وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ کی آیت میں اولی الامر سے مراد کون ہیں؟

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا

یہاں اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے مؤمنین کو اللہ، اس کے رسول(ص) اور صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا جارہا ہے۔ یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اولی الامر سے مراد کون ہیں؟ تو اس سلسلے میں ہم سلسلہ وار کچھ دلائل پر روشنی ڈالتے ہیں؛

ظاہر آیت پر نظر؛

اگر اس آیت کے ظاہر پر نظر ڈالیں تو ہمیں کچھ باتیں نظر آتی ہیں؛

1) اولی الامر کا عطف ٭اطیعو الرّسول٭ پر ہے، یعنی اولی الامر کی اطاعت ویسی ہے جیسی رسول کی ہے۔

دوسرے الفاظ میں مزید واضح کروں تو اگر اولی الامر کی اطاعت رسول کی اطاعت سے مختلف (مشروط) ہوتی تو تھر یہاں اطیعو کی تکرار لازمی تھی۔ چونکہ اولی الامر کے لئے اطیعو کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تو اولی الامر کی اطاعت درحقیقت رسول کی اطاعت کے برابر ہے اور یہ حقیقت اس وقت واضح نہیں ہو سکتی جب تک اولی الامر رسول کی طرح معصوم نہ ہو۔

2) جو لوگ منکرین عصمت ہیں وہ اس آیت میں جہاں اختلاف اور تنازعے کی بات آرہی ہے اس تنازعے کو ہمارے اور اولی الامر کے درمیان اختلاف کی طرف پلٹا دیتے ہیں۔ یعنی یہ کہتے ہیں کہ اولی الامر سے اختلاف ممکن ہے تو یہ ثابت ہوا کہ یہ معصوم نہیں۔ جبکہ پہلے پوائنٹ میں ہم کہہ چکے ہیں کہ اولی الامر اور رسول کی اطاعت یکساں ہے۔ اس یکسانیت کی صورت میں یہ لامحالہ اولی الامر بھی معصوم ہو گا تبھی غیر مشروط اطاعت کا حکم ہے۔

اگر ظاہر قرآن پر نظر دوڑائیں تو واضح ہوتا ہے کہ "تنازعتم" یعنی تنازعے کا اشارہ ان کی طرف ہے جن کو "اطیعو" کہہ کر اطاعت کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر ہم "تنازعتم" میں اولی الامر کو مان لیں تو پھر "اطیعو" میں اولی الامر بھی شامل ہیں۔ اس صورت میں خود اولی الامر کو اپنی اطاعت کا حکم دینا بیکار اور عبث ہے۔

دیگر قرآن آیات کی رو سے اولی الامر کے معنی

اب ہم دیگر قرآنی آیات کی رو سے "اولی الامر" کی تشریح کرتے ہیں۔ اس روش کو بھی جناب شرف الدّین صاحب نے استعمال کیا ہے۔ شرف الدّین صاحب فرماتے ہیں کہ اولی الامر یہاں متشابہ ہے جس کو سمجھنے کے لئے ہمیں دیگر محکمات کا سہارا لینا ہے، پھر وہ ان آیات کو لاتے ہیں جن میں کچھ خاص کوالٹی والے لوگوں کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو ظالم نہ ہوں، جھوٹے نہ ہوں اور منافق نہ ہوں۔

لیکن شرف الدّین صاحب ایک آیت کو بھول گئے ہیں جس کی طرف انشاء اللہ اشارہ کریں گے۔ اب ہم ایک ایک کر کے ان آیات کو پیش کرتے ہیں تاکہ اولی الامر کا مفہوم سمجھ آئے؛

وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا
اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کرو اور ان کی اذیت رسانی پر توجہ نہ دیا کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور ضمانت کے لیے اللہ کافی ہے

سوره : الاحزاب آیه : 48

اس آیت کی رو سے کافروں اور منافقین کی اطاعت جائز نہیں ہے، لہذا "اولی الام" کبھی کافر اور منافق نہیں ہو سکتا۔ اس سے ان لوگوں کی رد ہوتی ہے جو ہر طرح کے صاحبان امر کی اطاعت کو ضروری سمجھتے ہیں۔

فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ

جھٹلانے والوں کی اطاعت مت کرو

سوره : القلم آیه : 8

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ

اور آپ کسی بھی زیادہ قسمیں کھانے والے، بے وقار شخص کی اطاعت نہ کریں

سوره : القلم آیه : 10

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیاہے اور جو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے

سوره : الكهف آیه : 28

اس آیت سے یہ واضح ہے کہ ان شخص کی اطاعت جائز نہیں جو اپنے خواہشات کی پیروی کرتا ہو۔

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا

لہٰذا آپ اپنے رب کے حکم پر صبر کریں اور ان میں سے کسی گنہگار یا کافر کی اطاعت نہ کریں

سوره : الانسان آیه : 24

اس آیت سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کسی گنہگار اور کافر کی بھی اطاعت جائز نہیں۔

جب ایک گناہ کرنے والے کی اطاعت جائز نہیں ہے تو ثابت یہ ہوا کہ اولی الامر کو ایسا ہونا چاھئے جو گناہ نہ کرتا ہو۔ پس اولی الامر کو معصوم ہی ہونا چاھئے۔

اس آیت کی رو سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ اولی الامر معصوم ہوتا ہے اور جب اولی الامر معصوم ہے تو اولی الامر سے تنازعہ ممکن نہیں جس طرح رسول(ص) سے تنازعہ ممکن نہیں۔

البتہ اگر لوگوں کا آپس میں اختلاف اور تنازعہ ہو جائے تو پھر اولی الامر قرآن و سنّت کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

یہی وہ آیت ہے جس کو شرف الدّین صاحب اپنے دلائل میں کھا جاتے ہیں اور پیش نہیں کرتے۔

آئمہ(ع) سے منقول صحیح احادیث میں بھی ہماری تائید ہوتی ہے۔ ان احادیث کو ہم جداگانہ تحریر میں نقل کریں گے۔

والسّلام علی من اتبع الھدی

العبد: ابوزین الہاشمی

tvshia.com/urdu

Add new comment