وہابیوں کااصل چہرہ
مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا) القرآن-مائده 32(
جو شخص کسی نفس کو ، کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کرڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دے دی ۔
فروری 1979 کو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلام کے دشمن اس عظیم انقلاب کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش میں لگ جا تے ہیں تاکہ اسلامی حکومت پر مشتمل ایران کا نام زمین پر باقی نہ رہے ۔ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے پہلا حربہ یہ استعمال کیا کہ ایران کےہمسایہ ملک عراق کے ظالم حکمران صدام کی مکمل حمایت کرتے ہوئے ایران کے خلاف جنگ چھیڑ دی دوسرا یہ کہ بین الاقوامی سطح پہ ایران کو دہشت گردی کا مرکز بتلاکر ہمسائیوں میں خوف پھیلا دیا ، تاکہ دنیا والے مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حکومت سےآشنا نہ ہو اور اس عظیم انقلاب سے دور رہیں ۔
دشمنوں کو جب اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ، تو انھوں نے مسلما نوں کو کمزور کرنے کے لیے ان کے درمیان پھوٹ ڈال کر ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ، اب ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی خبر نہیں ہے کہ وہ کس حالت میں زندگی گزار رہا ہے ،ایک ملک کو دوسرے کی خبر نہیں ہے اسلامی ملکوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے ۔
جبکہ رسول اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور حدیث ہے:
مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم
اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی کی پکارسنے اور وہ اس کو مدد کے لیے بلا رہا ہو، اور وہ اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان نہیں ہے ۔
اس حدیث میں آیا ہے ، کہ اگر ایک مسلمان مدد کے لئے پکارے اور اس کی مدد نہ کیا جائے تو وہ مدد نہ کرنے والا مسلمان بھی نہیں ہے ، لیکن دوسری حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے : کہ اگر پکارنےوالا مسلمان نہ بھی ہو تب بھی اگر ایک مسلمان اس کی مدد نہ کرے پھربھی وہ مسلمان نہیں ہے ۔
رسول اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
مَنْ سَمِعَ رَجُلًا يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِم
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی بھی کلمہ گو دہشت گرد نہیں ہوتا ، اگر کوئی کسی بھی جگہ خوف و ہراس پھیلا رہا ہو تو وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہوسکتا ، وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنا چاہتا ہے ، دہشت گردی کا اسلام سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے ،آج جو لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد کہے رہے ہیں ،انہیں اسلام کے بارے میں بغور مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ دہشت گرد کون ہے؟؟؟
دنیا کی تاریخ میں مسلمانوں نے کبھی کسی جنگ کا آغاز نہیں کیا ، دنیا میں جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان سے اسلام اور مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں رہاہے اور اگر رہا بھی ہو تو دوسروں کے حملہ کرنے پر جوابی کاروائی ہی ہو سکتی ہے، پھر بھی مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے جبکہ وہ لوگ جو ایک دوسرے پر چڑھائی کرکےسینکڑوں افراد کا قتل عام کر دیتے ہیں ، انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا ، تباہ کن ہتھیار بنانے والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا ، مسلمانوں کو ایک ہو کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا ، اگر مسلمان ایک ہو جائیں تو اس بدنامی سے نمٹا جا سکتا ہے، لیکن آج مسلمان پھوٹ کا شکار ہو کر آپس میں لڑ رہے ہیں، بعض مسلمان کے بھیس میں دوسرے مسلمان کو کافر کہہ رہے ہیں ، دوسروں کو قتل کر رہے ہیں ، مسلمانوں کا سر کاٹ کر خوش ہو رہے ہیں ، جبکہ اسلام یہ نہیں سکھاتا، حدیث تو یہ کہتی ہے، کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی کو مدد کے لے بلا رہا ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کی مدد کرے ، اگر اس کی مدد نہ کرے تو وہ مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔
آج فلسطین، شام (دمشق) ، یمن، عراق، افغانستان، پاکستان .... ... میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، اور یہ نہیں سمجھ رہےہیں کہ دشمن کی چال ہے، دشمن یہی تو چاہتا ہے کہ ہم آپس ہی میں لڑتے رہے، اور وہ اپنا کام آرام سے کرتے رہیں.
