دہشت گردی کے خلاف جنگ ،امریکی اپنی عقل کا ماتم کریں

نذر حافی

یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ،جو دنیا کی واحداسلامی ایٹمی طاقت ہے،جس کے بانی نے ایک آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کے قیام کے لئے غیر مسلموں کی ہر پیشکش کو ٹھکرا دیاتھا،جس کے باشندوں نے صرف اور صرف “لا الہ الااللہ ” کی بالا دستی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیاتھا۔۔۔آج بھی دنیا کے کسی بھی گوشے میں جب بھی کوئی اسلامی تحریک چلے تو اس ملک کے لو گ قربانیاں دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔بلامبالغہ آج بھی کشمیر کے چناروں ،فلسطینیوں کے نعروں اور افغانستان کے کہساروں میں اسی ملت کے جوانوں کے خون کے دھبےّ صاف دکھائی دیتے ہیں۔تاریخی صفحات شاہد ہیں کہ حکمرانوں کی منافقتیں،آرمی کے ٹارچر سیل،یورپ کے ہتھکنڈے،ایجنسیوں کی سازشیں،امریکہ کے ڈالر اور سعودی عرب کے ریّال اس ملّت کی دینی وحدت کوختم نہیں کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ غزہ کے محاصرےسے لے کر بیت المقدس کی آزادی تک ہمیشہ ملّت پاکستان نے شیعہ اور سنی،پنجابی اور سندھی جیسے تعصبات سے بلند ہو کر اپنی آواز بلند کی ہے۔یوں تو یورپ اور امریکہ ایک عرصے سے اس ملت کی دینی غیرت و حمیّت کی طاقت کو سمجھتے ہوئے اس سے سوء استفادہ کرنے کے درپےتھے ہی لیکن انہوں نے سعودی عرب کے شانوں پر سوار ہوکر یہ کام بطریق احسن انجام دیا۔انہوں نے سعودی عرب کے ذریعےپاکستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے بیج بوئے،پاکستان کے دینی مدارس کے ذہین و فتین طالب علموں کو دہشت گردی کے راستے پر لگایا،مساجد،امام بارگاہوں اور اولیائے کرام کے مزارات کو دہشت گردی کا نشانہ بنوایا،دینی طالب علموں کی سربراہی میں دہشت گرد تنظیمیں،لشکر، ٹولے اور طالبان منظّم کئے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کبھی بھی نہ ہوتا اگر سعودی عرب اسلام کا پرچم اٹھا کر امریکہ کا اتحادی نہ بنتا۔سعودی عرب نے امریکہ کی شہ پر پاکستان کے دینی مدارس کو شدّت پسندی کی ترغیب دی ۔جس کے بعد لشکروں پہ لشکر اور جیش پہ جیش تشکیل پانے لگے ،جب ان لشکروں نے سوویت یونین کو مار بھگایا اور امریکی عزائم کی تکمیل ہو گئی تو پھرامریکہ نے مستقبل میں ان لشکروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی خاطروقتی طور پر انہیں دبانا ضروری سمجھااور ” دہشت گردی کے خلاف جنگ “کے نام سے ایک نئے ڈرامے کا آغاز کیا۔اس ڈرامے کے دوران اب تک جہاں بے شمار بے گناہ افغانی اور پاکستانی مارے گئے ہیں وہیں پر طالبان کی صفوں میں موجود ایسے لوگ بھی مارے گئے ہیں جو اصلا مسلمان ہی نہیں تھے اورجن کی ہلاکت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ طالبا ن کانام استعمال کر کے امریکہ خود سے دہشت گردی کو فروغ دے رہاہے۔دہشت گردی کا یہ ڈرامہ کھیل کر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل اسلام کو اور مسلمانوں کو بدنام کیاجارہاہے لیکن سعودی عرب آنکھیں بند کرکے امریکی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہے۔گزشتہ دنوں اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد جہاں پر کچھ لوگوں نے اسامہ بن لادن کو امریکہ اور سعودی عرب کا ایجنٹ قرار دیا وہیں پر کچھ نے موصوف کو مجاہد اسلام کہہ کر آنسو بھی بہائے۔ہم اس بارے میں موصوف کے زندگی نامے کی ورق گردانی کئے بغیر موصوف کے مقتل کا محل وقوع قارئین کی خدمت میں پیش کرناچاہتے ہیں ۔ہماری خواہش ہے کہ صاحبان علم و دانش خود ہی تجزیہ و تحلیل کے ساتھ نتیجہ نکا لیں۔تجزیہ کرتے ہوئے بس اتنا ضرور یاد رکھئیے گا کہ اسامہ بن لادن دنیا کا ایسامطلوب ترین اور خطرناک ترین شخص ہے کہ جس کی تلاش میں جدید ترین جاسوسی ٹیکنالوجی کے ساتھ اکیسویں صدی کی اعلی تربیّت یافتہ خفیہ ایجنسیاں اورحساس ادارے برسوں سے مارے مارے پھر رہے ہیں۔اس شخص کوگزشتہ دنوں ایبٹ آباد میں یعنی پاکستان کے دارلحکومت اسلام آبادسے شمال مشرق کی جانب صرف ۱۲۵کلومیٹر کے فاصلے پر بغیر کسی غیر معمولی مزاحمت کے ماردیاجاتاہے۔ایبٹ آباد جسے سکولوں کا شہر بھی کہا جاتاہے اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ شہر عسکری حوالے سے بھی انتہائی اہمیّت کا حامل ہے۔اس شہر میں پاکستان آرمی کی معروف ترین چھاونی “کاکول ” واقع ہے۔اس کاکول چھاونی میں پاکستان آرمی کے درجنوں اہم مراکز موجود ہیں اور ان سب مراکز میں سے نہایت اہمیت کا حامل ادارہ”پاکستان ملٹری اکیڈمی ” بھی یہیں پر واقع ہے اور یہ قتل”پاکستان ملٹری اکیڈمی ” سے صرف چند سو گز کے فاصلے پر ہوا ہے۔اب چند سوالوں کے جواب سوچئے

