زیارت عاشورا معتبر اور قدیم ترین شیعہ کتابوں میں
زیارت عاشورا معتبر اور قدیم ترین شیعہ کتابوں میں
زیارت عاشورا اور اس کے بعد پڑھی جانے والی دعا جو دعائے علقمہ کے نام سے مشہورہے دونوں ایسی روشن حقیقتیں ہیں جن کا انکار ہرگز ہرگز نہیں کیا جاسکتاہے۔ معتبر اور قدیم ترین شیعہ کتابوں میں اس کا وجود بتاتا ہے کہ علماء، محدثین، متکلمین، فقہاء و مجتہدین و مراجع تقلید عظام نے اس کی حفاظت اور اہتمام کے لئے مخصوص انتظام کیا ہے اور مراجع تقلید نے اس کے نقل کرنے کی اجازت دینے میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔ زیارت عاشورا جو شیعہ کتابوں میں متعارف ہے اس کے دو ماخذ ہیں:
۱۔ شیخ طوسی [رہ] کی مصباح
۲۔ اور کتاب کامل الزیارات۔
اگرچہ اس کی سند متعدد صحیح طریقوں سے نقل ہوئی ہے مگر ہم صرف شیخ طوسی قدس سرہ کے طریق کو اختیار کریں گے، تمام طُرُق کو ذکر کرنا اس مقام اور مناسبت کے منافی ہے جہاں صرف زیارت عاشورہ کی سندی حیثیت سے اس کی عظمت و منزلت کو لوگوں کے لئے واضح کرنا مقصود ہے۔
حدیث زیارت عاشورا کی سند کوہم صاحب کتاب شفاء الصدور فی شرح زیارۃ العاشورہ حاج میرزا ابوالفضل طہرانی کے توسط سے آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ جن کے بارے میں محدث بزرگوار حاج شیخ عباس قمی ؒ صاحب کتاب مفاتیح الجنان نے اپنی کتاب '' الکنی والالقاب'' میں فرمایا ہے: میرزا ابوالفضل عالم، فاضل، فقیہ، اصولی، متکلم، عارف بالحکمۃ، ریاضی، سیرت و تاریخ سے باخبر، ادیب شاعر، جن کی وفات سن ۱۳۱۶ھ ق تہران میں ہوئی اور اپنے والد ماجد کے مقبرہ، حضرت شاہ عبدالعظیم میں صحن امام زادہ حمزہ میں سپرد لحد کئے گئے:
میرزا ابوالفضل تہرانی متوفی ۱۳۱۶ھ فرماتے ہیں میرے نزدیک جو سب سے عزیز اور محبوب طریق سند ہے اسی پر اکتفا کرتے ہوئے حدیث زیارت عاشورا نقل کرتا ہوں۔ ملاحظہ ہو:حَدَّثَنِیْ بِالْاِجَازَۃِ...الخ مجھ سے شیخ الفقیہ السعید الثقہ، علامۂ عصر الشیخ محمد حسین بن محمد ھاشم الکاظمی[1]؎ نے اور انھوں نے شیخنا الامام الاعظم آیۃ اللہ العظمیٰ مرتضیٰ بن محمد امیر الجابری الانصاری[2]؎ سے اور انھوں نے شیخ فقیہ محقق مدقق، ثقۃ الحاج ملا احمد النراقی [3]؎سے۔
اور انھوں نے سید الامۃ، کاشف الغمہ، صاحب کرامات الباھرۃ و المعجزات القاھرہ السیدمحمد مہدی الطباطبائی معروف بہ علامہ بحر العلوم [4]؎سے۔
اور انھوں نے شیخ اعظم، استاد اکبر، مدیر الحدیث مولانا الاعظم محمد باقر البھبھانی معروف بہ آقائے وحید بہبہانی [5]؎سے۔
اور انھوں نے اپنے پدر بزرگوار الشیخ الافضل صاحب تقدس و زھد، محمد اکمل اصفہانی سے اور انھوں نے اپنے ماموں مروج آثار الائمۃ الاطہار غواص'' بحارالانوار'' مجدد مذھب مولانا محمد باقر معروف بہ علامہ مجلسی [6]؎سے۔
اور انھوں نے اپنے والد گرامی شیخ الفقیہ محقق دقیق، صاحب تقویٰ و زھد علامہ محمد تقی المجلسی اول[7]؎سے۔
اور انھوں نے شیخ الاسلام والمسلمین اکمل الحکماء والمتکلمین افضل الفقہاء والمحدثین بہاء الملۃ والدین محمد بن حسین عاملی معروف بہ شیخ بہائی[8]؎ سے۔
اور انھوں نے اپنے والد بزرگوار العالم العلامۃ والفاضل الفہامۃ شیخ الفقہاء والمحققین حسین بن عبد الصمد العاملی [9]؎سے۔
اور انھوں نے شیخ الامام خاتم فقہاء الاسلام، لسان المتقدمین، ترجمان المتاخرین الشہید زین الدین بن علی العاملی معروف بہ شہید ثانی[10]؎ سے۔
اور انھوں نے شیخ فاضل احمد بن محمد بن خاتون العاملی [11]؎سے۔
اور انھوں نے تاج الشریعہ فخر الشیعۃ شیخنا الاعلم علی بن عبد العالی الکرکی معروف بہ محقق ثانی[12]؎سے۔
اور انھوں (محقق ثانیؒ) نے فقیہ، محدث ثقۃ علی بن ھلال الجزائری [13]؎سے اور انھوں نے قدوۃ الزاہدین، عمدۃ الفقہاء الراشدین، حلیۃ المحدثین شیخنا احمد بن فہد حلی [14]؎سے۔
اور شیخ احمد بن فہد حلی نے شیخ فقیہ، فاضل زین الدین علی بن الخازن[15]؎ سے۔
اور زین الدین علی بن خازن نے برھان علماء الاسلام، استاد فقہاء الانام، صاحب الایات الباھرۃ والکرامات الطاھرۃ، شیخنا الافضل والاقدم شمس الدین محمد بن مکی معروف بہ شہید اول[16]؎ سے۔
اور شہید اول نے فخر المحققین استاد الفقہاوالمحدثین، حکیم، متکلم، الامام فخرالدین ابوطالب محمد بن حسن بن یوسف حلی [17]؎سے
اور فخر الدین ابوطالب محمد بن حسن نے اپنے والد گرامی علامۃ المشارق والمغارب آیۃ اللہ فی العالمین وسیف المسلول علیٰ رقاب المخالفین، جن کی ذات گرامی تما م عالم اسلام میں بلا تفریق مذھب و ملۃ محتاج تعارف نہیں ہے، مراد ابو منصور جمال الدین حسن بن یوسف الحلی[18]؎ سے۔
اور علامہ حلی نے شیخ الامام مؤ سس فقہ والاصول ابوالقاسم نجم الدین جعفر بن سعید الحلی معروف بہ محقق اول [19]؎سے
اور محقق حلی نے سید فقیہ، محدث، ادیب فخار بن معد الموسوی الحائری [20]؎سے۔
اور انھوں نے عالم، عامل، محدث فقیہ شاذان بن جبرئیل القمی[21]؎ سے اور شاذان بن جبرئیل قمی نے شیخ، ثقہ، فقیہ عماد الدین محمد بن ابوالقاسم الطبری [22]؎سے۔
اور انھوں نے شیخ الامام، مدار الشریعۃ، ابو علی حسن بن شیخ معروف بہ مفید ثانی [23]؎سے۔
