دہشت گردی کے بارے میں اسلام کا نظریہ
دہشت گردی کے بارے میں اسلام کا نظریہ
ٹرور کا مفہوم
کلمہ "ٹرور" فرانسوی زبان کا کلمہ ہے جس کے معنی ڈر اور وحشت کے ہیں۔ ٹروریزم کی کوئی جامع تعریف کرنا کہ جس سے اس کے تمام پہلو سامنے آجائیں بہت مشکل ہے۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۷۲ سے ۱۹۷۹ تک اس کلمہ کی جامع تعریف پیش کرنے کی بھر پور کوشش انجام دی لیکن اس کی یہ تمام ترکوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور ٹروریزم کے لیے کوئی جامع تعریف نہیں پیش کرسکی۔ لیکن اس کے باوجود اس موضوع کی اہمیت کی وجہ سے بعض لغت کی کتابیں اس کلمہ کی تعریف کرنے میں آگے بڑھی ہیں۔
ڈکشنری" فرہنگ دھخدا" اس کلمہ کے بارے میں لکھتی ہے: " ٹرور موجودہ دور میں رائج عربی کے لفظ " ارہاب " اور " اغتیال" کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔
دوسری جگہ آیا ہے : ٹرور لغت میں وحشت اور خوف کے معنی میں آیا ہے۔ اور اصطلاح میں اسلحہ کے ساتھ سیاسی قتل کو ٹروریزم کہتے ہیں اور اس کے فاعل اور مرتکب ہونے والے کو ٹروریسٹ کہا جاتا ہے اس تعریف میں اسلحہ کے ذریعے سیاسی مقصد کی خاطر قتل کو ٹروریزم کہا گیا ہے اس بنا پر ٹرور سے مراد ہر طرح کا قتل و غارت اور خون خرابہ نہیں ہے۔
"ٹرورسٹی حکومت " پہلی بار سن ۱۷۹۳ میں فرانس کے اندر وجود میں آئی اس کے بعد یہ کلمہ سن ۱۷۹۶ میں فرانسوی لغات میں " وحشت انگیز نظام" کے معنی میں درج ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کلمہ دوسری کتابوں میں بھی درج کیا گیا۔ ایک انگریزی ڈکشنری اس لفظ کی تعریف میں لکھتی ہے: ٹروریزم یعنی: حکومتی اور غیر حکومتی تلاش و کوششیں جو وحشیانہ انداز میں اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرتی ہیں۔ اس تعریف میں ٹروریزم کی تعریف کا اصلی معیار "وحشیانہ اور ظالمانہ روش کو اپنانا ہے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر"۔ ایک اور انگریزی لغت کے اندر اس کی تعریف میں وحشیانہ روش کو سیاسی حکومت کی تبدیلی کی خاطر استعمال کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تعریف میں واضح ہوا ہے کہ ٹروریزم یہ ہے کہ کسی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے یا معاشرے میں کوئی سیاسی یا سماجی تغیر و تبدل پیدا کرنے کے لیے دہشت کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔
اسلامی کانفرانس ادارہ ٹروریزم کی تعریف میں یوں بیان کرتا ہے: اصطلاح ٹروریزم ہر طرح کے دہشت گردانہ عمل پر اطلاق ہوتا ہے جو انفرادی یا اجتماعی مجرمانہ اہداف کو حاصل کرنے کی خاطر لوگوں میں رعب و دبدبہ ایجاد کیا جاتا ہے یا انہیں نقصان پہنچانے یا ان کی جان ، مال اور عزت و آبرو کو خطر ے میں ڈالنے، ان کی آزادی چھیننے اور ان کے حقوق پامال کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
اس تعریف کی بنا پر ٹروریزم ہر اس دہشت گردانہ اقدام کو کہا جاتا ہے جو قطع نظر اس کے اہداف کے لوگوں کو دہشت میں ڈالنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے اور لوگوں کی جانوں یا ان کے امن و سکون کو صدمہ پہچنانے یا ان کے خصوصی یا عمومی اموال کو غارت کرنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے۔
بہر حال ٹروریزم کا اصلی اور بنیادی معیار اور اس کی علامت کہ جس پر تمام اہل نظر متفق ہیں یہ ہے کہ ٹروریزم ایسا طے شدہ جرم ہے جو دہشت اور وحشت پھیلانے کے لیے انجام دیا جاتا ہے، جو لوگوں کے درمیان سیاسی مفاد کو حاصل کرنے کی خاطر رعب اور دبدبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر ہر طرح کا غیر قانونی اور غیر شرعی اقدام جو لوگوں کی زندگی میں خلل پیدا کرنے اور دہشت پھیلانے کی غرض سے انجام دیا جاتا ہے ٹرور کہلاتا ہے۔
ٹرور اور دہشت گردی اسلامی منابع میں
شیعہ فقہی منابع اور کتب میں " ٹرور" نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ لیکن کچھ ایسے عناوین پائے جاتے ہیں جو تقریبا اس کے مترادف ہیں یا دوسرے الفاظ میں ٹرور ان کا مصداق ہے۔ اس طرح کے اعمال اسلام میں ہمیشہ سے ممنوع رہے ہیں اور ان کے مرتکب ہونے والوں کے لیے اسلام نے سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ البتہ یہ بات مدنظر رہے کہ قرآن کریم میں چند مقامات پر کلمہ "ارھاب" کہ جو موجودہ عربی زبان میں ٹروریزم کے معنی میں لیا جاتا ہے استعمال ہوا ہے لیکن قرآن میں اس کے معنی خدا سے ڈرنے اور خوف کھانے کے ہیں ۔ مثال کے طور پر اس آیت "
(وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّة وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّاللّهِ.) (انفال: 60)
میں کلمہ ارھاب ڈرانے کے معنی میں ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض اوقات اس کی سفارش بھی کی گئی ہے اور وہ اس وقت جب کفار اور مشرکین جو مسلمانوں کے ساتھ ہم پیمان ہیں خیانت اور غداری کا ارادہ رکھتے ہوں کہ اس صورت میں کفار کو ڈرانا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کی دلیل اسی سورہ کی دوسری آیت ہے جو اس کے بعد ذکر ہوئی ہے
( و ان جنحوا للسلم فاجنح لھا) (انفال،۶۱)
اور وہ صلح کی طرف بڑھیں تو تم بھی ان کی طرف بڑھو۔ البتہ جیسا کہ بیان کیا گیا اس آیت کا اصطلاحی ارہاب یعنی ٹروریزم کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔ اور یہ آیت ہماری بحث سے بھی مربوط نہیں ہے اس کے لیے ایک مستقل گفتگو کی ضرورت ہے۔ سورہ اعراف کی نویں آیت میں بھی یہ کلمہ اسی معنی میں سحر اور جادو کے سلسلے میں استعمال ہوا ہے سورہ بقرہ کی دسویں آیت میں بھی یہ کلمہ " ارھاب" بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے جس کے معنی ہیں خدا سے خوف رکھنا۔
البتہ مذکورہ آیات میں سے کسی ایک آیت میں بھی اصطلاحی ٹروریزم کا حکم بیان نہیں ہوا ہے۔ اور نہ ہی اس کا حکم ان آیات سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لہذا اس مسئلہ کی زیادہ وضاحت کے لیے فقہی کتب میں بیان شدہ دوسرے عناوین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اس موضوع کو بہتر انداز میں واضح کرنے کے لیے اسے دو مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلے مرحلے میں،انسان کی جان و مال کی حرمت اور اس کی بزرگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام میں انسان کی جان و مال کی کتنی زیادہ اہمیت و قیمت ہے۔ یہاں تک کہ اسلام کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا کہ اس اصل کے اندر ذرہ برابر بھی خدشہ وارد کیا جائے انسانوں کی جانوں اور ان کے اموال کو صدمہ پہچانا اور انہیں تھدید کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ دوسرے مرحلہ میں روایات اور فقہا کی کتابوں کے اندر بیان شدہ عناوین جیسے " محاربہ، فتک، اور غدر" وغیرہ کہ ٹرور جن کا ایک مصداق ہے بیان کیا جائے گا۔
انسان کی کرامت اور بزرگی
قرآن کریم کی نص صریح کی مطابق، خدا وند عالم نے اولاد آدم کو ذاتی طور پر کرامت اور بزرگی عطا کی ہے۔
(وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَ حَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَي كَثِير مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلا) (اسراء: 70)
اور ہم نے انسان کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔
اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ تمام انسان، ہر رنگ و نژاد، ہر طبقہ اور نسل رکھنے والے خدا کے ہاں قابل احترام ہیں۔ اور دوسری تمام مخلوقات پر برتری رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے خدا وند عالم نے اس برتر موجود کو خلق کرنے کے بعد ملائکہ کو سجدے کا حکم دیا اور شیطان نے جب سجدے سے انکار کیا تو خدا نے اس سے پوچھا
(مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ)(ص: 75)
کس نے تجھے منع کیا ہے سجدہ کرنے سے اس کے آگے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خلق کیا ہے۔ یہ تعبیر بتا رہی ہے کہ انسان نہایت گرانقدر موجود ہے جس کے لیے خدا نے یہ فرمایا "خلقت بیدیّ" دونوں ہاتھوں کی تعبیر اس کے خصوصی احترام کی دلیل ہے۔ اس کرامت اور بزرگی کا لازمہ " حق سلامتی " ہے یعنی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ امن و امان کےساتھ زندگی گزارے اور یہ ایسا حق ہے کہ جو اس کی بزرگی اور کرامت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
اسی طریقے سے آیت " و لقد کرمنا۔۔۔" سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان حق حیات کے مالک ہیں اور دوسرے اس کی رعایت کے مکلف ہیں اور جب تک کہ انسان خود اپنی کرامت اور بزرگی کو وحشیانہ اعمال کے ساتھ مخدوش نہیں کرے گا دوسرے مکلف ہیں کہ اس کا احترام کریں۔ یہ چیز تمام ادیان الہی کے اندر پائی جاتی ہے لیکن اسلام انسان کی ذاتی کرامت و بزرگی کے علاوہ معتقد ہے کہ انسان اس بزرگی کے علاوہ ایک عظیم بزرگی اور کرامت کا مالک بن سکتا ہے اور وہ بزرگی اور کرامت تقوائے الہی کے سائے میں میسر ہو سکتی ہے۔
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَر وَ أُنثَي وَ جَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَاللَّهِ أَتْقَاكُمْ)(حجرات: 13
( اے انسانو ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئیے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر شے سے باخبر ہے۔
ذاتی کرامت اور بزرگی انسان کے لیے صرف شرافت کا زمینہ فراہم کرتی ہے۔ خداوند عالم انسان سے اس سے بالا تر کرامت اور بزرگی کا طلبگار ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے اختیار اور تلاش و کوشش سے اس تک پہنچے۔ اگر انسان اپنی شہوات اور ہوای و ہوس کی زد میں آ کر خدادی استعدادوں کو پامال کر دے گا ان سے منہ موڑ لے گا اور اپنی ذاتی کرامت کو کھو دے گا اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرے گا یقینا ایسا شخص نہ صرف اپنی ذاتی کرامت اور شرافت کو کھو چکا ہے بلکہ دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے اورمعاشرے کی اجتماعی زندگی میں خلل ایجاد کرنے کی وجہ سے مجرم شمار ہوگا اور معاشرے کے افراد کے امنیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو سزا دی جائے گی اور اسے اس کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
اسلام کی نظر میں انسانی کرامت اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ جنین کے اندر روح ڈل جانے کے بعد اس کا سقط کرنا تمام فقہا کے اجماع ہو جانے کی بنا پر حرام ہو جاتا ہے۔ مگر یہ کہ کوئی اشد ضرورت یا اس سے بالاتر مصلحت پائی جاتی ہو۔ اس طریقے سے اسلام میں خود کشی سخت قابل مذمت قرار پائی ہے اور گناہ کبیرہ شمار ہوتی ہے۔ یہاں پر قرآن فرماتا ہے:
(مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْس أَوْ فَسَاد فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً) (مائده: 32)
جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کر ڈالے گا اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا ہے اس آیت کی بنا پر مذکورہ دو موارد( قصاص اور روئے زمین میں فساد) کے علاوہ کسی انسان کو قتل کرے گا تو گویا یہ تمام انسانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے البتہ توجہ رہے کہ فساف کا مفہوم بہت وسیع ہے ٹرور کو بھی شامل ہوتا ہے۔ ( آئندہ بحثوں میں اس کے بارے میں بحث کی جائے گی) اس آیت کے یہاں پر بیان کرنے کی غرض صرف یہ تھی کہ اس نکتہ کو بیان کیا جائے کہ اسلام انسان کی منزلت اور شرافت کے لیے کہ جس کے مصادیق میں سے ایک انسانی زندگی بھی ہے بے انتہا اہمیت کا قائل ہے۔
دوسری آیت میں خدا وند عالم فرماتا ہے:
(وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالحَقِّ) (اسراء ۳۳ )
اور کسی نفس کو جسکو خدا نے محترم بنایا ہے بغیر حق کے قتل بھی نہ کرنا۔
مذکورہ آیت کے علاوہ جو واضح طور پر قتل نفس کی ممنوعیت پر دلالت کرتی ہے اس سلسلے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں جو لوگوں کے حقوق کی رعایت کرنے کو لازمی سمجھتی ہیں۔ حضرت علی (ع) مالک اشتر کو خطاب کر کے فرماتے ہیں:
«و اَشعِر قلبكَ الرحمةَ لِلرعيَّةِ و لا تكوننَّ عليهم سَبعاً ضارياً تغتنم أكلَهم، فانّهما صنفانِ: اِمّا أخٌ لكَ في الدينِ أو نظيرٌ لكَ فِي الخلقِ»
; اپنے دل کو لوگوں کی محبت اور عطوفت سے بھر دو اور ان کے ساتھ درندہ جانور کی طرح جو چیر پھاڑ کھانے کو غنیمت سمجھتا ہے ،رفتار نہ کرنا ۔اس لیے کہ لوگ دو طرح کے ہیں یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا خلقت میں تمہارے مشابہ ہیں۔ حضرت امیر المومنین علی (ع) کے ان جملات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انسان کلی طور پر صاحب کرامت اور لائق احترام ہے۔
امیر المومنین(ع) دوسری جگہ زکات جمع کرنے والوں کو حکم دیتے ہیں کہ لوگوں حتی ان کے جانوروں کو نہ ڈرائیں۔«... و لا تنفرنَّ بهيمةً و لا تفزعنَّها و لا تسوئنَّ صاحبها فيها...»
