انٹرویو کے تقریباً چار سال پورے ہوگئے

انٹرویو کے تقریباً چار سال پورے ہوگئے

 

کہتے ہیں کہ اگر انسان تلاش کرے تو اسے خدا بھی مل جاتا ہے۔ عرصہ دراز سے مجھے کسی ایسے شخص کی تلاش تھی جو طالبان کے ہاتھوں زندہ بچ نکلا ہو۔ اسی تلاش کے دوران مجھے جولائی2010ء میں خیبر پختونخوا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سفر میں میرے ہمراہ ایک ٹی وی چینل کے ملازم برادر مہدی نجفی بھی موجود تھے۔ یاد رہے کہ انہوں نے اس شخص سے میری ملاقات اپنی ملازمت کی وجہ سے نہیں کروائی بلکہ میری محبت کی وجہ سے انہوں نے یہ معرکہ انجام دیا۔ وہ مجھے سرسبز و شاداب وادیوں سے گزار کر ایک حسین و جمیل منطقے میں ایک ایسے جوان سے ملوانے لے آئے تھے جو40 دن تک طالبان کی حراست میں رہا تھا اور اسے لاکھوں روپے کا تاوان لینے کے بعد طالبان نے زندہ رہا کیا تھا۔

مجھ سے ملاقات ہوئی تو لگتا تھا کہ "جوان" انٹرویو دے دے کر تھکا ہوا ہے۔ مجھے بھی "جوان" نے انٹرویو دیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کا نام و پتہ مخفی رکھا جائے۔"جوان" کی داستان کچھ اس طرح سے ہے کہ یہ "جوان" ایک پڑھا لکھا جوان ہے۔ اپنے ہی علاقے میں اچھی ملازمت کرتا ہے۔ اسے صرف اور صرف شرافت اور بھلائی کے حوالے سے ہی لوگ جانتے ہیں۔ شاید یہ اتنے سارے لوگوں کی محبت اور دعاوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اسے موت کے منہ سے نجات ملی۔ میں نے اسیری اور رہائی کی روداد پوچھی تو اس نے بتایا کہ وہ حسبِ معمول اپنی سرکاری گاڑی پر اپنی ڈیوٹی پر جا رہا تھا کہ اچانک ایک اور گاڑی نے اس کی گاڑی کا راستہ روکا۔ ڈرائیور نے گاڑی روکی تو اسلحہ بردار چند افراد سامنے والی گاڑی سے اترے اور انہوں نے اس "جوان" کو اس کے معاون اور ڈرائیور سمیت یرغمال بنا لیا۔ 40دن تک یہ لوگ طالبان کے مہمان رہے، ان چالیس دنوں میں ان کی آنکھوں پر مسلسل پٹی باندھی گئی، جس کی وجہ سے اس کی نظر کافی حد تک متاثر ہوچکی تھی۔

اس کے علاوہ ان کے ہاتھ پشت کی طرف کرکے مسلسل باندھے گئے تھے اور ان کا لباس چھین کر انہیں گندھا اور بدبودار لباس پہنا دیا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد اس کے معاون کو قتل کر دیا گیا اور اسے ڈرائیور سمیت موت کا انتظار کرنے کا پیغام دیا گیا۔ دن رات گزرتے رہے، اس دوران ان کی بولی لگتی رہی، مختلف لوگ انہیں خرید کر آگے فروخت کرتے رہے، انہیں کبھی پٹھان بیچتے تھے اور پنجابی خریدتے تھے اور کبھی پنجابی بیچتے تھے اور پٹھان خریدتے تھے۔ یہاں تک کہ بکتے بکتے ان کی قیمت لاکھوں تک پہنچ گئی اور اب وہ وقت آن پہنچا کہ ان کے لواحقین کو انہیں زندہ یا مردہ وصول کرنے کی قیمت بتا دی گئی۔ 30یا35 دنوں کے بعد پورے علاقے میں شور مچا، لوگ ادھر ادھر بھاگے، عوامِ علاقہ نے مل جل کر پائی پائی جمع کی اور یوں اولیائے کرام کے ایصالِ ثواب کی نیازوں کو شرک کہنے والے توحید پرستوں نے لاکھوں روپے کا تاوان لے کر ان دو افراد کو رہا کر دیا۔