اور مفید ثانی یعنی فرزند شیخ طوسی نے اپنے والد گرامی معلم فضلاء المحققین اور مربی فقہاء المحصلین، تالیفات و تصنیفات کے میدان کے شہسوار شیخ الطائفہ، رئیس المذھب ابو جعفر محمد بن حسن الطوسی[24]؎سےنقل فرمایا۔اور شیخ طوسی [رہ]اپنی گرانقدر کتاب ''مصباح المتہجد'' میں اس طرح فرماتے ہیں: کہ روایت کیا:
'' محمد بن اسمعیل بن بزیع نے اور انھوں نے صالح بن عُقْبہ سے اور انھوں نے اپنے والد گرامی عقبہ بن قیس بن سمعان سے اور انھوں نے خامس آلِ عبا حضرت محمد باقر سے کہ آپ نے فرمایا:
جو شخص دس محرم کو حسین بن علی کی زیارت کرے یہاں تک کہ ان کی قبر مبارک پر گریا کرے تو وہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حالت میں حاضر ہوگا کہ اسے دوہزار حج دوہزار عمرہ اور دوہزار جہاد کا ثواب عطا کیا جائے گا اور ہر حج و عمرے اور جہاد کا ثواب ایسا ہوگا کہ گویا اس نے پیغمبر اکرم ﷺ اور ائمہ معصومین کے ساتھ انجام دیا ہے۔
عقبہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ! مگر اس شخص کے لئے کیا ثواب ہوگا جو اس دن قبر شریف تک نہیں پہنچ سکتا اور وہ شہر سے دور رہتا ہے؟
امام نے فرمایا:
اگر ایسا ہو تو وہ صحراء میں چھت پر جائے امام حسین کے قبر کی طرف اشارہ کر کے سلام کرے اور ان کے قاتلوں پر خوب لعن کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور یہ کام دن کے ابتدائی اور اول وقت میں انجام دے یعنی زوال آفتاب سے پہلے۔ اس کے بعد امام حسین کی مصیبت یاد کرکے گریہ کرے اور اپنے اہل خانہ کو اگر تقیہ نہ ہو تو، امام حسین پر اس دن مصیبت یاد کرکے گریہ کرنے کا حکم دے، خوب نوحہ و ماتم کرے اور رنج و غم کا اظہار کرے اور امام حسین کے نام سے ایک دوسرے کو اس دن تعزیت پیش کرے، فرمایا: اگر ایسا کریگا تو میں ضامن ہوں کہ وہ تمام ثواب اس شخص کو عطا کیا جائے گا اور اللہ تعالے اسے تمام ثواب سے سرفراز فرمائے گا۔
راوی نے عرض کیا: آپ پر قربان ! کیا ایسے شخص کے لئے آپ ضامن اور کفیل ہیں؟ امام نے فرمایا۔ بیشک میں ایسے شخص کے لئے ضامن اور کفیل ہوں گا اگر ایسا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: لوگ ایک دوسرے کو کس طرح تعزیت پیش کریں؟
فرمایا: اس طرح کہیں:
اَعْظَمَ اللہُ اُجُوْرَنَا بِمُصَابِنَا بِالْحُسَیْنِ وَ جَعَلَنَا وَ اِيَّاكُمْ مِنَ الطَّالِبِيْنَ بِثَارِهٖ مَعَ وَلِيِّهِ الْاِمَامَ الْمَهْدِيِّ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ.
خدا مصیبت امام حسین ؑ میں ہمارے اجر کو زیادہ قرار دے اور ہمیں اور آپ کو بھی ان لوگوں میں قرار دے جو ان کے ولی امام مہدی کے ساتھ ان کے خون ناحق کا بدلہ لینے والے ہیں
اور اگر ممکن ہو کہ اس دن کسی دنیوی امور کے لئے باہر نہ جائے تو ایسا ہی کرے اس لئے کہ یہ دن انتہائی منحوس ہے جس دن کوئی بھی حاجت پوری ہونے والی نہیں ہے اور اگر پوری ہو بھی جائے تو اس میں کوئی برکت نہ ہوگی اور کوئی خیر دیکھنے میں نہ آئے گا۔اور چاہئے کہ تم میں سے کوئی بھی اس دن اپنے گھر کے لئے کوئی ذخیرہ نہ کرے ورنہ جو شخص اس دن اپنے گھر کے لئے سامان کا ذخیرہ کرے گا وہ ہرگز برکت نہ دیکھے گا۔ نہ اپنے لئے اور نہ اپنے اہل کے لئے اور جو ایسا کرے گا پروردگار اس کے لئے ہزار حج، ہزار عمرے اور ہزار جہاد کا ثواب لکھ دے گا، جو رسول خداﷺ کے ساتھ انجام دیئے ہوں اور اسے تمام پیغمبر، رسول، صدیق اور شہید کا ثواب عنایت فرمائے گا جو راہِ خدا میں قربان ہوئے ہوں اس وقت سے جب سے یہ کائنات پیدا ہوئی ہے اور جب تک قیامت نہ آجائے۔ صالح بن عقبہ اور سیف بن عمیرہ کہتے ہیں کہ علقمہ بن محمد حضرمی نے بیان کیا کہ میں نے امام باقر سے عرض کیا کہ آپ مجھے وہ دعا تعلیم کریں جسے میں اس وقت پڑھوں جب قریب سے امام حسین کی زیارت نہ کرسکوں دور سے اشارہ کرکے سلام کروں۔
امام نے فرمایا:
اے علقمہ! امام حسین کے قبر کی طرف پہلے اشارہ کر کے سلام کرو پھر دو رکعت نماز پڑھو پھر اشارہ کرتے وقت تکبیر پڑھو اس کے بعد وہ سلام پڑھو (جو زیارت کی شکل میں ہے) تو یقینا ایسا کرنے کے بعد گویا تم نے وہ دعا کی ہے جسے زیارت کرنے والے ملائکہ پڑھتے ہیں۔اور اللہ تعالے تمہارے لئے ہزار ہزار درجے لکھ دے گا اور تمہارا شمار ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو امام حسین کے ساتھ قربان ہو گئے ہوں اور روز قیامت شہیدوں کے ساتھ محسوب کئے جاؤ گے اور انھیں لوگوں کے ساتھ پہچانے جاؤگے اور تمہارے واسطے ہر پیغمبر ؑ اور ہر رسولؑ اور ہر زائر کا ثواب لکھا جائے گا جو حسین کی زیارت سے حاصل ہوا ہو روز شہادت سے آج تک۔ اور سلام کا طریقہ یہ ہے:
