دنیائے اسلام کو سعودی عرب کے حکام کاگریبان نہیں چھوڑنا چاہیے/آل سعود کا صد عن سبیل اللہ کا ارتکاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے حج کی آمد کے موقع پر عالم اسلام کے نام اپنے پیغام میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو سعودی عرب کے حکام کو اچھی طرح پہچاننا چاہیے آل سعودی نے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر سنگین اور مجرمان

کی رپورٹ کے مطابق رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے حج کی آمد کے موقع پر عالم اسلام کے نام اپنے پیغام میں تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو سعودی عرب کے حکام کو اچھی طرح پہچاننا چاہیے آل سعودی نے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر سنگین اور مجرمانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے دنیائے اسلام کو سعودی عرب کے حکام کاگریبان نہیں چھوڑنا چاہیے سعودی حکام امریکی اور اسرائیلی غلام ہیں اور وہ حرمین الشرفین کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کی پشت میں خنجر گھونپ رہے ہیں ۔

بسم اللّه الرّحمن الرّحیم
وَ الحَمدُ لِلّهِ رَبِّ العالَمین وَ صَلَّی اللّهُ عَلی سَیّدِنا مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّیِّبینَ وَ صَحبِهِ المُنتَجَبین وَ مَن تَبِعَهُم بِاِحسانٍ اِلی یَومِ الدّین.
پوری دنیا میں، مسلم بہنوں اور بھائیو!

حج کا موسم مسلمانوں کے لئے، خلائق کی نظروں میں فخر و عظمت کا موسم، اور  دل کی نورانیت اور خالق یکتا کے سامنے خشوع و دعا و راز و نیاز کا موسم ہے۔ حج ایک قدسی اور دنیاوی اور خدائی و انسانی فریضہ ہے۔ ایک طرف سے حکم آتا ہے کہ "فَاذکُرُوا اللّهَ کَذِکرِکُم ءابآءَکُم اَو اَشَدَّ ذِکرًا" (1)، "وَ اذکُرُوا اللّهَ فی اَیّامٍ مَعدوداتٍ" (2) اور دوسری طرف سے خطاب ہوتا ہے کہ "الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاء الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ" (3) جس سے حج کے بےانتہا اور مختلف النوع پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔

اس بےمثل فریضے میں زمان و مکان [وقت اور جگہ] کی سلامتی [اور امن و سکون]، سے انسانوں کے دل سکون پاتے ہیں اور یہ سلامتی حج بجا لانے والوں کو بدامنی کے ان عوامل و اسباب کے محاصرے سے خارج کردیتی ہے ـ جو تسلسل کے ساتھ تسلط پسند ستمگروں کی جانب سے بنی نوع انسان کے فرد فرد کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں ـ اور ایک معین دور میں انہیں امن و سلامتی کی لذت چکھا دیتی ہے۔

