جسے کل اعظم طارق اور ریاض بسرا کہتے تھے وہ اب گلوبٹ بنا پھر رہاہے۔

 

 

جسے کل اعظم طارق اور ریاض بسرا کہتے تھے وہ اب گلوبٹ بنا پھر رہاہے۔

ارے بھئی ، یہ تو اپنا گلو بٹ ہے، گلو بٹ“۔
”کون ہے یہ؟ یہاں کیا کر رہا ہے ؟ کیوں گاڑیوں کے شیشے کسی مولا جٹ کی طرح توڑ رہا ہے اور پولیس اس کے گرد بڑی بے نیازی سے گھوم پھر رہی ہے ۔ کون ہے یہ؟

جسے کل اعظم طارق اور ریاض بسرا کہتے تھے وہ اب گلوبٹ بنا پھر رہاہے۔
”سارا شہر جانتا ہے، مسلم لیگ ن کا کارکن ہے۔ اور ہاں چپکے سے بتاتا چلوں ، فیصل ٹاﺅن تھانے کی پولیس کا ٹاﺅٹ مشہور ہے۔“
اس ایک منظر نے ساری کہانی بے نقاب کر دی ہے۔ اسے یہاں کون لایا اور کس لئے لایا گیا ہے ۔یہ اس دھڑلّے سے گاڑیوں کے شیشے توڑے جارہا ہے اور پولیس تماشا دیکھ رہی ہے۔ اس پولیس کو قانون شکنی کی تو جو سزا ملنی چاہیے وہ الگ ہے، اس کھلی حماقت پر الگ سے باز پرس ہونا چاہیے۔سارے منظر کیمرے میں محفوظ ہو رہے ہیں۔
سانحہ ماڈل ٹاﺅن ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی معقول تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ کہا جاتا ہے پولیس یہاں صرف سڑک پر قائم رکاوٹیں توڑنے آئی تھی۔ یہ رکاوٹیں کوئی ایک دو دن پہلے نہیں، کوئی چار برس پہلے اہل محلہ کی تائید سے اور شاید عدالت کی اجازت سے قائم کی گئی تھیں۔ پھر یہ اچانک کیا ہو گیا کہ آدھی رات کے بعد پولیس نے اچانک دھاوا بول دیا اور گاڑیاں بھر بھر کر آئے، انہیں عدالتی حکم نامہ دکھایا گیا۔ انہیں بتایا گیا ایسی حفاظتی رکاوٹیں شہر بھر میں ہیں۔ خودوزیراعلیٰ کے گھر مختلف گھروں کے گرد بھی ہیں، پھر ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہیں گرایا جانا مقصود ہے۔
پولیس کا کہنا ہے، ان رکاوٹوں کو جب قائم کیا گیا تھا تو یہاں پولیس نگرانی کرتی تھی، اب طاہر القادری صاحب کے بندوں نے یہ ذمہ داری خود سنبھال لی ہے اور علاقے کو نو گو ایریا بنا لیا ہے۔ پھر بھی یہ وقت کا انتخاب کیسا ہے۔ جب ملک میں ضرب عضب کا آپریشن شروع ہے۔ ، تمام سیاسی جماعتیں یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ابھی کل تک لگتا تھا پوری قوم ایک ہے۔ یک زبان ہے۔ عمران خان، شیخ رشید، سب اپنے احتجاج موخر کر رہے ہیں۔ طاہر القادری کا بھی اعلان آنے والا ہے۔ یہ کل کی بات ہے، آج ہر کوئی دھاڑ رہا ہے۔ کہہ رہا ہے، آنقلاب آ کر رہے گا، ہمارا احتجاج ضرور ہو گا، وزیراعلیٰ استعفیٰ دیں ۔ پنجاب حکومت کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ خطابت کے جوہر دکھانے والے وزیراعلیٰ ہکلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ، جرم ثابت ہو جائے تو استعفیٰ دے دیں گے۔ لاٹھی ، گولی کی سیاست ان کا انداز نہیں ہے۔
وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ پھر یہ سب کیسے ہوا۔ رکاوٹیں گرانا ایسی کوئی بڑی بات نہ تھی۔ رات ایک بجے سے لے کر دوپہر تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں ایسی کیا مشکل آن پڑی تھی ۔ کہا جاتا ہے مزاحمت کی گئی۔ لوگ آمادہ فساد تھے۔ ایک ”فساد“ کا تو بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ، اندر سے فائرنگ ہوئی، اندر اسلحہ تھا۔ کم از کم کیمرے کی آنکھ نے تو اندر سے آتی کسی گولی کا اندازہ نہیں لگایا۔ وہ تو ڈنڈوں پتھروں سے لڑ رہے تھے اور یہ شقاوت قلبی کی انتہا کر رہے تھے۔ نشانہ تاک کر گولیاں برسا رہے تھے۔ عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہ تھے ۔ جس طرح عمر رسیدہ اور ضعیف نہتے لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ایمبولینس اور پولیس گاڑیوں میں ڈالا گیا وہ دیدنی تھا۔ انہیں کیا ہو گیا تھا۔ انہیں گولی چلانے کا حکم کس نے دیا تھا۔ ایک زمانے میں یہ حکم کوئی مجسٹریٹ یا ڈسٹرکٹ انتظامیہ کا کوئی افسر دیتا تھا۔ اب یہ ذمہ داری پولیس کی ہے۔ پولیس کے کس اعلیٰ افسر نے یہ حکم دیا۔ اور بغیر حکم یہ سب ہوا ہے تو ڈسپلن کی اس سے بڑی خرابی اور کیا ہو سکتی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں، چشم تصور سے اور کوئی منظر یاد نہیں آ رہا۔ 12مئی کی کہانی مختلف تھی۔ البتہ 19اپریل 1977ءکا قصہ یاد آتا ہے۔ وہ جب بھٹو حکومت کے خلاف پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج ہوا تھا۔ نتھ فورس منگوائی گئی تھی۔ پھر مگر تاریخ بدل گئی تھی۔ یہ واقعہ بھی تحریک شروع ہونے کے ایک ماہ بعد ہوا تھا۔ یہاں تو ابھی تحریک نہ اس کا نام و نشان ، پھر یہ شدید ترین ردّعمل کیسا؟
کہا جاتا ہے طاہر القادری کو سبق سکھانا مقصود تھا۔ اس کا فیصلہ کہاں سے ہوا تھا۔ اسے بھی اب تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ایک دن پہلے میٹنگ ہوئی تھی۔ رانا ثناءاللہ نے صدارت کی تھی۔ ضلعی انتظامیہ نے مشورہ دیا تھا کہ خواہ مخواہ رکاوٹیں ہٹانے کا”پنگا“ نہ لیا جائے(معاف کیجئے مستعمل ہونے کے باوجود میں اس غیر ثقہ لفظ کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں، مگر اس وقت مجبوری ہے) تاہم ان کی بات نہ سنی گئی۔ صاف کہا گیا کہ انہیں ذرا سبق بھی سکھا دیا جائے۔ مطلب یہ کہ طاہر القادری کو بتا دیا جائے کہ اگر انہوں نے گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ طاہر القادری سے اتنا ڈر کیوں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ خفیہ قوتوں کے بل بوتے پر ناچتے ہیں۔ اور ملک کے حالات خراب کر کے چلے جاتے ہیں۔ یہ قوتیں ملکی بھی ہیں اور غیر ملکی بھی۔ ملکی قوتوں کو بھی پیام دینا مقصود تھا کہ تمہیں اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ ان کی پشت پناہی مت کرو۔ مطلب یہ کہ ایجنسیوں کو یہ بتایا گیا کہ ہم بھی کچھ کر سکتے ہیں۔
کسی نے اس پر بڑا عجیب تبصرہ کیا ۔ فکر نہ کرو حالات قابو میں آ جائیں گے۔ عمران ، شیخ رشید، الطاف، طاہر القادری کو فی الحال میدان میں آنے سے روک دیا جائے گا۔ یہ سب ایک ہی کھونٹے پر پھدک رہے ہیں۔ اس وقت ان کا شور شرابا نقصان دہ ہو گا، اس لئے انہیں روک دیا جائے گا اور حالات دگرگوں نہیں ہوں گے۔
ایک دوسری کہانی بھی ہے۔ وہ یہ کہ دشمن کو تو برداشت کر لیا جاتا ہے ، باغی کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ طاہر القادری کی شریف خاندان نے بہت پرورش کی ہے، اب یہ طوطا چشمی پر اتر آیا ہے اور باز ہی نہیں آ رہا۔ اسے اس کی اوقات دکھانا مقصود ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ واقعہ صرف پولیس کی غلطی نہیں یا ایک غلط فیصلے کا نتیجہ نہیں ، بلکہ ایسا کرنے والے سمجھتے تھے کہ وہ حکمران خاندان کو خوش کررہے ہیں جو پیچ و تاب کھائے بیٹھا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپریشن اس لئے بھی طویل ہوا کہ پولیس کا ارادہ چند دستاویزات پر قبضہ کرنا تھا۔ ایک تو رانا ثناءاللہ کہتے ہیں کہ یہاں تحریری طور پر حلف لیا جاتا ہے، قرآن کو ضامن بنا کر کہ وہ اپنے قائد کے حکم پر سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ کچھ اور دستاویزات بھی درکار تھیں۔ شاید شہر شہر ارکان کی فہرستیں ۔ رانا صاحب کی باتوں سے اس کا بھی اشارہ ملتا ہے ۔ان کا کہنا ہے فی الحال تو ہم رکاوٹیں توڑ نے گئے تھے۔