اسلام کے دشمنوں نے جب دیکھا کہ جب مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں، تو انہوں نے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردیں ، جس سے انہیں مالی فائدہ بھی ہوا اور مسلمان بھی کمزور ہوتے رہے ، اگر مسلمانوں کی اب بھی آنکھ نہیں کھلی تو مستقبل میں مزید کمزور ہوتے جائیں گے۔
اسلام کے دشمنوں نے اسلام کو مٹانے کے لئے مختلف طریقوں سے نئے نئے حملے کئے، انہوں نے اسلامی قانون کو تبدیل کرنا شروع کر دیا جس سے اسلام کا چہرہ تبدیل کیا جا سکے، جیسے کہ جہاد کے معنی ہی بدل ڈالا، اس کام میں کچھ ان پڑھ مسلمانوں نے ان کا ساتھ بھی دیا ، جس سے ان کا کام اور بھی آسان ہو گیا، طالبان، القاعدہ اور آج کے وقت میں وہابیت اس کی زندہ مثال ہیں ، جنہوں نے ان کا کام اور بھی آسان کر دیا، ان لوگوں نے اسلام کا نقاب لگا کر اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے، آج اسلامی ممالک میں کیا کچھ نہیں ہو رہاہے، آج فلسطین، مصر، شام، یمن، عراق افغانستان اور پاکستان اسی کا شکار ہیں۔
کسی زمانے میں ہم تو صرف سنتے تھے کہ فلان جگہ پر ایک تنگ نظرگروہ نے حملہ کیا ہزاروں بچے ،بوڑھے اور خواتین قتل ہو گئے وغیرہ وغیرہ ، اور اسی طرح کبھی عجیب وغریب فتوے سننے میں آتا تھا لیکن آج ہم اپنی دنیا میں جگہ جگہ دیکھ بھی رہے ہیں، بات صرف فتووں کی نہیں ہے آج ان فتووں پر عمل کیا جا رہا ہے، سیريا(شام) میں رسول اکرم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک صحابی کا مزار اکھاڑ دیا گیا ۔
عراق میں مساجد اور امام بارگاہوں کو بم سے اڑایا جاتا ہے ، مسلمان کے بھیس میں اللہ اکبر کہتے ہوئے مسلمان کا سر کاٹ رہا ہے، اس کا سینہ چاک کر کے اس کا کلیجہ چبا رہا ہے جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ چبايا گیا تھا ، کیا ایسے لوگ مسلمان ہو سکتے ہیں؟
کبھی نہیں، ان کاموں کو دیکھ کر ہر شخص حیرت کے مارے دہنگ رہ جاتا ہے ، یہ لوگ انسان ہی نہیں ہیں، تعجب اور وحشی گری کی انتہا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے ڈراونی چہرے کو خود سے دوسروں کے سامنے پیش کر رہے ہیں،ا پنے غیر انسانی کاموں کے ویڈیو کلپس خود ہی انٹرنیٹ پر چھوڑ رہے ہیں، اگر کوئی دوسرا شخص یہ کام کرنا بھی چاہتا تو اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتا تھا جو انہوں نے خود کر دیا.
