مشہد مقدس، عوام کے عظیم الشان اجتماع سے رہبر انقلاب اسلامی کے تاریخی خطاب کا مکمل متن
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہجری شمسی سال 1392 کے آغاز کی مناسبت سے یکم فروردین مطابق 21 مارچ کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین کے عظیم الشان اجتماع سے انتہائی اہم خطاب میں گزشتہ سال 1391 ہجری شمسی کے دوران دشمنوں کی جانب سے وسیع پروپیگنڈے اور خلل اندازی کے باوجود ملت ایران کو حاصل ہونے والی عظیم بنیادی کامیابیوں اور پیشرفت کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکا سے مذاکرات کے مسئلے میں کلیدی نکات بیان کئے اور اقتصادی جہاد بالخصوص تیل کی آمدنی پر انحصار ختم کرنے، دراز مدتی اقتصادی پالیسیوں پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور دشمن کی سازش کے اجراء سے پہلے ہی دانشمندانہ تدارک کرنے کے لوازمات اور شرائط بیان کئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سیاسی جہاد کے سلسلے میں مجوزہ صدارتی انتخابات کا ذکر کیا اور اسے سیاسی جہاد کا مظہر قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں اسلامی جمہوری نطام پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت ہونی چاہئے اور اللہ تعالی کی عنایتوں اور ملت ایران کی بلند ہمتی سے انتخابات میں وسیع شراکت ہونی چاہئے کیونکہ صدارتی انتخابات کے اثرات ملک کے تمام بنیادی امور پر مرتب ہوتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کو سال نو کی مبارکباد دیتے ہوئے گزشتہ سال کی کامیابیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے اور اس وسیع جائزے کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس طرح انسان کو انفرادی اور شخصی مسائل میں دائمی جائزے اور محاسبے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح امور مملکت میں بھی قومی جائزہ اور محاسبہ بہت اہم کام ہوتا ہے، کیونکہ اس سے عبرت مل سکتی ہے اور مستقبل کے لئے اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی کارکردگی اور کامیابیوں پر مختلف ممالک کے عوام اور دانشور طبقوں کی خصوصی توجہ، اس کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوشش، اسی طرح ایران کی بڑی کامیابیوں اور ممکنہ خامیوں پر دشمنوں کی تیز نگاہوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس حقیقت کے مد نظر ملت ایران کو چاہئے کہ وسیع النظری اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اور ملکی حالات کی صحیح تصویر اس کے ذہن میں واضح ہو۔ قائد انقلاب اسلامی نے صرف گرانی، بعض پیداواری یونٹوں میں پیداوار کی کمی اور اقتصادی دباؤ جیسے مسائل کو بنیاد بناکر لئے جانے والے جائزے کو نادرست قرار دیا اور فرمایا کہ صحیح طرز فکر یہ ہے کہ چیلنجوں سے بھرے ہوئے عظیم میدان میں ملت ایران کی مشکلات اور خامیوں کے ساتھ ہی اس کی عظیم کامیابیاں بھی مد نظر رکھی جائیں، قائد انقلاب اسلامی کے بقول اس طرح انجام پانے والے وسیع جائزے کے نتیجے میں ملت ایران کی سربلندی اور ممتاز حیثیت کا اندازہ ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیا جس میں وہ آشکارا کہتے ہیں کہ پابندیاں ملت ایران کی کمر توڑ دینے کے لئے عائد کی گئی ہیں، آپ نے فرمایا کہ مقابلے کے اس میدان میں ملت ایران نے بہترین دانشمندی، توانائی اور صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پابندیوں کو مواقع میں تبدیل کیا ہے اور کھیل کے میدان کے کسی چیمپین کی طرح سخت اجتماعی محنت اور سعی و کوشش کے بعد میدان سے فتحیاب ہوکر نکلے گی اور سب لوگ عش عش کر اٹھیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر ملک اور داخلی حالات کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یقینا اس عظیم میدان کی فاتح ملت ایران ہی نظر