اس سال کا محرم اور ہماری ذمہ داریاں
تحریر: علی ناصر الحسینی
اس سال ماہ محرم الحرام کا آغاز اس صورت حال میں ہونے جا رہا ہے کہ ملک پر مسلم لیگ نون کی حکومت ہے پنجاب اور مرکز میں وہ اکیلی اور بلوچستان میں اس کی اتحادی حکومت قائم ہے جبکہ پاکستان کے انتہائی حساس صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا اشتراک حکومت بنانے میں کامیاب ہوا تھا، صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار کی وارث قرار دی گئی تھی، ملک میں مجموعی طور پر حالات بے حد خراب ہیں امن و امان کا مسئلہ ہر گذرنے والے دن کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے، ملک کے انتہائی حساس صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار کی گتھیاں سلجھانے والے حکمرانوں اور مرکز میں اقتدار کے ایوانوں پر متمکن جماعت کا موقف اس حوالے سے یکساں ہے کہ ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے ذمہ داروں یعنی طالبان سے مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا چھکا لگایا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک عدد اے پی سی بھی ہو چکی ہے جس کے بعد مسلسل یہ سننے میں آ رہا ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔
کہیں کبھی یہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ مذاکرات نام کی کوئی چیز ابھی شروع نہیں ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ میں پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے، جہاں روزانہ کئی دہشت گر دپکڑے جاتے ہیں اور اسلحہ بھی برآمد کرنے کی خبریں سنائی جاتی ہیں، اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری تھمنے کو نہیں آ رہی ایسے ماحول میں اس بار محرم الحرام کی آمد آمد ہے، محرم الحرام میں ہم اہل تشیع پورے ملک کی سڑکوں پر ہوتے ہیں اس حوالے سے ہمیں شدید خطرات درپیش رہتے ہیں ماضی میں محرم الحرام میں عزاداران امام حسین (ع) کو کوئٹہ کراچی لاہور سمیت کئی ایک شہروں میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ہے اور یہ خطرات ہر سال پہلے سے بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ محرم الحرام جو اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے روایتی طور پر پوری مسلم دنیا میں اور ہمارے ملک پاکستان میں اسلامی سال کا آغاز غم و الم کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ سارے جہاں کی طرح پاکستان کے شہر شہر، گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ میں نواسہ رسول (ص)، جگر گوشہ بتول قافلہ سالار حریت حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) اور ان کے اعزہ اقرباء، انصاران و یاران ان کی عظیم اور بے مثال قربانیوں کی یادوں کو تازہ کرنے اوردرس گاہ کربلا سے رُشد و ہدایت حاصل کرنے کے لیے مجالس و محافل او ر جلوسوں کے پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں۔
اس ماہ الم و غم میں ہر ایک اپنے اپنے انداز و رواج کے مطابق عقیدت کے پھول نچھاور کرے گا، اپنی اپنی توفیق اور شوق سے شہدائے کربلا سے تمسک اور تعلق کا اظہار کرے گا۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ محرم الحرام کا چاند طلوع ہونے سے کئی ماہ پہلے ہی تیاریاں کی جاتی ہیں بالخصوص بانیانِ مجالس و عشرہ اور جلوس کے لائسنسداران اپنے اپنے علاقائی و اجتماعی سطح پر تمام امور احسن طریقہ سے سرانجام دینے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ مجالس کے پوسٹرز و اشتہارات کی چھپائی و لگوائی سے لیکر بینرز ڈسپلے کرنے تک اور مجالس کے اہتمام کیلئے اما م بارگاہوں کے رنگ و روغن تک بے شمار کام ہوتے ہیں۔ جو ایک ترتیب سے سرانجام دینا ہوتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کے موجودہ حالات، دہشت گردی، تخریب کاری اور شیعانِ علی (ع) کے ساتھ آج حکمرانوں کے رویہ اور زیادتیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عزداری و مجالس برپا کرنے، ان میں شریک ہونے اور مجالس پڑھنے والے ذاکرین، علماء، ماتمیان، شعراء ،سوز خوان، اسکاؤٹس گروپس اور عام لوگوں سمیت تمام لوگوں اور سبھی طبقات پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
