آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی ۲۰ نصیحتوں پر مشتمل اسلامی جہاد کے آداب کا بیان

آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی ۲۰ نصیحتوں پر مشتمل اسلامی جہاد کے آداب کا بیان   

عراق میں موجودہ صورتحال اور داعش اور مجاہدین اسلام کے آمنے سامنے ہونے کے تناظر میں آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کی جانب سے حقیقی اسلامی جہاد کے آداب و طریقے (جو کہ ۲۰ نصیحتوں اور فرامین پر مشتمل ہیں) شائع کیے گئے ہیں، جس کا پورا متن پیش خدمت ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام على خیر خلقه محمد وآله الطیبین الطاهرین
خدا کی حدوں سے تجاوز کرنے والے دشمنانِ دین کے  خلاف میدانِ نبرد میں  جنگ لڑنے والے اے عزیز مجاہدو

جان لو:

۱: خداوند متعال نے جیسے ہی مومنوں کو جہاد کا حکم دیا ہے اور اس جہاد کو دین کا ستون قرار دیا ہے اور مجاہدوں کو گھر بیٹھنے والوں پر فضیلت عطا کی ہے، ویسے ہی اس جہاد کے لیے آداب اور محدودہ بھی مشخص کیا ہے اور آپ لوگوں کو چاہیے کہ ان آداب کو جان لو۔ جو ان آداب پر عمل پیرا رہے خدا کی طرف سے بہت اجر اور بلند درجات پائیگا اور جو ان آداب کا خیال نہ رکھے اس کو پورا اجر و ثواب نہیں مل سکیگا اور اس کی آرزو پوری نہیں ہوپائیگی۔

۲: جہاد کے کچھ عمومی آداب ہیں جن کا غیر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں بھی خیال رکھنا چاہیے۔  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ بھی اپنے اصحاب کو جنگ پہ جانے سے پہلے یہی نصیحتیں فرماتے تھے، اور امام صادق علیہ السلام سے بھی ایک صحیح حدیث میں روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کچھ لوگوں کو جنگ کے لیے بھیجنا چاہتے تھے، پہلے ان کو بلاتے تھے اور اپنے سامنے بیٹھا کر فرماتے تھے خدا کے نام کے ساتھ اور خدا کی راہ میں رسول خدا کے امتی ہو کر جاو، زیادتی مت کرنا، مقتولوں کی لاشیں مت کاٹنا، دھوکہ و فریب مت دینا، ناتوان بوڑھوں اور بچوں اور خواتین کو قتل نہ کرنا اور کسی بھی پیڑ کو مت کاٹنا مگر یہ کہ مجبور ہوجاو۔

۳: اسی طرح، بغاوت کرنے والے مسلمانوں کے خلاف جنگ کے بھی کچھ آداب اور اخلاق ہیں۔ وہ آداب مولا امام علی علیہ السلام کے بیانات نورانی سے آج جیسے حالات کے لیے ہم تک پہنچے ہیں اور امام نے خود اپنی سیرت و عمل میں بھی ان آداب کا خیال رکھا ہے، اپنی فرمایشات میں اپنے اصحاب کو یہ نصیحت فرماتے تھے اور اس زمانے کی اسلامی امت بھی ان آداب پر عمل پیرا تھی اور ان آداب کو اپنے لیے واجب سمجھتے تھے۔
اور آپ مجاہدوں کو بھی چاہیے کہ امام علی علیہ السلام کی اس سیرت کو اپنے لیے رول ماڈل بنائیں اور ان پر عمل کریں۔ 
ایک روایت میں امام علی علیہ السلام اپنی فرمایشات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی حدیث ثقلین اور حدیث غدیر پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے اہلبیت کو دیکھو اور ان کے آداب و اخلاق پر عمل پیرا رہو اور ان کی پیروی کرو، کیونکہ وہ تمھارے لیے ہدایت کے باعث ہیں اور تم لوگوں کو گمراہی سے بچائینگے، تو اگر وہ چلے جائیں تو تم بھی چلو، اگر وہ روک جائیں تو تم بھی روک جاو، اور ان سے آگے مت بڑھو اور جلد بازی مت کرو کیونکہ گمراہ ہوجاوگے اور ان سے زیادہ پیچھے بھی مت رہو کیونکہ ہلاک ہوجاوگے۔

