شام میں اسرائیل نواز دہشت گردوں کو زبردست شکست

ٹی وی شیعہ (نیوز ویب)اطلاعات کے مطابق شام کی سرکاری فوج نے اسرائیل نواز وہابی دہشت گردوں سے شام کے  السفیرہ نامی علاقےکو شدید جھڑپوں کے بعد چھڑا لیا گیا ہے۔
مسلح اسرائیل نواز دہشت گردوں  سے وابستہ "المدینہ نیوز مرکز"  نے لبنانی خبر ایجنسی ایشیا نیوز کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے السفیرہ کے عوام پر اس شکست کی ذمہ داری ڈال دی اور کہا: حلب کے عوام ميں سے ایک فرد نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا اور کسی بھی شخص نے ہماری مدد کے لئے ہتھیار نہيں اٹھایا اور جس کے پاس ہتھیار دیکھا گیا اس نے دعوی کیا کہ اس کا تعلق جیش الحر سے ہے۔ 
الخطاب جو ترکی بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا نے دوسرے ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اپنی بات بدل دی اور کہا کہ السفیرہ میں شامی فوج کے خلاف لڑنے والے اس شہر کے عوام ہی تھے! گویا اس کو کسی نے سمجھایا تھا کہ یہ بات شائع نہ ہونے پائے کہ شامی عوام حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں اور وہ دہشت گردوں کی حمایت کے روادار نہيں ہیں۔ اس نے دعوی کیا کہ السفیرہ کے عوام لڑتے رہے لیکن کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا!
اس نے کہا: عسکری کونسل نے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کیا اور کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں شامی افواج کے کارخانوں میں بننے والے ہتھیار تشدد پسندوں کے ہاتھ نہ لگیں! حالانکہ ایسا کوئی امکان نہ تھا اور عسکری کونسل کی بزدلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس نے رازداری میں شامی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ السفیرہ کو شامی افواج کے سپرد کیا جائے۔ 
المدینہ مرکز کے سربراہ کا کہنا تھا کہ السفیرہ پر قبضے کے بعد اب شامی افواج حلب شہر کے مشرقی نواحی علاقوں تک پیشقدمی کرسکتی ہیں کیونکہ السفیرہ حلب میں داخل ہونے کے لئے سب سے مختصر راستہ ہے اور اب شامی افواج کویرس ایئر پورٹ کا محاصرہ توڑ دیں گی اور الحراریہ فضائی اڈے نیز 80 ڈویژن کی چھاؤنی کا کنٹرول بھی حاصل کریں گی۔ 
اس نے کہا: شامی فوج اب حلب کے شمالی نواح تک بھی پیشقدمی کرسکتی ہے اور اب اس کے سامنے جغرافیائی اور قدرتی رکاوٹیں بھی نہیں ہیں اور یوں شامی فوج توپخانے کی گولہ باری اور فضائی حملوں کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرے گی اور پیدل فوج بآسانی علاقے میں داخل ہوگی۔  
الخطاب نے کہا: اس وقت السفیرہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے حکومت مخالف تنظیموں کے پاس کوئی منصوبہ نہيں ہے حالانکہ یہ شہر عسکری نقطہ نظر سے بہت اہم ہے چنانچہ اب مخالفین کو خون کے آنسو بہانا پڑیں گے۔ 
ادھر شامی فوج نے موسم گرما میں حمص کے شہر القصیر پر قبضے کے بعد السفیرہ کا کنٹرول حاصل کرکے بڑی کامیابی حاصل کی ہے؛ اس نے یہ شہر ایک مہینے سے جاری جھڑپوں کے بعد آزاد کرایا ہے اور اس میں دہشت گردوں کا صفایا کرلیا ہے۔ 
