امیرِ شہر کا مرض
۔۔۔ از ۔۔۔۔ سیّد علی محسن
امیرِ شہر بہرا تو نہیں مگر عجیب مرض میں مبتلا تھا ۔
اُسے صرف مصاحب خاص کی بات سنائی دیتی تھی ۔
اُسی کے مشورے پر شہد کی مکھیوں کو جلایا گیا ۔وہ تو مدت سے کھجور کی ٹہنیوں پر چھتہ بنائے بیٹھی تھیں ۔آدھی سے زیادہ جل مریں ۔
باقی مکھیوں نے نانبائی کو کاٹ کھایا ۔ وہ بے قصور تھا مگر آگ اُسی کے تنور سے لی گئی تھی ۔
نانبائی تو مر گیا مگر اُس کے لواحقین پھر سے جی اُٹھے ۔
امیر شہر کی بگھی اُن کی کُٹیا کے سامنے آ کھڑی ہوئی ، بھاگ جاگ گئے ۔ وہ تو بچھ بچھ گئے ۔
ماتمی لباس میں ملبوس امیر نے یتیموں کے سر پر شفقت پدری سے ہاتھ رکھا ، بیوہ سے تعزیت کی اور لوٹتے ہوئے دو سو اشرفیوں کی تھیلی اُس کے حوالے کر دی ۔شہر میں یہ خبر شہر کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔
اُسی شام امیر کے حکم پر سرکاری کارندوں نے مکھیوں پر بارود سے حملہ کیا ۔بیسیوں نیست و نابود ہو گئیں ۔
اگلے روز کوتوالی کے سامنے چارکارندے مارے گئے ۔مکھیوں کے جتھے نے انہیں گھیر لیا تھا ۔
امیر اُس وقت مصاحب خاص کے ساتھ براجمان چندن بائی کے رقص سے لُطف اندوز ہو رہا تھا ۔ وہ کمال کی رقاصہ تھی جس کی شہرت دُور دراز تک پھیلی ۔ ایک لمحے کا توقف کئے بغیر امیر اُٹھا ، سوگوار چہرہ لئے مصاحب خاص بھی ۔چندن بائی کو یہ ادا ایک آنکھ نہیں بھائی مگر امیر تب تک ماتمی لباس زیب تن کرنے کے لئے جا چکا تھا ، بگھی تیار تھی ۔
اُس روز شہر میں چار کُنبوں کے مقدر جاگے ۔
امیر کی آمد نے لواحقین کے سروں پر کلغی سجا دی اور دو سو اشرفیوں کی تھیلی ۔۔۔ وہ تو مرنے والوں کا سوگ بھول گئے ۔
تیسرے روز پو پھٹنے سے پہلے مصاحب خاص کے مشورے پر امیر نے کھجور کے درخت کٹوا دئیے ۔ شہد کی مکھیاں دربدر ہو گئیں ۔
دوپہر کو ناگہانی موت نے شہر کے دروازے پر دس خوش نصیبوں کو نگل لیا۔مکھیوں نے انہیں کاٹ کھایا ۔
وہ یقیناً خوش بخت تھے جن کی مرگ کے سوگ میں امیر نے سیاہ لباس پہنا ، تدفین سے قبل اُن کے مردہ چہرے دیکھے ، تاسف سے ہونٹ بھینچے اور قبروں کی مٹی خشک ہونے سے پہلے اشرفیوں کی تھیلیاں مرنے والوں کے لواحقین میں تقسیم کیں ۔
کارندوں نے شہر کو مکھیوں سے پاک کردیا ، اُن کے پاس بارود اور طاقت تھی ۔دبدبہ ، طنطنہ ۔
چوتھے روز جامع مسجد کے تھڑے پر تین ۔۔۔!
