جلوس نکالنے یا نہ نکالنے کا معیار

تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی

آج کل پاکستان میں ایک گروہ کو اس بات پر اصرار ہے کہ عزاداری کے جلوس نہ نکالے جائیں اور عزاداری عبادت خانوں یا امام بارگاہوں کے اندر ہو۔ اس مطالبے کے حوالے سے چند بنیادی پہلو ہیں اور کچھ سوالات ہیں، جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہم ذیل میں کچھ جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمارے پیش نظر یہ سوال ہے کہ یہ عزاداری کے جلوس کس سلسلے میں ہیں اور جلوس نکالنے والے کیا چاہتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہ جلوس رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہل بیت (ع) کی یاد میں نکالے جاتے ہیں۔ یہ ان پر ہونے والے مظالم کی یاد دلاتے ہیں۔ انھوں نے جس طرح سے یہ مظالم سہہ کر، جانیں قربان کرکے، راہ حق میں طوق و رسن کو قبول کرکے اور زندانوں کے ستم برداشت کرکے اسلام کو سربلند کیا اور عدل و انصاف کا پرچم بلند کیا، اسے یاد کرنے اور یاد دلانے کے لیے یہ جلوس نکالے جاتے ہیں۔ ان جلوسوں کے ذریعے آنحضرت (ص) کے اہل بیت اطہار (ع) کے دشمنوں، ان کے ہتھکنڈوں، ان کے شوم مقاصد اور کریہہ چہروں کو بھی بے نقاب کیا جاتا ہے۔ ان کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے اور آنحضرت (ص) کی آل پاک کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ عہد کیا جاتا ہے کہ جب بھی اسلام کو ضرورت پڑی ہم انہی پاک ہستیوں کی طرح اپنا تن من دھن راہ حق میں قربان کر دیں گے۔ ظلم اور ظالموں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور دنیا میں عدل و انصاف کے بول بالا کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اگر کسی جلوس میں کوئی شخص ان اہم مقاصد سے صرف نظر کرے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جائے تو اسے سمجھانے کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جیسے کسی مسجد میں کوئی شخص دل آزار تقریر کرے اور محلے والوں اور اردگرد والوں کو اذیت دے تو اسے سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان جلوسوں کو بند کر دیا جائے کیا، انھیں جلوس ہائے عزاء کے مندرجہ بالا مقاصد میں سے کسی سے اختلاف ہے؟ نہیں! تو ان جلوسوں کی حمایت کریں، ان کی تقویت کریں یا پھر خاموشی اختیار کریں۔ ہمیں توقع ہے کہ مسلمانوں کو اہل بیت رسول (ص) سے محبت ہے اور وہ ان کے دشمنوں سے نفرت کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو اہلبیت رسول (ص) کے قاتلوں اور ان پر ستم روا رکھنے والوں سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ مسلمان تو جانتے ہیں کہ آنحضرت (ص) نے خود بھی کربلا میں اپنے نواسے کی شہادت کی خبر دی تھی، اس ہونے والے واقعے کو یاد کرکے آنسو بہائے تھے اور اس کا غم منایا تھا۔ مسلمان یہ بھی جانتے ہیں کہ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد اسی روز ام المومنین حضرت ام سلمہ (رض) نے خواب میں اللہ کے پیارے رسول (ص) کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بالوں میں خاک پڑی ہے اور وہ نہایت غمزدہ ہیں۔ آنحضور (ص) نے حضرت ام سلمہ (رض) کو بتایا کہ میں ابھی کربلا سے آرہا ہوں، جہاں میرے حسین کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جس کی الم ناک شہادت کا غم اللہ کے رسول (ص) نے منایا ہو، اس کی شہادت کا غم سارے مسلمانوں کو ہے۔ اس غم کو منانے کے مختلف طریقے مسلمانوں میں صدیوں سے رائج ہیں۔ لہذا ایک مسلمان کو اہل بیت نبی (ص) کا غم منانے پر اعتراض نہیں ہوسکتا۔ پھر ان جلوسوں کی شد و مد سے مخالفت کرنے والے کون ہیں اور ان کے حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالوں کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