۴: مارنے اور مقاتلہ میں خدا کی رای کا خیال رکھو اور کسی بھی صورت میں ایسے شخص کی جان مت لو جس کے مارنے کی اجازت خدا نے نہ دی ہو، کیونکہ بے گناہ انسان کو مارنے والے کو خدا کبھی معاف نہیں کرتا اور بہترین عمل یہ ہے کہ بے گناہوں کی حفاظت کی جائے جیسے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنی بھیجی ہوئی کتاب میں بھی اس پر تاکید کی ہے۔ جان لو کہ اس دنیا میں  بے گناہوں کو مارنے کے بھت برے اور خطرناک نتایج ہیں، اور امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی اپنے جنگی طور طریقوں میں اس بات کا بہت خیال رکھا ہے اور احتیاط سے کام لیا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت مالک اشتر کو لکھے ہوئے خط میں فرمایا: حلال طریقے کو کے بجائے ناجائز طریقے سے خون بہانے سے بچو کیونکہ کسی کام کی سزا اتنی سخت نہیں جتنی اس کی ہے، بے گناہ کو مارنا نعمتوں کو روکتا ہے اور خدا کی مدد کے لیے بھی رکاوٹ بنتا ہے، قیامت کے دن خون کرنے کا حساب، خدا خود کریگا، تو اپنی طاقت اور قوت بے گناہوں کو مارنے سے مت بڑھاو کیونکہ اس سے نہ صرف تمھاری طاقت کم ہوگی اور پورے حکومت اور نظام کی طاقت گھٹیگی بلکہ حکومت اس کے برے اثرات کی زد سے گر بھی سکتی ہے، اگر تم نے جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو مارا تو اس کے لیے نہ میں تمہیں معاف کرونگا اور نہ خدا، کیونکہ اس کی سزا قصاص ہے۔
تو اے مجاہدو آپ کے سامنے بھی اگر ایسا کوئی مشکوک شخص آئے جس کا تمہیں یقین نہ ہو کہ وہ دشمن ہے یا نہیں، تو پہلے اس کو آواز دے کر یا کسی اور سمت میں گولی چلا کر خبردار کرو، اور اسی طرح احتیاط سے کام لو تا کہ قیامت کے دن اپنے خدا کے سامنے کوئی توجیہ پیش کر سکو۔

 

۵: خدا کی ان حدود کا بھی خیال رکھیں جو بے گناہ عوام کے بارے میں ہیں، یعنی وہ لوگ جو آپ سے نہیں لڑنا چاہتے، خاص کر ضعیف لوگوں کا، بوڑھوں کا بچوں اور خواتین کا خیال رکھیں، چاہے وہ دشمنوں کے رشتے دار ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ دشمنوں کے گھر والوں کا خون بہانا آپ کے لیے حلال نہیں، صرف ان کا مال ہے جس میں آپ تصرف کرستکے ہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام کا سیرہ بھی یہی تھا کہ خوارج جیسے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود، دشمنوں کے گھر اور ان کی خواتین اور رشتے داروں پر حملہ کرنے سےاجتناب کرتے ہوئے فرماتے تھے: ان کے مرد ہم سے لڑے ہیں اور ہم بھی ان سے لڑے ہیں، لیکن خواتین اور بچوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ وہ بے گناہ مسلمان ہیں اور ہم ان پر حملہ نہیں کرسکتے، اور ان کے تمام اموال اور وہ جنگی ابزار جس سے وہ آپ سے لڑے ہیں، پورے لشکر کے ہیں اور جو کچھ ان کے گھروں کے اندر ہیں وہ ان کے ورثا کے ہیں اور آپ ان کے گھروں کے اندر کا سامان اور لوگوں پر کوئی حق نہیں رکھتے۔

