ہمارے زمانے کے خوارج
ہمارے زمانے کے خوارج
جی ہاں عقائد کے اعتبار سے ان دونوں فرقوں میں کوئی فرق نہیں آپ ان دونوں فرقوں کی شباہت ملاحظہ فرمایئے اور دل کھول کر تحقیق کرلیجئے۔
الف: تمام مسلمانوں کے برخلاف خوارج نے یہ کہا ہے کہ: گناہ کبیرہ کرنے والا کافر ہے۔
اسی طرح وہابیوں نے بعض کاموں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیا ہے۔ ]مزید تفصیل کے لئے محمد بن عبد الوہاب کی کشف الشبہات اور صنعانی کی تطہیر الاعتقاد ملاحظہ فرمایئے\[
ب : جس اسلامی ملک اور علاقہ میں کسی گناہ کبیرہ کا رواج ہو جائے ،خوارج اس کو دار کفر اور دار حرب قرار دیتے ہیں اور رسولخداۖ نے کفار کے ساتھ جو سلوک کیا تھا یہ بھی ان کے ساتھ اسی سلوک کو جائز سمجھتے ہیں یعنی ان کی جان و مال کو جائز قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح اگر کسی علاقہ کے مسلمان پیغمبر اکرۖم یا دوسرے اولیائے الہٰی کی قبروں کی زیارت کو جائز سمجھیں اور ان سے شفاعت طلب کریں تو وہابی بھی ان کو کافر کہتے ہیں چاہے وہ اپنے زمانہ کے سب سے صالح اور عابد انسان ہی کیوں نہ ہوں۔
گذشتہ دونوں صورتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہابیوں کا عقیدہ خوارج کے عقیدہ سے بھی بدتر ہے کیونکہ خوارج اس گناہ کو معیار قرار دیتے ہیں جو تمام مسلمانوں کی نظر میں گناہ کبیرہ ہے لیکن وہابی ان باتوں کی بنا پر دوسروں کو کافر اور ایسے اعمال کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جو اصلاً گناہ نہیں ہیں بلکہ ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے اور( جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے) گذشتہ صالحین جیسے صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والے لوگوں کا بھی یہی عمل رہا ہے۔
ج: وہابیوں اور خوارج میں ایک شباہت یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہی دینی مسائل میں بیحد شدت پسند، ہٹ دھرم، متعصب مزاج اور عقل و شعور سے عاری ہوتے ہیں۔
جب خوارج نے قرآن مجید کی اس آیت''اِنِ الحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ'' حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ ]سورۂ انعام، آیت٥٧\[کو دیکھاتو انہوں نے کہہ دیا: جو شخص غیر خدا کو حکومت اور فیصلہ کا اختیار دے وہ مشرک ہے۔
مذکورہ آیت کو انہوں نے اپنا نعرہ ہی بنا ڈالا اوراس حق کلمے کا ناحق استعمال کرنے لگے. ان کی یہ حرکت ایک سراسر جہالت و نادانی یا ہٹ دھرمی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی کیونکہ اختلافات پیدا ہوجانے کی صورت میں فیصلہ کرنا یا کرانا قرآن و عقل اور سنت پیغمبرۖ سے ثابت ہے اور اس بارے میں رسول اسلامۖ اور آپ کے صحابہ کی واضح سیرت موجود ہے۔
وہابیوں نے بھی جب ان آیتوں کو دیکھا ''اِیَّاکَ نَعبُدُ وَ اِیَّاکَ نستعین'' ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں (سورۂ فاتحہ، آیت٤) ''مَن ذَا الَّذِی یَشفَعُ عِندَہُ اِلَّا بِاِذنِہِ'' کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟(بقرہ، آیت٢٥٥) ''وَلایَشفَعُونَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ'' اور فرشتے کسی کی سفار ش بھی نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اسکو پسند کرے(سورۂ انبیائ، آیت ٢٨) تو یہ عقیدہ بنا لیا کہ جو شخص پیغمبر اکرۖم یا اولیائے الہٰی سے شفاعت طلب کرے وہ مشرک ہے اور جو شخص پیغمبر اکرۖم کی زیارت کرے اور آپ سے شفاعت طلب کرے اس نے آپ کی عبادت کی ہے اور آپ کو خدا قرار دے دیا ہے. مختصر یہ کہ وہابیوں کا نعرہ یہ ہوگیا ''لامعبود اِلا اللّٰہ، و لا شفاعة الا لِلّٰہ'' اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور شفاعت کاحق صرف خداکو ہے۔ یہ وہ حق کلمہ ہے جس سے وہ غلط معنیٰ مراد لیتے ہیں،جو عجیب و غریب جہالت اور ہٹ دھرمی کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے جب کہ صحابہ اور تابعین کی سیرت سے ان چیزوں کا جواز ثابت ہے (جس کی طرف پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے)
