ا ے میرے جد کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے۔حضرت زینبؑ کا دربار شام میں خطاب
کربلا میں امام حسین علیہ السلامکی شہادت کے بعد مقصد حسینی کو دنیا تک پہونچانے والاکوئی نہ تھا اگر زینب سلام اللہ علیہا نے سید سجاد علیہ السلام کے ساتھ اس کام کو انجام نہ دیا ہوگا، اس وقت کہ جب درباری مؤرخین سید الشہداء علیہ السلام کو ایک خارجی سے تعبیر کر رہے تھے، جب ضمیر فروش مقررین منبر رسول کے خلاف تبلیغات سوء کر رہے تھے تو وہ زینب سلام اللہ علیہا ہی تھیں کہ جنہوں نے آراستہ دربار میں سیکڑوں کے مجمع میں اثبات حق کے لئے اپنے لبوں کو جنبش دی اور خواب غفلت میں پڑے ذہنوں کو جھنجھوڑا، ہفتوں کی پیاس کے باوجود ایسی تقریر فرمائی کہ دربار خلافت میں ایک تلاطم مچ گیا ، یزید یت دم توڑنے لگی، اور اس طریقہ سے زینت نے بھرے دربار میں فتح حسینی کا اعلان کر دیا ثانی زہرا سلام اللہ علیہااثبات حق کے لئے اور چہرئہ باطل سے نقاب ہٹانے کے لئے زہرا ہی کی طرح آیات قرآنی کا سہارا لیا اور فرمایا کہ شکر ہے عالمین کے رب کا، درورد و سلام و آل رسول پر، خدائے پاک نے صحیح فرمایا ہے کہ ﴿عم کان عاقبۃ الذین اباؤ االسوء ان کنبو ابأیات اللہ و کانو ایہا یستہزنون﴾ برے کام کرنے والوں کا انجام برا ہے کہ ان لوگوں نے آیات خدا کی تکذیب کی اور اس کا مذاق اڑایا اے یزید کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو نے ہمارے لئے زمین و آسمان کے دروازوں کو بند کر دیا ہے اور ہم کو غلاموں کی طرح پھرایا ہے ، تو ہم خدا کے نزدیک ذلیل ہو گئے اور تو ذی وقار ؟ اور اس طرح سے ہم پر تیرا غلبہ ہو گیا، لہٰذا خدا کے نزدیک تیری عزّت اور سر بلندی کے مترادف ہے ؟ پس تو نے تکبّر کیا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ فاتح عالم ہے تھوڑا قدم بڑھا، کیا قول خدا کو بھلا بیٹھا ہے
﴿ولا یحسبنّ الذین کفر واانّما نملی لہم لیزدادواانسمأ و لہم عذاب الیہم﴾
کافروں کو یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ ہم نے انہیں مہلت دی اس لئے کہ ہم ان کا بھلا چاہتے ہیں ، نہ ! ایسا نہیں ہے، بلکہ ہم نے انہیں مہلت دی تاکہ وہ گناہ زیادہ کریں اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے آپ یزید کو مخاطب کر کے آگے ارشاد فرماتی ہیں کہ:
﴿ أمن العدل با بن الطلقاء تضبرک ہرابرک و امائک و بو فک بنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بایاافد ھتلت بنور ہن و ابدلت وجو ہنّا﴾
...... ا ے میرے جد کے آزاد کردہ غلام کے بیٹے کیا یہی انصاف ہے کہ تو اپنی عورتوں اور کنیزوں کو تو پس پردہ رکھے اور رسول زادیوں کو اسیر کر کے کشاں کشاں پھرائے؟ بے پردہ شہر بہ شہر لے جایا جائے ؟ اور نا محرموں کی نگاہیں ان کے چہروں پر ہو ں تو نے ذریت پیغمبرکا خون بہایا کہ جو آل عبدالمطلب میں روئے زمین پر ستاروں کے مانند تھے تو نے جو یہ کہا کہ :
لیث اتبا فی ببدر نہروا جزع الخزرج من وقع الال
لعبث ہما ئم با لملک فدا ضبر جاء ولا وہی نزل
تو جس طریقہ سے تو نے آج اپنے بزرگوں کو یاد کیا اور اپنے اسلاف کو آواز دی، پریشان نہ ہو کہ عنقریب تو ان سے ملے گا اور یہ آرزو کر ے گا کہ اے کاش تیرے ہاتھ شل ہو گئے ہوتے اور تیری زبان گنگ ہو گئی ہ ہو تی اور تو وہ باتیں نہ کہتا جو کہیں وہ کام نہ کر تا جو کیا !
بہ خدا قسم تو نے خود اپنی کھال کھینچی، اپنے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کیا، تو رسول کے پاس حاضر ہوگا اس حال میں کہ تیرے دوش پر خون آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کا بار ہوگا،
﴿ولا تحسبنّ الذین قتلو افی سبیل اللہ امواتا بل اہیاء عند ربہم یر زقو ن ﴾
و کفیٰ با للہ ہما کمأو بحمدخصمأ و بجبرئیل ظہیرأ(رفع المسجوع ض۔۵۱)
جناب زینب سلام اللہ علیہا کا خطبہ الفاظ کا وہ بحر ذ خار ہے کہ جس کی و شجاعت صبر و استقامت علم و حلم کے موتی کسب کئے جا سکتے ہیں خلاصئہ کلام یہ کہ جناب زینب سلام اللہ علیہاکا ایک خطبہ اس قدر مؤثر تھا کہ جس نے اسلام کی جاتی ہوئی آبرو کو بچا لیا مقصد حسینی کو پائمال ہونے سے محفوظ کر لیا کلمہ توحید کو صبح قیامت تک کے لئے جلا بخش دی انسانیت کو حیات جاوید عطا کی اور یہ بتادیا کہ کل ہماری ماں نے چہرئہ باطل سے نقاب ہٹائی تھی اور آج ہم اس کارنامہ کو اس طرح دوہرارہے ہیں کہ تا قیامت اس کی یاد باقی رہے گی۔
بشکریہ:::::::::::::::::::::::::::::::: شفقنا اردو
Add new comment