۶: خیال رکھیں کہ تھمت لگانے کے ذریعے کسی کا حرام خون اپنے لیے مباح نہ سمجھیں، جیسے خوارج نے صدر اسلام میں کیا تھا اور آج ہمارے زمانے میں  انہی خوارج کے پیروکار جو فقہ سے دورہیں ان کے طور طریقوں سے متاثر ہو کر ویسا کر رہے ہیں اور اپنے غلط کاموں کی توجیہ کے لیے دینی مکتوبات سے استفادہ کیا۔
جان لو کہ جو بھی "اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد الرسول اللہ" بولے، وہ مسلمان ہے اور اس کا خون اور مال محترم ہے حتی اگر وہ گمراہی کی وجہ سے کوئی بدعت بھی کرے، کیونکہ ہر گمراہی، کفر کی وجہ نہیں بنتی اور اسی طرح یہ چیز کسی شخص سے مسلمانی کی صفت ہٹانے کی وجہ بھی نہیں بنتی۔ اگرچہ ہوسکتا ہے وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی مفسد فی الارض ہونے کی وجہ سے یا قصاص کی وجہ سے قتل کے لائق بنے۔
اللہ تعالی مجاہدوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: "یا أیّها الذین آمنوا إذا ضربتم فی سبیل الله فتبیّنوا، ولا تقولوا لمن ألقى إلیكم السلام لست مؤمناً تبتغون عرض الحیاة الدنیا- سورۃ النساء آیۃ 94 / اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راه میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان واﻻ نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں۔ پہلے تم بھی ایسے ہی تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا لہٰذا تم ضرور تحقیق وتفتیش کر لیا کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی بہت ساری روایتیں ہیں کہ آپ حضرت کسی مسلمان دشمن کو کافر قرار دینے سے دوسروں کو روکتے تھے، حالانکہ ان کی صفوں میں شامل خوارج یہی چاہتے تھے، امام فرماتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کے ذہنوں میں کنفیوژن ہے، لیکن پھر بھی یہ کنفیوژن ان کے غلط کاموں کی توجیہ نہیں کرتی اور اس سے ان کو بھانہ نہیں مل سکتا اپنے ان غلط  مطالبات اور کاموں کے لیے۔
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے اور انہوں نے اپنے  پدر امام باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے، یہ روایت معتبر ہے، انہوں نے فرمایا: علی علیہ السلام اپنے دشمنوں کو منافق اور مشرک کا نام نہیں دیتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ یہ جو بغاوت کر رہے ہیں ہمارے بھائی ہیں۔ اور اپنے دشمنوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ ہم اپنے دشمنوں سے اس لیے نہیں لڑیں کہ ہم ان کو یا وہ ہمیں کافر سمجھتے تھے۔

۷: غیر مسلمانوں کی بے حرمتی کرنے سے بچو، چاہے وہ کسی بھی دین و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی پناہ میں ہیں اور جو بھی ان پر تعارض کریگا وہ خیانت کار کہلائیگا اور دین اور فطرت کی نظر میں خیانت، بھونڈے اعمال میں سے ہے۔ خداوند کریم نے قرآن میں غیر مسلمانوں کے بارے میں فرمایا: "لا ینهاكم الله عن الذین لم یقاتلوكم ولم یخرجوكم من دیاركم أن تبرّوهم وتقسطوا الیهم إنّ الله یحب المقسطین". سوره: الممتحنة  آیه: 8  /  جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
جائز نہیں کہ مسلمان ایک ایسے غیر مسلمان پر تعرض کرنے کی اجازت دے جو مسلمانوں کی پناہ میں ہو، بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ جیسے اپنے گھر والوں کے بارے میں غیرت رکھتے ہیں، ان کے بارے میں بھی غیور رہیں۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے سوانح حیات میں ہے کہ جب معاویہ نے بنی غامد کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے سفیان بن عوف کو عراق کے اطراف میں موجود لوگوں کو ڈرانے کے لیے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، اس نے الانبار صوبے/ Governorate کے مسلم اور غیر مسلم باشندوں پر تعرض کیا۔ امیرالمومنین علیہ السلام کو جب خبر ملی تو بہت دکھی ہوئے اور ایک خطبہ میں فرمایا: بنی غامد کا ایک شخص اپنی فوج کے ساتھ الانبار میں داخل ہوتا ہے، حسان بن حسان البکری کو قتل کرتا ہے اور فوج کو اس کی حدود سے خارج کرتا ہے۔ اور مجھے خبر ملی ہے کے اس کے بعض فوجیوں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ ساتھ ان غیر مسلمانوں کی خواتین پر بھی تعرض کیا ہے جو ہمارے ساتھ متعھد ہیں اور ان کے گلوں کے ہار اور زیورات ان سے چھین کر اپنے ساتھ لے آئے ہیں، کسی نے ان فوجیوں کو کچھ نہیں کہا اور کسی نے ان کا خون نہیں بہایا لیکن اگر کوئی مسلمان آدمی اس غم پر جان دے، تو برحق ہے بلکہ میری نظر میں ہونا بھی ایسا چاہیے۔