د: ابن تیمیہ کا بیان ہے: ''خوارج کا عقیدہ وہ پہلی بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ،اس عقیدہ کے پیرو مسلمانوں کو کافر اور ان کا خون بہانا حلال سمجھتے تھے۔ ''] ابن تیمیہ کے فتووں کامجموعہ، ج١٣، ص٢٠\[
وہابیوں کی بدعت کی بھی بالکل یہی حالت ہے اور شائدیہ وہ آخری بدعت ہے جو اسلام میں ظاہر ہوئی ہے۔
ھ: وہ صحیح احادیث شریفہ جن میں خوارج اوران کے خروج کا تذکرہ ہے ان میں سے بعض وہابیت پر بھی صادق آتی ہیں... جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں پیغمبر اکرۖم سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ''یخرج اناس من قبل المشرق یقرأون القرآن لایجاوز تراقیہم یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرمیة سیماہم التحلیق'' کچھ لوگ مشرق کی طرف سے خروج کریں گے جو قرآن پڑھتے ہونگے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے اس طرح باہر نکل جائیں گے جیسے کمان سے تیر نکل جاتا ہے، ان کی پہچان سرمنڈانا ہے۔ ]صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب ٥٧، ح٧١٢٣\[
قسطلانی نے اس حدیث کی شرح میں کہا ہے: مشرق سے مراد مدینہ کا مشرقی علاقہ ہے. جیسے نجد اور اس کے بعد کا علاقہ۔]ارشاد الساری، ج١٥، ص٦٧٦، مطبوعہ دار الفکر، ١٤١٠ھ\[
نجد وہی علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے وہابیت وجود میں آئی اور یہیں سے اس نے سر ابھارا ہے. نیز سر منڈانا وہابیوں کی پہچان تھی اور یہ لوگ اپنے پیرووں کو اس کا حکم دیتے تھے، حتی کہ عورتوں کو بھی یہی حکم دیتے تھے، ان سے پہلے کسی بھی بدعتی فرقہ کی یہ پہچان نہیں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہابیت کی ابتدا ہوتے ہی بعض علماء نے یہ کہا تھا ''کہ وہابیت کے ابطال کے لئے کتاب لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان کے ا بطال کے لئے یہ قول پیغمبرۖ ]ان کی پہچان سر منڈانا ہے\[ ہی کافی ہے'' کیونکہ ان کے علاوہ دین میں بدعت پیدا کرنے والے کسی بھی فرقہ کے یہاں یہ پہچان نہیں دکھائی دیتی۔ ]فتنة الوہابیہ، مولف: زینی دحلان، ص١٩\[
و: خوارج کے بارے میں پیغمبر اکرۖم کی یہ حدیث ہے: ''... یقتلون اہل الاسلام و یدعون اہل الاوثان'' مسلمانوں کو قتل کریں گے اور کافروں کو چھوڑ دیں گے'' ]ابن تیمیہ نے فتووں کے مجموعے میںج١٣، ص٣٢ پر اس کا تذکرہ کیا ہے\[
بالکل یہی حال وہابیوں کا بھی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اہل قبلہ پر ہی حملے کئے ہیں اور کبھی بھی کفار یا مشرکین سے کوئی جنگ نہیں کی بلکہ ان کی کتابیں جہاں اہل قبلہ سے جنگ و جدال کے ضروری ہونے کے بارے میں بھری پڑی ہیں وہاں کفار سے جہاد کا کوئی تذکرہ نہیں ہے!
ز: امام بخاری نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے خوارج کے بارے میں یہ کہا ہے: ''جو آیتیں کفار کے بارے میں نازل ہوئی ہیں خوارج نے انہیں مومنین سے متعلق قرار دے دیا۔'' ]صحیح بخاری کتاب استتابة المرتدین باب ٥\[
ابن عباس سے نقل ہواہے: ''خوارج کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اہل کتاب اور مشرکین (کفار) کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تاویل اہل قبلہ کے بارے میں کی ہے اور وہ ان آیتوں کی معرفت سے بے بہرہ رہ گئے جس کے نتیجہ میں انہوں نے لوگوں کا مال لوٹا اور ان کا خون خرابہ کیا ''۔
یہی وہابیوں کا حال ہے کہ وہ بت پرستوں کے بارے میں نازل ہونے والی آیتوں کا مصداق مومنین کرام کو قرار دیتے ہیں. اس سلسلہ میں ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
Add new comment