امام زین العابدینؑ کی عمر مبارک
سیرتِ امام زین العابدین
نثار حسین راتھر
حضرت امام زین العابدینؑ کی ولادت باسعادت15 جمادی الاول38ھ کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ آپ کا اسم گرامی علی اور کنیت ابومحمد تھی۔آپ کے القاب زین العابدین،سید الساجدین،سجاد اور ذوالثقات وغیرہ بے حد شہرت کے حامل ہیں۔ آپ کے زین العابدین ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ سرکار دوعالمؐ نے آپ کو یہ لقب عطا فرمایا تھا اور اپنی زندگی میں یہ خبر دے گئے تھے کہ روزِ قیامت جب زین العابدین کو آواز دی جائے گی تو میرا ایک فرزند علیؑ بن الحسینؑ لبیک کہتا ہوا بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوگا لیکن اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوگئی جسے صاحب ’’مناقب ‘‘اور صاحب ’’شواہد النبوۃ ‘‘نے نقل کیا ہے کہ آپ نماز تہجد میں مصروف تھے کہ شیطان نے بشکل اژدھا آکر آپ کو اذیت دینا شروع کی اور پیروں کے انگوٹھے کو چبانے لگا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ کی تو شکست کھا کر چلا گیا اور ایک آواز غیب آئی …آپ عبادت کرنے والوں کی زینت ہو۔سجاد کے لقب کے بارے میں بھی روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ ہر معمولی سے معمولی نعمت خدا کے ملنے یا مصیبت کے دفع ہو جانے یا مومنین کے درمیان اصلاح ہو جانے پر سجدۂ شکر کیا کرتے تھے اور اس طرح سجاد کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے۔ حد یہ ہے کہ کربلا کی قیامت خیز شب میں بھی آپ نے سجدۂ الٰہی کو نظرانداز نہیں کیا اور جس طرح باپ نے زیرخنجر سجدہ کیا تھا، اسی طرح آپ نے کربلا کی گرم ریتی پر سجدہ کیا۔
آپ کے والد گرامی امام حسینؑ تھے اور والدہ ماجدہ جناب شہربانو تھیں۔ آپ نے زندگی کے دو سال اپنے دادا علی مرتضیٰؑ کے زیر سایہ گزارے ہیں۔ اس کے بعد اپنے پدر بزرگوار امام حسینؑ اور عم نامدار امام حسنؑ کے ہمراہ رہے ۔امام حسنؑ کی دختر نیک اختر جناب فاطمہؑ سے آپ کا عقد نکاح ہوا۔ امام حسنؑ کی50ھ میں شہادت کے بعد دس سال اپنے والد محترم امام حسینؑ کے ساتھ گذارے اور10محرم عاشورہ61ھ سے آپ کا اپنا دورِ قیادت شروع ہوگیا۔
اس دور میں آپ کو مختلف بادشاہوں اور ظالموں کا سامنا کرنا پڑا۔64ھ تک یزید برسراقتدار رہا۔65ھ میں یزید اور مروان بن الحکم کی حکومت رہی اور86 سے94 تک ولید بن عبد الملک تخت حکومت پر قابض رہا جس نے95میں آپ کو زہردلوا کرشہید کرادیا۔آپ کے بچپن کے دور میں چند واقعات نظر آتے ہیں جن سے آپ کی جلالت قدر کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔ابراہیم بن ادہم راوی ہیں کہ میں نے راہ مکہ میں ایک کمسن بچہ کو مکہ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو گھبرا کر پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ سواری کیوں نہیں ہے اور زادِ راہ کا انتظام کیوں نہیں کیا ہے تو اس بچہ نے جواب دیا ’’میرازاد راہ میراتقویٰ اور میری