۸: لوگوں کے اموال کے حوالے سے خدا کی حدود کی رعایت کریں کیونکہ مسلمان کا مال دوسرے مسلمان پر جایز نہیں مگر یہ کہ وہ دل و جان سے اس پر راضی ہو۔ جو شخص زور زبردستی کے ساتھ مسلمانوں کا مال حاصل کرتا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے جہنم کی آگ ہاتھ میں لے رہا ہے۔
اللہ سبحانہ فرماتا ہے: انَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارً‌ا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرً‌ا – سورۃ النساء آیۃ ۱۰ / جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں وہ درحقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھررہے ہیں اور عنقریب واصل جہّنم ہوں گے۔
اور دوسری حدیث میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ فرماتے ہیں: جو شخص ظالمانہ انداز سے مسلمان کے مال سے کچھ بھی چراتا ہے، خدا ہمیشہ کے لیے اس سے ناراض ہوجاتا ہے اور اس کی نیکیاں نہیں لکھی جائیگی جب تک وہ توبہ وہ توبہ کے ساتھ ساتھ وہ مال اس کے مالک کو واپس نہیں کرتا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت میں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کے مال کو حلال سمجھنے سے منع کیا ہے مگر وہ اموال جو محاذ جنگ میں ان کے ہاتھ لگتے تھے، لیکن اس کے باوجود اگر دشمنوں سے کوئی یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ان اموال میں اس کا ذاتی کچھ ہے تو وہ اس کو واپس دیا جاتا تھا۔
ایک روایت میں مروان بن حکم کہتا ہے: جب علی علیہ السلام نے ہمیں بصرہ میں ہرایا، لوگوں کے اموال ان کو واپس کردیے، اگر کوئی دلیل اور ثبوت پیش کرتا تھا، اس کو اس کا مال دیاجاتا تھا،اور اگر اس کے پاس ثبوت نہیں ہوتا تھا تو اس سے قسم لے کر وہ مال اس کے حوالے کردیا جاتا تھا۔

۹: تمام محرمات میں خدا کی حدود کا خیال رکھیں، ہاتھ یا زبان سے خدا کے محرمات کو انجام دینے سے بچیں، کسی کی غلطی کی سزا دوسرے کو دینے سے پرہیز کریں، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے: وَلَا تَزِرُ‌ وَازِرَ‌ةٌ وِزْرَ‌ أُخْرَ‌ىٰ- سورۃ الزمر آیۃ ۷ /  اور کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے۔
کسی کو شک اور گمان کی بنیاد پر مت پکڑو، جب تک تمہیں یقین نہیں ہوتا، کیونکہ یقین میں ہی احتیاط ہے اور شک کا نتیجہ تجاوز اور ظلم ہے، خیال رکہیں دشمنوں کے ساتھ آپ کی دشمنی حرام فعل انجام دینے کی وجہ نہ بنے ، کیونکہ خدا فرماتا ہے: وَلَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَ‌بُ لِلتَّقْوَىٰ - سورة المائدة- آیۃ ۸ / اور خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو -انصاف کرو کہ یہی تقوٰی سے قریب تر ہے۔ 
امیرالمومنین علیہ السلام سے بھی  روایت ہے کہ انہوں نے جنگ صفین میں اپنے ایک خطبے میں فرمایا: مقتولوں کے اعضا مت کاٹنا اور جب ان کے گھروں کے قریب پہنچو تو کسی پردے کو مت ہٹانا، ان گھروں میں داخل مت ہونا اور ان کے اموال میں سے کچھ مت اٹھانا مگر وہ اموال جو میدان جنگ میں آپ کو ملے ہیں، اور خواتین کو مت چھیڑنا اگرچہ وہ آپ کو یا آپ کے کمانڈروں کو برا بھلا بھی کہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے جنگ جمل کے ختم ہونے کے بعد ایک گھر میں داخل ہونا چاہا، دروازہ کھٹکٹایا، جب دروازہ کھول دیا گیا، کچھ خواتین صحن میں بیٹھی ہوئی رو رہی تھیں اور جب امام کو دیکھا تو فریاد بلند کی اور کہنے لگی: یہی ہے ہمارے پیاروں کا قاتل۔ لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے کچھ نہیں فرمایا۔ بس گھر کے کمروں کی طرف اشارہ کیا جہاں پر دشمنوں کے سرغنے یعنی مروان بن حکم اور عبداللہ بن زبیر چپے ہوئے تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانے لگے: اگر چاہتا کہ آپ لوگوں کے پیاروں کو ماروں، ان لوگوں کو مار دیتا جو کمروں میں چپے ہوئے ہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب ان کے بعض ساتھی جیسے حجر ابن عدی اور عمرو بن الحمق جنگ صفین کے دوران دشمنوں کو گالیاں دے رہے تھے، ان سے فرمانے لگے: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ تم لوگ گالیاں دو، بھتر یہ ہے کہ تم لوگ اپنے اور ان کی حالت کے بارے میں بات کرو اور ایسے کہو: خدایا! ہمارے اور ان کے خون کی حفاظت فرما، اور ہمارے درمیان اصلاح کر اور ان کو ہدایت دے تا کہ ناسمجھ لوگ حق کو پہچان کر دشمنی چھوڑ دیں۔ ان دونوں نے کہا: اے امیرالمومنین ہمیں آپ کا فرمان قبول ہے۔