یہ سب لوگ ملکر ایک ملت بنتے ہیں، ایک مکتب کے پیروکار کہلاتے ہیں اور ایک مکتبہ فکر کی نمائندگی کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔ جب ہم کوئی جلوس عزاء برآمد کرتے ہیں تو اس وقت بانیان، شرکاء، خطباء، شعراء، مرد، خواتین، بچے، علماء، رہنماء، لائسنسداران، اسکاؤٹس، ورکرز، رضا کار اور کسی بھی طرح سے ان عبادات و عقیدت کے سفر میں شریک ایک ملت بن کر سامنے آ رہے ہوتے ہیں۔ آج میڈیا کا دور ہے جس میں کسی معمولی سے وقوعہ یا بات کو محدود رکھنا یا دوسروں سے چھپانا ممکن نہیں رہا۔ جب اپنے پرائے سبھی ہماری ایک ایک حرکت کو خاص نگاہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کسی کو بھی کسی ایسے کام کی اجازت نہیں دینا چاہیئے۔ جس سے ملت تشیع کے قومی وقار پر آنچ آئے اور کسی کو بھی اُنگلی اُٹھانے کا موقعہ ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ہماری مقامی انجمنوں اور علاقائی تنظیموں کا ان ایام میں کوئی بھی قدم نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بانیان مجالس مطلوبہ خطیب یا ذاکر کو دعوت دینے سے لیکر مجلس کے ماحول، سیکورٹی کے اہتمام اور دیگر لوگوں سے اچھے طریقے سے تعاون لینے اور پروگرام منعقد کرنے تک مسلسل اور ہمہ وقتی توجہ طلب صورتحال درپیش ہوتی ہے۔
مجلس میں پڑھنے والے خطیب یا ذاکر کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنی گفتگو میں نہ تو ملت کے حوالے سے ایسے موضوعات کو چھیڑیں جن سے ملی اتحاد و وحدت اور نظم میں دراڑ آئے اور نہ ہی ایسا ماحول بنانا چاہیئے۔ جس سے امت کے دیگر فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مجالس سے دور ہونے کا بہانہ مل جائے۔ یہ وہ دن ہیں جب کسی سے بھی کوئی لغزش یا غلطی کا ارتکاب پورے ملک یا پھر آپ کے علاقہ کیلئے کوئی مصیبت کھڑی کرسکتی ہے اور اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھی بھگتنا پڑسکتا ہے۔ اس موقعہ پر سیکیورٹی کے موجودہ مسائل اور حالات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ایک لحظہ کے لیے بھی غافل نہ ہوں۔ ایک لحظہ کی غفلت سے ہی دشمن فائدہ اُٹھاتا ہے اور اسے موقعہ مل جاتا ہے کہ ہمارے بے گناہ، معصوم، نہتے اور حالتِ غم سے دوچار مومنین و موالیان کو نشانہ بناکر اپنے تخریبی مقصد کو پالے۔ ملک بھر میں تازہ حالات، رونماء ہونے والے واقعات اور ملت تشیع پر ہونے والے تجاوز اور مسلسل مظالم کی حقیقت جانتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ حکمران بالخصوص ان حکمرانوں اور جماعتوں پر اطمینان نہیں کر لینا چاہیئے جو خود تو دہشت گردوں سے مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور اپنے مقرر کردہ متعصب افسران و نااہل انتظامیہ کو عوام پر مسلط کر رہے ہیں۔
یہ لوگ بہت ہی نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہیں، محرم سے قبل اکثر ان ناہل افسران کے بیانات آتے ہیں کہ تمام انتظامات مکمل ہو گئے ہیں، سیکیورٹی پلان بن چکا ہے۔ امن کمیٹیز کی میٹنگز میں معاملات طے پا گئے ہیں، یہ سب حکومتوں کا روٹین کا سلسلہ ہوتا ہے اب ایک بیان کا اضافہ یہ ہوا ہے کہ اس بار غیر رجسٹرڈ جلوسوں کے نکالنے کی پابندی ہو گی۔ جو ظلم کے مترادف ہے، بہت سے جلوس روایتی اور سال ہا سال سے چلے آ رہے ہوتے ہیں مگر متعصب حکمرانوں نے نئے جلوس نکالنے کی اجازت اور لائسنس ایشو نہیں کر رہے۔ بلوچستان آگ و خون کے طوفانوں سے دوچار ہے۔ جہاں عالمی قوتیں خاص مقاصد کیلئے سر گرم عمل ہیں قدرتی وسائل و معدنیات سے مالا مال اس صوبہ میں شیعہ آبادی شدید خطرات سے دوچار ہے، حکومت تو چار ماہ گذر جانے کے بعد بڑی مشکل سے کابینہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لہذا ان پر تکیہ کیا کرنا؟ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی جہاں پورے ملک کے سب سے بڑے جلوس نکالے جاتے ہیں اور مجالس کے تاریخ ساز اجتماعات برپا کئے جاتے ہیں آج آپریشن جاری مگر اس کے ساتھ ساتھ بے گناہوں کو روز شہید کیا جا رہا ہے۔
اب بھی ویسے ہی لاشیں گرتی ہیں، ہر شام حسینیوں کے خون کی شام غریباں برپا ہو رہی ہے اور قاتلوں کا نشاں بھی نہیں ملتا اور اگر کسی کو نامزد کیا جاتا ہے یا گرفتار ہوتا ہے تو انہیں سزا تک کون پہنچائے گا؟ خیبر پختونخوا میں وہ حکومت چل رہی ہے جس کو پتہ بھی نہیں چلا اور اس کی ناک تلے سے دہشت گرد ایک جیل توڑ کر تین سو سے زائد ساتھی چھڑا کر بھی لے گئے اور ان کے اپنے وزراء بھی ان دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ مذاکرات کی مالا جپنے میں مصروف ہیں۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ اس صوبے کے کئی شہر اور علاقے باقاعدہ طور پر اب بھی دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہیں اور ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا یہاں کے جانیں بچاتے خوفزدہ حکمران بزدلی کی علامت بن چکے ہیں کوئی اطمینان کا مقام ہے تو اپنا قوتِ بازو ہے، باہمی اتحاد و یکجہتی ہے۔ اپنی ملت و قوم کے نوجوان ہیں جنہیں اعتماد میں لیکر منظم کیا جانا ہے۔ ہماری اپنی منصوبہ بندی ہے، عزاداری کو شایان شایان اور بہترین انداز میں برپا کرنے کے لیے اسکاؤٹس و رضاکار دستوں کی تشکیل اور ان کی تربیت ہے۔
ملک کے مختلف شہروں میں محرم الحرام سے قبل ہی خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دے رہی ہیں، مختلف علاقوں میں جاری کشیدگی اور جان بوجھ کر پیدا کئے گئے خطرناک حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ نااہل حکمران اور فرقہ وارانہ دہشتگردی کا کھیل کھیلنے والے عالمی کرداروں کے مقامی مزدور [گروہ خوارج] آنے والے محرم الحرام میں کیا کرنا چاہتے ہیں اور کہاں تک جا سکتے ہیں۔ عالمی استعمار اور اس کے مزدور اپنے آقا کی خواہش اور خوشنودی لیلئے امت کی وحدت اور اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کیلئے بیگناہوں کے قتل کا گھناؤنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ آج وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ اپنی آنکھیں، کان، دماغ اور تمام حسیات کو بیدار رکھیں اور آندھیوں سے قبل ہی اپنا سامان محفوظ کرلیں، طوفانوں کے مچلنے سے قبل ہی اس کے منفی اثرات سے بچنے کی تدبیر کرلی جائے۔ بارشوں اور سیلاب سے پہلے ہی اپنے اثاثہ کی حفاظت کرلی جائے اور موسمی تغیرات کو اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیں۔
یاد رکھیں کہ جس طرح آپ محرم الحرام کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور انتظامات کو فائنل کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں بالکل ایسے ہی دشمنانِ عزاداری امام (ع) اور اس ملک و ملت کو نقصان پہنچا کر تسکین محسوس کرنے والے عناصر بھی اپنی تیاریوں میں لگے ہوں گے، آپ کی بروقت تیاری ،اتحاد اور نظم و ضبط ہی دشمن کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملانے کا باعث بنیں گے۔ مالک دوجہاں سے دُعا ہے کے عاشقان و پیروکاران امام حسین (ع) کو حفظ فرمائے ہر شر سے محفوظ اور سلامت رکھے تاکہ نام ابن علی (ع) بھی زندہ و تابندہ رہے یزید ملعون اور اس کے پیروکار وں کو 61 ہجری کی طرح ایک بار پھر رسوائی اور ذلت ہی ملے۔ (آمین)
بشکریہ اسلام ٹائمز
Add new comment