سواری میرے دونوں پیر ہیں اور میرا مقصود میرا مولیٰ ہے‘‘۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ بیمار ہوئے اور آپ کے پدربزرگوار امام حسینؑ نے عیادت کرتے ہوئے پوچھا کہ فرزند کوئی خواہش ہو تو بیان کر وتو آپ نے عرض کی کہ خواہش صرف یہ ہے کہ قضا وقدرالٰہی پر راضی رہوں اور اس کے علاوہ کوئی خواہش نہیں ہے جو وہ چاہتا ہے وہی بہتر ہے اس سے بہتر میں کیا طے کر سکتا ہوں۔ امام حسینؑ نے اس جواب پر گلے سے لگایا اور فرمایا کہ میرے لال تمہارا جواب بالکل ابراہیمؑ خلیل اللہ سے ملتا جلتا ہے کہ جب ان سے امداد کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جس کا محتاج ہوں وہ میرے حالات کو خوب جانتا ہے اور اس کے فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم رکھناہی اپنی ذمہ داری ہے۔
امام زین العابدینؑ کی عمر مبارک واقعہ کربلا کے وقت تقریباً 23سال تھی اور اس دوران آپ کی زندگی کے واقعات بہت کم نظر آتے ہیں۔ واقعات کربلا کے بعد آپ کے دورقیادت کا بھی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور آپ کے دور مصائب و آلام کا بھی اس لئے اس دور میں آپ کے واقعات بکثرت ملتے ہیں اور جن حالات میں قدرت نے قیادت کا کام آپ کے سپرد کیا تھا ،حقیقت امر یہ ہے کہ جس طرح آپ نے اس ذمہ داری کو ادا کیا ہے، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے۔
آپؑ نے کربلا میں محشرخیز سماں دیکھ لیا۔ لاشوں کا گرنا…خیموں کا جلنا… نبیؐ کی نواسیوں کی چادروں کا سروں سے چھننا اور رسیوں سے بندھنا…خود بھی خاردارزنجیروں میں جکڑنا…کوفہ و شام کے بازاروں اور ابن زیاد و یزید کے درباروں میں گھمانا پھرانا، زندان شام میں قید ہونا، سب کچھ بڑی پامردی سے برداشت کیا اور صبر ایوبیؑ کا کھلا مظاہرہ کیا اور اپنے بے باک خطبوں سے ظالم و جابر حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ طاری کر دیا اوران کے محلوں کے بام و در کو ہلاک کے رکھ دیا۔
واقعات کربلا کے بعد جب اہل حرم قید شام سے چھٹ کر مدینہ آئے اور مدینہ والوں کو یزید کے مظالم کا اندازہ ہوا تو ایک مرتبہ احتجاج کی آگ بھڑک اُٹھی اور اہل مدینہ نے یزید کے خلاف بغاوت کی۔
بدترین خلائق مسلم بن عقبہ نے مدینہ پر چڑھائی کی ۔ اس موقع پر مروان جیسے بدترین دشمن نے بھی آپؑ سے پناہ کی درخواست کی کہ مدینہ مخالف ہوگیا ہے اور میں اپنے بچوں کے لئے خطرہ محسوس کرتا ہوں تو آپؑ نے فرمایا کہ میرے گائوں بھیج دے، میں ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوں اور اس طرح اس شخص کے گھرانے کو پناہ دی جس نے سب سے پہلے قتل حسینؑ کا اشارہ دیا تھا۔(تاریخ کامل)
آل محمدؐ کے ہر فرد کا اخلاق ایک انفرادی حیثیت رکھتا تھا لیکن امام زین العابدینؑ نے اخلاقیات کے مظاہرہ کے ساتھ فلسفہ اخلاقیات کی بھی ایک دنیا آباد کی ہے جس سے انسان اپنے کردار کی بہترین تعمیر کرسکتا ہے۔