 

۱۰: خیال رکھنا، جب تک کوئی قوم تم سے جنگ نہ لڑے تب تک ان کو اپنے حقوق سے محروم مت کرنا، حتی اگر وہ تم سے بغض بھی رکھتے ہو، کیونکہ امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت میں انہوں نے اپنے مخالفین سے ویسے ہی سلوک کیا جیسے دوسرے مسلمانوں سے کرتے تھے، البتہ جب تک مخالفین، جنگ کے لیے صف آرایی نہ کرتے، امام علیہ السلام کبھی جنگ کا آغاز نہیں کرتے تھے، مگر یہ کہ وہ خود ایسا چاہتے۔
امام علی علیہ السلام جب کوفہ میں خطبہ دے رہے تھے، خوارج میں سے ایک گروہ اٹھے اور کہنے لگے: " لا حکم الا للہ/ خدا کے سوا کسی کو حکم کا حق نہیں"، مولا علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ بات حق ہے لیکن باطل اور غلط طریقہ سے استعمال ہورہا ہے۔ آپ لوگوں کے ہمارے نزدیک تین خصوصیات ہیں: آپ کو نماز کے لیے مسجدوں میں آنے سے نہیں روکینگے۔ جب تک آپ ہمارے ساتھ ہیں آپ کو خراج سے محروم نہیں رکھینگے، اور آپ لوگوں سے جنگ کا آغاز نہیں کرینگے جب تک تم خود نہ چاہو۔

 

۱۱: آپ کے دشمنوں کے ذہن میں شبہہ ہے اور وہ اس شبہہ اور شک کی وجہ سے فریب میں ہیں اور آپ کی دشمنی کر رہے ہیں، ایسا کچھ مت کرنا جس سے لوگوں کو یہ لگے کہ سچ میں آپ ویسے ہیں جیسے دشمن پروپیگینڈہ کر رہا ہے اور وہ لوگ آپ کے دشمنوں کے ساتھ مل جائیں۔ بلکہ ایسے اچھے اخلاق اپنائیں جس سے آپ کے دشمنوں کے شبہات اور پروپیگنڈے بے اثر رہ جائیں۔ کیونکہ اگر کوئی شخص، کسی مسلمان کے ذہن سے کوئی شبہہ مٹاتا ہے یہ ایسے ہے جیسے اس نے اس شخص کو زندہ کیا ہے، اور جو کوئی کسی کے ذہن میں کوئی شبہہ ڈالتا ہے اس نے اس کو مار دیا ہے۔
ائمہ اہل البیت علیہم السلام کی سیرت بھی ایسی تھی کہ شبہات مٹانے پر توجہ دیتے تھے تا کہ اپنے خدا کے سامنے سرخرو رہے اور امت کو تربیت دے، امور کے عواقب کا خیال رکھے اور لوگوں اور بالخصوص آنے والی نسلوں کے دلوں میں کینہ پیدا نہ ہونے دے۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول بعض احادیث میں ہے کہ امام علی علیہ السلام بصرہ میں جب فوجیں آگے بڑھنے لگیں، اپنے اصحاب سے فرمانے لگے: جب تک خدا اور ہمارے اور ان کے بیچ میں کوئی عذر باقی ہے تو ان سے جنگ لڑنے میں جلدبازی نہ کی جائے۔
پھر بصرہ والوں سے مخاطب ہوکے فرمانے لگے: کیا مجھے ایک ظالم حکمران سمجھتے ہو؟
کہنے لگے: نہیں
امام فرمانے لگے: کیا میں نے اپنی کوئی قسم پس پا چھوڑ دی ہے؟
کہنے لگے: نہیں
امام فرمانے لگے: کیا میں نے اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دنیا میں سے کچھ بچا کے رکھا ہے جس کی وجہ سے تم لوگ غضبناک  ہوگئے ہو اور وعدہ توڑ رہے ہو؟
کہنے لگے: نہیں
امام فرمانے لگے: کیا خدا کی حدیں آپ پر جاری کی ہیں اور دوسروں کو معاف کیا ہے؟
کہنے لگے: نہیں
اور اسی طرح فرمایشات کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی بھی ہیں اور اصل میں ان باتوں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ شبہات ذہن سے مٹ جائیں اور بات واضح ہوجائے اور حجت سب پر تمام ہوجائے۔
کسی بھی قوم کے ساتھ جنگ لڑنا اسلام میں جایز نہیں مگر یہ کہ ان پر اتمام حجت ہوجائے تا کہ ان کے لیے یہ واضح ہوجائے کہ ہم نے عہدشکنی نہیں کی ( بلکہ وہ عہدشکنی کر رہے ہیں) ۔

