حضرت عباسؑ ابن علیؑ کی شخصیت

 

رہبر معظم سید علی خامنہ ای

جس طرح کے تمام شواہد و قرائن سے ظاہر ہوتا ہے، جنگجو مردوں میں سے ـ طفل شش ماہہ اور گیارہ سالہ بچے کے سوا ـ اباالفضل العباس سب سے آخری فرد ہیں جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل جام شہادت نوش کرگئے ہیں اور یہ شہادت بھی ایک عظیم عمل ـ یعنی خیام اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے لب تشنہ باسیوں کی خاطر پانی لانے ـ کی راہ میں واقع ہوئی ہے۔
ائمہ اطہار علیہم السلام سے حضرت ابوالفضل علیہ السلام کی شان میں وارد ہونے والی زيارات اور کلمات میں دو جملوں پر زيادہ تاکید ہوئی ہے: ایک یہ کہ ابوالفضل العباس کی بصیرت کہاں ہے؟ سیدالشہداء کے سارے انصار و اعوان بابصیرت تھے؛ تاہم ابوالفضل (ع) نے بصیرت کا زيادہ مظاہرہ کیا۔ آج ہی کی مانند تاسوعا کی شام کو ایک موقع میسر آیا کہ آپ ان مصائب و آلام سے نجات پائیں یعنی دشمن کی طرف سے لوگ آئے اور آپ کے لئے ایک امان نامہ ساتھ لائے اور کہا: ہم آپ کو امان دیتے ہیں؛ تو آپ نے ایسا جوانمردانہ طرز عمل اپنایا کہ دشمن اپنی تجویز پر نادم ہوکر چلا گیا۔ کہا: میں حسین (علیہ السلام) سے جدا ہوجاؤں؟ وا‏ئے ہو تم پر (خرابی ہو تم پر)، اُف ہو تم پر اور تمہارے امان نامے پر۔
آپ کی بصیرت کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپ نے اپنے تین سگے بھائیوں کو ـ جو آپ کے ساتھ کربلا آئے تھے ـ ہدایت کی کہ میدان کارزار میں چلے جائیں اور وہ تینوں چلے گئے حتی کہ شہید ہوگئےآپ جانتے ہیں کہ یہ چار بھائی ایک ماں سے تھے: سب سے بڑی ابوالفضل العباس تھے اور پھر جعفر، عبداللہ اور عثمان۔ ایک انسان اپنے بھائیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے حسین بن علی (ع) پر قربان کرے؛ اپنی داغ دیدہ ماں کی فکر بھی نہ کرے کہ کہہ دیں کہ کم از کم بھائیوں میں سے ایک چلا جائے تا کہ والدہ کو ڈھارس ہو؛ اپنے چھوٹے بچوں کی سرپرستی کی فکر میں بھی نہ ہو جو اس وقت مدینہ میں تھے؛ یہ وہی بصیرت ہی ہے۔
حضرت ابوالفضل العباس کی وفاداری بھی سب سے زیادہ اسی مقام پر جلوہ گر ہوئی جب آپ شریعۂ فرات میں وارد ہوئے لیکن پانی نہیں پیا کیونکہ آپ کو بھائی حسین اور خاندان رسول کے بچے اور دیگر پیاسے یاد آرہے تھے اور آپ ان سے پہلے پانی پینا اپنی جوانمردی کے خلاف سمجھتے تھے۔ البتہ نقل معروف جو افواہ عام میں بھی ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کو پانی کے لئے فرات روانہ کیا تھا لیکن میں نے جو کچھ خود ارشاد شیخ مفید اور سید ابن طاؤس کی کتاب "اللہوف جیسی معتبر کتب میں دیکھا ہے وہ اس روایت سے کسی حد تک مختلف ہے اور اس سے اس واقعے کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان معتبر کتب میں منقول ہے کہ ان آخری لمحات اور لحظات میں ان بچوں اور چھوٹی بچیوں اور اہل حرم پر پیاس کا دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ امام حسین اور حضرت ابوالفضل علیہما السلام دونوں ساتھ پانی لانے کے لئے چلے گئے۔ ابوالفضل اکیلے نہيں گئے؛ حضرت امام حسین (ع) بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے اور اسی شریعۂ فرات کی طرف چلے گئے جو کہ فرات کا ایک حصہ تھا؛ اس امید سے کہ وہاں سے پانی اٹھا کر لائیں گے۔ یہ دو بہادر اور قوی بھائی پیٹھ سے پیٹھ لگا کر میدان جنگ میں لڑے۔ ایک امام حسین علیہ السلام تھے جن کی عمر اس وقت ساٹھ برس کے قریب تھی لیکن طاقت اور شجاعت کے لحاظ سے بےمثل نام آوروں میں شمار ہوتے تھے اور دوسرے حضرت عباس علیہ السلام تھے جن کی عمر 30 برس سے کچھ اوپر تھی اور انہیں اپنی منفرد خصوصیات سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ دو بھائی کندھے سے کندھا ملا کر اور پیٹھ سے پیٹھ لگا کر دشمن کے بحر متلاطم میں صفیں کاٹ کاٹ رہے تھے تا کہ فرات کے کنارے تک پہنچ سکیں تا کہ شاید پانی لا سکیں۔ اسی اثناء میں امام حسین علیہ السلام نے محسوس کیا کہ دشمن نے آپ کے اور آپ بھائی عباس کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اسی حال میں ابوالفضل پانی کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
جیسا کہ نقل ہوا ہے حضرت عباس خیام میں پہنچانے کے لئے مشک میں پانی بھردیتے ہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے لئے اس حق کا قائل ہوجاتا ہے کہ ایک چلو پانی اپنے خشکیدہ ہونٹوں تک بھی پہنچا دے؛ لیکن عباس نے یہاں بھی اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔ ابوالفضل العباس نے پانی اٹھالیا اور جب ان کی نظر پانی پر پڑی تو "فذکر عطش الحسین" عباس کو امام حسین کے سوکھے ہونٹ یاد آئے؛ شاید انہیں بچیوں اور بچوں کی العطش کی صدائیں یاد آئیں، شاید پیاس کی شدت سے علی اصغر کے صدائے گریہ یاد آئی اور انھوں نے پانی پینا پسند نہیں کیا اور پانی پھینک کر دریا سے باہر نکل آئے۔ پانی سے باہر نکلتے وقت وہ حوادث پیش آتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام اچانک بھائی کی صدا سنتے ہیں دشمن کے لشکر کے بیچ سے، جب عباس نے پکارا “يا اخا ادرك اخاك" بھائی جان اپنے بھائی کو پا لینا۔۔۔
نماز جمعہ 14 فروری 2000 یوم تاسوعا محرم الحرام 1421 ہجری۔

بشکریہ ابنا

Add new comment