امام خمینی (رہ) کی نظر میں حج

جہاں ہر سال مسلمان جمع ہوتے ہیں، سے لے کر اسلامی ممالک کے آخری کونے تک اسلام کا نام و نشان نہیں ملتا۔ وہ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان مکہ معظمہ، جو ایسا مقام ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کیلئے مرکز قرار دیا ہے

مشرقی اور اسلامی ممالک جب تک اسلام کو پا نہیں لیتے باعزت زندگی نہیں گزار سکتے، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسلام کی جستجو کریں، اسلام ان سے دور ہو گیا ہے، ہم آج نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے؟، مغرب والوں اور ان ظالموں نے ہمارے ذہن غلط افکار سے اس قدر بھر دیئے ہیں کہ ہم نے اسلام کو گنوا دیا ہے۔ جب تک اسلام کو نہیں پا لیتے اصلاح ناممکن ہے۔ اس مرکز یعنی کعبہ معظمہ۔ جہاں ہر سال مسلمان جمع ہوتے ہیں، سے لے کر اسلامی ممالک کے آخری کونے تک اسلام کا نام و نشان نہیں ملتا۔ وہ نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان مکہ معظمہ، جو ایسا مقام ہے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کیلئے مرکز قرار دیا ہے، میں جمع تو ہوتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ اس سے اسلامی فائدہ نہیں اٹھا پاتے، اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں تبدیل کر دیا گیا ہے جنکے سبب مسلمانوں کے تمام مسائل غفلت کا شکار ہو گئے ہیں۔
اسلام کو تلاش کرنا چاہئے، مسلمان اگر حج کی حقیقت کو درک کر لیں اور اسلام کی طرف سے حج میں جو سیاست اختیار کی گئی ہے صرف اسی کو درک کر لیں تو حصول استقلال کیلئے کافی ہے، لیکن افسوس ہم نے اسلام کو کھو دیا ہے۔ وہ اسلام جو ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کر دیا گیا ہے، اس کا سر کاٹ دیا گیا ہے، وہ

" ہم آج نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے؟، مغرب والوں اور ان ظالموں نے ہمارے ذہن غلط افکار سے اس قدر بھر دیئے ہیں کہ ہم نے اسلام کو گنوا دیا ہے۔ "

چیز جو مقصود اصلی تھی اس سے کاٹ کر جدا کر دی گئی ہے اور بچا کھچا اسلام ہمیں تھما دیا گیا ہے۔ ہم سب کو یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ راز اسلام کیا ہے۔ ہم سب مسلمان جب تک اسلام کو درک نہیں کر لیتے اپنی عظمت اور وقار کو حاصل نہیں کر سکتے۔
عظمت اسلام، آغاز اسلام میں تھی جب ایک چھوٹی سی جماعت نے دو سُپر طاقتوں کو ختم کر دیا تھا۔ اسلام کی وہ عظمت ملکی حدود کی وسعتوں کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ تعمیر انسانیت کی وجہ سے تھی۔ یہ سوچ غلط ہے کہ اسلام ملکی حدود میں وسعتوں کیلئے ہے۔ اسلام سرحدوں کو وسیع نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمام ممالک کے لوگ انسان بن جائیں۔ اسلام خواہش مند ہے کہ جو انسان نہیں ہیں وہ انسان بن جائیں۔ ایک جنگ میں کچھ لوگوں کو قیدی بنایا گیا، تاریخ میں لکھا ہے کہ انہیں (مسلمانوں نے) باندھ رکھا تھا، انہیں جب رسول خدا ص کے سامنے لایا گیا تو آپ نے فرمایا: "دیکھو، مجھے چاہئے کہ میں ان لوگوں کو زنجیروں کے ساتھ جنت میں لے جاؤں، اسلام معاشرے کی اصلاح کیلئے آیا ہے، اگر اس نے تلوار استعمال کی ہے تو وہ صرف اس لئے کہ جو لوگ فاسد ہیں انکی اصلاح ہو، انہیں ختم کیا جائے تاکہ دوسروں کی اصلاح ہو جائے"۔
حج کے سیاسی پہلو سے غفلت:
حج کے تمام پہلوؤں میں سے سب سے زیادہ غفلت اور لاپرواہی کا شکار ان عظیم مناسک کا سیاسی پہلو ہے۔ خیانت کاروں کی سب سے زیادہ فعالیت اس امر سے غافل کرنے میں رہی ہے اور رہے گی کہ اس کا یہ پہلو کسی گوشے میں مقید ہو جائے۔ آج کے دور میں جب دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے، ماضی کی نسبت مسلمان کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے