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ ابْنَ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ابْنَ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا ثَارَ اللَّهِ وَ ابْنَ ثَارِهِ وَ الْوِتْرَ الْمَوْتُورَ السَّلَامُ عَلَيْكَ وَ عَلَى الْأَرْوَاحِ الَّتِي حَلَّتْ بِفِنَائِكَ عَلَيْكُمْ مِنِّي جَمِيعاً سَلَامُ اللَّهِ أَبَداً مَا بَقِيتُ وَ بَقِيَ اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ لَقَدْ عَظُمَتِ الرَّزِيَّةُ وَ جَلَّتِ الْمُصِيبَةُ بِكَ عَلَيْنَا وَ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ الْإِسْلَامِ وَ جَلَّتْ وَ عَظُمَتْ مُصِيبَتُكَ فِي السَّمَاوَاتِ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ فَلَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً أَسَّسَتْ أَسَاسَ الظُّلْمِ وَ الْجَوْرِ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً دَفَعَتْكُمْ عَنْ مَقَامِكُمْ وَ أَزَالَتْكُمْ عَنْ مَرَاتِبِكُمُ الَّتِي رَتَّبَكُمُ اللَّهُ فِيهَا وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً قَتَلَتْكُمْ وَ لَعَنَ اللَّهُ الْمُمَهِّدِينَ لَهُمْ بِالتَّمْكِينِ مِنْ قِتَالِكُمْ بَرِئْتُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ مِنْهُمْ وَ مِنْ أَشْيَاعِهِمْ وَ أَتْبَاعِهِمْ وَ أَوْلِيَائِهِمْ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ إِنِّي سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ لَعَنَ اللَّهُ آلَ زِيَادٍ وَ آلَ مَرْوَانَ وَ لَعَنَ اللَّهُ بَنِي أُمَيَّةَ قَاطِبَةً وَ لَعَنَ اللَّهُ ابْنَ مَرْجَانَةَ وَ لَعَنَ اللَّهُ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ وَ لَعَنَ اللَّهُ شِمْراً وَ لَعَنَ اللَّهُ أُمَّةً أَسْرَجَتْ وَ أَلْجَمَتْ وَ تَنَقَّبَتْ وَ تَهَيَّأَتْ لِقِتَالِكَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي لَقَدْ عَظُمَ مُصَابِي بِكَ فَأَسْأَلُ اللَّهَ الَّذِي أَكْرَمَ مَقَامَكَ وَ أَكْرَمَنِي بِكَ أَنْ يَرْزُقَنِي طَلَبَ ثَارِكَ مَعَ إِمَامٍ مَنْصُورٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ مُحَمَّدٍ ص اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي عِنْدَكَ وَجِيهاً بِالْحُسَيْنِ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَى رَسُولِهِ وَ إِلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ إِلَى فَاطِمَةَ وَ إِلَى الْحَسَنِ وَ إِلَيْكَ بِمُوَالَاتِكَ وَ بِالْبَرَاءَةِ مِمَّنْ قَاتَلَكَ وَ نَصَبَ لَكَ الْحَرْبَ وَ بِالْبَرَاءَةِ مِمَّنْ أَسَّسَ أَسَاسَ الظُّلْمِ وَ الْجَوْرِ عَلَيْكُمْ وَ أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَى رَسُولِهِ مِمَّنْ أَسَّسَ ذَلِكَ وَ بَنَى عَلَيْهِ بُنْيَانَهُ وَ جَرَى فِي ظُلَمِهِ وَ جَوْرِهِ عَلَيْكُمْ وَ عَلَى أَشْيَاعِكُمْ بَرِئْتُ إِلَى اللَّهِ وَ إِلَيْكُمْ مِنْهُمْ وَ أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ إِلَيْكُمْ بِمُوَالَاتِكُمْ وَ مُوَالَاةِ وَلِيِّكُمْ وَ بِالْبَرَاءَةِ مِنْ أَعْدَائِكُمْ وَ النَّاصِبِينَ لَكُمُ الْحَرْبَ وَ بِالْبَرَاءَةِ مِنْ أَشْيَاعِهِمْ وَ أَتْبَاعِهِمْ إِنِّي سِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ وَ وَلِيٌّ لِمَنْ وَالَاكُمْ وَ عَدُوٌّ لِمَنْ عَادَاكُمْ فَأَسْأَلُ اللَّهَ الَّذِي أَكْرَمَنِي بِمَعْرِفَتِكُمْ وَ مَعْرِفَةِ أَوْلِيَائِكُمْ وَ رَزَقَنِي الْبَرَاءَةَ مِنْ أَعْدَائِكُمْ أَنْ يَجْعَلَنِي مَعَكُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ أَنْ يُثَبِّتَ لِي عِنْدَكُمْ قَدَمَ صِدْقٍ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ أَسْأَلُهُ أَنْ يُبَلِّغَنِي الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ لَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ وَ أَنْ يَرْزُقَنِي طَلَبَ ثَارِي مَعَ إِمَامٍ مَهْدِيٍّ ظَاهِرٍ نَاطِقٍ مِنْكُمْ وَ أَسْأَلُ اللَّهَ بِحَقِّكُمْ وَ بِالشَّأْنِ الَّذِي لَكُمْ عِنْدَهُ أَنْ يُعْطِيَنِي بِمُصَابِي بِكُمْ أَفْضَلَ مَا يُعْطِي مُصَاباً بِمُصِيبَتِهِ مُصِيبَةً مَا أَعْظَمَهَا وَ أَعْظَمَ رَزِيَّتَهَا فِي الْإِسْلَامِ وَ فِي جَمِيعِ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي فِي مَقَامِي هَذَا مِمَّنْ تَنَالُهُ مِنْكَ صَلَوَاتٌ وَ رَحْمَةٌ وَ مَغْفِرَةٌ اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَحْيَايَ مَحْيَا مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ مَمَاتِي مَمَاتَ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا يَوْمٌ تَبَرَّكَتْ بِهِ بَنُو أُمَيَّةَ وَ ابْنُ آكِلَةِ الْأَكْبَادِ اللَّعِينُ بْنُ اللَّعِينِ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّكَ ص فِي كُلِّ مَوْطِنٍ وَ مَوْقِفٍ وَقَفَ فِيهِ نَبِيُّكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَ آلِهِ اللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ وَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ مِنْكَ اللَّعْنَةُ أَبَدَ الْآبِدِينَ وَ هَذَا يَوْمٌ فَرِحَتْ بِهِ آلُ زِيَادٍ وَ آلُ مَرْوَانَ بِقَتْلِهِمُ الْحُسَيْنَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ضَاعِفْ عَلَيْهِمُ اللَّعْنَ مِنْكَ وَ الْعَذَابَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَتَقَرَّبُ إِلَيْكَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَ فِي مَوْقِفِي هَذَا وَ أَيَّامِ حَيَاتِي بِالْبَرَاءَةِ مِنْهُمْ وَ اللَّعْنَةِ عَلَيْهِمْ وَ بِالْمُوَالَاةِ لِنَبِيِّكَ وَ آلِ نَبِيِّكَ