شاید ان کے ایسے اعمال کو دیکھ کر ہی امام خمینی (رہ) نے اس وقت فرمایا تھا جب سعودی عرب کے درندوں نے سینکڑوں نہتے حاجیوں کا خانہ کعبہ میں بے دردی سے خون بہایا تھاکہ: " ہم امریکہ اور اس جیسوں کو وقت آنے پر شاید بخش سکتے ہیں، لیکن آل سعود کوکبھی بھی نہیں، حالانکہ صدام نے جب ایران پر حملہ کیا تھا تو امریکہ اور دیگر مغربی و عربی ممالک نے اس کو ہتھیاروں سے لیس کردیا تھا ، ایران کے ایک جہاز کو مسافروں سمیت بم سے اڑا کر 290 سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو مار دیا تھا ، پھر بھی امام خمینی (رہ) نے فرمایا : ان سب کو پھر بھی بھول سکتا ہوں لیکن آل سعود کو نہیں آخر کیوں؟؟؟
شاید اس لئے فرمایا ہو کہ آل سعود نے اسلام کے قوانین کو اپنے پیروں سے کچل ڈالا ہے ، حج میں حاجیوں کو قتل کر ڈالا، انسانوں کا قتل عام ۔۔؟ جہاں پر ایک مچھر کو مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے، ایسے کاموں کو جب کوئی دوسرا غیر مسلم دیکھے گا تو اسلام سے نفرت کرنے لگے گا اوران وہابیوں کا مقصد ہی یہی ہے ، اللہ اکبراورلا الہ الا اللہ کہہ کر مسلمان کا سر کاٹ رہے ہیں، اس ویڈیو کو جب کوئی دوسرا دیکھے گا تو اسلام سے نفرت کرے گا، مسلمانوں کو دہشت گرد ہی کہے گا ، جب اسرائیل نے دیکھا کہ اس کا نیل سے فرات تک کا خواب پورا نہیں ہوا تو اس نے مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا، وہابیوں کی طرف سے سیريا (شام)اور مصر میں بد امنی پھیلا دی، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ وہابیوں کا رابطہ کس سے ہے ، کس نے ان کو پالا ہے، بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو حقیقی مسلمان کہلا رہے ہیں، اور نہ جانے کتنا پیسہ اسلام کی تبلیغ کے نام پر خرچ کر رہے ہیں یہی افراد اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں ، یہی لوگ صحابہ پیغمبر کی توہین بھی کر رہے ہیں، سیريا (شام)اور مصر میں یہ لوگ کیا کچھ نہیں کر رہے ہیں جبکہ وہاں پر کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا، اس کے برعکس انہی لوگوں نے فلسطین کے لئے کچھ بھی نہیں کیا جبکہ وہاں پر يَا لَلْمُسْلِمِينَ کی صدا دسیوں سال سے بلند ہے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیئے تھا. بات صرف شیعوں کے قتل کی نہیں ہے یہ لوگ صحابہ کی توہین کر رہے ہیں اپنے آپ کو اہل سنت سے ملانے کی کوشش کر رہے ہیں سنی بھائیوں کو اپنے مذہب کو زندہ در گور کرنے والوں کے خلاف جگہ جگہ ، ہر ملک میں مقابلہ کرنی چاہیئے ، اگر ان کو نہ روکا گیا تو کل جو بھی ان کی بات نہیں مانے گا اس کو قتل کر دیں گے، خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ ، وہ مسیحی ہو یا اسی دیگر مذہب کا ماننے والا، یہ لوگ پیسوں کے لئےکسی کام سے دریغ نہیں کرتے ہیں ، روایات میں ہے کہ آخری زمانے میں جب سفیانی آئے گا تو وہ شیعوں کو قتل کرنے کے لئے انعام رکھے گا کہ جو کوئی کسی ایک شیعہ کا سر کاٹ کرلائے گا ، اس کو انعام دیا جائے گا، اس میں پہلے تو شیعہ ہی مارے جائیں گے لیکن بعد میں دوسرے لوگ بھی نہیں بچ پائیں گے پیسوں کے لئے ان کا سر کاٹا جائے گا، اور کہا یہ جائے گا کہ یہ بھی شیعہ تھا جو تقیہ کر رہا تھا ، ان کا بس چلے تو یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا روضہ اقدس بھی توڑ ڈالیں گے ، کیونکہ یہی لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کےقبر کی زیارت کو شرک قرار دیتے ہیں، اس کے چومنے کو بھی شرک اور بدعت سمجھتے ہیں، وہاں منت مانگنے کو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا مانگنے کو بھی شرک سمجھتے ہیں ۔