آئے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ چیلنجوں سے بھرے اس میدان میں ملت ایران کی کامیابیوں کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک یہاں تک کہ ایران کے بدخواہ ملکوں کے اندر بھی سیاسی شخصیات اور دانشور طبقے سے تعلق رکھنے والے باریک بیں افراد بھی ایران کی تعریف کر رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی ترقی و پیشرفت سے ہمیشہ ناراض رہنے والے گروہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ گروہ در اصل ملت ایران کا اصلی دشمن ہے جو ملت ایران کی پیشرفت کے سلسلے کو روکنے کے لئے دو طریقے اختیار کرتا ہے؛ ایک ہے عملی رکاوٹیں پیدا کرنا جیسے پابندیاں، دھمکیاں اور حکام، مفکرین اور عوام کو فروعی اور غیر ترجیحی کاموں میں الجھا دینا اور دوسرے ملت ایران کی پیشرفت پر پردہ ڈالنے اور اس کے بعض نقائص کے بارے میں مبالغہ آرائی کے لئے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کرنا۔ آپ نے سنہ 1391 ہجری شمسی کو اس زاوئے سے ملت ایران کے بدخواہوں کا بہت مصروف سال قرار دیا اور فرمایا کہ انہوں نے ملت ایران کی کمر توڑ دینے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کو اپنا ہدف قرار دیا تھا، اب اگر ملت ایران اتنے دباؤ کے بعد بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی رہے اور روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرے تو دشمنوں کی آبرو چلی جائیگی۔ اس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دو بنیادی سوال اٹھائے۔ 1؛ ملت ایران کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز کہاں ہے؟ 2؛ اس قوم کے دشمن کون لوگ ہیں؟
قائد انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ملت ایران کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز امریکا ہے اور آج چونتیس سال کا عرضہ گزر جانے کے بعد جب بھی دشمن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو ایرانی عوام کے ذہن فوری طور پر امریکا کی جانب مڑ جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام کو چاہئے کہ اس مسئلے پر غور کریں اور خود سے یہ سوال کریں کہ دشمن کا لفظ سن کر ایرانی عوام کے ذہن میں امریکا کا نام کیوں آتا ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے دشمنوں کے سلسلے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ امریکا کے علاوہ جو سازشوں کا مرکز اور سب سے بڑا دشمن ہے، کچھ اور بھی دشمن موجود ہیں جن میں ایک خبیث برطانوی حکومت ہے تاہم اس کی اپنی علاحدہ کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ امریکا کے پیچھے پیجھے لگی رہتی ہے اور امریکی حکومت کا ہاتھ بٹانے کا کام کرتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں ایک نکتہ فرانسیسی حکومت کے بھی گوشزد کیا، آپ نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو فرانسیسی عوام اور حکومت سے کوئی مشکل نہیں ہے لیکن حالیہ برسوں میں فرانس کی حکومت نے خاص طور پر سارکوزی کے زمانے سے ملت ایران کے سلسلے میں آشکارا طور پر معاندانہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے اور یہ غلط پالیسی بدستور جاری ہے جو غیر دانشمندانہ کام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے صیہونی حکومت کے سلسلے میں فرمایا کہ غاصب صیہونی حکومت کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ ملت ایران کے دشمنوں میں اس کا شمار کیا جائے۔ ایران پر فوجی حملے سے متعلق بعض صیہونی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر انہوں نے حماقت کی تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران کے ان چند دشمنوں کے لئے امریکی ہمیشہ غلط طریقے سے عالمی برادری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں حالانکہ عالمی برادری اسلامی مملکت ایران اور ایرانی عوام سے کوئی دشمنی نہیں رکھتی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ان چند دشمنوں کا ذکر کرنے کے بعد سنہ 1391 ہجری شمسی مطابق مارچ 2012 الی مارچ 2013 عیسوی، کے دوران ان کے معاندانہ اقدامات کی تشریح کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایرانی عوام سے ظاہری طور پر اظہار دوستی کے ساتھ ہی امریکیوں نے آغاز سال سے ہی ایران پر تیل اور بینکنگ شعبے میں شدید اور وسیع تر پابندیاں عائد کر دیں اور ان کا یہ اصرار ہے کہ ان معاندانہ اقدامات کے باوجود بھی انہیں دشمن نہ سمجھا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس پالیسی کو مخملیں دستانے میں کرخت آہنی ہاتھ والی پالیسی سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ انہوں نے اس ظاہری فریب دہی کے ساتھ ہی ایک منصوبہ بند کارروائی کا آغاز کر دیا اور اس امید میں لگے رہے کہ چند ماہ بعد ملت ایران ان کی دھونس کے سامنے جھک جائیگی اور اپنی ترقی پذیر علمی سرگرمیاں روک دیگی لیکن عملی طور پر جو کچھ پیش آیا وہ بدخواہوں کے اندازے اور خواہش کے برخلاف تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پابندیوں کے اثرات اور اس سلسلے میں بعض ایرانی حکام کے بیانوں پر امریکی حکام کے اظہار مسرت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک پابندیوں سے اثر تو پڑا ہے لیکن اس کا وہ اثر نہیں ہوا جس کی آس انہیں تھے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر پابندیوں کا اثر ہوا ہے تو اس کی وجہ ملکی معیشت کا تیل کی آمدنی پر انحصار ہے، لہذا اب ضروری ہے کہ آئندہ حکومت تیل کی آمدنی سے بے نیاز معیشت کو اپنا بنیادی منصوبہ اور اہم ترین ترجیح قرار دے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں چند سال قبل کے اپنے اس خطاب کا حوالہ دیا جس میں آپ نے ملک کو اس مقام پر پہنچانے پر تاکید کی تھی جہاں تیل کے کنوؤں کو بند کرکے تیل کی آمدنی کے بغیر ملک کو چلانا ممکن ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اس زمانے میں بعض حضرات جو بقول خویش ٹکنوکریٹ تھے اس بات پر معنی خیز ہنسی ہنستے تھے اور فرماتے تھے کہ کیا یہ محال چیز ممکن ہو سکتی ہے؟ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تیل کی آمدنی سے بے نیاز معیشت حد امکان میں ہے لیکن اس کے لئے درست منصوبہ بندی اور اس کے اجراء کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سنہ 1391 ہجری شمسی کے دوران ملت ایران کے خلاف اقتصادی میدان میں دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کی تشریح کرنے کے بعد سیاسی پلیٹ فارم پر ان کی ریشہ دوانیوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے فرمایا کہ سیاسی میدان میں ملت ایران کے بدخواہوں کی ایک سازش اسلامی نطام کو تنہا کرنے کی کوشش تھی لیکن تہران میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کے انعقاد، اجلاس میں ناوابستہ ممالک کے سربراہوں اور اعلی رتبہ حکام کی شرکت اور سائنس و ٹکنالوجی اور معیشت کے شعبے میں ایران کی حیرت انگیز ترقی کی چار سو تعریفوں سے دشمن کی یہ سازش بری طرح ناکام ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے اندر تشویش و تامل پیدا کرنے اور انہیں اسلامی نطام سے دور کرنے کی کوششوں کو سیاسی میدان میں دشمنوں کی دوسری بڑی سازش قرار دیا اور فرمایا کہ بائیس بہمن (جشن انقلاب کی تاریخ) کے جلوسوں میں عوام کی پرجوش شرکت اور اسلام و اسلامی نظام سے ان کا والہانہ اظہار عقیدت دشمنوں کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سیکورٹی کے شعبے میں بھی دشمنوں کی ناکامیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائی و عالمی اثر و نفوذ میں کمی لانے کی ناکام کوششوں کو دیگر معاندانہ اقدامات قرار دیا اور فرمایا کہ آٹھ روزہ جنگ غزہ میں فلسطینیوں کے لئے ایران کی مقتدرانہ پشت پناہی اور فلسطینی مجاہدین کے سامنے صیہونی حکومت کی شرمناک شکست اور علاقائی مسائل کے ایران کی مدد کے بغیر ناقابل حل ہونے کے دشمنوں کے اعترافات، اس میدان میں دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی کی دلیلیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تمام تر دباؤ، دشمنیاں اور خاص طور پر پابندیاں اپنے منفی اثرات کے ساتھ ہی مثبت نتائج کا باعث بھی بنی ہیں اور ان مثبت نتائج میں سب سے اہم ملت ایران کی اندرونی صلاحیتوں اور توانائیوں کا حرکت میں آ جانا اور گزشتہ سال کے دوران عظیم اور بنیادی کاموں کی انجام دہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس کے بعد سنہ 1391 ہجری شمسی کے دوران پابندیوں کے باوجود حاصل ہونے والی کامیابیوں اور انجام پانے والے عظیم کاموں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تیل اور یورینیم کے نئے ذخائر کی دریافت، بجلی گھروں اور ریفائنریوں کی توسیع، شاہراہوں اور انرجی کے شعبے میں بنیادی کام، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں اہم کامیابیاں منجملہ ناہید سیٹیلائٹ کی خلا میں ترسیل اور زندہ مخلوق کے ساتھ پیشگام راکٹ کی خلا میں لانچنگ، جدید ترین جنگی طیاروں کی ساخت، انتہائی اہم دواؤں کی پیداوار، نینو ٹکنالوجی کے اعتبار سے علاقائی سطح پر حاصل ہونے والا پہلا مقام، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نمایاں مقام، سائنسی ترقی کی رفتار میں اضافہ، طلبہ و طالبات کی تعداد میں اضافہ، اسٹم سیلز، نیوکلیائی ٹکنالوجی اور جدید انرجی کے شعبے میں اہم کامیابیاں، اس سال کے اندر ایرانی سائنسدانوں اور نوجوانوں کی حیرت انگیز ترقی ہے جس میں پابندیوں کے ذریعے ملت ایران کی کمر توڑ دینے کی پیشین گوئی کی جا رہی تھی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس سال کی بڑی کامیابیوں کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ کسی قوم کو دشمن پابندیوں اور دباؤ سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ 1391 ہجری شمسی کا سال در حقیقت مشق کا سال تھا جس میں ایرانی قوم اپنی توانائیوں اور کامیابیوں کا مظاہرہ کرکے سرخرو ہوئی، البتہ کچھ نقائص بھی نظر آئے۔ آپ نے ملکی معیشت کے نقائص پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملکی معیشت کا تیل پر انحصار، دور رس اقتصادی پالیسیوں سے بے اعتنائی اور روز مرہ کی پالیسیوں میں الجھ جانا، اقتصادی نقائص تھے جس پر ملک کے حکام اور خاص طور پر آئندہ حکومت توجہ دے اور یہ یاد رکھے کہ دراز مدتی، روشن، منصوبہ بند اور تدوین شدہ اقتصادی پالیسی ملک کی اہم ضرورت ہے۔ آپ نے سنہ 1391 ہجری شمسی کے دوران ملک کے ڈھانچے کی مضبوطی کے مظاہرے کو ایک اہم سبق قرار دیا اور فرمایا کہ ملک کا ڈھانچہ جتنا مستحکم ہوگا اور حکام باہمی اتحاد و ہمدلی کے ساتھ جتنی مدبرانہ کوششیں کریں گے دشمنوں کے معاندانہ اقدامات کے اثرات اتنے ہی محدود ہو جائیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اقتصاد کے علاوہ امن و سلامتی، عوام کی حفاظت، علمی ترقی، قومی خود مختاری و قومی وقار بھی ملک کے اہم ترین مسائل میں شامل ہیں اور ملت ایران نے گزشتہ سال کے اندر اپنی کامیابیوں سے ثابت کر دیا کہ امریکا اور بڑی طاقتوں سے وابستہ نہ ہونا پسماندگی کا باعث نہیں بلکہ ترقی کا راستہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سنہ 1391 کے حالات کا کلی جائزہ پیش کرتے ہوئے گزشتہ سال کے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے تعلق سے دو نکات پر توجہ کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ضمن میں دشمن کی سازشوں کو پہلے ہی بھانپ لینے اور ان کے سد باب کے لئے دانشمندانہ اقدام کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ نیوکلیائی میڈیسن تیار کرنے کے مقصد کے تحت تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے لئے بیس فیصدی کے گریڈ تک افزودہ یورینیم تیار کر لینے کا نوجوان ایرانی سائنسدانوں کا اقدام، دانشمندانہ پیشگی آمادگی کا ایک نمونہ ہے اور یہی روش ملک کے دیگر اہم مسائل کے سلسلے میں بھی اختیار کی جانی چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے دوسرے نکتے کے طور پر براہ راست دوطرفہ مذاکرات کی امریکی حکام کی مکرر پیشکش کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام کچھ عرصے سے مختلف ذرائع سے پیغام دے رہے ہیں کہ ایٹمی مسئلے میں ایران سے علاحدہ طور پر دو طرفہ مذاکرات کے خواہشمند ہیں لیکن ماضی کے تجربات کی بنا پر میں اس قسم کے مذاکرات کے سلسلے میں زیادہ پرامید نہیں ہوں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں کے نزدیک مذاکرات کا مطلب منطقی راہ حل تک پہنچنے کے لئے انجام پانے والی گفت و شنید نہیں ہے، امریکیوں کی نظر میں مذاکرات کا مطلب ہے مد مقابل فریق کو اپنی بات تسلیم کرنے پر مجبور کر دینا، بنابریں ہم اس طرح کے مذاکرات کو مسلط کردہ گفتگو مانتے ہیں اور ایران زور زبردستی کے سامنے جھکنے والا ملک نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ میں اس کی مخالفت بھی نہیں کرتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں امریکیوں کے لئے چند باتیں دو ٹوک انداز میں کہیں۔ آپ نے سب سے پہلے امریکیوں کی طرف سے بار بار بھیجے جانے والے اس پیغام کا ذکر کیا کہ وہ ایران کی حکومت تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہمیں اسلامی جمہوری نظام کو بدل دینے کے آپ کے ارادے سے کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ جب آپ کے ذہن میں یہ ارادہ تھا اور آپ صریحی طور پر اس کا اظہار بھی کرتے تھے اس وقت بھی آپ کچھ نہیں کر پائے اور آئندہ بھی آپ کچھ نہیں کر پائیں گے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے سلسلے میں دوسرے نکتے کا ذکر کرتے ہوئے امریکی حکام کے اس اصرار کا حوالہ دیا کہ وہ مذاکرات کی پیشکش میں پوری صداقت برت رہے ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں لیکن امریکی کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی اس بات پر یقین نہیں ہے تو ان حالات میں ہم مذاکرات کی پیشکش میں صداقت برتے جانے کے امریکیوں کے دعوے کو کیوں تسلیم کر لیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مذاکرات کی پیشکش امریکیوں کی ایک چال ہے جس کا مقصد عالمی رائے عامہ اور ایران کے عوام کو دھوکا دینا ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو امریکی عملی طور پر اس کا ثبوت پیش کریں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسی ضمن میں امریکیوں کی ایک تشہیراتی چال کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بعض مواقع پر کہا ہے کہ رہبر ایران کی طرف سے کچھ افراد نے امریکا سے مذاکرات کئے ہیں جبکہ یہ بات سراسر جھوٹ ہے، اب تک رہبر ایران کی طرف سے کسی نے امریکا سے مذاکرات نہیں کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض مواقع پر الگ الگ حکومتوں نے بعض وقتی موضوعات کے سلسلے میں امریکیوں سے مذاکرات کئے البتہ ان مذاکرات میں بھی حکومت کے نمائندے کو قائد انقلاب کی جانب سے طے شدہ ریڈ لائن کو ملحوظ رکھنے کا پابند کیا گيا تھا اور آج بھی اس ریڈ لائن کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے تعلق سے تیسرے نکتے کے طور پر ایٹمی مذاکرات کو کسی نتیجے تک پہنچانے میں امریکیوں کی عدم دلچسپی کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر امریکیوں کو واقعی ایران کا ایٹمی مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی ہے تو اس کے لئے بڑا آسان راستہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ پرامن مقاصد کے لئے یورینیم افزودہ کرنے کے ایران کے حق کو تسلیم کر لیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ جوہری توانائي کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے نگرانی کے اصولوں پر عمل آوری سے جملہ تشویشوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ موجودہ حالات اور تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں نہیں ہیں، وہ اسے لا ینحل باقی رکھتے ہوئے ملت ایران پر دباؤ ڈالنے اور بقول خویش اس کی کمر توڑ دینے کے لئے حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن دشمنوں کی لاکھ خواہش کے باوجود ملت ایران گھٹنے ٹیکنے والی نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے آخری نکتے کے طور پر امریکیوں کو ایک راہ حل کی تجویز دی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر امریکی حکام صدق دلی سے تمام معاملات کا تصفیہ چاہتے ہیں تو ہماری تجویز یہ ہے کہ قول و فعل میں ملت ایران سے دشمنی اور عناد برتنا ترک کر دیں۔ آپ نے گزشتہ چونتیس سال کے دوران ملت ایران کے خلاف امریکیوں کی معاندانہ کارروائیوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ پالیسیاں جاری رہیں تو آئندہ بھی شکست سے دوچار ہوں گی۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں آئندہ صدارتی انتخابات کا ذکرکیا اور فرمایا کہ الیکشن سیاسی جہاد، اسلامی نظام کی قوت، قومی ارادے اور اسلامی نطام کی آبرو کا آئینہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت بہت اہم ہے، عوام کی وسیع شرکت اور انتخابی جوش و خروش ملکی سلامتی کے لئے مددگار ثابت ہونے کے ساتھ ہی دشمن کے خطرات کو بے اثر اور دشمنوں کو ناامید کر دینے والی چیز ہے۔ آپ نے اسلامی نظام پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں اور حلقوں کی انتخابات میں شرکت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات ایک خاص سیاسی رجحان رکھنے والے حلقے سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ قومی مفادات اور ملکی خود مختاری سے دلچسپی رکھنے والے تمام افراد کا حق اور فریضہ ہے۔
قائد انقلابا سلامی نے فرمایا کہ انتخابات سے روگردانی ان لوگوں کا کام ہے جو اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔ آپ نے عوام کے ووٹوں کو فیصلہ کن قرار دیا اور فرمایا کہ سزاوارترین شخص کے بارے میں عوام کی تشخیص بہت اہم ہے اور عوام کو چاہئے کہ امیدواروں کا بغور جائزہ لیکر سزاوارترین امیدوار کا انتخاب کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے رائے دہندگان کو سفارش کی کہ سزاوارترین امیدوار کے انتخاب میں میڈیا کی سطح پر انجام دی جانے والی تشہیرات اور تعلقات سے متاثر نہ ہوں۔ آپ نے سب کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ سنہ 2009 کے حوادث اس وقت شروع ہوئے جب کچھ لوگوں نے قانون اور عوام کے ووٹوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا اور عوام کو سڑکوں پر آکر شورش کرنے کی دعوت دی جو ناقابل تلافی غلطی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ خوش قسمتی سے ہر شبہے اور شک کا ازالہ کرنے کے لئے قانونی سسٹم موجود ہے، بنابریں سب کو چاہئے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ صدر ایسا ہو جو اپنے اندر سابق صدر کی تمام مثبت خصوصیات پیدا کرے اور خود کو اس کی کمزوریوں سے دور رکھے۔
٭٭٭٭٭
(غاصب صیہونی حکومت کی اتنی اوقات نہیں ہے کہ ملت ایران کے دشمنوں میں اس کا شمار کیا جائے۔ ایران پر فوجی حملے سے متعلق بعض صیہونی حکام کے بیانوں کا حوالہ دیتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر انہوں نے حماقت کی تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیگا )
Add new comment