پھر سو بار اس طرح لعن پڑھے:
اَللّٰهُمَّ الْعَنْ أَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ آخِرَ تَابِعٍ لَهُ عَلَى ذَلِكَ اللَّهُمَّ الْعَنِ الْعِصَابَةَ الَّتِي جَاهَدَتِ الْحُسَيْنَ وَ شَايَعَتْ وَ بَايَعَتْ وَ تَابَعَتْ عَلٰى قَتْلِهٖ اَللّٰهُمَّ الْعَنْهُمْ جَمِيعاً
اس كے بعد سو مرتبہ اس طرح سلام پڑھے:
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ وَ عَلَى الْأَرْوَاحِ الَّتِي حَلَّتْ بِفِنَائِكَ عَلَيْكَ مِنِّي سَلَامُ اللَّهِ اَبَدًا مَا بَقِيتُ وَ بَقِيَ اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَ لَا جَعَلَهُ اللَّهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّي لِزِيَارَتِكَ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ وَ عَلٰى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ وَ عَلٰی اَوْلَادِ الْحُسَیْنِ وَ عَلٰى أَصْحَابِ الْحُسَيْنِ
اس كے بعد پھر اس طرح پڑھے:
اللَّهُمَّ خُصَّ أَنْتَ أَوَّلَ ظَالِمٍ بِاللَّعْنِ مِنِّي وَ ابْدَأْ بِهِ أَوَّلًا ثُمَّ الثَّانِيَ ثُمَّ الثَّالِثَ ثُمَّ الرَّابِعَ اللَّهُمَّ الْعَنْ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ خَامِساً وَ الْعَنْ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ وَ ابْنَ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرَ بْنَ سَعْدٍ وَ شِمْراً وَ آلَ أَبِي سُفْيَانَ وَ آلَ زِيَادٍ وَ آلَ مَرْوَانَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
سجدے میں جاكر اس طرح پڑھے:
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ حَمْدَ الشَّاكِرِينَ لَكَ عَلَى مُصَابِهِمْ الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى عَظِيمِ رَزِيَّتِي اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَفَاعَةَ الْحُسَيْنِ ع يَوْمَ الْوُرُودِ وَ ثَبِّتْ لِي قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَكَ مَعَ الْحُسَيْنِ وَ أَصْحَابِ الْحُسَيْنِ الَّذِينَ بَذَلُوا مُهَجَهُمْ دُونَ الْحُسَيْنِ
علقمہ کہتے ہیں: امام محمد باقر نے فرمایا:
اگر ممکن ہو روزآنہ اس زیارت کے ساتھ امام حسین کی زیارت کرو تو تمہارے واسطے یہ ساراثواب لکھ دیا جائے گا۔
اس کے بعد شیخ الطائفہ شیخ طوسی فرماتے ہیں کہ : محمد بن خالد طیالسی نے سیف بن عمیرہ سے روایت کی ہے کہ میں صفوان بن مہران جمال اور اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ نجف کی طرف روانہ ہونے لگا اما م جعفر صادق کے مقام حیرہ سے مدینہ کی جانب نکلنے کے بعد۔ تو جب زیارت امیرالمومنین سے فارغ ہوا تو صفوان ابن مہران نے اپنا رخ سیدا لشہداء امام حسین کی قبر کی جانب کیا اور ہم سے کہا کہ امیرالمومنین کے بالائے سر سے اشارہ کر کے امام حسین کو سلام کرو کہ یہی عمل امام صادق نے بھی کیا ہے اور میں حضرت کی خدمت میں حاضرتھا۔ سیف بن عمیرہ کہتے ہیں: اس کے بعد صفوان نے وہی زیارت پڑھی جو علقمہ بن محمد حضرمی نے امام محمد باقر سے روز عاشور نقل کی ہے۔ اس کے بعد امیرالمومنین کے بالائے سر دورکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد امیرالمومنین کو وداع کیا اور اشارہ کیا قبر امام حسین کی طرف اور سلام و زیارت کے بعد حضرت کو بھی وداع کیا اورجو دعائیں پڑھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی:
يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا مُجِيبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّينَ يَا كَاشِفَ كُرَبِ الْمَكْرُوبِينَ يَا غِيَاثَ الْمُسْتَغِيثِينَ وَ يَا صَرِيخَ الْمُسْتَصْرِخِينَ يَا مَنْ هُوَ أَقْرَبُ إِلَيَّ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ وَ يَا مَنْ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهِ يَا مَنْ هُوَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى وَ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ وَ يَا مَنْ هُوَ الرَّحْمنُ الرَّحِيمُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوى وَ يَا مَنْ يَعْلَمُ خائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَ ما تُخْفِي الصُّدُورُ وَ يَا مَنْ لَا تَخْفَى عَلَيْهِ خَافِيَةٌ وَ يَا مَنْ لَا تَشْتَبِهُ عَلَيْهِ الْأَصْوَاتُ وَ يَا مَنْ لَا تُغَلِّطُهُ الْحَاجَاتُ وَ يَا مَنْ لَا يُبْرِمُهُ إِلْحَاحُ الْمُلِحِّينَ يَا مُدْرِكَ كُلِّ فَوْتٍ وَ يَا جَامِعَ كُلِّ شَمْلٍ وَ يَا بَارِئَ النُّفُوسِ بَعْدَ الْمَوْتِ يَا مَنْ هُوَ كُلَّ يَوْمٍ فِي شَأْنٍ يَا قَاضِيَ الْحَاجَاتِ يَا مُنَفِّسَ الْكُرُبَاتِ يَا مُعْطِيَ السُّؤَالَاتِ يَا وَلِيَّ الرَّغَبَاتِ يَا كَافِيَ الْمُهِمَّاتِ يَا مَنْ يَكْفِي مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَ لَا يَكْفِي مِنْهُ شَيْءٌ فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ عَلِيٍّ وَ بِحَقِّ فَاطِمَةَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ بِحَقِّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ فَإِنِّي بِهِمْ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ فِي مَقَامِي هَذَا وَ بِهِمْ أَتَوَسَّلُ وَ بِهِمْ أَتَشَفَّعُ إِلَيْكَ وَ بِحَقِّهِمْ أَسْأَلُكَ وَ أُقْسِمُ وَ أَعْزِمُ عَلَيْكَ وَ بِالشَّأْنِ الَّذِي لَهُمْ عِنْدَكَ وَ بِالْقَدْرِ الَّذِي لَهُمْ عِنْدَكَ وَ بِالَّذِي فَضَّلْتَهُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ وَ بِاسْمِكَ الَّذِي جَعَلْتَهُ عِنْدَهُمْ وَ بِهِ خَصَصْتَهُمْ دُونَ الْعَالَمِينَ وَ بِهِ أَبَنْتَهُمْ وَ أَبَنْتَ فَضْلَهُمْ مِنْ فَضْلِ الْعَالَمِينَ حَتَّى فَاقَ فَضْلُهُمْ فَضْلَ الْعَالَمِينَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَكْشِفَ عَنِّي غَمِّي وَ هَمِّي وَ كَرْبِي وَ تَكْفِيَنِي الْمُهِمَّ مِنْ أُمُورِي وَ تَقْضِيَ عَنِّي دَيْنِي وَ تُجِيرَنِي مِنَ الْفَقْرِ وَ تُجِيرَنِي مِنَ الْفَاقَةِ وَ تُغْنِيَنِي عَنِ الْمَسْأَلَةِ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ وَ تَكْفِيَنِي هَمَّ مَنْ أَخَافُ هَمَّهُ وَ عُسْرَ مَنْ أَخَافُ عُسْرَهُ وَ حُزُونَةَ مَنْ أَخَافُ حُزُونَتَهُ وَ شَرَّ مَنْ أَخَافُ شَرَّهُ وَ مَكْرَ مَا أَخَافُ مَكْرَهُ وَ بَغْيَ مَا أَخَافُ بَغْيَهُ وَ جَوْرَ مَا أَخَافُ جَوْرَهُ وَ سُلْطَانَ مَا أَخَافُ سُلْطَانَهُ وَ كَيْدَ مَنْ أَخَافُ كَيْدَهُ وَ مَقْدُرَةَ مَا أَخَافُ بَلَاءَ مَقْدُرَتِهِ عَلَيَّ وَ تَرُدَّ عَنِّي كَيْدَ الْكَيَدَةِ وَ مَكْرَ الْمَكَرَةِ اللَّهُمَّ مَنْ أَرَادَنِي فَأَرِدْهُ وَ مَنْ كَادَنِي فَكِدْهُ وَ اصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُ وَ مَكْرَهُ وَ بَأْسَهُ وَ أَمَانِيَّهُ وَ امْنَعْهُ عَنِّي كَيْفَ شِئْتَ وَ أَنَّى شِئْتَ اللَّهُمَّ اشْغَلْهُ عَنِّي بِفَقْرٍ لَا تَجْبُرُهُ وَ بِبَلَاءٍ لَا تَسْتُرُهُ وَ بِفَاقَةٍ لَا تَسُدُّهَا وَ بِسُقْمٍ لَا تُعَافِيهِ وَ ذُلٍّ لَا تُعِزُّهُ وَ بِمَسْكَنَةٍ لَا تَجْبُرُهَا اللَّهُمَّ اضْرِبْ بِالذُّلِّ نَصْبَ عَيْنَيْهِ وَ أَدْخِلْ عَلَيْهِ الْفَقْرَ فِي مَنْزِلِهِ وَ الْعِلَّةَ وَ السُّقْمَ فِي بَدَنِهِ حَتَّى تَشْغَلَهُ عَنِّي بِشُغُلٍ شَاغِلٍ لَا فَرَاغَ لَهُ وَ أَنْسِهِ ذِكْرِي كَمَا أَنْسَيْتَهُ ذِكْرَكَ وَ خُذْ عَنِّي بِسَمْعِهِ وَ بَصَرِهِ وَ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ وَ رِجْلِهِ وَ قَلْبِهِ وَ جَمِيعِ جَوَارِحِهِ وَ أَدْخِلْ عَلَيْهِ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ السُّقْمَ وَ لَا تَشْفِهِ حَتَّى تَجْعَلَ ذَلِكَ شُغُلًا شَاغِلًا بِهِ عَنِّي وَ عَنْ ذِكْرِي وَ اكْفِنِي يَا كَافِيَ مَا لَا يَكْفِي سِوَاكَ فَإِنَّكَ الْكَافِي لَا كَافِيَ سِوَاكَ وَ مُفَرِّجٌ لَا مُفَرِّجَ سِوَاكَ وَ مُغِيثٌ لَا مُغِيثَ سِوَاكَ وَ جَارٌ لَا جَارَ سِوَاكَ خَابَ مَنْ كَانَ جَارُهُ سِوَاكَ وَ مُغِيثُهُ سِوَاكَ وَ مَفْزَعُهُ إِلَى سِوَاكَ وَ مَهْرَبُهُ وَ مَلْجَاهُ إِلَى غَيْرِكَ وَ مَنْجَاهُ مِنْ مَخْلُوقٍ غَيْرِكَ فَأَنْتَ ثِقَتِي وَ رَجَائِي وَ مَفْزَعِي وَ مَهْرَبِي وَ مَلْجَئِي وَ مَنْجَايَ فَبِكَ أَسْتَفْتِحُ وَ بِكَ أَسْتَنْجِحُ وَ بِمُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ وَ أَتَوَسَّلُ وَ أَتَشَفَّعُ فَأَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ يَا اللَّهُ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ أَنْ تَكْشِفَ عَنِّي غَمِّي وَ هَمِّي وَ كَرْبِي فِي مَقَامِي هَذَا كَمَا كَشَفْتَ عَنْ نَبِيِّكَ هَمَّهُ وَ غَمَّهُ وَ كَرْبَهُ وَ كَفَيْتَهُ هَوْلَ عَدُوِّهِ فَاكْشِفْ عَنِّي كَمَا كَشَفْتَ عَنْهُ وَ فَرِّجْ عَنِّي كَمَا فَرَّجْتَ عَنْهُ وَ اكْفِنِي كَمَا كَفَيْتَهُ وَ اصْرِفْ عَنِّي هَوْلَ مَا أَخَافُ هَوْلَهُ وَ مَئُونَةَ مَا أَخَافُ مَئُونَتَهُ وَ هَمَّ مَا أَخَافُ هَمَّهُ بِلَا مَئُونَةٍ عَلَى نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ وَ اصْرِفْنِي بِقَضَاءِ حَوَائِجِي وَ كِفَايَةِ مَا أَهَمَّنِي هَمُّهُ مِنْ أَمْرِ آخِرَتِي وَ دُنْيَايَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ یَا اَبَا عَبْدِ اللہِ عَلَيْكُمَا مِنِّي سَلَامُ اللَّهِ أَبَداً مَا بَقِيَ اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَ لَا جَعَلَهُ اللَّهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنْ زِيَارَتِكُمَا وَ لَا فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنِي وَ بَيْنَكُمَا اللَّهُمَّ أَحْيِنِي حَيَاةَ مُحَمَّدٍ وَ ذُرِّيَّتِهِ وَ أَمِتْنِي مَمَاتَهُمْ وَ تَوَفَّنِي عَلَى مِلَّتِهِمْ وَ احْشُرْنِي فِي زُمْرَتِهِمْ وَ لَا تُفَرِّقْ بَيْنِي وَ بَيْنَهُمْ طَرْفَةَ عَيْنٍ أَبَداً فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَتَيْتُكُمَا زَائِراً وَ مُتَوَسِّلًا إِلَى اللَّهِ رَبِّي وَ رَبِّكُمَا مُتَوَجِّهاً إِلَيْهِ (بِكُمَا وَ مُسْتَشْفِعاً بِكُمَا) إِلَى اللَّهِ فِي حَاجَتِي هَذِهِ فَاشْفَعَا لِي فَإِنَّ لَكُمَا عِنْدَ اللَّهِ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ وَ الْجَاهَ الْوَجِيهَ وَ الْمَنْزِلَ الرَّفِيعَ وَ الْوَسِيلَةَ إِنِّي أَنْقَلِبُ عَنْكُمَا مُنْتَظِراً لِتَنَجُّزِ الْحَاجَةِ وَ قَضَائِهَا وَ نَجَاحِهَا مِنَ اللَّهِ بِشَفَاعَتِكُمَا لِي إِلَى اللَّهِ فِي ذَلِكَ فَلَا أَخِيبُ وَ لَا يَكُونُ مُنْقَلَبِي مُنْقَلَباً خَائِباً خَاسِراً بَلْ يَكُونُ مُنْقَلَبِي مُنْقَلَباً رَاجِحاً مُفْلِحاً مُنْجِحاً مُسْتَجَاباً لِي بِقَضَاءِ جَمِيعِ حَوَائِجِي وَ تَشْفَعَا لِي إِلَى اللَّهِ أَنْقَلِبُ عَلَى مَا شَاءَ اللَّهُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ مُفَوِّضاً أَمْرِي إِلَى اللَّهِ مُلْجِئاً ظَهْرِي إِلَى اللَّهِ وَ مُتَوَكِّلًا عَلَى اللَّهِ وَ أَقُولُ حَسْبِيَ اللَّهُ وَ كَفَى سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ دَعَا لَيْسَ لِي وَرَاءَ اللَّهِ وَ وَرَاءَكُمْ يَا سَادَتِي مُنْتَهًى مَا شَاءَ رَبِّي كَانَ وَ مَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ أَسْتَوْدِعُكُمَا اللَّهَ وَ لَا جَعَلَهُ اللَّهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنِّي إِلَيْكُمَا انْصَرَفْتُ يَا سَيِّدِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَوْلَايَ وَ أَنْتَ يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَا سَيِّدِي وَ سَلَامِي عَلَيْكُمَا مُتَّصِلٌ مَا اتَّصَلَ اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَاصِلٌ ذَلِكَ إِلَيْكُمَا غَيْرُ مَحْجُوبٍ عَنْكُمَا سَلَامِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَ أَسْأَلُهُ بِحَقِّكُمَا أَنْ يَشَاءَ ذَلِكَ وَ يَفْعَلَ فَإِنَّهٗ حَمِيدٌ مَجِيدٌ انْقَلَبْتُ يَا سَيِّدِي عَنْكُمَا تَائِباً حَامِداً لِلَّهِ شَاكِراً رَاجِياً لِلْإِجَابَةِ غَيْرَ آيِسٍ وَ لَا قَانِطٍ آئِباً عَائِداً رَاجِعاً إِلَى زِيَارَتِكُمَا غَيْرَ رَاغِبٍ عَنْكُمَا وَ لَا مِنْ زِيَارَتِكُمَا بَلْ رَاجِعٌ عَائِدٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ يَا سَادَتِي رَغِبْتُ إِلَيْكُمَا وَ إِلَى زِيَارَتِكُمَا بَعْدَ أَنْ زَهِدَ فِيكُمَا وَ فِي زِيَارَتِكُمَا أَهْلُ الدُّنْيَا فَلَا خَيَّبَنِيَ اللَّهُ مِمَّا رَجَوْتُ وَ مَا أَمَّلْتُ فِي زِيَارَتِكُمَا إِنَّهُ قَرِيبٌ مُجِيبٌ.
سیف بن عمیرہ کا بیان ہے کہ میں نے صفوان سے سوال کیا علقمہ بن محمد نے اس دعا کو ہمارے لئے امام باقر سے روایت نہیں کی ہے بلکہ صرف زیارت کو بیان کیا ہے تو صفوان نے کہا: میں خود امام صادق کے ساتھ اس جگہ آیا تھا تو آپ نے وہی عمل کیا تھا جو میں نے کیا ہے اور وہی زیارت و دعا پڑھی جو میں نے پڑھی ہے۔ اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھی جیسے کہ ہم نے پڑھی ہے اور ویسے ہی وداع کیا تھا جیسے ہم نے وداع کیا ہے۔ اس کے بعد صفوان نے مجھ سے کہا: کہ حضرت امام صادق نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اس زیارت کی پابندی کرنا اور اس دعا کو پڑھتے رہنا کہ میں خدا کی بارگاہ میں اس زیارت کے پڑھنے والے اور اس طرح کی دعا نزدیک یا دور سے کرنے والے کے لئے ضامن ہوں کہ
- اس کی دعا قبول ہوگی۔
- اس کی سعی مشکور ہوگی۔
- اور اس کا سلام قبول ہو جائے گا۔
- اور اس کی حاجتیں پوری ہوں گی۔
- آخرت میں اس کا درجہ بلند ہوگا۔ نا امید نہیں ہوگا۔
اے صفوان میں نے زیارت کو اسی ضمانت کے ساتھ اپنے پدر بزرگوار سے اور انھوں نے اپنے پدر بزرگوار علی بن الحسین زین العابدین سے اور انھوں نے امام حسین سے اور انھوں نے اپنے بھائی امام حسن سے اور انھوں نے اپنے پدر بزرگوار امیرالمومنین سے اور امیرالمومنین نے پیغمبر اکرم ﷺ سے اور پیغمبر اکرم ﷺ نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے خداوند عالم سے حاصل کیا ہے اور پروردگار عالم نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص نزدیک یا دور سے امام حسین کی یہ زیارت اور دعا پڑھے گا تو اس کی زیارت قبول کرلوں گا اوراس کی ہر خواہش کو پورا کردوں گا اور وہ میری بارگاہ سے ناامید اور مایوس واپس نہ جائے گا بلکہ حاجت پوری ہونے کے بعد اور دوزخ سے آزاد ہونے کے بعد اور جنت کا حقدار ہونے کے بعد واپس جائے گا اور اگر کسی کے بارے میں شفاعت کردے گا تو اسے بھی قبول کرلوں گا اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اہلبیت کے دشمنوں کے علاوہ کہ ان کے حق میں کسی کی دعا قبول نہ ہوگی جیسا کہ پروردگار عالم نے اپنی ذات مقدس کی قسم کھا کر فرمایا ہے اور ہم کو اس کا گواہ بنایا ہے اور اس کے گواہ آسمان کے فرشتہ بھی ہیں۔اس کے بعد جبرئیل نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ خدا نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ میں آپ کو اور علی و فاطمہ و حسن حسین اور ان کی اولاد کے اماموں کو وہ بشارت دوں جو آپ کے لئے اور ان ائمہ (معصومین ) کے لئے اور آپ کے شیعوں کے لئے روز قیامت باعث مسرت ہے۔
