امام حسين (ع) اور امام مھدي (عج) کے اصحاب کي ممتاز صفات
تحقيق اور ريسرچ کے لئے ايک مناسب اور بہترين موضوع ، " حضرت امام حسين(ع) اور حضرت امام زمان (عج) کے قيام ميں موجود مشترک اور اختلافي نقاط " کي تحقيق ہے . يہ دو قيام بعض عناصر ميں مشترك اور بعض خاص معاملوں ميں مختلف ہے .
ان دونوں قيام کي ايک مشترکہ بات يہ ہے کہ ان کے رہبر معصوم امام ہيں اور دونوں قيام ميں ايک فرق يہ ہے کہ امام حسين(ع) کے قيام کو ظاہري طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ، جبکہ امام زمان (عج) کا قيام آخرکار کاميابي سے سرفراز ہوجائے گا !.
دونوں قيام کي يہ خصوصيات اور صفات جان کر دونوں اماموں کي ہمراہي کرنے اور ان کے رکاب ميں جھاد کرنے کے لئے ہم اپني صلاحيت کو پرکھ سکتے ہيں !.
دونوں قيام کي ايک اور مشترکہ بات ،ان کا مقصد ہے جو کہ " دين خداوند کي حکومت قائم کرنا ہے " اوراختلافي مسئلہ ان کے پيش آنے کا زمانہ ؛ اس سے مراد يہ ہے کہ امام حسين(ع) کا قيام واقع ہوا ہے جبکہ امام زمان (عج) کا قيام ابھي شروع نہيں ہوا ہے .
يہ دونوں قيام مزيد معاملوں ميں بھي مشترکہ اور اختلافي نقاط کے حامل ہے جن کي اپني جگہ پر بحث ہوني چاہيے .
اس تحرير ميں يہ کوشش کي گئي ہے کہ امام حسين(ع) اور امام زمان (عج) کے قيام ميں موجود ايک اور مشترکہ نقطہ کي بحث کي جائے اور وہ ، ان دونوں امام کے حقيقي چاہنے والوں ، عاشقوں اور يار و دوستوں مشترکہ خوبياں ہے . دونوں امام مخصوصاً امام زمان (عج ) کے يارودوستوں کي خصوصيات بيان کرنے کي اہميت دو باتوں کي وجہ سے ہے .
ايک يہ کہ دونوں قيام کي يہ خصوصيات جان کر دونوں اماموں کي ہمراہي کرنے اور ان کے رکاب ميں جھاد کرنے کے لئے ہم اپني صلاحيت کو پرکھ سکتے ہيں ؛ اس لحاظ سے کہ اگر ہم حضرت امام حسين(ع) کے زمانے ميں موجود ہوتے تو کيا اس حضرت کے دوستوں اور صحابيوں کي طرح ان کے ہمراہ اپني آخري سانس تک اور اپنے خون کا آخري قطرہ گرنے تک ، اپنے دين اور امام کا دفاع کرتے ؟ ! . لہٰذا ايسي صورت ميں ہم اپنے لئے يہ نتيجہ اخذ کرسکتے ہيں کہ اس آنے والے " روز موعود " ميں بھي حضرت امام زمان (عج) کے کنارے ميں موجود ہوں گے يا نہيں ! .
دوسرے يہ کہ امام زمان(عج) کے چاہنے والوں کي خوبياں جاننا اور ان کے حصول کے لئے تلاش و کوشش کرنا ، درحقيقت يہ تلاش ظھور کي تياري اور اس مبارک دن کے پہنچ جانے ميں کوشش کرنا ہے . اس بنياد پر ہميں چاہيے کہ ان خوبيوں سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کے لئے قدم اٹھائيں تاکہ ظھور کي فضا تيارکرنے والوں اور اس حضرت کے حقيقي چاہنے والوں کے صف ميں کھڑے ہوسکيں ! .
خدا کي تلاش اور توحيد ، حضرت مهدي (عج) کے حقيقي دوستوں اورعاشقوں کے عقيدوں ، خصلتوں اور صفتوں کا سرلوحہ بھي ہے .
ابتداء ميں خلاصہ کے طور پر بيان کي جانے والي آٹھ صفتوں اور خصوصيتوں کے نام ذکر کريں گے پھر تفصيل سے ان کا جائزہ ليں گے :
1 . خدا کي رغبت اور تلاش .