۱۲: کسی کو یہ نہ لگے کہ ظلم میں انصاف سے زیادہ اثر ہے، کیونکہ یہ سوچ، سرسری نظر ڈالنے اور ظلم کے نتایج کی طرف توجہ نہ کرنے سے اور زندگی اور امتوں کی تاریخ سے سبق نہ لینے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، تاریخ و حال کی یہ سب باتیں ہمیں ظلم اور قتل و تحریم و تھدید کے حوالے سے خبردار کرتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ : جس کے لیے عدالت سخت ہو، اس کے لیے ظلم زیادہ سخت ہے۔
حال کے واقعات میں بھی ایسی بہت ساری عبرتیں ہیں جن میں غور کرنے کی ضرورت ہے، کہ بعض حکمران اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے خیال سے ظلم و ستم کرنے لگے اور لاکھوں لوگوں پر ظلم ڈھایا، اور بالآخر یہ ہوا کہ خدا نے ان کو اور ان کی حکومت کو ایسے نیست و نابود کردیا جسے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

۱۳: اگر پرہیز کرنے اور احتیاط سے کام لینے سے اور اتمام حجت کرنے سے ہمیں تھوڑا سا خسارہ بھی اٹھانا پڑے پھر بھی ایسے کرنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجہ میں بہتری اور برکت ہوگی۔ سیرہ ائمہ علیہم السلام میں بھی ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں، یہاں تک کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہیں لڑتے تھے جب تک  دشمن خود جنگ کا آغاز نہیں کرتے تھے۔
اور ایک روایت میں موجود ہے کہ جنگ جمل کے دوران، جب فوجی میدان کی طرف نکلے تو مولا علی علیہ السلام کے منادی نے ندا دے کر کہا: جب تک کہا نہ جائے تب تک آپ میں سے کوئی جنگ کی شروعات نہ کرے۔
بعض نے کہا: اے امیرالمونین، انہوں نے ہماری طرف تیر مارے ہیں۔
امام نے فرمایا: کچھ مت کرنا۔
انہوں نے پھر تیروں سے حملہ کیا، ہم نے مولا سے کہا: انہوں نے پھر سے حملہ کیا ہے اور ہمارے بندے مار دیے ہیں۔
تب جا کر مولا علی علیہ السلام نے اجازت دے کر فرمایا: خدا کا نام لے کر جاو، خدا کی نصرت تمھارے ساتھ ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے بھی عاشورا کے دن یہی رول اپنایا۔

۱۴: جن لوگوں سے تمھارا سامنا ہوتا ہے ان کے ساتھ پیار سے ملو اور ان کی حمایت کرو، تا کہ وہ لوگ آپ کی طرفداری اور آپ کی مدد کریں، جہاں تک ہوسکے ضعیفوں کی مدد کریں کیونکہ وہ آپ کے بھائی بہنیں ہیں اور ان کے ساتھ مہربانی اور نرم دلی سے پیش آئیں اور اس بات کو یاد رکھیں کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے، تمھارے اعمال کو ثبت کر رہا ہے اور آپ کی دلی نیتوں سے واقف ہے۔