یہ روایت اولا، واضح طور پر زکات جمع کرنے والے افراد کو لوگوں کے ساتھ بد رفتاری کرنے سے منع کرتے ہیں پس بدرجہ اولی ٹرور کو بھی شامل ہو گی جو بد رفتاری کا آشکار مصداق ہے۔ ثانیا، آپ نے انہیں جانوروں کو بھی اذیت کرنے سے منع فرمایا ہے کہ حتی انکے جانوروں کو بھی نہ ڈرایا جائے لہذا کیسے ممکن ہے کہ انسانوں پر رعب و دبدبہ ڈالنے انہیں وحشت زدہ کرنے کو یعنی ٹروریزم کو جائز قرار دے دیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کی نظر میں انسان صاحب کرامت اور شرافت ہے لہذا ہر وہ عمل جو انسان کی کرامت اور شرافت کو صدمہ پہنچائے اسلام کی نظر میں ممنوع اور قابل مذمت ہے منجملہ ٹروریزم۔
نتیجہ
اسلام کی نظر میں انسان ذاتی کرامت اور شرافت کا مالک ہے اور اس کا خون محترم ہے مگر یہ کہ کچھ لوگ اپنے اختیار سے اپنی حرمت کو توڑ کر اپنے خون کو مباح قرار دیں۔ قرآن کریم نے اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے اور لوگوں کو انسانی حرمت کا دائرہ توڑنے سے منع کیا ہے مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے کو جان بوجھ کر قتل کر دیتا ہے اس کے ورثا حق رکھتے ہیں کہ اس سے قصاص لیں ۔ کلی طور پر انسان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھنا واجب ہے اور اس کی حرمت کو توڑنا ٹرور کے مترادف ہے۔ البتہ خاص طور پر بھی بعض روایات میں فتک ، محاربہ اور غدر وغیرہ کی نہی ہوئی ہے کہ جن میں سے بعض روایات جنگ کے موقع سے مخصوص ہیں ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے میدان میں یہ چیزیں جائز نہیں ہیں توکیسے عام حالات میں سماج کے اندر یہ چیزیں (غدر و فتک ) جائز ہو سکتی ہیں؟
مذکورہ تعبیرات کے علاوہ بعض دوسری روایات اور فقہا کی عبارتوں سے مخصوص جو روایات آداب جہاد کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ان سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اصلا روح اسلام ٹرور کے ساتھ مخالف ہے۔ مثال کے طور پر فقہا نے صراحتا یہ کہا ہے کہ کفار کے پانی میں زہر ملانا جائز نہیں ہے «لا يجوزُ اَن يُلقي السّمُّ في بلادِهم. اس عبارت سے بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے دشمن کو ختم کرنا ہر ممکن راستے سے جو انسانیت کے خلاف ہو جائز نہیں ہے۔ شیعہ فقہا شبخون مارنے کو حتی جنگ کے دوران بھی جائز نہیں سمجھتے۔ مرحوم صاحب جواہر نے مختلف فقہی کتابوں سے اس مسئلہ کو نقل کیا ہے۔ اور نبی اکرم (ص) کی سیرت یہ تھی کہ کبھی کسی پر رات کی تاریکی میں حملہ نہیں کیا۔
امیر المومنین (ع) کی سیرت میں جنگ صفین کے دوران یہی چیز نظر آتی ہے جب معاویہ کے لشکر نے آپ کے لشکر والوں پر فرات کا پانی بند کر دیا اس کے بعد امیر المومنین کے لشکر والوں نے ان پر شجاعانہ حملہ کیا اور فرات کو واپس لے لیا آپ کے ایک سپاہی نے پیشنہاد دی کہ ہمیں بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی پیشنہاد کو رد کر دیا اور دشمن پر پانی بند نہیں کیا۔ اس واقعہ سے یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ غیر مردانہ حرکت اور روش اسلام کے اندر کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے چاہے جنگ کا زمانہ ہو یا امن کا۔چہ جائیکہ ٹرور۔
المختصر مذکورہ تمام بحثوں سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی اور ٹروریزم کی بلکل کوئی جگہ نہیں ہے بلکہ قابل مذمت، ممنوع اور محکوم ہے اور اسلام دہشت گردانہ اور ٹرورسٹی افعال انجام دینے والوں کو سخت سے سخت سزا دینے کا حکم دیتا ہے
Add new comment