امیر المومنین علیہ السلام کی والدہ ماجدہحضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا

امیر المومنین علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا

حضرت فاطمہ بنت اسد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے چچا حضرت ابوطالب کی زوجہ اور ان کی چچا زاد بہن تھیں ۔فاطمہ بنت اسد اور ابوطالب بنی ہاشم میں پہلی خاتون تھیں جن کی شادی ان کے چچا زاد حضرت ابوطالب علیہ السلام سے ہوئی تھی ۔ فاطمہ بنت اسد ایک پاکدامن اور یکتا پرست خاتون تھیں ، طالب ، عقیل ، جعفر اور علی کے نام سےآپ کے چار بیٹے اور ام ہانی کے نام سے ایک بیٹی تھی ۔ انہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی ہجرت کے کچھ ہی دنوں بعد حضرت علی (ص) اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی ۔

مدینہ منورہ پہونچنے سے قبل حضرت علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر کے ساتھ صبح تک نماز پڑھی اور نماز صبح پڑھنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور قبا نامی مقام پر پہونچ کر رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محلق ہوگئے رسول اکرم (ص) مقام قبا میں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ساتھ آنے والوں کے منتظر تھے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ منورہ پہونچنے سے قبل جبرئیل حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی شان میں قرآن کریم کی یہ آیت لیکر نازل ہوئے کہ جو لوگ اٹھتے ، بیٹھتے ،لیٹتے خداکو یاد کرتے ہیں اورآسمان وزمین کی تخلیق میں غور وفکر کرتے ہیں خدا نے ان کی دعاؤں کو قبول کیا اس لئے کہ خدا کسی کے بھی عمل کو ضائع نہیں کرتا چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد مدینہ کی طرف پیدل ہجرت کرنے والی پہلی خاتون تھیں ۔

فاطمہ بنت اسد وہ پہلی خاتون ہیں جن کے بیٹے کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی ، حضرت علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت قریب تھی اور جب وضع حمل کے آثار نمایاں ہوئے تو حضرت فاطمہ بنت اسد نے مسجد الحرام اور خانہ کعبہ کے نزدیک آکر پناہ لی اور آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ جاری تھے کہ پروردگارا میں تجھ پر تیرے پیغمبروں اور تیری آسمانی کتابوں پرایمان رکھتی ہوں ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتی ہوں ، اس کا واسطہ جس نے اس گھر کو بنایا ہے اور اس بچے کا واسطہ جو میرے شکم ہے ، اس کی ولادت کو میرے اوپر آسان فرما ، فاطمہ بنت طواف کررہی تھیں کہ ناگہان دیوار کعبہ شق ہوئی اور وہ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوگئیں ،درحقیقت خدا وند متعال نے فاطمہ بنت اسد کو کعبہ کے اندر آنے کی دعوت دی تاکہ آپ کے بیٹے کی ولادت ایسے مقام اور گھر میں جسے اس نے توحید پرستوں کے لئے عبادت گاہ قرار دیا ہے ، دیوار کعبہ کا شق ہونا حضرت علی علیہ السلام کے سامنے خانہ کعبہ کےاحترام کی علامت ہے ۔

