میں سے ہیں اورآپ نے حضور نبی کریم کی احادیث مبارکہ کا وسیع ذخیرہ اہل اسلام کو عطا فرمایا۔
سیرتِ فرزندہا از امہات
سیدنامحمدمصطفٰی ؐو علی مرتضٰی، ؑ آپ ہی کی تربیت کا ثمر تھے ۔آپ کے شوہرنامدار سیدناابو طالب ؑ اسلام کے عظیم ترین محافظِ اول اور ناصر رسولؐ تھے۔سیدہ فاطمہ بنتِ اسد نے حضور کی خدمت و محافظت میں حضرت ابو طالب کا ہاتھ بٹایا۔آقائے نامدار اوائلِ حیات ہی میں آغوشِ مادر سے جدا ہو گئے تھے مگر سیدہ فاطمہ بنت اسد ؑ کی صورت میں آپ کو ماں کی گود نصیب ہوئی ۔اسطرح آپ مامتا کے پیار سے محروم نہیں ہوئے۔سیدہ فاطمہ بنت اسد ؑ نے مسائل کی پرواہ کیے بغیر آپ کا بچپن ،لڑکپن اور جوانی میں ہر ممکن خیال رکھااور اس بات کو یقینی بنایا کہ آپ کی خدمت میں بہترین چیز پیش کی جائے۔ نفیس ترین لباس پہنایا اور مرغوب ترین غذا کھلائی ۔جہاں شوہر نے بیرونی دشمنوں سے حفاظت فرمائی وہیں زوجہ نے گھر میں پیار، اطمینان،غمگساری اور محافظت فرمائی۔ آپ ہی کے آنگن میں حضور ؐ ذہنی سکون اور آرام و اطمینان کا احساس پاتے تھے ۔خطرات کے پیشِ نظر سیدہ فاطمہ بنت اسد ؑ اپنی اولاد کو حضورؐ کے بستر پر سلا دیتی تھیں۔حضور کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کی خاطر کٹ مرنے کی طینت آپ ہی نے اولادِ ابو طالب ؑ کو عطا فرمائی ۔اسی حفاظتِ پیغمبراسلام اور دینِ متین پر آپ نے اپنے ہزاروں جگر پارے نچھاور کر دیے۔
کَانَ اَبُوْطَالِبْ اِذَا رَآی رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمْ اَحْیَاناً یَبْکِیْ وَیَقُوْلْ: اِذَا رَاَیْتُہُ ذَکَرْتُ اَخِیْ، وَکَانَ عَبْدُاللّٰہِ اَخَاہُ لاَِبَوَیْہِ وَکَانَ شَدِیْدُ الْحُبِّ وَالْحَنُوِّ عَلَیْہِ، وَکَذٰلِکَ کَانَ عَبْدُالْمُطَّلِبْ شَدِیْدَالْحُبِّ لَہُ، وَکَانَ اَبُوْطَالِبْ کَثِیْراً مَّا یَخَافَ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمْ الْبَیَاتْ اِذَا عَرَفَ مَضْجَعَہُ فَکَانَ یُقِیْمُہُ لَیْلاً مِّنْ مَّنَامِہٖ وَیَضْجِعْ ابْنُہُ عَلِیًّا مَکَانُہْ فَقَالَ لَہُ عَلِیْ لَیْلَۃً: یَا اَبَۃِ اِنِّیْ مَقْتُوْلٌ فَقَالَ لَہُ؛ ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوگاہے گاہے دیکھاکرتے اورگریہ زاری کرتے فرماتے کہ جب میںآپ کو دیکھتاہوں تو مجھے میرابھائی یاد آجاتا ہے اورعبداللہ آپ کے بھائی تھے جن
سے آپ بے پناہ محبت اور شفقتِ پدری رکھتے تھے اسی طرح عبدالمطلب بھی ان سے بے پناہ محبت فرماتے۔ابوطالب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بے حد متفکر رہتے تھے ۔جب بھی آپ کی جائے
استراحت کا پتہ چلتا تورات کو انہیں نیند سے بیدار کردیتے اور ان کی جگہ اپنے فرزند علی کوسلادیتے ۔ ایک رات علی نے اُن سے کہا ،’’باباجان !میں قتل کردیا جاؤں گا ‘‘توابوطالب نے اُن سے فرمایا؛