" وہ اسلام جو ہمارے پاس ہے اسے سیاست سے بالکل جدا کر دیا گیا ہے، اس کا سر کاٹ دیا گیا ہے، وہ چیز جو مقصود اصلی تھی اس سے کاٹ کر جدا کر دی گئی ہے اور بچا کھچا اسلام ہمیں تھما دیا گیا ہے۔ "

کہ وہ اس پہلو کے بارے میں اظہار نظر کریں اور اس سے متعلق ابہامات دور کریں کیونکہ بین الاقوامی سیاسی کھلاڑی مسلمانوں کو غفلت میں ڈال کر اور انہیں پسماندہ رکھ کر نیز مفاد پرست حکمران، نادان اور غفلت زدہ افراد، درباری و کج فہم مُلا اور جاہل عابد سب دانستہ و غیر دانستہ مل کر اس تقدیر ساز اور مظلوموں کے نجات دہندہ پہلو کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
فرض شناس، بیدار اور دلسوز افراد اسلام کی غربت کے پیش نظر اور احکام اسلام سے اس سیاسی پہلو کے متروک ہو جانے کے خطرے کے پیش نظر، خصوصاً حج کے دوران، جہاں یہ پہلو زیادہ نمایاں اور ظاہر ہے، اٹھ کھڑے ہوں اور قلم، بیان، گفتار اور تحریر کے ذریعے جدوجہد کریں۔ حج کے ایام میں اسکی زیادہ کوشش کریں کیونکہ ان اعمال کے اختتام پر دنیا کے مسلمان جب اپنے شہروں اور علاقوں کی طرف لوٹتے ہیں تو وہ اس عظیم پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں کے مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں کو بیدار کر سکتے ہیں۔ امن کے دعویدار ستمگروں کے روز افزوں ظلم سے نجات حاصل کرنے کیلئے انہیں متحرک اور انقلاب کیلئے تیار کر سکتے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر اس عظیم عالمی اجتماع میں جہاں اسلامی اقوام کے مظلوم اور ہر مذہب، قوم، زبان، فرقے، رنگ اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات ایک جیسے لباس میں ہر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک ہو کر اکٹھے ہوتے ہیں، اسلام، مسلمانوں اور دنیا کے تمام مظلوموں کے بنیادی مسائل حل نہ ہوں اور ظالم و جابر حکومتوں سے نجات پانے کی کوئی سبیل نہ کی جائے تو پھر چھوٹے علاقائی اور لوکل اجتماعات سے کچھ نہ بن پڑے گا اور کوئی ہمہ گیر راہ حل ہاتھ نہ آئے گا۔
حقیقی ابراہیمی و محمدی حج صدیوں سے متروک ہو چکا ہے:
حجاج محترم

" آج کے دور میں جب دنیا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے، ماضی کی نسبت مسلمان کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حج کے سیاسی پہلو کے بارے میں اظہار نظر کریں اور اس سے متعلق ابہامات دور کریں۔ "

