اردو (مرحومہ)زبان کی یاد میں
اس وقت ملتِ پاکستان یہودوہنود کے چنگل میں آئی ہوئی ہے اور پاکستان کی نوجوان نسل کولادین اوراوباش بنانےکے لئے طاغوتی طاقتیں پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں۔ طاغوت اپنی سیاسی حکمتِ عملی،اقتصادی دبائو،پلورلازم کے نشے ،عسکری طاقت اور ثقافتی یلغارکے ذریعے ہماری آئندہ نسل کو دین و اخلاق اور اسلامی تہذیب و تمدّن سے عاری کرنے کا منصوبہ بنا چکاہے اور اس طاغوتی منصبوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کو اپنی علاقائی اور قومی زبانوں سے ناآشنا کیاجارہاہے۔
صاحبانِ علم و دانش بخوبی جانتے ہیں کہ زبان ہی وہ وسیلہ ہے جس کی بدولت نسل جدید کاقدیم سے رابطہ قائم ہوتاہے اور جس کے ذریعے علمی میراث،تہذیبی اقدار،ثقافتی فنون ،ادبی جواہر،سیاسی بصیرت اوردینی محبت نسل درنسل،سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔
اگر کسی قوم کو اس کی زبان سے محروم کردیاجائے تواس کی نسلِ نو اپنے ہی ملک میں بیگانی ہوجاتی ہے،اس کے بچے علم اپنے علمی ذخائر سے محروم ہوکرغیروں کی کتابوں کے محتاج ہوجاتے ہیں اور پھر غیر اپنی کتابوں اور اپنے نصاب تعلیم کے ذریعے اپنی ضرورت کے مطابق افراد تیار کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے کام لیتے ہیں۔
برّصغیر میں یہ تجربہ لارڈمیکالے انجام دے چکاہے اور اسی کایہ نتیجہ ہے کہ آج برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد عربی اور فارسی نہیں سمجھ سکتی ۔آج ہماری اکثریت دوسرے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے حالات سے اس قدر بے خبر ہے کہ انھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ استعماری طاقتیں کیاکیا ظلم کررہی ہیں۔چونکہ ہمارے لئے عربی اور فارسی کو اجنبی بنادیاگیاہے لہذا ہم جوکچھ بی بی سی،سی این این اور وائس آف جرمنی وغیرہ سے سنتے ہیں اسے ہی سچ سمجھتے ہیں۔
آج جب لبنان کے مسلمان ہمیں مدد کے لئے پکارتے ہیں تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں،آج جب کشمیر اورفلسطین کی بیوائیں مدد کے لئے چیختی ہیں تو ہمیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ ہماری ذمہ داری کیاہے،آج جب افغانستان اور عراق کے کھنڈرات میڈیاپر دکھائے جاتے ہیں توہم صرف خاموش تماشائی بن کردیکھتے رہتے ہیں ۔
اگر استعمار ہم سے عربی اور فارسی زبان نہ چھینتا تو یقیناً آج ہماری صورتحال اس سے مختلف ہوتی۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ جب تک برّصغیر میں عربی اور فارسی کادوردورہ تھا یہاں کے مسلمان ہمیشہ اسلام کے دفاع اور دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی مدد کے لئے کمربستہ رہتے تھے۔
عربی اور فارسی کے بعد اب استعمار نے اردو زبان کو تختہ مشق بنارکھاہے۔ہماراآج کا جوان ،شیخ سعدی،مولانا روم،محی الدین عربی ،ملا صدرالدین شیرازی اوربوعلی سینا سے پہلے ہی ناآشناہے جبکہ علامہ اقبال سے بھی اس کا رابطہ انتہائی سطحی ہے ،اب اردوزبان کوختم کرکے انگلش کے ذریعے پاکستانی جوانوں کو میکاویلی،جان لاک،روسو،مل ،سمتھ اور سٹالن کا فریفتہ بنانے کا کام کیاجارہاہے۔
آج پاکستان کی نسلِ نو کے علمی و فکری ارتقاء اوراخلاقی و دینی رشد کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی علوم کے علمی و فکری ذخائر کو اردو زبان میں منتقل کرکے اردوزبان کے اندر بھی استعمار کے خلاف مقاومت اور مزاحمت کی روح پھونکی جائے۔
ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی اور سربلندی کے پیچھے اسلامی علوم کی علمی و فکری طاقت پوشیدہ ہے۔حوزہ علمیہ قم نے اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک بڑی خدمت یہ کی ہے کہ استعمار کا مقابلہ کرنے کے لئے فارسی زبان کوعلمی و فکری لحاظ سے اہلِ ایران کے لئے بالخصوص اور عالمِ اسلام کے لئے بالعموم ایک مضبوط قلعہ بنادیاہے۔
اسلامی جمہوری ایران کے مقابلے میں استعمار اس لئے مسلسل پسپاہوتاجارہاہے چونکہ ایران کا نظامِ تعلیم فارسی زبان میں ہے جس کے باعث ایرانی نسل کا رابطہ اپنے مفکّرین ،علماء اور دانشمندوں سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہے اور ان کے مقابلے میں جو استعماری فکر بھی ایران میں مغربی میڈیایامغرب نوازمیڈیاکے ذریعے پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے ،ایرانی مفکرین اپنی زبان میں حقائق کا تجزیہ و تحلیل کرکے لوگوں کواس سے آگاہ کردیتے ہیں۔
چنانچہ زبان اور میڈیاکے ذریعے استعمار علمی و فکری بحران پیدا کر کے ایران میں داخل ہونے میں ناکام ہوچکاہے۔ہماری پاکستان کے تمام اربابِ علم و دانش سے یہ گزارش ہے کہ وہ اردو زبان کی حفاظت کے لئے اپنے قلم اٹھائیں اور اپنی زبان کھولیں۔
یہ صاحبان علم و شعور کی دینی وملّی ذمہ داری ہے کہ وہ استعمارکی سازشوں اورمستقبل میں استعمارکی طرف سے ممکنہ خطرات کامقابلہ کرنے کے لئے جہاں پر اپنے حکمرانوں کو مفید مشورے دیں وہیں پر اپنی ملت کوبھی شعوری طور پر استعمار کے مقابلے کے لئے تیارکریں۔
آئیے ایک فلاحی ریاست کی تشکیل کے لئے اور اپنے دینی و ملی تشخص کے بقاء کی خاطرتمام گروہوں اور تعصبات سے بالاتر ہوکر جدوجہد کرنے کاعزم و عہدکرتے ہیں۔اب وہ وقت آپہنچاہے کہ پاکستان بنانے والے پاکستان بچانے کی فکر بھی کریں۔
نذر حافی
Add new comment