صفوان کہتے ہیں کہ اس کے بعد امام صادق نے مجھ سے فرمایا : کہ اے صفوان! جب تمہارے لئے کوئی حاجت پیش آجاے تو یہ زیارت جہاں سے چاہو پڑھ لو اور دعا بھی پڑ ھ لو اور اللہ تعالے سے حاجت طلب کرو ضرور پوری ہوگی اور پروردگار اپنے رسولﷺ سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا۔
یہ بھی سلسلۃ الذھب ہے
کلمہ لا الہ الا اللہ حضی کے پاکیزہ اور مقدس اسناد کے سلسلوں کی بنا پر كہ جسے امام رضا نے اپنے آبا و اجداد كے ذریعہ نقل فرمایا ہے۔اسے حدیث سلسلۃ الذھب (جس کے سلسلۂ اسناد سونے کی مانندگرانقدر اور روشن و تابناك ہے) کہا جاتا ہے۔ جو حدیث قدسی بھی ہے۔ تو حدیث زیارت عاشورا جس کے ابتدائی اسناد میں چند معصومین کے توسط سے خدا وند عالم تک نسبت دی گئی ہے اور معصومین کے بعد غیر معصومین میں عظیم اور مقدس ہستیاں جن میں مراجع تقلید و فقہا ئے عظام و محدثین کا سلسلہ پایا جاتا ہو اور حدیث قدسی بھی ہو تو کیا اسے سلسلۃ الذھب کہنا حقیقت وانصاف کے منافی ہوگا ؟ ہرگز نہیں۔ یہ زیارت احادیث قدسیہ میں شامل ہے کہ اسی ترتیب سے زیارت و لعن و سلام و دعا کے ساتھ حضرت احدیت کی بارگاہ سے جبرئیل امین کے ذریعہ پیغمبر اکرمﷺ تک پہونچی ہے اور تجربات کی بنا پر چالیس روز یا اس سے کم پابندی سے پڑھنے سے حاجت پوری ہونے مقاصد حاصل ہونے اور دشمنوں کے دفاع کے لئے بے نظیر ہے۔لہٰذا مومنین اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا کر روزآنہ پڑھیں اور برکتیں مشاہدہ کریں۔
اللہ تعالے ہم سب کو تعجیل ظہور امام کی دعا کرنے کی توفیق اور امام حسین کے خون ناحق کا بدلہ لینے والے امام مہدی کے اصحاب میں شمار کرے۔ آمین۔
[1] مرحوم آقا بزرگ تہرانی نقباء البشر میں ان کے بارے میں فرماتے ہیں: آپ فقہائے امامیہ کے اعاظم اور مراجع تقلید میں شمار ہوتے ہیں اور شیخ انصاری، صاحب جواھر اور شیخ محمد حسین کاشف الغطا کے شاگردوں میں نام شمار کیا جاتا ہے۔''بدایۃ الانام فی شرح شرائع الاسلام''آپ کی بہترین کتابوں میں جانی جاتی ہے اور آپ کا رسالۃ عملیہ اسی کتاب سے ماخوذ ہے۔
[2] معروف بہ شیخ انصاری جن کے بارے میں مصنف نے ایک صفحہ سے زیادہ بہترین القاب و آداب کے الفاظ نقل کئے ہیں انھیں اس مقام پر نقل کرنا مقصود نہیں ہے ورنہ اسے بھی نقل کیا جاتا آپ بزرگ اور گرانقدر مراجع تقلید شیعہ میں شمار ہوتے ہیں۔ صاحب جواھر کے بعد یعنی ۱۲۶۶ھ ق سے مرجع مطلق کے منصب پر فائز رہے اور سن ۱۲۸۱ھ ق میں آپ کی وفات ہوئی ہے۔ آپ کی اہم ترین کتاب '' فرائد الاصول'' جو '' رسائل'' کے نام سے معروف ہے آج بھی حوزات علمیہ قم و نجف و شام اور ہندوستان وغیرہ میں فقہاء و مجتہدین کے اجتہاد و استنباط کا محور بنی ہوئی ہے۔ خلاصہ یہ کہ آپ کی شخصیت عام و خاص میں محتاج تعارف نہیں ہے۔
[3] آپ حاج ملام مہدی کے فرزند اور فقہ و اصول میں متعدد کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ علم اخلاق و ادب میں شہرت کی سب سے بلندی پر جانی جانے والی کتاب '' معراج السعادۃ'' آپ ہی کی تالیف ہے۔
[4] آپ کے والد بزرگوار مرتضیٰ بن محمد بن عبدالکریم حسنی طبا طبائی ہیں۔ علامہ بحر العلوم اپنے زمانہ کے بزرگ مرجع تقلید تھے اور ۱۱۵۵ ھ ق کربلا میں پیدا ہوئے اور ۱۲۱۲ ھق نجف میں وفات ہوئی اور آپ سے بے شمار کرامات نقل ہوئی ہے۔
[5] آپ کے والد بزرگوار شیخ محمد اکمل اصفہانی اور اجازات کی کتابوں میں آپ کو استاد کل کے لقب سے پہچانا جاتا ہے۔ ۱۱۱۷ ھ ق اصفہان میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰۵ھ ق کربلا میں وفات ہوئی۔ اجتہاد و فقاہت کو از سر نو حیات عطا کی اور اخبار یوں کی تمام بساط کو الٹ پلٹ دیا۔ مجتہدین کے درمیان '' آقا '' کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی لئے آپ کی اولاد میں آنے والے '' آلِ آقا '' لکھتے ہیں۔
[6] ملامحمد تقی مجلسی اول کے فرزند ہیں۔ اصفہان میں ۱۰۳۷ھ ق میں پیدا ہوئے اور ۱۱۱۰ یا ۱۱۱۱ھ ق میں اصفہان میں وفات ہوئی آپ کی شہرت تعارف کا مانع ہے۔ آپ کی سو سے زیادہ تالیفات ہیں جن میں سب سے مشہور ''بحار الانوار'' ہے۔
[7] آپ کے والد کا نام مقصود علی تھا۔ ۱۰۰۳ ھ ق میں متولد ہوئے اور ۱۰۷۰ ھ ق میں وفات ہوئی۔ محمد تقی مجلسی اول۔ شیعہ امامیہ کے بزرگ فقہاء میں شمار ہوتے ہیں اور آقائے وحید بہبہانی کے نقل کے مطابق خود مجلسی اول فرماتے ہیں میں نے اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ چار سال کی عمر میں فقہی مسائل اور حدیث و قرآن سے آشنائی حاصل کرلی تھی۔
[8] ۹۵۳ بعلبک میں پیدا ہوئے اور ۱۰۳۰ ھ ق اصفہان میں وفات ہوئی آپ کے جنازہ کو مشہد مقدس منتقل فرمایا۔ آپ کی تالیفات میں ۸۸ کتابیں نقل کی گئی ہیں۔
[9] پورا نام عزالدین حسین بن عبدالصمد جبعی عاملی حارثی ہمدانی ہے اور شہید ثانی کے شاگردوں میں شمار ہوتا ہے۔ ۹۲۲ ھ ق میں پیدا ہوئے اور ۹۸۴ھ ق میں بحرین میں وفات ہوئی۔ آپ کی بھی بہت سی تالیفات ہیں۔