کو جاننا چاہئے کہ ابراہیمی و محمدی حج سالہا سال سے غریب الوطن اور متروک ہے۔ اسکے معنوی، عرفانی، سیاسی و اجتماعی پہلو متروک ہو چکے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کے حجاج کرام کو چاہئے کہ خانہٴ خدا کے ان تمام پہلوؤں کا تعارف کرائیں۔ اسکے عرفانی و روحانی اسرار کا تعارف کرانا حجاج کے ذمے ہے۔ ہمارا مورد بحث پہلو اس کا سیاسی اور اجتماعی پہلو ہے۔ یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ہم اسکے سیاسی پہلو سے کوسوں دور ہیں۔ اس نقصان کی تلافی کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت پر منعقد کی جانے والی یہ سراپا سیاسی کانفرنس جس میں دنیا کے گوشہ و کنار کے لوگ جمع ہوتے ہیں، انسانوں کے فائدے اور عدل و قسط قائم کرنے کیلئے ہے۔ یہ کانفرنس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بت شکنیوں کا تسلسل اور موسیٰ علیہ السلام کی طاغوت شکنی و فرعون شکنی کا دوام ہے۔ شیطان بزرگ امریکہ اور عالمی طاغوتوں سے بڑے اور کون سے بت ہو سکتے ہیں جو دنیا کے تمام مستضعفین کو اپنی اطاعت اور مدح سرائی کیلئے مجبور کرتے ہیں اور اللہ کے تمام آزاد بندوں کو اپنا فرمانبردار غلام سمجہتے ہیں۔
فریضہ ٴ حج، حق کی آواز پر لبیک کہنے اور حق تعالیٰ کے طرف ہجرت کرنے کا نام ہے اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد (ص) کی برکتوں سے ہے۔ یہ شیطان زادوں سے اظہار برائت کرنے کی جگہ ہے۔ عالمی لٹیرے شیطان بزرگ امریکہ اور جارح بے دین روس سے بڑا اور کون سا بُت ہو سکتا ہے؟۔ ہمارے زمانے کے طاغوتوں سے بڑا طاغوت اور کون سا ہو سکتا ہے؟۔
لبیک لبیک کہہ کر تمام بتوں کی نفی کریں اور تمام چھوٹے چھوٹے طاغوتوں کے خلاف لا کی فریاد

" زبان، رنگ، قبیلہ، گروہ، سر حد اور قومیت کے فرق اور دور جاہلیت کے تعصبات کے بغیر متحد ہو کر اس مشترکہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں جو اسلام عزیز کا دشمن ہے اور موجودہ دور میں اس نے اس اسلام سے زخم کھائے ہیں۔ "

بلند کریں۔ طواف ِحرم حق عشق کی علامت ہے۔ طواف کرتے ہوئے دلوں سے غیراللہ کی محبت نکال دیں۔ اپنی روح پاک کریں۔ حق کے ساتہ عشق کے موقع پر چھوٹے بڑے بتوں، طاغوتوں اور انکے ہمکاروں سے اظہار نفرت کریں۔ اللہ اور اسکے پیاروں نے ان سے اظہار بیزاری کیا ہے اور دنیا کے تمام آزاد انسان ان سے بیزار ہیں۔
حجر الاسود کو مس کر کے اللہ کے ساتہ بیعت کریں کہ اس کے اور اس کے رسولوں اور صالح و آزاد بندوں کے دشمنوں کے دشمن رہیں گے، وہ کوئی بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں انکی اطاعت و بندگی کیلئے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔
خوف و وحشت دل سے نکال دیں کیونکہ دشمنان خدا، جن میں سرفہرست شیطان بزرگ امریکا ہے، ہی بے بس و عاجز ہیں اگرچہ وہ آدم کشی اور تباہی و جرائم کے ہتھیاروں میں دوسروں پر برتری رکھتے ہوں۔
صفا و مروہ کے درمیان سعی کے وقت صدق و صفا کے ساتھ محبوب کو پا نے کی سعی کریں کیونکہ اسے پا لینے سے تمام دنیوی وابستگیاں ختم ہو جاتی ہیں، سب توہمات اور شکوک مٹ جاتے ہیں، خوف، حیوانی خواہشات اور تمام مادی دلچسپیاں ختم ہو جاتی ہیں، آزادیاں کھل اٹھتی ہیں۔ شیطان اور طاغوت بندگان خدا کو اسارت و اطاعت کے جن زندانوں میں مقید کرتا ہے وہ منہدم ہو جاتے ہیں۔ شعور و عرفان کی حالت میں مشعر الحرام اور عرفات میں داخل ہو جائیں، ہر ایک مقام پر اللہ کے وعدوں اور حکومت مستضعفین سے متعلق اپنے اطمینان قلب میں اضافہ کریں۔ سکوت و سکون کے ساتہ حق کی نشانیوں میں غور و فکر کریں۔ محروموں اور مستضعفوں کو عالمی استکبار کے چنگل سے آزاد کرنے کی فکر کریں۔ ان مقدس مقامات پر اللہ سے دعا کریں کہ وہ نجات کی راہیں پیدا کرے۔ اسکے بعد منیٰ میں جائیں اور حقیقی آرزؤں کو وہاں تلاش کریں۔ یاد رکھیں کہ جب تک آپ اپنے محبوبوں سے

