You are here
گردنِ شپیر پر چلا خنجر
مسافرانِ مصیبت وطن میں آتے ہیںسفر سے آتے ہیں سوغات نذر لاتے ہیںجو پیشوائی کو آتا ہے منہ چھپاتے ہیںسوئے مدینہ یہ رو رو کے غل مچاتے ہیںلٹا کے آئے ہیں زہرا کے ہم گھرانے کونہ کر قبول تو ہم بے کسوں کے آنے کومدینہ یاد تو ہو گا تجھے وہ جاہ و حشمگئے تھے کیسے تجمل سے کربلا کو ہموہ خیمہ اور وہ سپہ اور فوج اور وہ علماور اب سیاہ کفنی اور حسین کا ماتمپسند آمدِ ذریتِ رسول نہ کرمدینہ ایسے حقیروں کو تو قبول نہ کرمدینہ ہم ترے والی کو آئے ہیں کھو کرمدینہ گردنِ شپیر پر چلا خنجرمدینہ کوفے میں سر ننگے ہم پھرے در درمدینہ داغِ رسن ہیں ہمارے شانوں پرنہ راہ دے ہمیں، زہرا کا نورِ عین نہیںمدینہ اکبر و قاسم نہیں، حسین نہیںہلی زمین مدینے کی اُس گھڑی پیہمکیا بشیر کو سجاد نے طلب اُس دمگلے میں ڈال دی شالِ عزا بدیدۂ نماور اس کے ہاتھ میں رو کر دیا سیاہ علمکہا کہ جا نہیں گو اپنے منہ دکھانے کیمگر وطن میں خبر کر دے میرے آنے کیچلا بشیر یہ دیتا ہوا خبر ہر جامگر محلۂ ہاشم میں دیکھتا ہے کیاکہ اک مریضہ سرِ راہ ہے کھڑی تنہاکہا بشیر نے کیا نام، بولی وہ صغراوہ بولا راستے میں کیوں تو شور و شین میں ہےکہا یہ حال مرا فرقتِ حسین میں ہےکھڑی ہوں منتظر اکبر کی، دیکھوں کب آئےمیں گھر سے نکلی ہوں شاید کہ قاصد آ جائےخدا کہیں مرے بچھڑوں کو خیر سے لائےکہ یہ مریضہ لبِ گور ہے، شفا پائےکوئی پدر کی خبر لائے، پاؤں پڑتی ہوںجدا مسیح سے ہوں، ایڑیاں رگڑتی ہوںبشیر سمجھا یہ بنتِ حسین ہے صغراخموش رہ گیا صغرا کے منہ پہ کچھ نہ کہاپکاری فاطمہ گردن میں دیکھ شالِ عزا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟وہ بولا قاصدِ بیمارِ کربلا ہوں میںسُنانی قبرِ پیمبر پہ لے چلا ہوں میںوہ رو کے بولی کہ بھائی یہ کیا سناتا ہےوہ کون ہے جسے بیمار تو بتاتا ہےسنانی کس کی ہے مجکو یہ ہول آتا ہےکہ مصطفیٰ کی لحد پر تو کہنے جاتا ہےعمامہ پھینک کر اُس نے کہا دہائی ہےترے حسین کی صغرا سنانی آئی ہےگری زمین پہ صغرا کہ اُس پہ چرخ گراخبر یہ پھیلی تو ماتم ہر ایک گھر میں ہوانکل نکل پڑیں سب عورتیں برہنہ پانبی کی قبر پہ جا کر بشیر نے یہ کہاسفر سے پھر کے ادھر بھوکی پیاسیاں آئیںاٹھو رسول تمہاری نواسیاں آئیںبشیر کہتا ہے واللہ روضہ کانپ گیالحد سے نالہ ہوا وا حسین کا پیداادھر پڑی تھی جو رستے میں فاطمہ صغرازنانِ ہاشمیہ نے وہاں ہجوم کیاہلایا شانہ کہ سلطانِ مشرقین آئےاٹھو حسین کی عاشق اٹھو حسین آئےوہ آنکھیں کھول