مکھیاں نجانے کہاں سے یکدم اُن پر آ چڑھیں ۔شہد کے بجائے زہر اُن کے جسموں میں کشید ہو رہا تھا ؟
سراسیمگی پھیل گئی ،جاہل لوگ دبی آوازوں میں چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔امیر نے سیاہ لباس پہنا،بگھی تیار تھی مگر ۔۔۔ مصاحب خاص کے مشورے نے اُس کے قدم روک لئے ، میتوں تک جانے نہیں دیا۔رُوپوش قاتل مکھیوں سے امیر کی جان کو خطرہ تھا ۔
تھیلی میںدو سو کی بجائے تین سو اشرفیاں ڈال کرکوتوال کے ہاتھ لواحقین تک پہنچا دی گئیں۔
پھر یلغار ہوئی ۔بچ جانے والی مکھیوں کا شہر کے باہر تک پیچھا کیا گیا ۔انہیں جان بچانے کے لئے جنگل میں پناہ لینا پڑی ۔
سلسلہ چل نکلا۔ چھ کسی روز آٹھ ۔ دس کبھی بارہ ۔ بازار اور گلیوں میں ، گھروں اور کُوچوں میں ۔ مرنے والوں کا معمول بن گیا ۔
یکدم رُوپوش مکھیوں کا جتھہ نمودار ہوتا ، ہجوم کو گھیر لیتا ۔۔۔! سرکاری کارندے بھاگے چلے آتے مگر حملہ آور وں کے لوٹ جانے کے بعد ۔ نعشوں کی گنتی اور شناخت ۔ یہ ایک ذمہ داری کا مشقت طلب کام تھا جو ختم ہونے میں نہ آتا ۔
لوگ امیر کے دروازے پر جمع ہو ئے۔احتجاج کیا گیا ۔امیر بالکونی میں شیشے کی دیوار کے پار مصاحب خاص کے ساتھ جلوہ افروز ہوا ۔احتجاجی جلوس کو حیرت سے دیکھا ۔
مصاحب خاص نے امیر کو بتایا ” مرنے والے بہت زیادہ ہیں ، نعشیں اُٹھانے والے کم ۔لوگ اسی بات پر مشتعل ہیں “
امیر نے تاسف کا اظہار کیا اورفوری طور پر نعشیں اٹھانے والے کارندوں کی مزید بھرتی کا حکم دے دیا ۔
بارود والوں کو جنگل میں بھیجا گیا ، وہ مکھیوں کے چھتے اُڑانے پر معمور تھے ۔
نعشیں اٹھانے والے بڑھے تو گرنے والی نعشوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھنے لگی ۔
زبانیں پھر خاموش نہ رہیں،واویلا ہوا ۔ سرکش لہجوں والے دوبارہ امیر کے دروازے پر اکٹھے ہوئے ۔شور مچایا ۔
شیشے کی دیوار کے پار کھڑے مصاحب خاص نے امیر کو سمجھایا ”لوگ مرنے والوں کے معاوضہ میں ملنے والی کم اشرفیوں کی وجہ سے برافروختہ ہیں “
امیر کے حکم سے اشرفیوں کی تعداد تین سو سے بڑھ کر چار سو ہو گئی ۔
دہشت گرد مکھیوں کے ڈسنے سے مرنے والے ہر متوفی کے وارثوں کے لئے چار سو اشرفیاں !
نا شکرے تب بھی مطمئین نہ تھے ۔اسی شام مدرسے کے دروازے پر مرنے والے پانچوں کے لاشے اٹھائے شہر کی گلیوں میں دوڑے پھرے ۔نعرے اور شورش ۔ شہر بھر کا نظام تلپٹ کر دیا ۔وہ امیر سے ناحق خون کا حساب مانگ رہے تھے ۔
امیر کے کان میں مصاحب خاص نے سرگوشی کی ” لوگ نظام سے متنفر ،بد دل ہو گئے ہیں ۔ معاوضے میں ملنے والی تھیلی میں اشرفیاں چار سو سے کم ، سرکاری کارندے آدھی غائب کر لیتے ہیں “
امیر کوصرف وہی سنائی دیتا جو مصاحب خاص کہتا تھا ۔
اشرفیوں بھری تھیلیاں بانٹنے کا کام مصاحب خاص کے برادر خورد کے حوالے کر دیا گیا۔
جنگل میں شہد کی مکھیاں جلتی مرتی رہیں ، شہر میں انسانی لاشیں مسلسل گرتی رہیں ۔
چند روز میں ایک نیا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ۔لوگ پھٹ پڑے ۔بے کفن میتیں اٹھائے امیر کے دروازے تک آ پہنچے ۔غضبناک ، غصے میں بپھرے ہوئے ۔
بالکونی میں کھڑے امیر نے یہ منظر دیکھا ، اُس کی پیشانی پر تفکر کی لکیریں نمودار ہوئیں ۔مجمع کا شور شرابا اُس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
” قبرستان میں جگہ کم پڑ گئی ہے ، مزید قبروں کی گنجائش نہیں “ مصاحب خاص نے امیر کو بتایا ۔ وہ مجمع کا مدعا جان گیا تھا ۔
امیر نے وہیں کھڑے کھڑے فرمان جاری کیا شہر کے باہر ایک بڑا قبرستان بسایا جائے ۔
بہت بڑا قبرستان بھی لوگوں کا طیش کم نہ کر سکا ۔
اگلے ہی روز وہ جاہل ناحق مرنے والے چودہ لوگوں کی لاشیں اٹھائے دوبارہ امیر کے دروازے پر جمع ہو گئے ۔اُس روز بارود کے حملے میں ملکہ مکھی ماری گئی تھی جس کے جواب میں چودہ بے گناہ ۔۔۔!
لوگ برہم اور بیحد مشتعل تھے ۔ دنگا فساد پر آمادہ ، مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ۔
امیر نے بالکونی سے جھانکا اور اُس کی نظریں پتھرا کر رہ گئیں ۔ہجوم کے درمیان چارپائی پر مصاحب خاص کی میت پڑی تھی ۔
میت کے سرہانے تھیلی ! چار سو اشرفیوں کی تھیلی !وہ مکھیوں کے کاٹنے سے نہیں مرا تھا۔
خلقت تو یونہی بے لگام ہو جاتی ہے ، سرکش گھوڑے کی طرح ۔امیر نے مرنے والوں کا سوگ کیا ، ماتمی لباس پہنا ،لواحقین میں ہزاروں اشرفیاں بانٹیں اور بڑا قبرستان ۔۔۔!لوگ سب بھول گئے ۔
بپھرا ہوا ہجوم اُسے ننگا کرکے ہانکتا ہوا جنگل کی طرف لے گیا ۔
Add new comment