کراچی ائیر پورٹ پر حملے کے بعدشہر کی کچی آبادیوں میں آپریشن شروع

 

 

ٹی وی شیعہ [آن لائن]ملک کے معاشی مرکز اور میٹرو پولیٹن شہر کراچی میں حساس مقامات اور تنصیبات کے اطراف میں قائم کچی آبادیاں تنصیبات کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ ایسی آبادیوں کے کوائف جمع کرنے کی متعدد مرتبہ سفارشات تیار کی گئیں لیکن تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے ، کراچی ائیرپورٹ کے ایک جانب بھٹائی آباد اور پہلوان گوٹھ سمیت کئی گوٹھ ہیں جبکہ دوسری جانب ماڈل کالونی اور کاظم آباد کی آبادیاں ہیں۔ مذکورہ آبادیاں ائیرپورٹ کے اتنے قریب واقع ہیں کہ جہان سے جہاز اڑان بھرتے اور اترتے عمارتوں کی چھتوں سے باآسانی نظر آتے ہیں۔ کیماڑی میں قائم انتہائی حساس آئل ٹرمینل کے قریب شیریں جناح کالونی اور جیکسن کے علاقے ہیں۔ آئی آئی چندریگر روڈ پر قائم سندھ پولیس کے مرکزی دفتر سینٹرل پولیس آفس کے عقب میں ہجرت کالونی واقع ہے۔

پولیس ٹریننگ سینٹرز رزاق آباد کے ارد گرد مختلف گوٹھ اور سعید آباد کے اطراف قائم سجن گوٹھ اور دیگر آبادیاں بھی سینٹروں کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، رزاق آباد سینٹر کی بس پر حملہ کیا جاچکا ہے جبکہ سعید آباد سینٹر کے باہر بم رکھا گیا تھا جو کہ خوش قسمتی سے فوری طور پر پتہ چلنے کے بعد ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ سائوتھ زون میں کلفٹن کے علاقے میں قونصل خانوں کے اطراف نیلم کالونی اور دیگر آبادیاں ہیں۔ انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا کہ ایسی آبادیوں کے سروے کرنے کی ضرورت ہے، علاقہ مکینوں کے کوائف پولیس کے پاس ضرور ہونا چاہیں جس کی سفارشات کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کو ارسال کی جا چکی ہیں لیکن عملدرآمد کے احکامات موصول نہیں ہوئے۔

کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد رینجرز اور پولیس نے شہر کی کچی آبادیوں میں کالعدم تنظیم کے کارندوں کی ممکنہ موجودگی کے پیش نظر آپریشن شروع کر دیا ہے جس کے ساتھ ساتھ جیلوں میں قید کالعدم تنظیموں کے کارندوں سے بھی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ منگھو پیر کنواری کالونی میں آپریشن کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہو گیا، زخمی ہونے والا کالعدم تحریک طالبان کا کارندہ بتایا جاتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد رینجرز اور پولیس نے منگھو پیر کواری کالونی، بلدیہ ٹاؤن، اتحاد ٹاؤن، سعید آباد، کیماڑی، مچھر کالونی، لیاری، سلطان آباد، سٹی ریلوے کالونی، سہراب گوٹھ اور میمن گوٹھ سمیت شہر کی دیگر کچی آبادیوں میں کالعدم تنظیموں کے کارندوں کی ممکنہ موجودگی کے پیش نظر ٹارگٹڈ آپریشن شروع کر دیے، رینجرز کی بھاری نفری نے منگھو پیر کواری کالونی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران علاقہ کا محاصرہ کر کے گھر گھر تلاشی شروع کی اس دوران نامعلوم افراد نے محاصرہ توڑ کر فرار ہونے کے لیے فائرنگ کی رینجرز کی جوابی فائرنگ سے ایک شخص زخمی ہو گیا جسے رینجرز نے حراست میں لے کر طبی امداد اور تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