۱۔ دنیا کا یہ خطرناک ترین شخص اتنے حساس ترین علاقے میں کیسے رہ رہا تھا؟

۲۔پاکستان آرمی کے قلب میں یہ شخص قتل ہوا لیکن پاکستان آرمی نے کیوں اسے قتل یا گرفتار نہیں کیا؟

۳۔ امریکی فوجی تو اسامہ کو قتل کرنے اس حساس ترین علاقے میں پہنچ گئے لیکن پاکستان آرمی کا انتہائی اہم مرکز ہونے کے باوجود پاکستان آرمی کو اس کی موجودگی کی خبر نہ ہوئی۔۔۔کیا یہ ممکن ہے؟

۴۔القائدہ جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کی اپنی حفاظت کے لئے وہاں پر القائدہ کا کوئی حفاظتی دستہ موجود نہ تھا؟

پاکستان آرمی کی آغوش میں امریکی فوج کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کا قتل اس بات کی دلیل ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ ڈرامہ اب ایک نئے انداز میں شروع کیا جانے والا ہے۔ ڈرامہ جس انداز میں بھی ہو ڈرامہ ہی ہوتاہے اور ڈرامہ جیسا بھی ہو وہ عوام النّاس پر اپنے اچھے یا برے اثرات ضرور مرتّب کرتا ہے۔ڈرامہ بازی اچھی چیز ہے لیکن اب امریکہ،سعودی عرب اور پاکستان کے حکمرانوں کو اتنا ضرور جان لینا چاہیے کہ وہ طالبان اور القائدہ کے نام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کے جس تفکّر کی پرورش کرتے چلے آرہے ہیں اب وہ تفکر ایک ناگ کی صورت اختیار کرچکاہے اور یہ ناگ جلد یا بدیر کہیں سے بھی اپنا سر نکال سکتاہے۔اب یہ ناگ اتنا جوان اور طاقتور ہوچکاہے کہ مسجدوں میں نمازیوں یا اولیائے کرام کے مزارات میں زائرین کے خون سے اس کے پیٹ کی آگ بجھنے والی نہیں۔اب وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ جب دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مظلوم پاکستانیوں اور افغانیوں کی بیواوں کی طرح سعودی عرب کے شاہی خاندان کی بیوائیں بھی بین کرتی پھریں گی اور دہشت گردی میں ملوث ہمارے جرنیلوں کی بیگمائیں بھی اپنے آنسووں کے شوربے میں روٹیاں بھگو کر کھائیں گی۔دہشت گردی کا ناگ اگر اپنی پھنکار سے غریبو ں کے چولھے بجھاسکتاہے تو زرداروں ،نوابوں،وڈیروں اور کرپٹ سیاستدانوں کے ماتھے پر بھی ڈس سکتاہے۔دہشت گردی کاجو ناگ بارباراسلام آباد سے سر نکال رہاہے اسے وائٹ ہاوس تک پہنچنے میں آخر کچھ دیر تولگے گی۔۔۔بہرحال اسامہ کے قتل پر امریکہ میں جشن بنانے والوں کو اپنی عقل کا ماتم بھی کرنا چاہیے اس لئے کہ امریکہ کے مکار سیاستدان نسل در نسل دہشت گردی کے جس ناگ کو پال رہے ہیں وہ آگے چل کرایک نہیں کروڑوں اساموں کو جنم دے گا۔
nazarhaffi@yahoo.com

Add new comment