کے بولی کدھر گئے باباکہ آیا قافلۂ کربلا بھی ننگے پابہن حسین کی رو رو کے دیتی تھی یہ نداحسین جب سے موئے میں نے سر نہیں ڈھانپانہ مردہ اور نہ تابوت اخی کا لائی ہوںمدینے والو میں بھائی کو کھو کے آئی ہوںمدینے والو کہو اُس بہن کی کیا تقدیرجو دیکھے اپنے برادر کے حلق پر شمشیرعزیزو اس کی سزا کیا ہے کچھ کرو تقریرلہو میں غرق جو دیکھے حسین کی تصویربتاؤ کہتے ہیں سب کیا اس اماں جائی کوجو اربعین تلک دے کفن نہ بھائی کومرے حضور تھا حلقِ حسین پر خنجرشہید ہو گیا ہم شکلِ مصطفیٰ اکبرکفن نہ دے سکی بھائی کو ہوں میں وہ خواہرمگر خدا کی قسم ہے نہ سر پہ تھی چادرزمینِ گرم پہ بھائی کی لاش تنہا تھیحسین جانتے ہیں میں اسیرِ اعدا تھیپدر کے لانے کا صغرا سے تھا کیا اقرارکہا تھا اماں نے زینب حسین سے ہشیاریہ کوئی پوچھے تو صغرا سے میں تمہارے نثارکہ تیرے باپ کو کھو آئی ہے یہ سینہ فگاروطن میں آنے دیں زینب کو یا نہ آنے دیںنبی کی قبر پہ جانے دیں یا نہ جانے دیںیہ ایک سمت سے پیدا ہوئی صدا ناگاہپدر نے چھوڑ دیا تم بھی چھوڑتی ہو آہپکاری وہ کہ یہ صغرا کی ہے صدا واللہکہاں ہے میری بھتیجی اخی کی نورِ نگاہندا یہ آئی کہ اٹھتی ہوں اور گرتی ہوںپھوپھی کدھر ہو تمہیں ڈھونڈتی میں پھرتی ہوںبڑھی جو چند قدم زینبِ خجستہ صفاتتو دیکھا دور سے صغرا کو اس طرح ہیہاتدیے ہوئے ہیں کئی لڑکیاں بغل میں ہاتگئی نہ سامنے صغرا کے زینبِ خوش ذاتکبھی تو قافلے کے پیچھے جا کے چھپتی ہےکبھی رسول کے روضے میں آ کے چھپتی ہےنبی کی قبر پہ صغرا نے پایا زینب کوگلے لپٹ کے پکاری پدر کا پرسا دووہ بولی سارے عزیزوں کا اپنے پرسا لوسبھی شہید ہوئے فدیۂ شہِ خوش خوتو جانتی تھی کہ بابا فقط موا صغراشہید تیر سے اصغر تلک ہوا صغراابھی یہ کہتی تھی زینب بنالۂ جاں کاہکہ ایک شیشہ لیے آئی امِ سلمہ آہبھرا ہوا تھا وہ شیشہ لہو سے سب واللہحرم نے منہ پہ مَلا وہ لہو بحالِ تباہبٹھا کے بیچ میں صغرا کو گرد رونے لگےحسین امام کے نالے بلند ہونے لگےفغاں تھی فاطمہ صغرا کی آہ بابا آہپکارتی تھی یہ زینب دہائی یا جدّاہنبی کی قبر سے پیدا ہوئی صدا ناگاہکہ بس کرو ہے تزلزل میں یادگاہِ الٰہیہ کربلا سے خبر جبرئیل لایا ہےشہید روتے ہیں شپیر کو غش آیا ہےندا یہ سن کے ہوئے قبر سے وداع حرممیانِ حجرۂ زہرا بہت کیا ماتمدبیر بس کہ ہے بے انتہا حسین کا غمزیادہ چل نہیں سکتی ہے اب زبانِ قلمبیانِ حادثۂ اہلِ بیت آساں نیستحکایتیست کہ آں را بشرح پایاں نیست(مرزا سلامت علی دبیر)
Add new comment