اردن حکومت عنقریب دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے گی۔القدس العربی
ٹی وی شیعہ(میڈیا مانیٹرنگ ڈیسک)لندن سے شائع ہونے والے اخبار "القدس العربی" نے لکھا: سیاسی مبصر عامر سبائلہ کا کہنا ہے کہ اردنی حکومت عنقریب تشدد پسند اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اقدام کرنے والی ہے اور اس ملک کی ابتدائی تیاریوں اور علاقائی اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت دہشت گردی خلاف جنگ کے میدان میں اترنے کا قطعی ارادہ رکھتی ہے۔
اردن کے اقدامات
اردنی حکومت نے اپنی فورسز کو ہدایت کی ہے کہ شامی پناہ گزینوں کے سوا دوسرے کسی بھی شامی باشندے کو اردن کی زمینی، بحری اور فضائی حدود میں داخل نہ ہونے دیں اور دوسرے ممالک سے آنے والے تمام شامیوں کو ان ہی ممالک میں لوٹا دیں جہاں سے وہ آئے ہیں۔
اردن کے وزیر داخلہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سرکاری ہدایت پر من و عن عمل کرایا جارہا ہے۔
القدس العربی کے مطابق اردن کے اقدامات کا مقصد یہ ہے کہ اس کی حکومت شامی سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف عسکری اقدامات عمل میں لانا چاہتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں اترنے کا ارادہ رکھتی ہے؛ دریں اثناء سیکورٹی معلومات کے مطابق اردن کی حکومت اپنے آپ کو ـ مستقبل قریب میں جبہۃ النصرہ سمیت القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے خلاف جنگ میں ـ ڈاکٹر بشار الاسد کے ساتھ ـ ایک ہی مورچے میں پائے گی۔ جس کے لئے اردنی حکومت نے انتہا پسندوں کی طرف سے لاحقہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے شام کے ساتھ انٹیلیجنس تعاون کے لئے راستے کھول دیئے ہیں اور شام سے اردن میں ہر قسم کی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگائی ہے اور شامی باشندوں کے لئے ویزوں پر پابندی لگائی ہے۔
قبل ازیں "شام کے نائب صدر نجاح العطار نے حال ہی میں شام کے حامی اردنی سیاستدانوں کے وفد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوغے کہا کہ دہشت گردی نے شام کے ساتھ ساتھ اردن کو بھی نشانہ بنایا ہے اور اردن کے اندر بھی بدامنی کی صورت کی حال کی وجہ یہ ہے کہ اردن کی حکومت نے اپنی سرزمین پر شام مخالف دہشت گردوں کو تربیت دینے کی حمایت کی، سعودی دہشت گرد بندر بن سلطان کو اپنی سرزمین پر آزادی سے آمد و رفت کی اجازت دی جو درعا میں دہشت گردوں کو براہ راست امداد پہنچا رہا ہے، چنانچہ اس کے بعد اردنی حکومت نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کردی ہے۔
واضح رہے کہ اس وفد کی حامل بس شام سے واپسی پر دھماکے سے پھٹ گئی اور وفد کے سربراہ "حسین مطاوع" نے اس دھماکے کا الزام بندر بن سلطان اور اردنی حکومت پر لگایا جس نے دہشت گردوں کو اپنی مٹی پر پھلنے پھولنے اور شام میں دراندازی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
ان اطلاعات کے مطابق اردن کی حکومت علاقائی حالات کے پیش نظر اپنی پالیسی تبدیل کررہی ہے اور عملی طور پر اس مرحلے کی تیاری کررہی ہے جس میں اس کو شام کے خلاف برسرپیکار دہشت گردوں کے خلاف عملی طور پر میدان جنگ میں اترنا پڑ سکتا ہے اور اس کاروائی کا آغاز اردن میں جبہۃالنصرہ کے سرغنوں اور حامیوں کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلانے سے ہوگا۔ تا ہم اس مرحلے تک پہنچنے کی راہ میں واحد رکاوٹ دہشت گرد تنظیموں کا سعودی سرغنہ بندر بن سلطان ہے جو ایک طرف سے اردن کی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالتا ہے اور دوسرے طرف سے اردن کے بادشاہ اور وزراء کو کروڑوں ڈالر رشوت کی پیشکشیں ہیں جو مسلسل جاری ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں دہشت گردوں کو سرکاری افواج کے شدید حملوں کا سامنا ہے جن کے سامنے استقامت ان کے لئے ممکن نہيں ہے چنانچہ عین ممکن ہے کہ النصرہ کے دہشت گرد آخر کار اردن میں ہی پناہ لینے کو ترجیح دیں جس کی وجہ سے اردن کو دہشت گردی کے براہ راست خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا اور بندر بن سلطان کے لئے بھی بھاگے ہوئے دہشت گردوں کا تحفظ زیادہ اہم نہ رہے گا لیکن اس میں کوئی شک نہيں ہے کہ جن لوگوں اور جن ملکوں نے شام کو تباہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے اور شیشوں کے محل میں بیٹھ کر شام پر پتھر پھینکنے مں ملوث رہے ہیں انہیں کسی حد تو مشابہ حالات کا سامنا کرنا ہی پڑے گا؛ اور جب مصیبت اپنے گلے پڑے گی تو پھر بیرونی دباؤ بھی مؤثر نہ رہے گا اور اردن سمیت دوسرے ممالک کو ان کے خلاف اقدام کرنا پڑے گا۔ بے شک دہشت گردی کے ذریعے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ دہشت گردوں کے حامی ممالک برسوں تک مصائب سے دوچار رہتے ہیں جس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں!
مغرب بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شام سے جا ملنے والا ہے!
شام میں دہشت گردوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کرکے شام کو تباہ کرنے میں ملوث ہون والے مغربی ممالک کو اچانک تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے نتیجے میں مغرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت شام کے ساتھ تعاون کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جنیوا 2 کانفرنس میں صدر بشار الاسد کی برطرفی پر اصرار نہ ہوگا۔
اہل البیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل المقداد نے فائنانشل ٹائمز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بعض مغربی ممالک نے رابطہ کرکے دہشت گردوں کے خلاف شامی افواج کی جنگ کی حمایت کی ہے اور یقین دلایا ہے کہ جنیوا 2 کانفرنس میں شامی صدر بشار الاسد کی برطرفی کے حوالے سے دہشت گردوں کے مطالبے کو توجہ نہيں دی جائے گی۔
واضح رہے کہ حکومت شام نے جنیوا 2 کانفرنس کو اسی صورت میں مفید جانا ہے کہ یہ کانفرنس دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے آغاز پر منتج ہوجائے۔
Add new comment