دستورِ حیات

مجاہد مختار علوی

25 رجب راہب آل محمد، باب الحوائج و اسیر بغداد و کاظم الغیض کی شہادت کا دن، اسلام کی ارتقائی بنیاد کو منہدم کرنے کا دن ہے۔ ساتویں تاجدار ولایت و معارف توحید و رسالت و ستون اسلام کی حیات طیبہ کا جہاں روحانی و نورانی چہرہ معاشرہ کی کوک کو منور کرتا ہے، وہاں خود وجود معاشرہ و بقاء معاشرہ کا دارومدار بھی خدا کی انہی مستحکم بنیادوں کی مرہون منت ہے۔ 14 سالہ قید ہو یا اس سے پہلے مشکلات اور صعوبتوں کا دور، منصبی تقاضے کسی بھی جگہ فراموش نہیں کئے، یہی وہ گوہر نایاب ہے جو عام انسان سے ممتاز کرتا ہے۔ حالات و واقعات کے پیچ و خم اور معاشرتی نشیب و فراز اور طبعیتوں کا اتار چڑہاو کبھی بھی سلیم الفطرت منصب دار کو اپنے محکم عزم سے ہرگز دستبردار نہیں کرا سکتا، یہی وہ نایاب پہلو ہے جو امام موسی کاظم (ع) میں بھی بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ میں پوری سیرت پہ بات کرنے سے کہیں قاصر ہوں مگر ایک فرمان ذیشان امام پر نظر پڑتے ہی میرے وجدان کی کھڑکیاں کھل گئیں اور طبیعت میں ایک متائثر کن کرن ابھر آئی، ظاہراً یہ ایک سادہ سا فرمان نظر آتا ہے مگر باطن میں یہ کلام الامام امام الکلام کا مصداق ہے، امام کا یہ فرمان یقیناً قیمتی زندگی کی ضمانت ہے۔

اس فرمان میں امام (ع) نے طول و عرض میں ایک کامیاب زندگی کا پیمانہ دیا ہے اور کسی بھی معاشرہ اور حالات میں بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتایا ہے اور یہ طرز زندگی کسی جغرافیہ یا رنگ و نسل کی قید کا محتاج نہیں ہے کیوں کہ یہ ایک فطرتی طرز زندگی ہے۔
امام (ع) فرماتے ہیں کہ
کوشش کرو اپنے وقت کو چار حصوں مین تقسیم کر لو۔
1۔ ایک وقت اپنے خدا سے مناجات کیلئے:
یہ وہ پہلو ہے جس کا تعلق انسان کی سرشت میں رکھے اس حصے سے ہے جس کا تعلق ماوراء مادیت سے ہے، عناصر انسانیت کو دو حصوں روحانی اور جسمانی و مادی میں تقسیم کرتے ہوئے پہلے حصہ کیساتھ متعلق تو ہے مگر یہی وہ قوت ہے جو جسمانی حصہ اور مادی وجود کو قابل استعمال بناتی ہے مگر یہ حصہ بھی انسانی فطرت سلیم کی گود میں پروان چڑھتا ہے اور اپنے عظیم محسن کے احسان کے شکریہ سے لیکر اسکے دربار میں حاضری تک کو لازم قرار دیتا ہے، اسی پہلو سے ہی انسان و ما خلقت الجنہ والانس الا لیعبدون کے چناو میں داخل ہوتا ہے۔

2۔ ایک وقت اپنے امور معاش کیلئے:
اگرچہ ظاہراً انسانی مادی ضرورت ہے مگر اسکا تعلق بھی اپنی اصل یعنی فطرت کیساتھ ہے، معاش کی تگ و دو کرنا بھی ایک طبعی تقاضا ہے اور یہ طلب انسانی میں سے ہے، جیسے پیاس کا احساس اور بھوک کا محسوس ہونا اور پھر اسکے ما حاصل کی جستجو کرنا۔ یہ پہلو ناصرف خود ایک فرد کی بقاء کی ضرورت ہے بلکہ ایک ذمہ دار فرد کی معاشرتی اور انسانی زندگی کی ترقی کا بنیادی عنصر بھی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو معاشرہ انسانی کو وجود بخشتا ہے اور یہی وہ قوت ہے کہ جب اعتدال سے نکلتی ہے تو مضبوط ترین انسانی معاشرہ کو اجاڑ کر کھنڈرات میں بدل دیتی ہے۔ حصول معاش اگر اعتدال میں رہے تو ایک انمٹ اور طاقتور باشعور معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور اگر یہ پہلو حد اعتدال سے تعارض کر جائے تو فرعونیت و نمرودیت و شدادیت و یزیدیت کو جنم دیتی ہے اور بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ اسی پہلو کو ابراہیم (ع) نے بھی ذکر کیا، قران میں امن اور معاش لازم و ملزوم ہیں۔