تین دن خانہ خدا می‍ں مہمان رہنے کے بعد فاطمہ بنت اسد کعبہ سے باہر نکلنے کے تیار ہوئیں تو اس وقت ایک غیبی ہاتف نے آواز دی کہ اے فاطمہ خدا فرماتا ہے کہ اس مولود کا نام علی رکھو ،کیونکہ میں علی اعلی ہوں میں نے اس بچے کا نام اپنے نام پر رکھا ہے اور اسے ادب کی تعلیم کی ہے اور میں نے اپنے امر کو اس کے حوالے کیا ہے اور اسے اپنے علم کی پیچیدگیوں سے آگاہ کیا ہےاور اس کی ولادت میرے گھر میں ہوئی ہے ، وہ پہلا شخص ہے جو پشت کعبہ پر اذان دےگا اور بتوں کو توڑ کر انھیں اوندھے منھ زمین پر گرادےگا ،خوش نصیب ہے وہ شخص جو اسے دوست رکھے ، اس کی اطاعت اور مدد کرے اور وائے ہو اس شخص پر جو اس سے بغض اور دشمنی رکھے ،اس کی اطاعت نہ کرے ، اسے ذلیل ورسوا کرے اور اس کے حق کا انکار کرے ۔ اس کے بعد اچانک دیوار کعبہ پھر شق ہوئی اور فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے کو آغوش میں لیکر باہر نکل آئیں ۔ لوگ ماں اور بچے کو تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ، فاطمہ بنت اسد سے سوال کرنے سے پہلے ہی آپ نے کعبہ کے اندر کے رونما ہونے والے بعض واقعات سے لوگوں کو آگاہ کیا اور اپنے بیٹے کی عظمت ، بہشتی کھانوں کے بارے میں خبر دی اور کہا کہ اس بچے کا نام آسمانی ندا کے مطابق علی ہے ،اس وقت ابو طالب اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم آگے بڑھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بچے کو اپنی آغوش میں لیا اور بچے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اس کی تعریف وتمجید کی ۔ ابوطالب نے ولیمہ کا اہتمام کیا اور فرمایا کہ علی ابن ابی طالب کے ولیمہ کے لئے آنے سے پہلے خانہ کعبہ کا سات بار طواف کرو اس کے بعد میرے بیٹے علی کو سلام کرو ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل آپ کے والد ماجد اور چھہ برس کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوگیا ،جس کے بعد عبد المطلب کی سرپرستی میں آپ کی پرورش اور تربیت ہونے لگی ۔ جب آٹھ برس کی عمر میں آپ کے دادا کا انتقال ہوا تو آپ اپنے چچا ابوطالب کی سرپرست میں آگئے ، فاطمہ بنت اسد بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حقیقی ماں کی طرح تھیں ،فاطمہ بنت اسد ایک حقیقی ماں کی طرح ان سے پیار اور محبت کرتی تھیں اور ہمیشہ آپ اپنے بچوں پر ترجیح دیتی تھیں اور مقدم قرار دیتی تھیں ۔ جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) فاطمہ بنت اسد کوان کی نیک کردار اور محبت کی وجہ سےانھیں بہت ہی نیک اور اچھے انداز میں یاد کرتے تھے ، یہاں تک کہ آنحضرت(ص) آپ کو ماں کہہ کر پکارنے کو اپنے لئے فخر سمجھتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی والدہ کا وجود جوپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے حقیقی ماں کی طرح سے تھیں اہل ایمان اور نیک عمل والوں کے لئے ماں اور عورت کے لحاظ سے بہترین نمونہ ہے جو سورہ نحل کی آیت نمبر ستانو ے کی نمایاں مصداق ہیں جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبان ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گےاور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے ۔

المختصر فاطمہ بنت اسد کا دین خدا کی حمایت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جانشین کی برسوں پرورش کرنے کے بعد چہارم ہجری کو انتقال ہوگیا ۔ آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا وصی مقرر کیا تھا ،امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے جناب فاطمہ بنت اسد کے انتقال کی خبر نہایت ہی غم واندوہ کے ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو پہونچائی ، پیغمبر اسلام (ص) نے یہ خبر سن کر سخت گریہ کیا اور فرمایا اے علی وہ صرف تمہاری ماں نہیں تھیں بلکہ میری بھی ماں تھیں ۔ پیغمبر اکرم (ص) کوفشار قبر کے بارے میں آپ کی وصیت یادآگئی جس میں آپ نے قبر میں اپنی ناتوانی کے بارے میں افسوس کیاتھا اس وقت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ میں خدا سے فشار قبر کے بارے میں سفارش کروں گا۔ رسول خدا (ص) نے اپنے قول کے وفا کے لئے اپنا پیراہن اتارکر اسے فاطمہ بنت اسد کے لئے کفن بنادیا اورانھیں قبرمیں اتار نے سے قبل پہلے خود ان کی قبر میں اترگئے اور ان کی لحد میں لیٹے اور فرمایا آج میری ماں دنیا سے رخصت ہوگئیں ،اس کے بعد اپنے مبارک ہاتھوں کو دعاکے لئے بلندکیا اور فرمایا کہ خدایا فاطمہ بنت اسد کوٹھوس باتوں کے لئے استوار کر۔ ا س کے قبر سے باہر نکل آئے تو عمر بن خطاب نے آپ سےکہا کہ اے رسول خدا آپ نے جو اس خاتون کے ساتھ کیا ویسا کسی کے ساتھ نہیں کیا ،آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ اے عمر یہ میری والدہ کے بعد جنھوں نے مجھے جنا تھا میری ماں تھیں ،ابوطالب پر احسان کرتی تھیں اور میری پرورش اور تربیت کی یہ خاتون اپنا پورا حصہ مجھے دیدیتی تھیں ،جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ وہ بہشتی ہیں اور خدا نے ستر ہزار فرشتوں کو ان پر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔

فاطمہ بنت اسد ایک قول کے مطابق ساٹھ برس کی اور ایک قول کے مطابق پینسٹھ برس کی تھیں آپ کی قبر مدینہ منورہ کے مشہور و معروف قبرستان بقیع میں ہے ۔

tvshia.com/urdu

Add new comment