کچھ بھی کہہ لیجئے،کسی لحاظ سے یہ آپریشن مناسب نہیں۔ اس کی کسی حلقے سے تائید نہیں آئی ہے۔ البتہ شہباز شریف کی قیادت گہنا گئی ہے۔ کسی نے ایک نکتے کی بات کی ہے ۔ جیو کا مقدمہ خواجہ آصف کو لے بیٹھا۔ طالبان سے مذاکرات چوہدری نثار کے لئے مشکلات لے کر آئے اور اب سانحہ ماڈل ٹاﺅن نے شہباز شریف کے امیج کو خراب کیا ہے۔ ہو سکتا ہے، شاید حالات قابو میں آ جائیں، کر لئے جائیں۔ کسی نے کہا فوج کسی صورت حالات خراب ہونے کی متحمل نہیں ہو سکتی، حالت جنگ میں جو ہے۔خود ہی سنبھال لے گی ۔ٹھیک ہے، مگر پھر اس کی قیمت بھی تو لے گی۔ یہ بھی کسی نے سوچا ہے۔ جس زاویے سے دیکھیں، تصویر اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ شریفوں کی تاریخ کا قبیح ترین واقعہ ہے۔ یوں لگتا ہے ، ہم پر گلو بٹ کا راج قائم ہو گیا ہے۔ گلو بٹ کسی فرد کا نہیں، ایک کلچر کا نام ہے۔جوکبھی اعظم طارق یا ریاض بسرا بنا پھرتا تھا اب گلوبٹ بنا پھر رہاہے۔فرق صرف داڑھی کا ہے وہ داڑھی کے ساتھ سرکاری اداروں کی چاکری کرتے تھے اور یہ داڑھی کے بغیر ہے۔

نئی بات سے معذرت کے ساتھ۔۔۔

Add new comment