3۔ ایک وقت اپنے قابل اعتماد دوستوں کیلئے جو تم کو تمہارے عیوب بتا سکیں اور باطن میں تمہارے مخلص ہوں:
ستار العیوب ذات نے اگر عیوب ظاہر کرنے کی اجازت دی ہے تو صرف ایک مخلص دوست کو اپنے دوست کیلئے، مگر اس عمل کو بھی کسی صورت میں غیر اخلاقی طرز یا منفی رویہ کی حد میں داخل نہیں ہونے دیا بلکہ اس کو دستور تربیت کے خاص حصار میں رکھا ہے، اسی لئے اس عمل کی اجازت صرف قابل اعتماد دوستوں کو دی اور ساتھ ہی دوست کے باطنی اخلاص کی قید لگا دی، جس سے ظاہری مٹھاس کی منافقت بے نقاب ہوجاتی ہے۔ دوست کو اس کے عیوب بتانا ایک اچھا عمل تو ہے مگر اس سے اسکے مخلص ہونے کا کیسے پتہ چلایا جائے گا؟؟ وہ اس عمل کے طور طریقہ سے واضح ہوسکتا ہے۔ خالق انسانیت کبھی بھی اپنے قدرتی شاہکار کو عیب دار نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ اتنا کہا جائے کہ یہ حالت اسے اپنے شاہکار کی کسی صورت پسند نہیں، اپنی صورت یا کسی کی صورت اس لئے اس نے جہاں عیوب چھپانے کا اہتمام کیا وہاں عیوب مٹانے اور ہدایت و تربیت کا اہتمام بھی مخلص دوست کی صورت میں کیا۔

مگر مخلص دوست بھی ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے، مگر میری نظر میں اس کا آسان پیمانہ جو اخلاص کی اصل ہے وہ فطرت و روح انسانی ہے مگر ان کیلئے سلیم ہونا کم از کم شرط ہے، کیونکہ امام باقر (ع) کی ایک روایت کہ جس میں فرمایا کہ بعض اوقات کچھ دوست اور دشمن عالم ارواح میں بن جاتے ہیں۔ جو شاید ازلی و ابدی ہوں، یہ دوستی یا دشمنی ذاتی نہیں ہوتی مگر کسی خاص حیثیت اور مقصد حق و ایمانی نظریہ کی وجہ سے ذات کی حد تک سرایت کر جاتی ہے، اسی لیے میں اسے روحانی دشمنی و دوستی سمجھتا ہوں۔ اگرچہ روایت کا مفہوم نہ بھی ہو پھر بھی دوستی کا رشتہ طبیعت انسانی کا تقاضا اور روح کی تسکین ہے اور یہی وہ نقطہ ہے جو ایک مخلص دوست کی پہچان کا پیمانہ بن سکتا ہے۔ حیات انسانی کا کبھی بھی اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ دوستانہ ماحول ہی بہتر زندگی کا راز ہے۔

4۔ ایک وقت اپنی غیر حرام لذتوں کیلئے اور اسی ساعت سے باقی تینوں ساعتوں کیلئے طاقت حاصل کرو:
لفظ حرام ایک متعارف شرعی اصطلاح ہے، اگرچہ اسکا استعمال شرعیت سے ہٹ کر بھی ہوتا ہے، قانون اور عالمی و علاقائی اقدار اور تہذیبوں میں بھی اور اسی طرح تہذیب فطرت میں بھی حرام افعال ہیں، جن کو کسی تہذیب یا قانوں معاشرہ کی طرف سے نہیں بلکہ قانوں فطرت انسانی حرام قرار دیتا ہے۔ جیسے جھوٹ، ظلم، دھوکہ فریب وغیرہ۔ اسی طرح غیر طبعی و غیر فطرتی لذتیں جنکو اسلام بھی حرام قرار دیتا ہے اور ان ناجائز لذتوں کی وجہ سے ہی انسان انسانیت کے دائرہ سے نکل کر پستی میں چلا جاتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں صراحت سے ذکر ہے کہ یہی ناجائز لذتیں جنکا انسان مرتکب نہ ہو تو ملائکہ سے افضل اور اگر ارتکاب کریگا تو جانوروں سے بھی پستی جیسے زوال میں چلا جائے گا، مطلب کہ انسانی ارتقاء کی سب بڑی دشمن یہی ناجائز لذتیں ہیں۔

اگر ان غیر حرام لذتوں کا فطرتی و اسلامی طرز اپنایا جائے تو حیات انسانی کا آغاز بھی اچھا ہوسکتا ہے اور انجام بھی خیر۔ کیونکہ یہ وہ پہلو ہے جس سے کسی معاشرہ کا وجود تشکیل پاتا ہے اور احسن تقویم انسان کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ یہ مرحلہ اصل میں اساس ہے انسانیت کی اور انسانی معاشرہ کی اور اسی نطام سے ملنے والے ثمرات کو ہی کائنات کا وارث بنایا گیا ہے۔ اسی لئے امام موسی کاظم (ع) نے فرمایا کہ یہ وہ ساعت ہے جس کیلئے باقی تمام اوقات کا پیہہ گھومتا ہے اور پہلے تین نکات اسی آخری عظیم و بڑے مقصد کا پیش خیمہ و دارومدار ہیں۔
یہی وہ چار نکات ہیں جو انسانی حیات کی تکمیل اور ارتقاء انسانی کیلئے کسی دستور سے کم نہیں ہیں۔

Add new comment