گزشتہ سال کے دوران کم از کم 60 سیکس ورکرز برطانیہ سے شام گئیں۔
اطلاعات کے مطابق ہر ہفتے کم از کم ایک برطانوی خاتون یا لڑکی برطانیہ سے سیکس ورکر کے طور پر داعشیوں کی جنسی تسکین کے خاطر شام چلی جاتی ہے۔ اس بات کا انکشاف برطانیہ میں انسداد دہشت گردی فورس کے سینئر آفیسر ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر ہیلن بال نے کیا- انتہائی احتیاط کے ساتھ تیار کردہ ہیلن بال کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران کم از کم 60 سیکس ورکرز برطانیہ سے شام گئیں۔ میٹروپولیٹن پولیس کے انسداد دہشت گردی سے متعلق امور کے کوآرڈی نیٹر نے بتایا کہ گزشتہ سال برطانیہ سے شام جانے والی خواتین میں 22نوجوان تھیں جن میں 18-20سال سے کم عمر لڑکیاں شامل تھیں جبکہ شام جانے والی آخری 4لڑکیوں کی عمر 15-16 سال تھی۔ انہوں نے یہ انکشاف نئی نگراں فوٹیج سامنے آنے کے بعد کیا ہے جس میں غالباً اسکول کی 3لڑکیوں کو شام جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ان تینوں لڑکیوں کو ترکی کے شہر استانبول میں ایک بس اسٹینڈ کے قریب سے گزرتے ہوئےدکھایا گیا ہے- اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوگئي ہے کہ شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے اور وہاں ایک اسرائیل نواز حکومت کو اقتدار میں لانے کی سازش رچانے والے مغربی ممالک خصوصا برطانیہ نہایت منظم طریقے سے نہ صرف برطانوی دہشت گردوں کو شام بھیجے جانے میں دخیل ہے بلکہ مسلم گھرانوں کی خواتین اور بچیوں کو بھی ایک سازش کے تحت شام جانے کی چھوٹ دے رکھی ہے- برطانیہ میں مقیم مسلمان کمیونیٹی سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں برطانیہ میں اسلامی مراکز اور علما خاموشی معنی خیز ہے- ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک گہری سازش کے ذریعے مسلمان گھرانوں کی بچیوں کو اسلام کے نام سیکس ورکر بنایا جارہا ہے-
Add new comment