حق پر مرمٹنے کا گر جذبہ نہیں

حسن ساہو
واقعۂ کربلا کی عظمت کاکیا کہنا کہ اسلام کی بقا اس واقعہ میں مضمرہے ۔ دراصل رب جلیل کاپسندیدہ دین اسلام ایک عظیم اور گراں قدر فلسفہ ہے جو بنی نوع انسان کی نہ صرف خوشحالی بلکہ سربلندی کا بھی ضامن ہے ۔ کربلا کے تپتے میدا ن میں اما م حسین ؑ نے راہِ حق میں عظیم اور لاثانی قربانیاں پیش کرکے دین اسلام کی سربلندی کو پُروقار طریقے سے جاودانی حیثیت بخشی ۔

61ھ میں سفینہ اسلام کو جو کربلا کے خشک وگرم ریگزار میں باطل پرست طاغوتی طاقت کے ہاتھوں غرق ہونے کو تھا۔ پیغمبر آخرزماں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور شیر خدا علی مرتضی علیہ السلام کے بیٹے امام حسین ؑ نے اپنی واپنے بھرے گھر کی قربانیاں دے کر ڈوبتے سفینے کو اپنے خون کی لہروں پر ساحلِ مراد سے ہمکنار کرتے ہوئے دین اسلام کو ابدی قیام بخشا۔

حقا کہ بنائے لا الٰہ است حسین ؑ

سانحۂ کربلا نے اسلام کو نئی زندگی بخشی ۔ گویا شہادت عظمیٰ نے دین کی اساس کو نابودی سے بچالیا۔ ماننا پڑے گاکہ واقعۂ کربلا تاریخ عالم کے تمام واقعات سے زیادہ فکر انگیز وعبرت ناک ہے کیونکہ اسی معرکہ میں باطل پرستوں کی طرف سے ظلم وجبرکے تمام حربے بروئے کار لاکر حق وصداقت کی آواز کو بے دردی وپوری شدت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی گئی ۔ انسانیت کے تمام اصول اور قدرتی قوانین کو پائوں تلے روند ڈالے گئے ۔اخلاق وشرافت کے تمام ضابطے توڑ دیئے گئے اور غیرانسانی و غیر اخلاقی طریقے اپنا کر وقت کے حکمرانوں نے تاریخ عالم میں اپنا نام ہمیشہ کے لئے ظالم وجابر افراد کی فہرست میں رقم کرایا ۔ اس لئے جو کوئی بھی حق پرست یا انسان دوست شخص تاریخ اسلام کے اس خونین معرکہ حق وباطل کو صحیح تناظر میں پرکھتاہے تو وہ یقیناً خون کے آنسو روتاہے ۔ اس کادل تڑپ وکرب سے بھرجاتاہے ۔گویا واقعہ کربلا کی اہمیت وافادیت کو محسوس کرکے اس پر یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یزید تاریخ اسلام کا سب سے بڑا جابر وظالم حکمران ہوگذراہے جس نے باطل کوپروان چڑھانے کی خاطر ہر طرح کے پلید وکرخت حربے اپنالئے اس کے مقابل حق وصداقت کا عَلم بلند رکھنے کے لئے امام حسین ؑ نے ہرمرحلے پر صبر وشکر کی راہ اپنائی اور بے مثال قربانیاں پیش کرکے شہیداعظم کا لقب پایا ۔ اس طرح امام حسین ؑ دنیا کے تمام مظلوموں اور راہِ حق میں شہید ہونے والوں کی زندہ علامت بن گئے۔

امام حسینؑ قیامت تک دنیائے انسانیت کے لئے عدل وانصاف کے روشن مینار اور حق کی علامت ہیں جن کی پیروی بے شک صراط مستقیم کی ضامن ہے ۔ محسن انسانیت کی قدرومنزلت کو سمجھنے کے لئے نگاہ ودل کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ حق شناس ،فہم ورسا اور عدل پسند ضمیر کی ضرورت ہے۔یقیناً عظمت حسین ؑ شعورکی بیداری کے ساتھ ہرقلب انسانی کے لئے کشش کا باعث بنتی جائے گی ؎

انسان کو بیدار تو ہولینے دو

ہرقوم پکارنے گی ہماے ہیں حسین ؑ

الغرض شہادت عظمیٰ کی مقصدیت ومعنویت کوفراموش کرتے ہوئے حضرت امام حسین ؑ کے مصائب پر آنسوبہانانہ صرف یہ کہ بالکل بے فیض ہے بلکہ ایسے نام نہاد مسلمانوں کو جو روز مرہ کی سماجی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عدل کو قطعی ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور اپنی نجی زندگی میں کئی مرحلوں پر ظلم واستبداد اور حق تلفیوں کو روا رکھتے ہوں انہیں امام عالی مقامؑ کا نام بھی زبان پر لانے کا حق نہیں ۔

