سپاہ حسینی میں صبح کا منظر

ادھر سپیدہ سحری نمودار ہوئی اور ادھر لشکر نور میں خورشید عاشورا امام حسین علیہ السلام نے آسمان کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے دعا کی :'' اللّٰھم أنت ثقت فی کل کرب و رجائ ف کل شدة و أنت ل فی کل أمر نزل ب ثقة و عدّة ، کم من ھم یضعّف فیہ الفؤاد ، و تقلّ فیہ الحیلة ، و یخذل فیہ الصدیق ویشمت فیہ العدوّ، أنزلتہ بک و شکوتہ الیک ، رغبة من عمن سواک ، ففرّجتہ ، و کشفتہ ، فأنت ولّ کل نعمة، صاحب کل حسنة ومنتھی کل رغبة'' (٢)

خدا یا! توہی کرب و تکلیف میں میری تکیہ گاہ اور ہر سختی میں میری امید ہے۔ ہر وہ مصیبت جو مجھ پر نازل ہوئی اس میں تو ہی میری تکیہ گاہ اور پناہ گاہ ہے ؛ کتنی ایسی مصیبتیں اورکتنے ایسے غم و اندوہ ہیں جس میں دل کمزور اور راہ چارہ و تدبیر مسدود ہوجاتی ہے، دوست وآشنا تنہا چھوڑ دیتے ہیںاور دشمن برا بھلا کہتے ہیں لیکن میں ان تمام مصیبتوں میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تجھ ہی سے اس(امت ) کا گلہ ہے اور
..............

١۔ابو مخنف نے بیان کیا ہے کہ مجھ سے فضیل بن خدیج کندی نے، اس سے محمدبن بشر نے اور اس سے عمر وبن حضرمی نے یہ روایت کی ہے۔( طبری ، ج٥ ، ص ٤٢٢ ) 
٢۔ اس روایت کو ابو مخنف نے اپنے بعض ساتھیوں سے اور ان لوگوں نے ابو خالد کاہلی سے بیان کیا ہے (طبری ،ج٥،ص ٤٢٣ ) شیخ مفید نے ارشاد کے ص ٢٣٣ پر فرمایا ہے : ابو مخنف ، علی بن الحسین علیہ السلام سے اورابو خالد سے روایت کرتے ہیں جو ان کے ساتھیوں میںتھا اور ابو خالد نے اس خبر کو امام علی بن الحسین علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔ اگر چہ طبری نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے ۔

تیرے علاوہ سب سے امیدیں توڑ لی ہیں؛ تو نے گشائش پیدا کی ہے اور مصیبتوں کے سیاہ بادل کو چھانٹ دیا ہے پس تو ہی ہر نعمت کا ولی ، ہرنیکی کا مالک اورتمام امیدوں اور رغبتوں کی انتہا ہے ۔
ضحاک بن عبداللہ مشرقی ہمدانی کا بیان ہے:( یہ اصحاب حسین میں سے وہیں جو زخمی ہونے کے بعد دشمنوں کے ہاتھوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تھے ) جب اموی فوج ہماری طرف بڑھی تو ان لوگوں نے دیکھا کہ بانس اور لکڑی سے آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔یہ وہی آگ تھی جسے ہم لوگوں نے اپنے خیموں کے پیچھے جلایا تھا تاکہ پیچھے سے یہ لوگ ہم پرحملہ آور نہ ہوسکیں ۔اسی اثنا ء میںدشمن فوج کا ایک سپاہی اپنے گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا ہوا میری طرف آیا ،وہ اسلحہ سے پوری طرح لیث تھا ،وہ ہم لوگوں سے کچھ نہ بولا یہاں تک کہ ہمارے خیموں سے گزرنے لگا اور غور سے ہمارے خیموں کو دیکھنے لگا لیکن اسے پیچھے کچھ دیکھائی نہ پڑافقط بھڑ کتے ہوئے شعلے تھے جواسے دکھائی دے رہے تھے؛ وہ پلٹا اور چیخ کر بولا :'' یا حسین! استعجلت النار فی الدنیا قبل یوم القیامة. '' اے حسین! قیامت سے پہلے ہی دنیا میں آگ کے لئے جلدی کردی ؟ 
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا :''من ھٰذا کأنہ شمر بن ذی الجوشن؟'' یہ کون ہے ؟ گویا یہ شمر بن ذی الجوشن ہے ؟ جواب ملا : خدا آپ کو سلامت رکھے !ہاں یہ وہی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے یہ سن کر جواب دیا :'' یا بن راعےة المعزیٰ أنت أولی بھا صلیا! ''اے بیابان زادہ، بے ثقافت اوربد چلن! آگ میں جلنے کا حق دار تو ہے نہ کہ میں ۔
امام حسین علیہ السلام کے جواب کے بعد مسلم بن عوسجہ نے آپ سے عرض کیا : ''یابن رسول اللّٰہ جعلت فداک ألاأرمیہ بسھم فانہ قد أمکننی ولیس یسقط سھم منی فالفاسق من أعظم الجبارین'' میری جان آپ پر نثار ہو، کیا اجازت ہے کہ ایک تیر چلادوں، اس وقت یہ بالکل میری زد پر آگیا ہے میراتیر خطا نہیں کرے گا اوریہ آدمی بہت فاسق و فاجر ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عوسجہ کو جواب دیا :'' لا ترمہ ، فانی أکرہ أن أبد أھم''(١)نہیں ایسا نہیں کر نا؛ میں جنگ میں ابتدا ء کر نا نہیں چاہتا ۔

Add new comment