وہ حجِّ ابراہیمی جو اسلام نے مسلمانوں کو بطور ہدیہ عطا کیا ہے، عزت و عظمت، معنویت، وحدت اور شکُوہ کا مظہر ہے، جو امت اسلامیہ کی عظمت اور اللہ کی لازوال قوت پر مسلمانوں کا بھروسا اور اعتماد، کینہ پروروں اور دشمنوں کو جتا دیتا ہے اور بین الاقوامی جابروں، بدمعاشوں کی طرف سے انسانی معاشروں پر مسلط کردہ برائیوں، ذلتوں اور حقارتوں اور عجز وبےبسی کی دلدل سے ان کی دوری کو نمایاں کر دیتا ہے۔ اسلامی اور توحیدی حج، جو اسلام نے مسلمانوں کو بطور ہدیہ عطا کیا ہے، "أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ" (4) کا مظہر ہے؛ مشرکین سے بیزاری اور مؤمنین کے درمیان الفت اور وحدت و یکجہتی کا مقام ہے۔
جن لوگوں نے حج کا رتبہ ایک  "زیارتی ـ سیاحتی" سفر کی حد تک گھٹا دیا ہے، اور ایران کی مؤمن اور انقلابی ملت کے ساتھ اپنی دشمنی اور معاندت کو "حج کو سیاسی کرنے" کے عنوان کی آڑ میں چھپا رکھا ہے، چھوٹے چھوٹے حقیر سے شیاطین ہیں جو شیطان اکبر امریکہ کی خواہشات کے خطرے میں پڑنے سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں۔ سعودی حکام جو اس سال "صدّ عن سبیل‌اللہ والمسجد الحرام (5) کرکے اور اللہ کے محبوب گھر کی جانب ایران کے غیور اور مؤمن حاجیوں کا راستہ بند کئے ہوئے ہیں، روسیاہ گمراہ ہیں جو اپنے ظالمانہ اقتدار کے تخت پر بقاء کو، عالمی مستکبرین کے دفاع و تحفظ اور صہیونیت اور امریکہ کے ساتھ اتحاد اور ان کی خواہشات پوری کرنے، میں ہی سمجھتے ہیں اور اس راستے میں بھی کوئی بھی خیانت کر گذرنے سے منہ نہیں پھیرتے۔

منٰی کے دہشت ناک اور ہراس انگیز حادثات سے ایک سال کا عرصہ گذر رہا ہے جس میں کئی ہزار افراد عید کے دن احرام کے لباس میں، دھوپ کی چادر تلے شدید تشنگی میں مظلومیت کے عالم میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؛ اُس سے کچھ ہی دن قبل مسجد الحرام میں عبادت، طواف اور نماز کی حالت میں متعدد افراد خاک و خون میں تڑپا دیئے گئے۔ سعودی حکام ان دونوں واقعات میں قصوروار ہیں؛ یہ وہ حقیقت ہے جس پر تمام حاضرین، ناظرین اور فنی تجزیہ نگاروں کا اتفاق ہے؛ اور بعض صاحب رائے افراد نے اس گماں کو بھی قوی قرار دیا ہے کہ یہ واقعہ ارادی اور عمدی تھا۔ یہ بھی مسلّمہ حقیقت ہے کہ نیم جان زخمیوں کو نجات دینے میں ـ جن کی عاشق جانیں اور مشتاق دل عید الضحی کے موقع پر ذکر اور تلاوت آیات الہیہ میں مصروف تھے ـ تاخیر اور غفلت برتنا بھی قطعی اور مسلّم ہے۔ سنگدل اور جرائم پیشہ سعودی افراد نے انہیں بند دروازوں والے بےجان حاجیوں کے ساتھ کنٹینروں میں قید کرلیا، اور علاج و معالجے اور مدد ـ یا حتی ان کے تشنہ لبوں تک ایک قطرہ پانے پہنچانے ـ کے بجائے، انہیں شہید کردیا۔ دنیا کے مختلف ممالک کے ہزاروں خاندان اپنے عزیزوں کو کھو بیٹھے اور ان کی قومیں غمزدہ ہوئیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران سے تقریبا 500 افراد شہداء میں شامل تھے۔ ان خاندانوں کے دل ابھی مجروح اور غمزدہ ہیں اور قومیں بدستور مغموم اور غضبناک ہیں۔

سعودی حکام نے معذرت کرنے اور پشیمانی و ندامت کا اظہار کرنے، اور اس ہولناک حادثے اور ارتکاب جرم میں براہ راست ملوث افراد پر مقدمہ چلانے کے بجائے نہایت بےشرمی اور بےحیائی کا ثبوت دیتے ہوئے، حتی بین الاقوامی اسلامی حقیقت یاب مشن (Fact finding Mission) تشکیل دینے سے بھی انکار کیا؛ ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے بجائے، مدعی کے مقام پر کھڑے ہوگئے اور اسلامی جمہوریہ کے ساتھ ـ اور کفر اور استکبار کے مقابلے میں اسلام کے لہراتے ہوئے پرچم کے ساتھ ـ دیرینہ دشمنی کو خباثت اور بیہودگی کے ساتھ، زیادہ سے زیادہ آشکار کیا۔

