سانحہ عباس ٹاون -آپ نے اپنی حفاظت خود کیوں نہیں کی؟

اتوار کے روز کراچی میں قیامت صغریٰ برپا ہوگئی جب عباس ٹاون میں یکے بعد دیگرے دو خوفناک دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں تقریباً پچاس افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوگئے، لیکن آپ اس کا الزام وفاقی حکومت پر نہیں ڈال سکتے کیونکہ
رحمان ملک صاحب نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ کراچی میں بڑی کاروائی ہوگی—– آپ نے اپنی حفاظت خود کیوں نہیں کی؟

 پھر آپ یہ حکومت سندھ کی ناکامی بھی نہیں قرار دے سکتے کیونکہ جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت کراچی کی پوری پولیس فورس وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر خاص شرمیلا فاروقی کی منگنی میں وزراء اور اعلیٰ حکام کی سیکیورٹی پر مامور تھی۔ اگر پولیس، حکام کے بجائے عوام کی حفاظت کر رہی ہوتی تو دہشت گرد ہمارے حکام پر حملہ کر سکتے تھے اور آپ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے حکام کی زندگیاں کتنی قیمتی ہیں!

 میڈیا کے کچھ ناعاقبت اندیش صحافی حضرات نے اس واقعہ کو لیکر واویلا مچانے کی کوشش کی کہ جس وقت عوام پر قیامت ٹوٹ رہی تھی ہمارے حکام دعوت اڑا رہے تھے—– کیسے لوگ ہیں نا خود خوش رہتے ہیں نا کسی اور کو خوش دیکھ سکتے ہیں، کتنے طویل عرصے انتظار کے بعد تو شرمیلا بی بی نے شادی کا فیصلہ کیا—- کب سے ہمارے حکام اس مبارک گھڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ کب شرمیلا بی بی کی منگنی ہوگی اور کب ہمیں آتش بازی کرنے کا موقع ملے گا—- کتنے عرصے بعد تو ناچنے گانے کا موقع ملا تھا—- دھماکے تو ہمارے ملک میں روزانہ ہوتے رہتے ہیں لیکن شرمیلا بی بی کی منگنی بار بار تھوڑی ہوتی ہے!

 کچھ لوگ ہماری خفیہ ایجنسیز پربھی انگلیاں اٹھارہے ہیں، اور جو لوگ ایسا کررہے ہیں وہ ضرور ملک کےغدار یا نادان دوست ہیں، خفیہ ایجنسیز کا کام دہشت گردوں کی جاسوسی اور ان کے نیٹ ورک پر نظر رکھنا تھوڑی ہوتا ہے وہ تو ملک دشمن بیرونی طاقتوں کیخلاف نبرد آزما ہیں، اگر وہ ایسا نا کرتے تو ہندوستان یا امریکہ کب کے ہمارے ملک پر قابض ہوچکے ہوتے، اور پھر یہ دہشت گرد تو گھر کے لوگ ہیں ان سے قومی سلامتی کو کیا خطرہ

  باقی رہ گئی رینجرز—— کچھ صاحبان رینجرز پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ ایک عرصے سے ایک خطیر رقم ان پر خرچ کی جاتی ہے، سندھ بھر کے اسکولوں کالجوں اور دوسری عمارتوں پر انہوں نے الگ قبضہ کیا ہوا ہے تو پھر دہشت گردی روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟

آپ مانیں یا نا مانیں کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کے بعد رینجرز کے اہلکار وہاں پہنچ کر وہاں کا امن وامان خراب ہونے سے بچالیتے ہیں—- پھر یہ سڑکوں اور چوکوں پر تعینات مستعد رینجرز کو دیکھ کر آپ کو قلبی اطمینان بھی تو حاصل رہتا ہے نا کہ ہماری افواج بھی ہماری حفاظت کر رہی ہے۔

 مبارکباد کے مستحق ہیں وزیراعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم جنہوں نے پانچ سال ہر طرح کا ظلم برداشت کیا، دہشت گرد ٹارگٹ کلنگ کرتے رہے، بم دھماکے کرتے رہے، ہڑتالوں نے بھی معیشت کا بھٹہ بٹھال کر رکھا لیکن پھر بھی حکومت نے جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا اور کامیابی کیساتھ اپنے سفر کا اختتام کرنے والی ہے، عوام کو اور کیا چاہیئے—– جس کے کانوں پر کسی بھی طرح کی دہشت گردی پر جوں تک نہیں رینگتی! ہماری حکومت نے کبھی بھی دہشت گردوں کیخلاف بے ہمتی کا مظاہرہ نہیں کیا اور بڑے سے بڑے حادثے پر دہشت گردی میں ملوث لوگوں اور کالعدم تنظیموں کا نام لینا بھی پسند نہیں کیا، اسلئے نہیں کہ ہماری حکومت ان سے ڈرتی ہے بلکہ وہ ان کا نام لیکر ان کو ہیرو نہیں بنانا چاہتی۔

بلدیہ ٹاون میں ایک گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگنے سے سینکڑوں ورکرز کی جان چلی گئی اور واقعہ کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے اس وقت کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت روفٔ صدیقی صاحب نے استعفیٰ دے دیا۔ ہم تو رؤف صدیقی صاحب سے کہیں گے کیا ضرورت تھی استعفیٰ دینے کی، حادثات تو ہوتے رہتے ہیں—- کون ہے پوچھنے والا! آج اس فیکٹری کے مالکان، جن کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے سینکڑوں گھرانے تباہ ہوگئے، ضمانتوں پر رہا ہوکر باہر آچکے ہیں۔ بس رؤف صاحب اپنی وزارت سے گئے۔ آپ سبق سیکھئے حکومت سندھ سے جو بڑی سے بڑی دہشت گرد پر بھی کبھی بے ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتی اور وزیر اعلیٰ صاحب یا ان کے وزیروں اور مشیروں نے کبھی استعفیٰ کا نام تک نہیں لیا۔

 آخر میں ہم مطالبہ کریں گے کہ ذوالفقار مرزا صاحب کو دوبارہ وزیر داخلہ بنایا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے دور میں دہشت گردوں کیخلاف کاروائی سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں عوام کو اسلحے کے لائسنس کا اجراء کیا—- کیونکہ دہشت گردی ایک عوامی مسئلہ ہے اور اس سے نبرد آزما بھی عوام کو خود ہونا پڑیگا۔

Add new comment