" مسلمانوں کیلئے اسلامی ممالک سے عالمی لٹیروں کے تسلط کے خاتمے سے بڑا اور کون سا نفع ہو سکتا ہے۔ "

کہ جن میں سر فہرست حب نفس ہے اور حب دنیا اسکی تابع ہے، سے کنارہ گیری نہیں کر لیتے، حقیقی محبوب تک رسائی ناممکن ہے۔ ایسی حالت میں شیطان کو کنکریاں ماریں تاکہ وہ آپ سے دور بھاگ جائے۔ رجم شیطان کو مختلف مواقع پر اللہ کے احکامات کے مطابق تکرار کریں تاکہ شیطان اور شیطان زادے بھاگ جائیں۔
فطری آرزوؤں اور انسانی تمناؤں کو حاصل کرنے کیلئے اعمال حج میں شرط ہے کہ تمام مسلمان ان مراحل و مقامات پر جمع ہوں اور مسلمانوں کے گروہوں میں وحدت کلمہ ہو، زبان، رنگ، قبیلہ، گروہ، سر حد اور قومیت کے فرق اور دور جاہلیت کے تعصبات کے بغیر متحد ہو کر اس مشترکہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں جو اسلام عزیز کا دشمن ہے اور موجودہ دور میں اس نے اس اسلام سے زخم کھائے ہیں۔ وہ اسلام کو اپنے اہداف حاصل کرنےمیں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ فرقہ واریت اور نفاق کے ذریعے اس رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹا دے۔ انکے کارندوں میں سرفہرست وہ دنیا پرست، درباری اور حاسد مُلّا ہیں جو ہر جگہ اور ہر وقت خصوصاً ایام حج اور مراسم حج میں ان برے مقاصد کے حصول پر مامور ہوتے ہیں۔ مسلمانا ن عالم کی دعا کا سب سے اہم مقصد مستضعفین کے مفادات کا دفاع کرنا ہے۔
مسلمانوں کیلئے اسلامی ممالک سے عالمی لٹیروں کے تسلط کے خاتمے سے بڑا اور کون سا نفع ہو سکتا ہے۔ حج کے دوران مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہوشیاری کے ساتھ ان خبیث کارندوں اور فرقہ پرست ملاؤں کے خلاف اسلام اور خلاف قرآن کرتوتوں پر کڑی نظر رکھیں۔ ان لوگوں کو جو نصیحت کے باوجود اسلام اور مسلمین کے خلاف اپنے کوششیں جاری رکھتے ہیں مار بھگائیں کیونکہ یہ طاغوتوں سے کہیں زیادہ پست ہیں۔

 بشکریہ:۔۔۔
http://shiastudies.net/article/urdu/Article.php?id=2641 

Add new comment