2. بصيرت و فکري رشد .
3. ولايت کي اطاعت و پيروي .
4 . شجاعت اور دليري .
5 . دين کي حمايت و حفاظت .
6 . ايثار و فداکاري .
7 . شهادت طلبي اور سعادت خواہي .
8 . حريت پسندي اور ظلم ستيزي يا آزاد جينے کا مطالبہ اور ظلم کے خلاف مقابلہ .
9 . خدا کي رغبت اور تلاش
امام حسين(ع) اورامام زمان (عج) کے يا ر و دوستوں کي ايک مشترکہ خوبي " خداوند متعال کي رغبت اور تلاش اور معنويت کا رجحان " ہے . انساني موجود کي سب سے ايک عظيم اور بہترين حالت ، مطلق کمال اور حقيقي معبود کا عشق و محبت ہے کہ الٰھي رہبر اس کے سب سے بلند درجہ پر فائز تھے . اس طرح کے عشق و محبت کے مالک افراد اپنے لئے کوئي بھي چاہت اور شناخت نہيں رکھتے ہيں اور ہميشہ بدن اورمٹي کے زندان سے رہائي پانے اور پروردگارعالم سے ملنے کے لمحہ کے انتطار ميں ہوتے ہيں . وہ خداوند عالم کي رضايت اور اس کي خواہش کے سامنے تسليم ہونے کے علاوہ کسي چيز کي بھي تمنا نہيں رکھتے ہيں .
سارےعاشورا اور کربلا کے تمام حوادث کي فضا ميں " رِضَي اللهِ رِضَانَا اَهلُ البيت " کا نعرہ گونج رہا تھا نيزامام (ع) اور اس کے اصحاب اور دوستوں نے اپنے ساتھ دنيا اور نفس کا ہر طرح کا رابطہ قطع کيا تھا اور حق کے ساتھ پوري طرح مل گئے تھے . امام حسين (ع) نے مدينہ سے نکلتے وقت ، خطبہ پڑھنے کے ساتھ ، اپنے سفر اور قيام سے ہر طرح کي قدرت طلبي و دنيا خواہي کي چاہت رد کردي اور باربار خداوند عالم کے امر و قضا کے سامنے تسليم ہونے کي بات کہي .
" پروردگارا ! ميں تيري رضا پر راضي اور تيرے فرمان پر تسليم ہوں ! ، تيري قضا کے سامنے ميں صبر کروں گا ! ، اے وہ خدا کہ تيرے علاوہ کوئي اور معبود نہيں ہے ! ، اے بے پناہ لوگوں کي پناہ (و اميد) ! .
خداوند متعال کي مرکزيت صرف امام (ع) کلام اور سلوک ميں نماياں نہيں تھي بلکہ ان کے اصحاب اور اہل بيت بھي سب سے زيادہ معنوي رجحان اور روحاني عشق سے مالامال انسان تھے !. حضرت زينب (س) نے واقعہ کربلا کے بعد سيد الشهدا (ع) کے پارہ پارہ بدن اطھر کے کنارے ميں يہ آواز بلند کي :
" اللهم تَقَبَّل مِنَّا هَذا القُربان ؛ خدايا !، يہ قرباني ہماري طرف سے قبول فرما "!
اسي طرح حضرت زينب(س) نے ابن زياد کے ساتھ گفتگو کے وقت فرمايا :
" مَا رَاَيتُ اِلا جَمِيلاً " ؛ ميں نے حسن (اچھائي اور بہتري) کے علاوہ کچھ نہيں ديکھا ! .
"هاني" کے زيارتنامہ ميں ہم پڑھتے ہيں :
"بَذَلتَ نَفسَك فِي ذَاتِ اللهِ وَ مَرضَاتِهِ ؛ اے وہ شخص جس نے اپني جان خداوند کي راہ ِ رضا ميں فدا کي ! " .