۱۵: اپنی نمازوں کو ادا کرنے سے غفلت مت برتنا، کیونکہ مسلمان کے پاس خدا کے نزدیک نماز سے بھتر کوئی عمل نہیں، اور نماز وہ ادب ہے جس کی انسان کو اپنے معبود کے سامنے رعایت کرنی چاہیے۔
نماز، دین کا عمود ہے، اور دوسرے اعمال کی قبولیت کے لیے میزان ہے۔
خدا نے نماز کو سخت مواقع اور جنگ کے موقع پر آسان کردیا ہے، یہاں تک کہ اگر جنگ سے اس کو بالکل فرصت نہیں ملتی تو وہ ہر رکعت کے بجائے صرف تکبیر پڑھ کر نماز پڑھ سکتا ہے چاہے وہ قبلہ کی طرف نہ بھی ہو۔
خداوند فرماتا ہے: حافظوا علی الصلوات والصلاة الوسطی وقوموا لله قانتین، فإن خفتم فرجالاً أو رکباناً، فإذا أمنتم فاذکروا الله کما علّمکم ما لم تکونوا تعلمون ۔  سورة البقرة آیۃ 238-239/ نمازوں کی حفاﻇت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سوار ہی سہی، ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے۔
اس کے علاوہ خدا نے مومنوں سے فرمایا ہے کہ اپنی جان اور ہتھیار کی حفاظت کریں اور سب اکھٹے نماز نہ پڑہیں، بلکہ نوبت سے پڑہیں۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی سیرت میں بھی ہے کہ ان کی اصحاب کو کی گئی وصیتوں میں سے ایک وصیت نماز کی تھی، اور امام باقر علیہ السلام سے ایک معتبر حدیث ہے کہ انہوں نے خوف اور جنگ کی حالت میں نماز کے بارے میں فرمایا: جو شخص جس طرف کھڑا ہے اسی طرف اشارہ کے ذریعہ نماز پڑھ سکتا ہے اگرچہ دشمن کے سامنے ہی کیوں نہ ہو، جنگ صفین کے دوران امیرالمومنین علی علیہ السلام کے اصحاب نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز صرف تکبیر اور لا الہ الا اللہ  اور سبحان اللہ اور الحمد للہ اور دعا کے ساتھ ادا کی تھی، اور یہی ان کی نماز تھی، امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد نماز دوبارہ پڑہی جائے۔

۱۶: خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کریں اور قرآن کی تلاوت کریں اور خدا سے ملاقات اور اس کے پاس پلٹنے کے بارے میں سوچیں ویسے ہی جیسے مولا علی علیہ السلام تھے۔
ان کے بارے میں روایت ہے کہ جنگ صفین کے دوران رات کے وقت دو صفوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، مولا ایسے نماز میں کھوئے ہوئے تھے کہ دشمن کے تیر ان کے آس پاس سے گذر رہے تھے لیکن ان کی توجہ پھر بھی نماز سے نہ ہٹی۔

 

۱۷: خدا سے یہ دعا مانگو کہ تمہارا برتاو اور جنگ و صلح، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ اور اہلبیت علیہم السلام کی طرح ہوسکے تا کہ اسلام کے لیے زینت اور خوبصورتی بن سکو۔ کیونکہ یہ دین، فطرت، عقل اور اخلاق کی بنیاد پر بنا ہوا ہے اور اس بات کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے جہالت اور بے حیایی کے دور میں عقل اور اخلاق کا پرچم لہرایا اور لوگوں کو دین کی دعوت دیتے وقت، ان کو زندگی میں غور و فکر کرنے  اور تاریخ کی گمراہیوں سے سبق سیکھنے کی دعوت دیتے تھے، اور اپنے شرعی نظام کو نافذ کرنے کے لیے بھی عقل اور فطری قواعد سے کام لیا۔
خداوند متعال نے فرمایا: "ونفس وما سوّاها فألهمها فجورها وتقواها قد أفلح من زکّاها وقد خاب من دسّاها". سورة الشمس، آیہ 6-7
اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا، پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی۔
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: اور خدا نے لوگوں  کے درمیان ایک کے بعد دوسرا نبی اور رسول بھیجا، تا کہ انہیں فطرت کی طرف توجہ دلائیں اور انہیں خدا کی بھولی ہوئی نعمتوں کی یاد دہانی کریں، اور حجت ان پر تمام کردیں اور عقل کے چھپے ہوئے خزانوں کو ظاہر کریں۔ اگر مسلمان ان باتوں اور تعالیم پر سوچتے اور ان پہ عمل کرتے، تو ان پر برکتیں نازل ہوجاتی۔
بعض علمی اور تاریخی سخت واقعات کی طرف استناد دینے سے پرہیز کریں کیونکہ یہ امور، اہل علم پر چھوڑنے چاہیے تا کہ اس کا حقیقی مفہوم نکال سکیں۔