شامی فوج نے السفیرہ کو ایسے حال میں دہشت گردوں سے چھڑا لیا ہے کہ تمام عرب اور غیر عرب ذرائع ابلاغ نے اپنی تمام تر توجہ ریف دمشق کے علاقے "القلمون" کے لئے لڑی جانی والی اگلی لڑائی پر مرکوز کی تھی اور کسی کی توجہ اس جانب نہ تھی کہ سرکاری فوج السفیرہ پر حملہ کرسکتی ہے۔ 
حلب کے اس نواحی شہر کے قریب وزارت دفاع کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کے بڑے کارخانے ہیں جن کی وجہ سے مسلح دہشت گرد تنظیموں اور ان کے بیرونی حامیوں کی توجہ اس علاقے پر مرکوز تھی اور دہشت گرد ان کارخانوں کے قریب پہنچنے کے لئے پوری قوت صرف کررہے تھے کیونکہ ان کارخانوں تک رسائی ہتھیاروں اور گولہ بارود کے خزانے تک رسائی کے مترادف تھی۔ 
یہ کارخانے حلب سے 25 کیلومیٹر مشرق کی طرف واقع ہیں اور عسکری نقطہ نگاہ سے بھی السفیرہ کے اوپر واقع جبل الحص کے اوپر واقع ہوئے ہیں اور  ارد گرد کے قصبے اور دیہاتوں پر بھی اس شہر سے نظر رکھی جاسکتی ہے اور بعض عسکری ماہرین کے مطابق شامی افواج کی عسکری پیداوار کے سب سے بڑے مراکز یہیں واقع ہیں۔ 
السفیرہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ کویرس کے فوجی ائیرپورٹ اور حلب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب واقع ہے اور پھر اس کے جنوب میں ایک بہت بڑا صحرائی علاقہ واقع ہوا ہے جہاں کوئی آبادی نہيں ہے اور 60 کلومیٹر دور حتاصر تک پھیلا ہوا ہے۔ 
اس علاقے کی عسکری اہمیت کی بنا پر دہشت گرد ٹولے اپنی پوری قوت سے فوج کو اس علاقے سے دور رکھنے کی کوشش کررہے تھے اور تمام تر دہشت گرد تنظیموں کو یہاں آکر فوج کا راستہ روکنے کی دعوت دی تھی۔ 
شامی فوج البحوث العلمیہ (سائنسی مطالعات) مرکز، دفاعی کارخانوں اور ابوجرین نامی گاؤں کے راستے میں واقع القبان کے علاقے سے السفیرہ میں داخل ہوئی اور جمعہ کی صبح کو ہی دشمن کا کام تمام کردیا۔  
ایک عسکری ماہر "ترکی حسن" نے لبنان کے المنار نیوز چینل سے وابستہ ویب سائٹ کے نمائندے کو بتایا کہ السفیرہ پر کنٹرول کی وجہ سے شمال میں تعینات شامی افواج کے اہداف کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ السفیرہ کی آزآدی سے فوج کا ہدف یہ تھا کہ حلب کے علاقے میں فوج کی موجودگی کو تفویت پہنچائی جائے اور یہ کاروائی دہشت گردوں کے لئے بہت ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوئی کیونکہ السفیرہ در حقیقت دہشت گردوں کے لئے آپریشن روم کی حیثیت رکھتا تھا؛ دوسرا مقصد حلب ـ رقہ ـ دیر الزور شاہراہ نیز اسلحہ کے کارخانوں اور دفاعی اور صنعتی و زرعی پیداواری مراکز کو کو پرامن بنانا؛ حلب کو بجلی فراہم کرنے والے ایک ہزار میگا واٹ کے بجلی گھر کا امن بحال کرنا اور بین الاقوامی ائیر پورٹ نیز عسکری ہوائی اڈے کا محاصرہ توڑنا تھا۔ جبکہ حلب اور حماہ کے درمیان قومی شاہراہ کے امن کو یقینی بنانا بھی اس کاروائی کے اہداف میں سے ایک تھا۔ 
ترکی حسن کے مطابق السفیرہ پر فوج کے کنٹرول کا اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ غوطہ شرقیہ اور غوطہ غربیہ میں دہشت گردوں کو پہنچنے والے سامان رسد کے تمام راستے بند ہوگئے جبکہ حلب کے مشرق میں دہشت گردوں کے ٹھکانے بھی اب فوج کی رسائی سے خارج نہيں ہیں اور حلب کی مکمل آزادی کے امکانات روشن ہوئے ہیں جو شام کا معاشی دارالحکومت سمجھا جاتا ہے۔ 

Add new comment