امام کے ساتھيوں کي خداوند عالم کي مرکزيت اور ان کي معنويت نے ، شب عاشورا کو ايک خاص منظر پيش کيا ہوا تھا ، اس طرح کہ عبادت و بندگي اور ان کي نماز شب کي آوازوں اور گريہ گذاري نے خيموں کو اپنے اندر لپيٹا ہوا تھا . مورخين کے بقول :
" لَهُم دَوي كَدَوي النَّحل وَ هُم مَا بَينَ راكِعٍ وَ ساجِدٍ وَ قَاري لِلقُرآن " .
خدا کي تلاش اور توحيد ، حضرت مهدي (عج) کے حقيقي دوستوں اورعاشقوں کے عقيدوں ، خصلتوں اور صفتوں کا سرلوحہ بھي ہے . انہوں نے خداوند متعال کو اچھي طرح پہچاننا ہے اور ان کا سارا وجود خدائي نوراني جلوے ميں غرق ہوا ہے . ہرچيز کو اسي کے جلوے سے ديکھتے ہيں اور ان کي نطر ميں اس کي ياد اور ذکر کے علاوہ دوسروں کي باتوں ميں کوئي لطف و مزہ اور کشش نہيں ہے . انہوں نے غيب کو شھود اور حضور کي طرح ديکھا ہے اور روحي پاکيزگي سے معنوي عالم کا جام نوش کيا ہے . ان کے سينے ميں ايسا خالص ايمان و يقين موجود ہے کہ شک و شبہ انہيں اجنبي اور پرايا لگتا ہے .
اپنے محبوب کي ملاقات کے شوق نے ، ان کے دلوں کو وجد اور حرکت ميں لايا ہوا ہے اور وہ اس سے ملنے کے لئے ، دن و رات سے بے خبر ہوتے ہيں . يہ عقيدہ اتنا سخت اور راسخ ہے کہ سختياں اور مصيبتيں اس ميں کوئي رخنہ نہيں ڈال سکتي ہے ، اس لئے کہ وہ خالص توحيد کے سرچشمہ سے سيراب ہوتے ہيں اور خداوند کي وحدانيت پر اسي طرح ، جس طرح اس کي وحدانيت کا حق بنتا ہے ، اعتقاد رکھتے ہيں . ان کے دلوں کے گھر نفس ، قدرت اور دولت کے بتوں نے آلودہ نہيں کئے ہے اوراس پرامن مکان ميں خداوند عالم کے علاوہ کوئي اور موجود نہيں ہے !. حضرت امام صادق(ع) نے حضرت مهدي (عج) کے حقيقي دوستوں کے بارے ميں يوں فرمايا ہے :
" ايسے لوگ گويا کہ ان کے قلوب سے نور برستا ہے . وہ اپنے پروردگار کي ناراضگي سے ڈرتے ہيں . شھادت کے لئے دعا کرتے ہيں اور راہ خدا ميں مرجانے کي آرزو کرتے ہيں " .
حضرت امام علي (ع) ، حضرت مهدي (عج) کے حقيقي دوستوں کو ، وہ خزانے جو خدا کي شناخت سے لبريز ہيں ، قرار ديتے ہيں " !.
حضرت مهدي (عج) کے حقيقي دوست ، عبادت و بندگي اور راتوں ميں گريہ گذاري کے مظھر ہيں . ان کي جان بندگي اور راز و نياز کي روح سے پوري طرح مل گئي ہے ، وہ ہميشہ خود کو خداوند متعال کے محضرميں پاتے ہيں اور ايک لمحہ کے لئے بھي خداوند عالم کي ياد سے غفلت نہيں بھرتے ہيں !.
اہداف اور مقاصد کے تئييں ان کي اپني گہري بصيرت اور شناخت ، اس بات کا باعث بنے گي کہ وہ اپنے امام کي اطاعت کرنے ، ديني سنتوں کو احياء کرنے اور بدعتوں اور خرافات کے ساتھ لڑنے کي راہ ميں کوئي کوتاہي نہيں کرے گے ، نيز شرک کي آلودگي ختم کرنے کي رسالت ميں ، اپنے امام کے شانہ بہ شانہ بت شکني کا کردار نبھائے گے اور وہ انحرافات ، بدعات اور خرافات جو دين کے نام سے لوگوں کے ذہنوں ميں پختہ ہوچکے ہے اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ مقدس ، محترم اور معتبر بن چکے ہے ، انہيں نابود کر دے گے
Add new comment