ان کے تشہیری آلات ـ منجملہ وہ سیاستدان جو صہیونیوں اور امریکیوں کے سامنے ان کی روش عالم اسلام کے لئے باعث شرم ہے، اور وہ غیرپرہيزگار اور حرام مفتی جو اعلانیہ طور پر قرآن و سنت کے خلاف فتوے دیتے ہیں، اور ابلاغی دنیا کے ادنی ملازمین جن کی دروغ گوئی اور دروغ سازی میں پشہ ورانہ ضمیر بھی آڑے نہیں آتا ـ اسلامی جمہوریہ ایران کو  ایرانی حجاج کو اس سال کے حجّ سے محروم کرنے کا ملزم ٹہرانے کی بیہودہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ فتنہ انگيز حکام، جو تکفیری اور شرپسند ٹولے تشکیل دے کر اور کیل کانٹے سے لیس کرکے، دنیائے اسلام کو خانہ جنگی اور بےگناہوں کے قتل و جرح، سے دوچار کئے ہوئے ہیں اور یمن، عراق، شام، لیبیا اور بعض دیگر ممالک کو خون میں رنگ چکے ہیں؛ خدا سے غافل سیاست باز، جنہوں نے غاصب و جارح صہیونی ریاست کو دوستی کا ہاتھ دیا ہے اور فلسطینیوں کے جان لیوا مصائب و آلام پر آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں، اور اپنے ظلم و خیانت کی حدود کو بحرین کے شہروں اور دیہاتوں تک پھیلا چکے ہیں؛ وہ بےدین اور بےضمیر حکمران جنہوں نے منٰی کے المیئے کے اسباب فراہم کئے اور خادمین حرمین کے نام سے اللہ کے پر امن حرم کی حریم کو پامال کیا اور خدائے رحمان کے مہمانوں کو عید کے دن منٰی کے مقام پر اور اس سے پہلے مسجد الحرام میں قربان کردیا، ابھی تک حجّ کے سیاسی عمل نہ ہونے کا دعوی کررہے ہیں اور دوسروں پر ان عظیم گناہوں کا الزام لگا رہے ہیں جن کا ارتکاب انھوں نے خود کیا ہے یا پھر اس یا ان جرائم کے اسباب انھوں نے خود ہی فراہم کئے ہیں۔ وہ قرآن کریم کے اس بیان کا واضح ترین مصداق ہیں جہاں ارشاد ہوتا ہے: "وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيِهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ الفَسَادَ ٭ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ۔"۔ (6)

اس سال بھی، موصولہ رپورٹوں کے مطابق ایران اور بعض دیگر اقوام کے حجاج کا راستہ بند کرنے کے علاوہ، [سعودی حکام نے] امریکی اور صہیونی جاسوسی اداروں کی مدد سے دوسرے ممالک کے حجاج کرام کو غیر معروف اور غیر معمولی سیکورٹی کے دائرے میں مقید کرلیا ہے اور اللہ کے پرامن گھر کو سب کے لئے غیرمحفوظ بنایا ہے۔ عالم اسلام ـ بشمول حکومتوں اور مسلم عوام ـ کو چاہئے کہ سعودی حکمرانوں کو پہچان لیں اور ان کی توہین آمیز، [دشمنان اسلام سے] وابستہ اور مادہ پرستانہ حقیقت کا ادراک کریں؛ اور ان مظالم و جرائم کے بموجب، جو وہ دنیائے اسلام کے طول و عرض میں انجام دے چکے ہیں، ان کا گریباں نہ چھوڑیں؛ اور ضیوف الرحمن (7)  کے ساتھ ان کے ظالمانہ برتاؤ کی خاطر، حرمین شریفین اور مسئلۂ حج کے انتظام و انصرام کے لئے، بنیادی سوچ بچار کا اہتمام کریں؛ اس فریضے سے غفلت، امت مسلمہ کو مزید مشکلات اور دشواریوں سے دوچار کرے گی۔