آپؑ کے سامنے کوئی طالب علم دین آجاتا ہے تو اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ رسولؐ کی وصیت ہے گویا اس طرح اسلام میں علم دین کی عظمت و اہمیت کا بھی اظہار فرماتے تھے اور طالبین علم دین کی حوصلہ افزائی بھی فرماتے تھے۔ کاش اہل دولت واقتدار کے لئے سراپا تعظیم ہو جانے والے افراد کبھی ان غریب طلبہ کی طرف بھی ایک نظرعنایت فرمالیتے۔
آپؑ کے سامنے کوئی سال بھی آجاتا تھا تو اس کا استقبال فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو میرے مال کو دنیا سے آخرت تک پہنچا دیتا ہے اور کسی اُجرت کا مطالبہ بھی نہیں کرتا ہے۔مدینہ میں یزید ی مظالم کے خلاف احتجاج کے موقع پر جب مروان اور حصین بن نمیر جیسے دشمنانِ اہل بیتؑ پر دنیا تنگ ہوگئی تو آپ نے مروان کے بچوں کو اپنے گھر میں پناہ دی اور حصین بن نمیر کو مفت غلہ فراہم کیا۔مدینہ منورہ میں چار سو غرباء کے گھرانے تھے جہاں رات کی تاریکی میں سامان خوردونوش پہنچایا کرتے تھے اور اس طرح پشت مبارک پر سامان اُٹھانے کا واضح نشان پڑ گیا تھا۔آپ کی مشہور دعائوں پر مشتمل دو کتابوں کا مجموعہ ’’صحیفۂ کاملہ‘‘ اور ’’صحیفۂ سجادیہ‘‘ تھا جو احساس عظمت ربوبیت اور ذلت عبودیت کے مجموعہ کا نام ہے کہ جب تک انسان میں مالک یک عظمت اور اپنی کمزوری کا مکمل احساس نہ پیدا ہو، اس کی دعا، دعا کہے جانے کے قابل نہیں ہے۔
امام سجادؑ کی دعائوں میں ایک نکتہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آپ نے دعا کو صاحبانِ ایمان کے لئے تعمیر کردار اورظالمین کے خلاف احتجاج کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہے۔
آپ کی عبادت کائنات میں شہرۂ آفاق تھی اور اسی بناء پر آپ کو ہمیشہ زین العابدین کے لقب سے یاد کیاگیا ہے اورقیامت میں بھی اسی نام سے پکارا جائے گا۔
خوفِ خدا کی یہ کیفیت تھی کہ نماز میں مصروف تھے اور گھر میں آگ لگ گئی تو نماز کو مختصر نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ میں جہنم کی آگ بجھانے میں مصروف تھا مجھے یہاں کی آگ کی کوئی فکر نہیں تھی، اسے تو محلہ والے بھی بجھا سکتے تھے۔
مدینہ میں آپ کا ایک باغ تھا جس میں پانچ سو خرمہ کے درخت تھے ۔ جب باغ میں داخل ہوتے تھے تو ہر درخت کے نیچے دو رکعت نماز ادا کرتے تھے کہ پروردگار نے یہ رزق عطا فرمایا ہے اور اسے حوادث زمانہ سے تباہ نہیں ہونے دیا ہے۔
آپؑ نے خاک شفا ایک سجدہ گاہ بنا رکھی تھی جس پر سجدہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاک روزِ قیامت ان سجدوں کی گواہی دے گی۔امام زین العابدینؑ روایات میں انتہائی محتاط،صادق اللہجہ اور معتمدعلیہ تھے ۔وہ فقہاء اہل بیتؑ میں شمار ہوتے تھے۔ آپؑ علم و زہد میں امام حسینؑ کی زندہ تصویر تھے۔ آپ سے زیادہ عبادت گذار اورفقیہ نہیں دیکھاگیا(وسیکتہ النجاۃ،صواعق محرقہ)
آپ25محرم الحرام95ھ کو ولید بن عبدالملک کے ہاتھوں زہر دغا سے شہید ہوئے۔ آپ کی شہادت کا یہ اثر ہوا کہ سارے مدینہ میں کہرام برپا ہوگیا اوریتیم و بیوہ ولاوارث سب اپنے والی و وارث کے ماتم میں مصروف ہوگئے۔
Add new comment