محبان حسین ؑ غم حسینؑ صرف آنسو بہانے ، آہ وبکا اور سینہ زنی کی تلقین کا نام نہیں …غمِ حسینؑ احیائے اسلام کی ایک گراں بہا تلقین ہے ۔ غم ِ حسین ؑاسلام کی بقاء کا ضامن ہے…غمِ حسینؑ رہتی دنیا تک حق وباطل میں شناخت کے لئے حدِفاضل ہے …غمِ حسین ؑ زندگی کے ہرشعبہ میں حق شناسی اور حق فہمی کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف کو شعوری طور پر اختیارکرنے کی ایک گراںمایہ ہدایت ہے …غمِ حسین ظلم ،استبداد اور ناانصافی کے خلاف ایک للکارہے اور غم حسین ؑ مستضعفین اور مظلومین کی حمایت ،دفاع اور اعانت کے لئے ’’جہاد ‘‘ کا پیام ہے ۔

امام حسینؑ نے یوم عاشورہ میدان کربلا میں چند گھڑیوں میں عزیز واقرباء اور دوست وساتھی سب راہ حق میں نثار کردیئے ۔ اپنی جان استبداد کے ہتھیاروں کی نذر کردی مگر یہ گوارا نہیں کیا کہ پائے استقلال میں لغزش آنے پائے ۔ امام حسین ؑ کی عظمت یہی ہے کہ انہوں نے ہنستے ہوئے صبر کے ساتھ لاتعداد مصائب کا سامنا کیا ۔ خوش دلی کے ساتھ راہِ خدا میں قربانیاں دیں اور خوشی خوشی اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی ۔

الغرض تربیت کے فیضان سے امام حسین ؑنے صبر ثبات کی خون آلود تحریر تاریخ عالم کے صفحات پر رقم کردی۔

حوصلہ ، استقامت ، صبر ، جرأت ،ثابت قدمی یہ سب الفاظ اپنے معانی کو واضح محض ایسی ایک صورت میں کرسکے ہیں کہ حسین ؑ ابن علیؑ نے 10محرم اکسٹھ ہجری کو میدان کربلا میں اُن کو عملی شکل میں دی۔امام حسین ؑ نے زندگی اور موت کے معانی واضح کئے ، ان کا فرق اُجاگر کیا اور انہیں مستمیز کیا ۔

اب تاقیامت جب بھی حق وباطل کی آویزش کاذکر چھڑے گا ۔ حقیقی فتح وشکت کی بات ہوگی یا جاندار زندگی اور موت کا فیصلہ ہوگا۔ کسوٹی کرب وبلا کامعرکہ ہوگا ۔ حضرت امام حسین ؑ کی بے مثال قربانی ہوگی ؎

شکست موت کو اور موت ظلم کو دے کر

حسین ؑ فاتح مرگ وحیات کہلائے

یومِ عاشورہ کی خصوصیات بے شمار ہیںمگر اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن امام حسین ؑ کی شہادت ہوئی ۔ اس دن حق کی سرفرازی اور سربلندی کے نغمے ساز حیات پر گائے گئے اور باطل کی شکست کا عنوان خون حسین ؑ سے لکھا گیا ۔ حق کی سربلندی کے اس آہنگ میں حضرت امام حسین ؑ کے ساتھیوں اور جانثاروں کی صدائے بازگشت بھی شامل ہے ۔ امام عالی مقام ؑ کے کسی رشتہ دار یا ان کی کسی ساتھی نے پیٹھ نہیں دکھائی ۔تامل یا ترددنہیں کیا بلکہ امام حسین ؑ نے پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔

حقیقت یہ ہے کہ محسن ملت ،شہید اعظم ، نواسۂ سرکار دوعالمؐ، فرزند بتولؓ، جگرگوش مرتضیٰؑ حضرت امام حسین ؑ کے بے نظیر کارناموں کویاد کرنا، ان کے ذکر خیر سے اپنی محفلوں کو رونق بخشنا اور ان کی استقامت ،صبر ،حوصلے او راستقلال کی باتیں چھیڑنا بہت ہی احسن ہے ۔

اگر ہم امام حسین ؑ کے نام لیوا ان کا سا ذوقِ عبادت نہ رکھتے ہوں ، ان کے اخلاقِ حسنہ کی پیروی کرنا ہمارا شعار نہ ہو، باطل کے خدائوں کے آگے سر جھکاناہمارا شیوہ بنا رہے اور دین حق کی خاطر قربانیاں دینے کے جذبے سے ہم سرشار نہ ہوں تو پھر ذکر حسین ؑ ایک رسم ہوگی …اور یہ اصلیت اپنی جگہ اٹل کہ محض رسموں میں جکڑی ہوئی قومیں غلامی کی زنجیروں سے باہر نہیں آسکتی اور آزادی کی نعمتوں سے بہرہ یاب نہیں ہوسکتی ؎

حق پر مرمٹنے کا گر جذبہ نہیں

رسم دنیا ہے فقط ذکرِ حسین ؑ

 

Add new comment