میرے مسلمان بہنو اور بھائیو! اس سال مراسمات حج میں ایران کے مشتاق اور با اخلاص حاجیوں کی جگہ خالی ہے، لیکن وہ اپنے قلبوں کے ساتھ حاضر اور دنیا بھر کے حجاج کے ساتھ، اور ان کے حال و مستقبل کے لئے فکرمند ہیں، اور دعا کررہے ہیں کہ طاغوتوں کا شجرۂ ملعونہ انہیں کوئی گزند نہ پہنچائے۔ آپ اپنے ایرانی بہن بھائیوں کو اپنی دعاؤں، عبادات اور راز و نیاز میں یاد کریں اور اسلامی معاشروں کو درپیش مسائل و مصائب کے خاتمے، اور امت اسلامیہ سے مستکبرین، صہیونیوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے ہاتھ کوتاہ ہوجاتے کے لئے دعا کریں۔

میں گذشتہ سال مسجد الحرام اور منٰی کے شہداء نیز 1987 کے واقعے کے شہداء (8) کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور خدائے عزّ و جلّ سے ان کے لئے مغفرت اور رحمت و رضوان اور درجات کی بلندی کی التجا کرتا ہوں اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم (روحی لہ الفداء) کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہوئے امت اسلامیہ کی عظمت اور دشمنوں کی فتنہ انگیزيوں اور شرپسندیوں سے نجات کے لئے آپ(ع) کی دعائے مستجاب طلب کرتا ہوں۔

و باللہ التّوفیق و علیہ التُّکلان

سیّد علی خامنہ ا‌ی
آخر ذو‌القعدہ 1437ھ ق
12/ شہریور /1395ھ ش
5/ ستمبر / 2016ع‍

.........
1۔ سورہ بقرہ، آیت 200؛ "۔۔۔ اللہ کو یادکرو، ایسا جیسے تم اپنے باپ دادا کو یادکرتے رہے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر"۔
2۔ سورہ بقرہ، آیت 203؛ "اور اللہ کو یاد کرتے رہو کچھ گنتی کے دنوں میں"۔
3۔ سورہ حج، آیت 25؛ "جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے قرار دیا ہے، برابر ہیں اس میں مجاور وہاں کے اور باہر سے آنے والے"۔
4۔ سورہ فتح، آیت 29؛ "۔۔۔ کافروں کے مقابلے میں سخت ، آپس میں بڑے ترس والے ہیں۔۔۔"۔
5۔ سورہ اعراق کی آیت 45 اور سورہ انفال کی آیت 34 کی طرف اشارہ؛ اللہ کے راستے اور مسجد الحرام سے روکنا۔
6۔ سورہ بقرہ آیات 205 و 206؛ اور جب وہ بر سراقتدار ہو گا تو دنیا بھرمیں دوڑتا پھرے گا کہ اس میں فساد برپا کرے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے اور اللہ فساد کو دوست نہیں رکھتا ٭ اور جب اُس سے کہا جائے کہ اللہ کے غضب سے بچو تو غرور اس سے گناہ پر اصرار کراتاہے ایسے کے لیے دوزخ ہی بس کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
7۔ خدا کے مہمان۔
8۔ مکہ کے خونی جمعہ، امریکی دشمنیوں کی دوسری مثال ہے جو مورخہ 31 جولائی 1987ع‍ بمطابق 6 ذوالحجۃ الحرام سنہ 1407ھ ق کو موسم حج کے موقع، شرک و مشرکین سے بیزاری کے مراسمات کے بعد، آل سعود کے حکام کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئی۔ آل سعود نے اس موقع پر اللہ کے حرمِ امن کی حرمت توڑنے کے علاوہ، تقریبا 400 ایرانی اور غیر ایرانی حجاج کا قتل عام کیا۔ زيادہ تر شہداء خواتیں تھیں؛ اور شہداء کی تعداد سے کئی گنا افراد زخمی ہوئے۔

Add new comment