مصر میں انہوں نے استاد شیخ حسن شحاتہ کو بے دردی سے شہید کر دیا جبکہ حسن شحاتہ صرف ایک سچے مسلمان ہی نہیں بلکہ آپ الاظہر یونیورسٹی مصر کے بڑےاساتذہ میں سے تھے، ان کے گھر پر 2000 سے زائد لوگوں نے حملہ کر کےآپ سمیت پانچ دیگرمسلمانوں کو شہید کر دیا ، آپ کےجنازے کی توہین کی گئی اس شہید کے جنازے کو رسی میں باندھ کر گلیوں میں پھرایا گیا، اس خبر کو سن کر کربلا یاد آ جاتی ہے، کربلا میں بھی یہی کچھ ہوا تھا وہاں پر بھی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی تھی وہاں پر ایک نہیں بلکہ 72 لاشیں تھیں جن کی بے حرمتی کی گئی تھی، سیريا(شام) میں "حلب" شہر کے شمالی مضافاتی علاقے میں شیعہ آبادی والے دو گاؤں "نبل" اور " الزہراء" پر حملہ کرکے گھیر لیا ، نبل اور الزہراء تقریبا 10 مہینوں سے دہشت گردوں کے گھیرے میں ہیں، اور اس تشدد کی وجہ سے وہاں کے شہریوں کے لے اس خطے میں زندگی بسر کرنا مشکل ہو گیا ہے، کیونکہ ان دونوں گاوں میں دوا اور کھانے پینے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے ، وہاں کے لوگ کھانے اور پانی کے لئے ترس رہے ہیں، یہ انسانی المیہ نہیں تو اور کیا ہے!!!!
وہابی سلفی اپنے تشدد کے دوران ایک بچے کے ہاتھ میں تلوار دے کر کہتے ہیں کہ اس شیعہ کا سر کاٹ دے، یہ بچہ مستقبل میں ایک ظالمانہ شخصیت کے سوا کیا بن سکتا ۔
اسی طرح ایک 3 یا 4 سال کے بچے کو زنجیر میں جکڑ کر اس کے سامنے اس کے والدین کو مار دیتے ہیں اس بچے کا کیا حال ہوا ہوگا
ان سلفی وہابیوں نے نہ بچوں پر رحم کیا نہ بڑوں پر، نہ عورتوں پر ، نہ ہی کسی اور پر، ایک 3 سالہ بچے کو پھانسی پر چڑھا دینے کی خبر بھی نشر ہوئی ہے۔
ایک دوسرے بچے کو دجال کہہ کر ذبح کردیا گیا۔
ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہر شخص ان کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرے گا۔
انہوں نے جہادِ نکاح کے نام پر عورتوں کا استحصال کیا اور ابھی تک ہو بھی رہا ہے، انہوں نے جہادِ نکاح کے نام پر دنیا کے سارے آوارہ عورتوں کو سیريا(شام) میں جمع کر دیےہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تیونس سےجہادِ نکاح میں شریک بدکار ہ اور بعض سادہ لوح مسلمان خواتین کی کرتوتوں کو دیکھ کر اس ملک کی زانی اور بدکارہ عورتوں نے اپنی ایک فورس بنائی جو شہر میں ننگی پھرتی رہتی ہیں اور اسلام کی توہین کرتی ہیں کلمہ طیبہ پر مشتمل جھنڈے کو جلا دیتی ہیں کسی ایک فریب خوردہ 16 سالہ لڑکی کا انٹرویو بھی عربی خبروں میں نشر ہواہے۔
ان سب کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟؟؟؟؟
سیريا(شام) میں فوج کے ہاتھوں پکڑا گیا ایک دہشت گرد کہتا ہے کہ ہمیں ایک شیعہ کا سر کاٹنے کے لے 700 ڈالر دیئے جاتے تھے۔
ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہر مسلمان کا فرض کیا بنتا ہے؟ سنی بھائیوں کو دین غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان نام نہاد
دہشت گردوں کےخلاف،الٹے سیدھے فتوے دینے والے مفتیوں کےخلاف اورجو ان دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں ان کےخلاف احتجاج کرتے ہوئے ان سے بری الذمہ ہونے کا برملا اعلان کرنی چاہیئے.
آخر میں ہم امام زمانہ کے ظہور کے لئے اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں تاکہ آپ کے ظہور سے دنیا امن اور عدالت کا مزہ چکھ لیں ۔
Add new comment