رینجرز ترجمان کے مطابق زخمی ہونے والا تحریک طالبان پاکستان کا کارندہ ہے۔ ذرائع کے مطابق رینجرز کی جوابی فائرنگ سے2 افراد زخمی ہوئے تھے جس میں سے ایک ہلاک ہو گیا تھا جبکہ دوسرا زخمی تھا تاہم رینجرز ترجمان نے اس کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سلطان آباد، قائمخانی کالونی سمیت متعدد کچی آبادیوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کا جال بچھا دیا جبکہ کراچی اور اندرون سندھ کی جیلوں میں قید کالعدم تنظیموں کے کارندوں سے بھی تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

اسی طرح ائیرپورٹ جیسے حساس مقام پر کھلے عام دہشتگردوں داخل ہوئے اور چند منٹوں میں پاکستان کے انتہائی حساس اور ریڈزون ائیریا کو یرغمال بنالیا، ہمارے سیکورٹی ادارے شاید اس حملے کے لئے تیار نہیں تھے اسی لیے پندرہ سے بیس منٹ بعد سیکورٹی اہلکاروں نے جوابی کاروائی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نامی دیوبندی وہابی  دہشتگرد جماعت نے قبول کی ہے جو پہلے ہی 60 ہزار پاکستانیوں کاخون اپنے ذمے لے چکی ہے۔ اس تنظیم کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس حملے کو طالبان کی کاروائی قرار دیا ہے۔

انتہائی حساس مقام پر ہونے والی دہشتگردی نے بہت سارے سوالوں کو جنم دیا ہے وہیں سیکورٹی اداروں کی نااہلی پر بھی کئی سوال اُٹھ رہے ہیں، جبکہ سندھ میں دہشتگردی کے بڑے واقعات کی پیشگی وفاق کی جانب سے کی جاچکی تھی، اس کے باوجو د سیکورٹی کی یہ صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس حوالے سے انتطامی تفتش تو ہونے ہی چایئے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تحقیقات ہونا چاہیے کہ کراچی ائیرپورٹ پر حملے کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کو کراچی میں کسی نے لوجسٹک سپورٹ کی انہیں کراچی میں کس نے پناہ دی اور کہاں سے ان دہشتگردوں نے اس حملے کی پلانگ کی۔
تحریک طالبان جو اس حملے کی ذمہ داری قبول کرچکی ہے، ایک دیوبندی وہابی جماعت ہے، اسکی سپورٹ میں کئی مدارس کراچی میں سرگرم ہیں، لہذا اس بات میں شک نہیں کہ حملہ آوار کسی دیوبندی وہابی مدرسے میں کئی ہفتوں سے ہیٹھے اس حملے کی پلانگ کررہے تھے۔ اب سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مدرسے کا پتہ لگائیں جہاں اس گھناونی سازش کی پلانگ کی گئی، لہذا کراچی میں موجود تمام ایسے دیوبندی وہابی مدارس کو شامل تفتیش کیا جائے جو دہشت گردوں کی اخلاقی اور اعلانیہ سپورٹ کرتے ہیں، یقیناً اس حملے کی تیاری بھی کراچی میں موجودی کسی دیوبندی مدرسہ کے اندر چھپ کر کی گئی ہے۔ سیکورٹی اداروں کو فوری طور پر ان مدارس کی چھان بین کرنا ہوگی، اتنا بڑا اور منعظم حملہ کراچی سے باہر بیٹھ کر ترتیب دینا ناممکن ہے اس حملے کی پلانگ ٹارگٹڈ مقام سے قریب کسی جگہ پر بیٹھ کر کی گئی ہے، اس مقام سے قریب جتنے دیوبندی مدارس ہیں جو تکفیریت اور طالبان فکر کو فروغ دے رہے ہیں انکو پکڑ میں لایا جائے، خاص طور پر اصفہانی گیٹ سے قریب موجود دارلخیر نامی دیوبندی مدرسے کو نگرانی میں لایا جائے کیونکہ ذرائع کے مطابق کئی دنوں سے اس مدرسے میں مشکوک افراد کی نقل و حرکت دیکھی جارہی تھی۔

Add new comment