جو لوگ اس ملک میں عزاداری کے جلوسوں کو بند کرنے اور عزاداری کے سلسلوں کو عبادت خانوں تک محدود کرنے کے لیے ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں، کیا انھوں نے حال ہی میں مولانا شمس الرحمن معاویہ کے افسوس ناک قتل کے خلاف عزاداری کے جلوس نہیں نکالے؟ کیا انھوں نے اس قتل پر ملک بھر میں دھرنے نہیں دیئے؟ ان کے جلوسوں میں تو اسلحہ بردار بھی بڑی تعداد میں موجود تھے اور کھلے بندوں اسلحہ لہرا رہے تھے۔ کیا انہی لوگوں نے راولپنڈی کے افسوس ناک واقعے کے بعد عزاداری کے جلوس نہیں نکالے؟ عجیب بات ہے کہ ان عزاداری کے جلوسوں میں امام حسین (ع) کی یاد میں نکلنے والے عزاداری کے جلوس بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ کیا یہ بہتر نہ تھا کہ قول و فعل کے تضاد سے بچنے کے لیے یہ لوگ اپنے عبادت خانوں میں عزاداری کر لیتے؟ یہ لوگ اس سے پہلے بھی اس طرح کے جلوس نکالتے رہے ہیں بلکہ یہ تو ان جلوسوں میں توڑ پھوڑ بھی کرتے ہیں، دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور اسلحہ بھی لہراتے ہیں۔ امام حسین (ع) کی یاد میں نکلنے والے جلوسوں میں نہ توڑ پھوڑ ہوتی ہے، نہ کسی کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور نہ اسلحہ لہرایا جاتا ہے۔ ان جلوسوں میں شریک عزادار تو خود ماتم کناں ہوتے ہیں، کسی کو کچھ نہیں کہتے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ ان جلوسوں کے مخالفوں نے تو حال ہی میں جلوس نکالنے شروع کئے ہیں، تاکہ ان جلوسوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرسکیں، یا للعجب؟

ایک اور سوال اس حوالے سے اہم ہے اور وہ یہ کہ امام حسین (ع) کی عزاداری کے جلوسوں کی مخالفت کرنے والوں کو کسی اور جلوس پر تو کوئی اعتراض نہیں؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں انھیں عید میلاد النبی (ص) کے جلوسوں پر بھی اعتراض ہے۔ ان کی تحریریں، تقریریں اور تدبیریں اس امر کی گواہ ہیں۔ پاکستان میں کئی ایک مقامات پر عید میلاد النبی (ص) کے جلوسوں پر حملے کیے جاچکے ہیں۔ یہ لوگ ان جلوسوں کو بھی ’’بدعت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کتاب خانے اور مکتبے ایسی کتابوں، پمفلٹوں، کتابچوں اور رسالوں سے بھرے پڑے ہیں، جن میں عید میلاد النبی (ص) کے جلوسوں کو بدعت قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان بننے سے بہت پہلے سے نکلنے والے یہ جلوس ہمیشہ پر امن رہے، لیکن کچھ عرصے سے یہ جلوس بھی خطرے سے دوچار ہیں، کیونکہ مخالفین تحریری اور زبانی مخالفت سے آگے نکل آئے ہیں، وہ دھماکوں، خودکش حملوں اور اسلحے کے زور پر ان جلوسوں کو روکنے کے درپے ہیں۔ اب ان کی تدبیر یہ ہے کہ پہلے محرم الحرام کے جلوسوں کو رکوایا جائے۔ اس مقصد کے لیے عید میلاد النبی (ص) منانے والوں کو بھی ساتھ ملا لیا جائے اور جب محرم الحرام کے جلوسوں کو رکوانے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر عید میلاد النبی (ص) کے جلوسوں پر ہلہ بول دیا جائے۔ البتہ ان کی یہ تدبیر پاکستان کے سنی و شیعہ عوام سمجھ چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کئی قرنوں سے نکلنے والے یہ جلوس نبی کریم (ص) اور ان کی پاک آل (ع) سے محبت اور دوستی کی علامت ہیں۔ ان کے پیچھے عشق رسول (ص) اور مودت آل رسول (ص) کار فرما ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے۔ مسلمان عشق کے ان مظاہروں کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کا عزم کرچکے ہیں۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا عید میلاد النبی (ص) اور عزاداری سید الشہداء (ع) کے جلوسوں کی مخالفت کرنے والے اور نبی و ال نبی (ص) کی یاد کے ان سلسلوں کو عبادت خانوں تک محدود کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کے ہاتھوں عبادت خانے محفوظ ہیں؟ کیا مسجدیں، امام بارگاہیں، خانقاہیں، اولیاء اللہ کے مزارات یہاں تک کہ غیر مسلموں کے مذہبی مراکز ان ستمگروں سے محفوظ ہیں؟ کیا مسجدوں پر خودکش حملے نہیں ہوئے؟ کیا حضرت عبد اللہ شاہ غازی، حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت سخی سرور، حضرت علی ہجویری، رحمان بابا اور دیگر بزرگان دین کے مزارات پر حملے نہیں ہوئے؟ کیا گرجا گھر ان دہشت گردوں کے ہاتھوں محفوظ ہیں؟ یہ ظالم تو قبرستانوں اور ہسپتالوں کو نہیں بخشتے۔ یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ جلوس نہ نکالو، محدود مقامات، میدانوں یا پارکوں میں پروگرام منعقد کرلو؟ کراچی کے نشتر پارک میں عید میلاد النبی (ص) کے جلسے میں تباہی کن کے ہاتھوں آئی؟ ان کی کتابیں، ان کی تحریریں اور ان کی تقریریں اس امر پر شاہد ہیں کہ یہ عید میلاد کی کسی بھی تقریب کے مخالف ہیں اور اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ خانقاہوں کو شرک کے اڈے کہتے ہیں۔ یہ امام بارگاہوں کی تعمیر ہی کے مخالف ہیں۔ یہ گرجا گھروں پر حملے کو ’’شریعت کے مطابق‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یہ اپنے تصور شریعت کو طاقت کے زور پر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔

عید میلاد رسول (ص) اور عزاداری امام حسین (ع) کے جلوسوں کے یہ مخالفین نہ فقط اپنے پسندیدہ افراد کی یاد میں جلوس نکالتے ہیں بلکہ ہر طرح کے سیاسی جلوسوں کو روا جانتے ہیں۔ خود بھی جلوس نکالتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی پسند کے راہنماؤں کی حمایت میں جلوس نکالنے کی اجازت دیتے ہیں۔ خود ہر طرح کے مظاہرے کرتے ہیں اور انھیں دوسروں کے بھی سیاسی مظاہروں پر کوئی اعتراض نہیں۔ ایک سوال حکمرانوں کے لیے بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا انھوں نے اندر سے تسلیم کر لیا ہے کہ اس گروہ کے سامنے ایک دن ہتھیار ڈال دینے ہیں اور اس عظیم اسلامی مملکت کو ان شدت پسندوں کے حوالے کر دینا ہے، تاکہ اسلام دشمن قوتیں دہشت گردی کے خاتمے کی تحریک کا علم لے کر اس سرزمین پر بھی اسی طرح ٹوٹ پڑیں جیسے وہ افغانستان پر ٹوٹ پڑی تھیں۔؟

ان دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئی جسارتوں پر خاموش رہنے والے عام پاکستانیوں کو بھی سوچنا ہے کہ ان کی خاموشی آخرکار خود ان کے سر پر کیا بلا نازل کرے گی اور ان کی نسلوں کا انجام کیا ہوگا؟ ایک دہشتگرد ریاست قرار پانے کے بعد پاکستان کا کیا بنے گا؟ آج کی خاموشی کی بھاری قیمت اس ملک کے تمام طبقوں، تمام مسلکوں اور تمام مذہبوں کو ادا کرنا ہوگی۔ تباہی تو بالآخر دہشتگردوں پر بھی آئے گی کیونکہ چنگیز اور ہلاکو کی بربریت پھر کسی پر رحم نہیں کھاتی۔ کیا یہ اچھا نہیں کہ زبردستی اپنی شریعت دوسروں پر نہ ٹھونسی جائے۔ ہر ایک کو آزادی سے جینے کی اجازت دی جائے۔ دوسروں سے آزادی چھیننے کی کوشش کرنے والے ہاتھوں کو روک دیا جائے۔ اس ملک کو تباہی سے بچا لیا جائے بلکہ اس سے بڑھ کر دین اسلام کا چہرہ بگڑنے سے بچا لیا جائے۔ کیا ان میں کوئی رجل رشید ہے۔؟

Add new comment