عراق میں مکمل طور پر ہم آہنگ چار بڑی طاقتیں میدان عمل میں
عراق میں مکمل طور پر ہم آہنگ چار بڑی طاقتیں میدان عمل میں
ٹی وی شیعہ [آن لائن ورلڈ ڈیسک]عراق میں طاقت کے کئی مراکز ہیں، جو خوش قسمتی سے اس وقت مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ وہاں ایک منتخب حکومت گذشتہ کئی سالوں سے قائم ہے، یہ حکومت عراق کے دفاع کے لیے مستعدد ہے، تاہم عراق میں طاقت کا دوسرا بڑا اور اہم مرکز نظام مرجعیت ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی اس مرکزک ی ایک اہم شخصیت ہیں، گذشتہ جمعہ آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے جہاد کا فتویٰ صادر کرکے اس مرکز کے فعال اور متحرک ہونے کا مظاہرہ کیا۔ لاکھوں نوجوان، علماء اور اساتذہ فوجی مراکز کی جانب دوڑ پڑے۔ اس مرکز میں سید مقتدیٰ الصدر کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے۔ سید مقتدیٰ الصدر عراق کے طاقتور عسکری گروہ جیش المہدی کے سربراہ ہیں۔ اس گروہ نے کربلا، نجف اور بغداد میں استعاری قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا۔ سید مقتدیٰ الصدر بھی اس وقت میدان عمل میں اتر چکے ہیں، انہوں نے اگلے ہفتے اپنے پیروکاروں کو عراق کے مختلف علاقوں میں فوجی قوت کے مظاہرے کا حکم دیا ہے۔
عراق میں دینی لحاظ سے تیسری بڑی قوت سید عمار الحکیم ہیں۔ سید عمار الحکیم اس وقت باقاعدہ طور پر عسکری لباس زیب تن کرچکے ہیں، ان کے پیروکار بھی عسکری اداروں کے شانہ بشانہ ملک کے دفاع کے لیے آمادہ نظر آتے ہیں۔
ملک کی چوتھی بڑی مذہبی قوت اہلسنت علماء ہیں۔ داعش نے موصل پر قبضے کے بعد اس علاقے کے بارہ اہل سنت علماء کو بیعت نہ کرنے پر قتل کر دیا۔ بصرہ اور عراق کے مفتیان کرام نے بھی وھابیوں سے جنگ کا فتویٰ صادر کر دیا ہے۔ اس وقت عراقی افواج ہی نہیں بلکہ عراقی علماء اور عوام سب اس فتنے کی سرکوبی کے لیے مجتمع ہیں اور اپنی مقدس سرزمین کے چپے چپے کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔
اس مشکل صورتحل میں امریکہ اور سعودی عرب بھی داعش کی براہِ راست مدد کرنے سے قاصر ہیں اور داعش کو اس وقت عراق میں سخت شکست اور ذلت کا سامنا ہے۔داعش کو عراق میں اس وقت مسلسل پسپائی اور شکست کا سامنا کرنا بڑا جب آیت اللہ سیستانی نے عراقی عوام سے اپیل کی کہ وہ ہتھیار اٹھالیں اور عراق کا دفاع کریں ۔انہوں نے داعش کے خلاف “جہاد کفائی” کا فتوی بھی جاری کیا تھا۔واضح رہے کہ آيت اللہ العظمي سيستاني نے وطن اور مقدسات کے دفاع کے لئے جہاد کفائي کا فتوي جاري کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو بھي وطن کے دفاع ميں مارا جائے گا وہ شہيد ہوگا-
جس کے بعد عراق کے شیعہ اور سنی مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جہاد کے لئے اپنا اندراج کروایا۔لوگ جہاد کے لئے بے تاب ہو کر مختلف مراکز اور دفاتر میں رجوع کرنے لگے اور یوں لوگوں میں شوقِ شہادت کا ولولہ دیکھ کر داعش کے چھکے چھوٹ گئے اور ان کی پیش قدمی رک گئی۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق داعش نے اپنی اس شکست کا ذمہ دار آیت اللہ سیستانی کے فتوے کو قرار دیاہے اور اپنے ایک بیان میں آیت اللہ سیستانی سے انتقام لینے کا اعلان بھی کیاہے۔داعش کے اس اعلان کے بعد عراقی عوام میں غم و غصے کی نئی لہر اٹھ گئی ہے اور لوگ مرج عالیقدر پر اپنی جانوں کو نثار کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور اس وقت سارا عراق لبیک یا حسینؑ اور لبیک یا سیستانی کے نعروں سے گونج رہاہے۔
دوسری طرف مبصرین کے مطابق آیت اللہ سیستانی ایک دوراندیش اور بہادر شخصیت کے مالک ہیں اور انہوں نے پہلے بھی اس طرح کی دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیاہے۔لہذا داعش کی دھمکیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔
اسی طرح کل آيت اللہ العظمي سيستاني کے دفتر کے ايک عہديدار نے نجف اشرف ميں نامہ نگاروں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا ہے کہ آيت اللہ العظمي سيستاني نے سبھي عراقي شہريوں کو مکمل طور پر صبر و تحمل سے کام لينے کي سفارش کي ہے –
آیت اللہ سیستانی کے فتوی کے بعد عراق کے کچھ مناظر ملاحظہ فرمائیں:
Add new comment