اِصْبِرَنْ یَا بُنَیَّ فَاالْصَّبْرُ اَحْجِیْ
کُلُّ حَیٍّ مُصِیْرَہُ لِشَعُوْبِ
میرے بیٹے!صبر واستقامت سے کام لینا کیونکہ گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیشہ صبر واستقامت ہی دانشمندی کی علامت ہے (اور جہاں تک موت کا تعلق ہے تو)ہر زندہ انسان کے قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں
قَدْ بَذَلْنَاکَ وَالْبَلاءُ شَدِیْدٌ
لِفِدَاءِ الْحَبِیْبِ وَابْنِ الْحَبِیْبِ
(میرے نورِنظر!) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے لیے یہ ایک انتہائی سخت آزمائش ہے لیکن یہ انتہائی سخت آزمائش بھی اس ذاتِ گرامی کے لیے ایثار وفداکاری کی خاطرہے جو خود محبوب بھی ہیں اور محبوب (سیدنا عبداللہ ؑ ) کے فرزندبھی
اَلْنَّبِیِّ الْاَغَرِّ ذِیْ الْحَسَبِ الْثَّاقِبِ
وَالْبَاعِ وَالْکَرِیْمِ الْنَّجِیْبِ
(یعنی )وہ نبیِ اکرم ؐجو روشن پیشانی والے ہیں ،جو نسب کے اعتبار سے ستاروں کی مانند درخشاں ہیں ،
فضل وشرف میں سب سے بلند ہیں ،صاحب جود وکرم ہیں اور نجیب وشریف ہیں
اِنْ تُصِبْکَ الْمَنُوْنَ فَالْنَّبْلُ تَتْرِیْ
فَمُصِیْبُ مِنْھَا وَغَیْرَ مُصِیْبِ
اگر آپ کو(اس ایثار وفداکاری کی راہ میں ) جان بھی دینا پڑے تو (کیا ہوا)موت کے تیر توچلتے ہی رہتے ہیں ۔
کسی کو لگ جاتا ہے اور کہیں چوک جاتا ہے
کُلُّ حَیٍّ وَاِنْ تَمَلَّی بعُمْرٍ
آخِذُ مِنْ مَذَاقِھَا بِنَصیبِ
(بہرحال یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ )جو شخص بھی زندگی گزار رہا ہے ،چاہے اس کی عمر کتنی ہی طولانی کیوں نہ ہو جائے (ایک نہ ایک دن تو ) اسے موت کا مزا چکھناہی ہے ۔(پھر کیوں نہ اسے حق کی راہ میں صرف کیا جائے )
کلامِ مقدس سن کرنہالِ نقیبِ مصطفٰی نے فرمایا؛
اَتَأمَرْنِیْ بِالْصَّبْرِ فِیْ نَصْرِ اَحْمَدٍ، وَوَاللّٰہِ مَا قُلْتَ الَّذِیْ قُلْتَ جَازِعاً
وَلٰکِنَّنِیْ اَحْبَبْتُ اَنْ تَرَّ نُصْرَتِیْ، وَتَعْلَمْ اِنِّیْ لَمْ اَزَلُّ لَکَ طَاءِعاً
سَاَسْعیٰ لِوَجْہِ اللّٰہِ فِیْ نَصْرِ اَحْمَدٍ، نَبِیِّ الْھُدیٰ الْمَحْمُوْدِ طِفْلاً وَیَافِعاً
باباجان!آپ نے مجھے نصرتِ احمدِ مجتبیٰ کا حکم دیا ہے ۔بخدا میں نے ہرگزبعالمِ خوف یہ نہیں کہاتھا بلکہ میں تو خود اپنی تمام تر توانائیاں نصرتِ احمدِ مجتبیٰ میں وقف کیے ہوں اور آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی آپ کے احکام سے روگرداں نہیں ہوا۔یقینامیں اپنی صغر سنی اور تمام تر کمزوریوں کے باوجودرضائے الٰہی کی خاطرصاحبِ مجد وافتخار ، منبعِ رشد و ہدایت نبیِ برحق احمد مجتبیٰ کی بھرپورنصرت شعاری میں قویٰ مجتمع رکھوں گا۔
جاری ہے۔۔۔۔ باقی اگلی قسط میں
بشکریہ:::::::: عالمی اخبار+ tvshia/urdu
Add new comment