بدا،ایک اسلامی عقیدہ
عربی زبان میں لفظ ''بدائ'' کے معنی آشکار اور ظاہر ہونے کے ہیں اسی طرح شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ''بدائ'' کہا جاتا ہے.
عقیدۂ بداء شیعیت کی آفاقی تعلیمات کے عظیم عقائد میں سے ایک ہے جسکی اساس وحی الہی اور عقلی استدلال پر استوار ہے. قرآن کریم کی نگاہ میں ایسا نہیں ہے کہ انسان کے ہاتھ اس کے مقدرات کے سامنے ہمیشہ کے لئے باندھ دئیے گئے ہوں بلکہ سعادت کی راہ اس کے لئے کھلی ہوئی ہے اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ کر اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنی زندگی کے انجام کوبدل سکتا ہے اس حقیقت کو اس کتاب الہی نے ایک عمومی اور مستحکم اصل کے عنوان سے یوں بیان کیا ہے:
( ِنَّ اﷲَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بَِنفُسِہِمْ)(١)
اور خداوند کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے.
اور ایک جگہ فرماتا ہے:
( وَلَوْ َنَّ َہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَائِ وَالَْرْضِ)(٢)
اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے راستے کھول دیتے.
اسی طرح حضرت یونس کی سرنوشت کی تبدیلی کے بارے میں فرماتا ہے:
( فَلَوْلاَنَّہُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِ بَطْنِہِ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ)(٣)
پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہ جاتے.
اس آخری آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ظاہری اعتبار سے حضرت یونس نبی کا قیامت تک اس خاص زندان میں باقی رہنا قطعی تھا لیکن ان کے نیک اعمال
(١)سورہ رعد آیت:١١
(٢)سورہ اعراف آیت:٩٦
(٣)سورہ صافات آیت ١٤٣اور ١٤٤
(تسبیح پروردگار) نے ان کی سرنوشت کوبدل دیا اور انہیںاس سے نجات دلائی.
یہ حقیقت اسلامی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے پیغمبر گرامیۖ اس بارے میں فرماتے ہیں:
''اِن الرجل لیُحرم الرزق بالذنب یصیبہ ولا یرد القدر
اِلا الدعاء ولا یزید ف العمر اِلا البرّ''(١)
بے شک انسان گناہ کی وجہ سے اپنی روزی سے محروم ہوجاتا ہے ایسے موقع پر دعا کے علاوہ کوئی اور چیز اس کی تقدیر کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی اور چیز اس کی عمر کو نہیں بڑھا سکتی.
یہ اور اس قسم کی دوسری روایتوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ انسان گناہ کی بدولت روزی سے محروم ہو جاتا ہے ؛ لیکن اپنے نیک اعمال (جیسے دعا مانگنے) کے ذریعہ اپنی سرنوشت کو بدل سکتا ہے اور نیکی کر کے اپنی عمر بڑھا سکتاہے.
نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبرۖ سے استفادہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس مادی دنیا کے اسباب و مسببات اور کاموں کے ردعمل سے بھی تقدیر بدل جاتی ہے یا اولیائے خدا (جیسے نبی یاامام) انسان کو خبر دے کہ اگر اس کا طرز عمل اسی طرح رہا تو اس کا مقدر یہ ہوگا لیکن اگر وہ یکبارگی کسی وجہ سے اپنے کردار کو سنوار لے تو
(١) مسند احمد جلد ٥ ص ٢٧٧ او رمستدرک حاکم جلد ١ ص ٤٩٣ اور اسی کی مثل ''التاج الجامع للاصول '' جلد ٥
ص ١١١ میں ہے.
اپنی عاقبت کو تبدیل کرسکتا ہے.
اس حقیقت کو خدا کی وحی، پیغمبراسلامۖ کی سنت اور عقل سلیم کے فیصلوں سے درس لے کر حاصل کیا گیا ہے۔ اوراسے شیعہ علماء بداء کے نام سے یاد کرتے ہیں.
یہاں پر اس بات کا واضح کردینا مناسب ہوگا کہ ''بدائ'' کی تعبیر عالم تشیع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تعبیر پیغمبراکرمۖ کی احادیث اور اہل سنت کی تحریروں میں بھی
دکھائی دیتی ہے نمونے کے طور پر ذیل کی حدیث ملاحظہ ہو جس میں پیغمبر اکرمۖ نے اس کلمہ کو استعمال فرمایا ہے:
''وبداللّہ عزّ وجلّ أن یبتلیھم''(١)
اس نکتے کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بداء کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خداوند کریم کے لامتناہی علم میں کسی قسم کی تبدیلی رونما ہوتی ہے کیونکہ خداوندکریم ابتداء ہی سے انسانی افعال کے فطری نتائج اور بدا کا موجب بننے والے عوامل سے بخوبی آگاہ ہے اس بات کی قرآن مجید نے بھی خبر دی ہے.
( یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ ُمُّ الْکِتَابِ)(٢)
اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل
(١)النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ، مؤلف مجدالدین مبارک بن محمد جزری جلد١ ص ١٠٩
(٢)سورہ رعد آیت: ٣٩
کتاب اسی کے پاس ہے.
لہذا خداوند کریم ظہور بداء کے وقت اس حقیقت کو ہمارے لئے آشکار کرتا ہے جو ازل ہی سے اس کے علم میں تھی اسی وجہ سے امام صادق ـ فرماتے ہیں:
''مابدا اللہ ف شء اِلا کان ف علمہ قبل أن یبدولہ ''(١)
خدا وندعالم کو کسی چیز میں بداء نہیںہوتا ہے مگر یہ کہ ازل سے اس کو اس کا علم تھا .
بداء کا فلسفہ
اس میں شک نہیں کہ اگر انسان یہ جان لے کہ تقدیر کو بدلنا اس کے اختیار میں ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے درپے رہے گا اور زیادہ سے زیادہ ہمت اور کوشش کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا .
دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ جس طرح توبہ اور شفاعت انسان کو ناامیدی اور مایوسی سے نجات دلاتی ہے اسی طرح بداء کا عقیدہ بھی انسان کے اندر نشاط اور شادابی پیدا کرتا ہے اور انسان کو روشن مستقبل کا امیدوار بناتا ہے کیونکہ اس عقیدے کی روشنی میں انسان یہ جان لیتا ہے کہ پروردگار عالم کے حکم سے وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل حاصل کر کے اپنی عاقبت سنوار سکتا ہے۔
http://ur.sonnat.net/article.asp?id=1442
Add new comment