[10] آپ ۹۱۱ ھ ق میں جبل عامل کے ایک مقام (جبع) میں پیدا ہوئے اور ۹۶۶ ھ ق میں درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔ آپ نے بہت سی کتابیں تالیف فرمائی ہیں جن میں مشہور ترین کتاب روضۃ البہیۃ(شرح لمعہ) جو آج بھی تمام حوزات علمیہ نجف و قم و شام وغیرہ میں پڑھائی جاتی ہے۔ مسالک الافھام (شرح شرایع) وغیرہ۔
[11] جمال الدین احمد بن شمس الدین محمد بن خاتون العاملی العینائی اپنے والد گرامی سے حدیث روایت کیا ہے اور شہید ثانی نے ان سے روایت کیا ہے۔
[12] ۹۴۰ھ ق میں نجف میں پیدا ہوئے آپ ایران کے قاضی القضاۃ تھے۔ آپ کی عظیم اور نہایت گرانقدر تالیفات ہیں جیسے جامع المقاصد، شرح الفیہ، حاشیہ شرائع الاسلام وغیرہ۔
[13] شیخ زین الدین علی بن ہلال جزائری آپ اپنے زمانہ کے فقہاء میں شمار ہوتے تھے۔ محقق کرکی (ثانی) نے اپنے اجازۃ میں انھیں شیخ الاسلام، فقیہ اہل بیت جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
[14] ابوالعباس جمال ابن احمد بن محمد فھد حلی فقہاء نامدار شیعہ میں شمار ہوتا ہے۔ آپ ۷۵۷ھ ق میں مقام حلہ میں پیدا ہوئے اور ۸۴۱ ھ ق کربلا میں وفات پاتے ہیں۔ آپ کی تالیفات میں المھذب، الموجز، التحریر، عدۃ الداعی وغیرہ معروف ہیں۔
[15] شیخ حر عاملی نے تذکرۃ المتبحرین میں آپ کو فاضل، عابد، صالح اور شہید اول کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔ جن سے احمد بن فھد حلی نے حدیث روایت کیا ہے۔
[16] ابو عبداللہ شمس الدین محمد بن مکی بن حامد بن احمد دمشقی نبطی عاملی، علماء كے درمیان شہید اول یا شیخ شہید سے مراد آپ ہی کی ذات گرامی ہوتی ہے۔ ۷۳۴ ھ ق میں ولادت ہوئی اور ۷۸۴ھ ق میں درجۂ شہادت پر فائز ہوئے آپ کو شیعہ غلاۃ سے متہم کر کے ایک سال قید میں رکھ کر قتل کردیاگیا اس کے بعد جسم پاک پر پتھر برسائے اس کے بعد جلا دیا گیا۔ آپ کی زوجہ ام علی اور بیٹی بھی فقہ خصوصاً عورتوں کے مسائل میں گہری نظر رکھتی تھیں۔ آپ کے بیٹے بھی بزرگ فقہاء میں شمار ہوتے ہیں۔ الفیہ، غایۃ المراد، قواعد کلیہ، اللُّمعَۃ االد مشقیہ، دروس، بیان، ذکریٰ وغیرہ آپ کی معروف تالیفات ہیں۔
[17] آپ علامہ حلی کے فرزند، فخر المحققین سے معروف ہیں۔ مشہور فقہاء میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کی نہایت گرانقدر تالیفات ہیں۔ شھید اول نے اپنے اجازۃ میں ان کی بہت مدح فرمائی ہے۔
[18] حسن بن یوسف بن مطھر حلی معروف بہ علامہ حلی آپ کی ولادت ۲۹؍ رمضان ۶۴۸ھ اور وفات ۱۱ ؍ یا ۲۱؍ محرم ۷۲۶ھ ق میں ہوئی ہے۔ آپ زبردست فقیہ، متکلم اور حکیم تھے۔ خواجہ نصیر الدین طوسی، محقق حلی اور سید ابن طاوس وغیرہ کے شاگرد تھے۔ آپ کے توسط سے بادشاہ مغل ایران سلطان محمد الجایتو نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔ حلہ میں وفات ہوئی اور امیرالمومنین کے جوار میں دفن ہوئے۔ آپ کی بہت عظیم اور گرانقدر تالیفات اور مذہب تشیع کی خدمات ہیں جنھیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
[19] محقق اول متولد ۶۰۲ اور متوفی ۶۷۶ھ ق۔ علامہ حلی کے استاد۔ مشہور شیعہ فقہاء میں نام ہے۔ جن کی معروف ترین تالیفات شرایع الاسلام جس کی آج بھی حوزات میں تدریس ہوتی ہے۔ دوسری مختصر النافع، معتبر اور معارج وغیرہ بھی علماء اسلام کی نظر میں اہم کتابیں شمار ہوتی ہیں۔
[20] شیخ حر عاملی نے آپ كوعالم، فاضل، ادیب، اور محدث کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ آپ نے ایمان ابوطالب پر زبردست کتاب لکھی ہے۔
[21] ابوالفضل شاذان بن جبرئیل ابن اسماعیل قمی آپ کی بھی فقہ وغیرہ میں متعدد تالیفات ہیں۔
[22] عماد الدین محمد بن ابوالقاسم بن محمد بن علی الطبری الاملی الکجی۔ آپ فقہاء شیعہ اور جلیل القدر مرتبہ و ثقہ جانے جاتے ہیں۔ متعدد تالیفات ہیں۔
[23] آپ شیخ طوسی کے فرزند ہیں۔مرحوم شیخ حر عاملی ان کے بارے میں لکھتے ہیں : عالم، فاضل، فقیہ، محدث، ثقہ اور متعدد کتابوں کے مولف ہیں۔ جن میں شرح نہایہ الامالی، مرشد الی سبیل التعبّد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
[24] شیخ طوسی جن کی شہرت ہر مذہب و ملت میں پائی جاتی ہے۔۳۵۸ھ ق طوس میں پید ا ہوئے اور ۴۶۰ ھ نجف میں وفات ہوئی۔ آپ نے شیخ مفید سے استفادہ کیا اور ان کے بعد سید مرتضیٰ کے محضر سے استفادہ فرمایا۔ بغداد میں آپ پر مظالم ہوئے اور آپ کا گھر اور کتابخانہ جلا دیاتو نجف اشرف منتقل ہوگئے اور با برکت حوزۂ نجف اشرف کی بنیاد ڈالی۔ فقہائے شیعہ کے نزدیک آپ ''شیخ الطائفہ'' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کی تالیفات کی اہمیت و عظمت کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ شیعہ احادیث کی مشہور کتب اربعہ میں دو کتابیں استبصار اور تہذیب الاحکام آپ ہی کی تالیف ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی ہر ایک تالیف اپنے انتہائی درجہ کی حامل ہے جیسے: الفہرست، امالی، مبسوط، عدۃ الاصول، نہایۃ، ھدایۃ المسترشد، الغیبۃ، الرجال، الخلاف، تفسیر تبیان، مصباح المتھجد کہ جس سے زیارت عاشورا نقل کی جارہی ہے۔
بشکریہ:۔۔
http://www.aqaideshia.com/index.php/2011-02-12-23-59-37/2011-02-25-20-09...
Add new comment