میں نے پوچھا اس دوران آپ کی تمنّا اور آرزو کیا تھی؟ جوان نے بتایا کہ میری سب سے بڑی تمنّا اور آرزو یہی تھی کہ اگر اب کی بار خدا زندگی عطا کرے تو ہمیشہ اوّل وقت میں نماز ادا کروں گا۔ اس گرفتاری کے دوران مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں خالی ہاتھ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے جا رہا ہوں، اگر موقع ملا تو دل بھر کر خدا کی عبادت کروں گا۔ میں نے پوچھا کہ اسیری کے دوران آپ کو سب سے زیادہ یاد کس کی آئی؟ "جوان" نے بتایا کہ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میں ابھی خوابِ غفلت سے بیدار ہوا ہوں۔ مجھے اس گرفتاری اور تنہائی میں اپنے ساتھ مسلسل خدا کے وجود کا احساس ہو رہا تھا، مجھے اپنے دل کی گہرائیوں میں اور نس نس میں خدا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے اگر شرمندگی تھی تو خدا سے تھی کہ اس کا حق بندگی ادا نہیں کرسکا اور اگر امید تھی تو بھی اسی سے اور یاد تھی تو بھی اسی کی۔

میں نے کہا کہ آپ اس واقعے کے بعد اپنی ملت کے جوانوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟ اس نے کہا کہ جوانی کو غنیمت سمجھو، جو جوانی انسان کو خدا سے غافل کر دے وہ جوانی نہیں بلکہ عذاب ہے۔ میری جوانوں سے گزارش ہے کہ خدا کے علاوہ کبھی بھی کسی کے لئے بھی کوئی کام نہ کریں۔ میں انٹرویو لے رہا تھا اور برادر مہدی نجفی فلمبرداری کر رہے تھے، اسی دوران ایک اور سوال میرے ذہن میں بجلی کی مانند لپکا، میں نے پوچھا کہ رہائی کے بعد آپ کو کبھی انتقام کی نہیں سوجھی؟ اس نے کہا انتقام مگر کس سے۔۔۔؟ یہ کہہ کر جوان کچھ دیر کے لئے خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے کہا کہ اس اسیری کے دوران جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دہشت گرد، یہ لوگوں کو اغوا کرنے والے تو فقط "طالبان کالیبل" استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک مکمل مافیا ہے، جس میں چوٹی کے ڈاکو سرکاری اداروں کی ملی بھگت سے خوف و ہراس پھیلا کر کبھی امریکہ سے اور کبھی عوام سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔ اگر ہمارے سرکاری ادارے اور حکمران ان ڈاکووں کی سرپرستی چھوڑ دیں تو کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ عوام النّاس کا قتلِ عام کرے اور لوگوں کو اغوا کرے۔

اس کے بعد جوان نے ایک سوال مجھ سے کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ لوگ جو ہر روز طالبان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے اعلان کرتے ہیں، کیا یہ دہشت گردی پر قابو پالیں گے۔؟ میں نے عرض کیا جہاں پر جرنیل خود فخر سے کہتے ہوں کہ ہم نے "طالبان" کی بنیاد ڈالی تھی، ہم نے دینی مدارس کو دہشت گردی کی ترغیب دی تھی، ہم نے معصوم اور بےگناہ جوانوں کو اسلحے سے آشنا کیا تھا۔ وہاں پر حملے کرکے اور آپریشنز کے ذریعے دہشت گردی کو نہیں روکا جاسکتا۔ جوان نے پوچھا پھر کیا کیا جائے؟ میں نے دوبارہ عرض کیا کہ یہ ڈرامہ صرف اسی صورت میں ختم ہوسکتا ہے جب اصلی مجرم دار پر لٹکیں۔ اصلی مجرم یہ نام نہاد "طالبان" نہیں ہیں بلکہ یہ تو طالبان ہی نہیں ہیں۔ اصلی مجرم تو وہ جرنیل اور ادارے ہیں، جنہوں نے ہماری ملت کے جوانوں کے ہاتھوں سے کتاب لے کر کلاشنکوف تھما دی۔ اصلی کارروائی اور اصلی آپریشن تو ان کے خلاف ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ سارے آپریشن ایک فرضی ڈرامے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

یوں یہ انٹرویو ختم ہوگیا اور اس انٹرویو کے تقریباً چار سال بعد جب ایک طرف تو ۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ کو پشاور میں طالبان نے ایک سکول کے۱۴۰ بچوں کو شہید کردیاہے اور دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ فرضی ڈرامہ کبھی ختم ہونے کو بھی آئے گا یا نہیں ۔۔۔ ڈرامہ یہ ہے کہ "طالبان"دہشت گردی کر رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ "ہمارے ادارے" دہشت گردی کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ کیا آج ہماری کوئی عدالت اس ڈرامے کے خاتمے کے لئے ان جرنیلوں اور اداروں کے خلاف ازخود نوٹس لینے کا سوچ بھی سکتی ہے، جنہوں نے ہماری ملت کے جوانوں کے ہاتھوں سے کتاب لے کر کلاشنکوف تھما دی۔۔۔؟

تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

Add new comment