۱۸: غور اور دوراندیشی کے وقت جلد بازی سے پرہیز کریں تا کہ یہ بات آپ کی ہلاکت کی وجہ نہ بنے، کیونکہ دشمن کی سب سے بڑی امید یہ ہے کہ آپ غور و فکر سے عاری ہوں اور وہ آپ کو اس جگہ لے کر آئیں جہاں وہ چاہتے ہیں۔
اپنی صفوں کو منظم کریں اور پوری طرح ہماہنگ و یکنواخت ہوجائیں، اور اپنے کاموں میں جلدبازی سے بچیں، مگر یہ کہ اپنے کام اور اس سے مربوطہ لوازم اور مقدمات سے پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔
خداوند سبحان می فرماید: " یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِیعًا" سورة النساء آیۃ 71 / اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو پھر گروه گروه بن کر کوچ کرو یا سب کے سب اکٹھے ہو کر نکل کھڑے ہو!
اور فرماتا ہے: "ِانَّ اللَّهَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِهِ صَفًّا کَأَنَّهُم بُنْیَانٌ مَّرْصُوصٌ" سورة الصف آیۃ 4 / بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راه میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا وه سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں۔
آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور بن جاو، کیونکہ آپ حق پر ہیں اور جان لیں کہ اگر آپ پر کوئی تکلیف آتی ہے تو ان پر بھی ضرور آئیگی، لیکن فرق یہ ہے کہ آپکی خدا سے امید ہے لیکن انہیں نہیں ہے۔
مگر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ لوگ بھی بے فایدہ اور وہمی امید میں رہیں لیکن یہ اس سراب جیسا ہے جو صرف ان کی پیاس بڑھاتا ہے۔ ان کا پورا اساسہ، ان کے شبہات ہیں اور ان کی آنکھیں اندھی ہیں۔

۱۹:اور وہ لوگ جو آپ کے مقابلے میں ہیں، تمھارے دشمن نے انہیں اس طرح سے سمجھاتے ہوئے ڈھال بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے حامیوں کے خیرخواہ ہیں اور ان کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں اور وہ ان کی مشکلات دور کرنے کے لیے آیے ہیں۔
 ایسا نہ ہو کہ آپ بھی ایسا رویہ اپنائیں اور لوگ آپ کے بارے میں بد گمان ہوجائیں کیونکہ خداوند متعال نے کسی کو بھی کسی کے اوپر حق قرار نہیں دیا، مگر یہ کہ وہ بھی اس کے اوپر کوئی حق رکھتا ہو۔
جان لو کہ کوئی بھی آپ کے بھائیوں سے بڑھ کر آپ کا غمخوار نہیں اور آپ کی بھلائی نہیں چاہتا، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ خلوص اور نیت صاف رکھو۔
اور جہاں ضرورت پڑے ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کریں، اگرچہ یہ غلطیاں بڑی ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو شخص یہ گمان کرے کہ ایک بیگانہ اس کے لیے اس کے اپنے ساتھیوں سے بڑھ کر اس کے گھروالوں کے لیے خیرخواہ ہے، تو یہ اس کی غلط سوچ ہوگی، اسی طرح اگر کوئی شخص آزمائے ہوئے کو دھرائے، تو اسے پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔
پس جان لو اگر ایک دوسرے کو معاف کروگے تو بڑا اجر پاوگے، اورخدا کے ہاں آپ کا اجر ضایع نہیں ہوگا بلکہ اسے پوری طرح عالم برزخ اور قیامت کے دن آپ کو لوٹائے گا۔ اور جو بھی مسلمانوں کے حامیوں کی حمایت کرے یا ان کے بال بچوں کا خیال رکھے، اس کا اجر ان مجاہدوں سے کم نہیں۔

۲۰: ہر ایک کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ بے بنیاد تعصبات سے پرہیز کرے اور اچھے اخلاق اپنائے۔ خدا نے انسانوں کو قوم اور ملتوں کی صورت میں خلق کیا ہے تا کہ ایک دوسرے سے آشنا ہوجائیں اور ایک دوسرے کی تجربیات سے استفادہ کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔ پس خیال رکھو اور بیہودہ و فضول باتوں سے بچ کے رہو۔
تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں کہ کس طرح آپ اور دوسرے مسلمانوں پر بلائیں آئیں اور آپ کی تواناییاں، طاقت اور دولت، ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے میں ضایع ہوگئی، حالانکہ یہ سب، مسلمانوں کی ترقی اور اصلاح کی راہ میں خرچ ہونا چاہیے تھا۔ پس فتنہ کا خیال رکھیں کیونکہ اس کا نقصان صرف ظالموں کو نہیں ہوگا۔
لیکن اب جو فتنہ ایجاد ہوچکا ہے تو کوشش کریں کہ اس کی آگ بجھائیں اور اس کے شعلوں سے آگاہ رہیں اور خدا کی رسی کو تھامیں اور متحد ہوجائی۔
 اور جان لو، اگر خدا آپ کے دلوں میں خلوص اور بھلائی دیکھیے گا، اس کے بدلے میں آپ کو اس سے بڑھ کر دیگا جو آپ سے لے چکا ہے، کیونکہ خدا ہر چیز کی طاقت رکھتا ہے۔

Add new comment