مقالات
عزتِ حقیقی خداوند کے لیے ہے اور وہ انسان جو عزت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ خداوند کے ساتھ رابطے کے طفیل ہی ہوتے ہیں اسی وجہ سے علمائے اسلام نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عزت حقیقی کو
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا جس نے حق کربلا میں ادا کردیا جس نے اُمت کی خاطر فِدا کر دیا گھر کا گھر سب سپردِ خدا کر دیا کر لیا نوش جس نے شہادت کا جام اس حسینؑ ابن حیدرؓپہ لاکھوں سلام ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’اور(وہ وقت یادکرو) جب ابراہیمؑ کوان کے رب نے کئی
جس وقت حضرت علی (علیہ السلام) کی رحلت ہوئی تو عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب لوگوں کے پاس آئے اوران سے مخاطب ہو کر فرمایا : یقینا امیرالمومنین علی (علیہ السلام) دنیا سے چلے گئے اور اپنا جانشین چھوڑ کر گئے ہیں ، اگر تم ان کی دعوت کو قبول کرو گے
واسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر
عاشورا اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق سن ۶۱ھ سے آج تک اس واقعے کے چشم دید گواہوں ، ائمہ اطہار علیہم السلام اور خطباء و شعراء کی زبان و قلم سے بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے لیکن ابھی تک اس وادی کے اسرار و رموز کو بیان نہیں
شہادت امام حسین ع یقیناً اتنی دردناک اور کربناک ہے کہ جس پر جن و انس ہی کیا، عالم میں ہر موجود نے گریہ کیا اور آپکا ماتم انسانوں کے علاوہ حیوانوں اور پرندوں نے بھی کیا، مگر یہ سچ ہے کہ حسین بن علی ع نے اپنے خون کی
نیا میں اٹھنے والی تمام تحریکیں کسی نہ کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے معرض وجود میں آتی ہیں جس تحریک کا مقصد جس قدر بلند ہواس تحریک کواوراق تاریخ میں اتنی ہی قدر منزلت ملتی ہے اور اچھے الفاظ میں یاد رکھی جاتی ہے اس کے مد مقابل اگر کسی تحریک
ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان، شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے
اگر قرآن سید الکلام ہے (١)تو امام حسین سید الشہداء ہیں(٢) ہم قرآن کے سلسلے میں پڑھتے ہیں، ''میزان القسط''(٣)تو امام حسین فرماتے ہیں،''امرت بالقسط''(٤)اگر قرآن پروردگار عالم کا موعظہ ہے،''موعظة من ربکم''(٥)تو امام حسین نے روز عاشورا فرمایا
عام طور پر مظلوم کی عزاداری کا دائرہ خاندان اور اعزاء ہی کے درمیان محدود رہتا ہے اور ورثاء بھی سوگواری کو ایک رسم کے طور پر انجام دیکر دوبارہ اپنے کام و زندگی میں لگ جاتے ہیں مگر اس کے برخلاف سر زمین کربلا
امام زادہ حضرت عبدالعظیم حسنی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم ، محدث ، محب اھل بیت اور حقیق معنوں محمد و آل محمد کے مطیع تھے ان کی عظمت کے لئے معصوم کا یہ فرمان کافی ہے کہ جس نے حضرت عبدالعظیم حسنی کی شهرری (تہران) میں زیارت کی اسے امام حسین علیہ السلام
کچھ کتابوں میں یہ واقعہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس طرح بھی درج ہے کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت عمرمنبررسول ؐ پرخطبہ دے رہے تھے کہ ناگاہ
امام حسین علیہ السلام کی حقیقی قبرتو مومنین کے دل اور قلوب میں ہوتی ہے جو بچپنے ہی سے شیعوں اور آپ کے عاشقوں کے دل میں بن جاتی ہے ۔ جس کی عظمت ہر وقت ان عاشقوں
جو شخص ہمیں یاد کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آئے توخد اوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے
یہ کہنا کہ طے کر کے اجرت لینے کا جواز احادیث سے ثابت ھے تو وہ احادیث دکھا دی جائیں ۔ ۔ پھر ان احادیث کے مستند ھونے
حضرت امام حسین (ع) پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ کی زندگی کے آخری لمحات سے لیکر امام حسن (ع) کی حیات کے آخری ایام بحر مصائب و آلام کے ساحل سے کھیلتے ہوئے زندگی کے اس عہد میں داخل ہوئے جس کے بعد
جیسا کھ برادران اھل سنت و الجماعت کی ان روایات میں، جو حضرت امام حسین علیھ السلام کے قیام کے بارے میں وارد ھوئی ھیں، آیا ھے کھ ایک سقّا حضرت امام حسین علیھ السلام کے پاس آیا اور کھا: اے ابو عبد اللہ
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت حضرت امام حسین بن علی علیھما السلام مدینہ منورہ میں ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان کو منگل یا بدہ کے روزپیدا ہوۓ بعض مورخین کے مطابق آپ کی ولادت ہجرت کے تیسرے سال ربیع الاول اور بعض کے مطابق ہجرت کے تیسرے یا چوتھ
اسلام ایسی سرزمین پر طلوع ہوا جس کے باشندے جاہل اور نادان تھے۔ خدائے واحد کے بجائے اپنے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خداؤں (لات،ہبل اورعزیٰ )کی پوجا کرتے تھے۔ جنگ وجدال،ڈاکہ زنی، خونریزی اور کبرونخوت ان کا پیشہ تھا۔جو
تین لوگوں کے علاوه کسی کے سامنے اپنی حاجت بیان نه کرو: دیندار، صاحب مروت، یا وه شخص جو خاندانی لحاظ سے اصالت رکھتا هو