تعلیمی درسگاہوں اوردینی مراکز کی تاریخ
(حسینی دائرۃ المعارف کی علمی تحقیق پر ایک نظر)
تجزیہ و تبصرہ: حجت الاسلام و المسلمین مولانا میرزا محمد جواد (شبیر)
انسان جب اس جہان میں قدم رکھتا ہے تو وہ دنیا کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے، اس کی مثال بالکل اس سفید کاغذ کی سی ہوتی ہے کہ جس پر کچھ بھی نہیں لکھا گیاہے، یا پھر اس پودے کی سی ہوتی ہے کہ جسے جس طرف گھمایا جائے وہ اس طرف مڑ جاتا ہے، لہذا ہر نو مولود بچہ ماں کی شفقت اور باپ کی محبت سے مانوس ہوکر بہت ساری چیزوں کو انھیں سے سیکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماں کی گود کو پہلی درسگاہ کہا گیا ہے، جہاں سے انسان کو سب سے پہلی تربیت حاصل ہوتی ہے، جتنے بھی کامیاب افراد اس دنیا میں گزرے ہیں اگر انکی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والدین نے ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
رسول اسلام نے فرمایا: کل مولود یولد علی فطرۃ الاسلام حتی یکون ابواہ یھودانہ و ینصرانہ (سفینۃ البحار جلد ۳، ص ۳۸۳) ہر نومولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں، رسول اسلام کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ہر نومولود کی سعادت اور شقاوت کے ذمہ دار اس کے والدین ہیں، لہذا والدین کے لئے ابتدائی درسگاہ کی اصلاح کرنا بیحد ضروری ہے تاکہ آگے چل کر ایک معلم اسی مضبوط بنیاد پر ایک بلند عمارت کو تعمیر کر سکے ، بسا اوقات ایسا بھی دیکھا گیا ہے انسان کو ابتدائی تعلیم تو اچھی ملتی ہے لیکن ایک نامناسب درسگاہ میں شمولیت کی وجہ سے اس کی دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو جاتے ہیں، لہذا اس مقام پر والدین کی ذمہ داریاں دوچندان ہو جاتی ہیں، اور ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اس درسگاہ میں بھیجیں کہ جس میں وہ ہدایت کی راہ پر گامزن رہ سکیں۔
درسگاہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے دائرۃ المعارف الحسینی کے مصنف آیت اللہ محمد صادق الکرباسی نے کتاب "الحسین و التشریع الاسلامی" کی جلد سوم ( جو ۶۳۸ صفحات پر مشتمل ہے اور سنہ ۲۰۰۷ میلادی میں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہے) میں ان تمام شہروں پر مفصل روشنی ڈالی ہے کہ جنھیں تاریخ اسلام میں دینی علوم کا مرکز ہونے کا شرف حاصل رہا ہے، ہم اس مقام پر ان علمی مراکز پر اجمال کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں:
مدینہ منورہ:
سب سے پہلا علمی مرکز مدینہ منورہ تھا جہاں خود رسول اسلام نے تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع فرمایا اور آپ کی درسگاہ سے بیشمار شاگرد وں نے تربیت پائی، رسول اسلام کی وفات کے بعد خلفاء کے دور میں بھی اسی شہر کو علمی مرکز یت حاصل رہی، اس دور میں تعلیم و تربیت کےسلسلہ کو باب مدینۃ العلم علی بن ابیطالب(ع) نے جاری رکھا، لیکن مولا علی (ع) کے دور حکومت میں یہ علمی مرکز مدینہ سے کوفہ منتقل ہوا اور شہادت امیر المومنین کے بعد امام حسن(ع) کے دور میں مدینہ منورہ کو دوبارہ علمی مرکزیت حاصل ہوئی، امام حسن(ع) نے اپنے دور میں بیشمار شاگرد تربیت فرمائے، جن کی تعداد ۴۵ تھی، آیت اللہ محمد صادق الکرباسی نے ان تمام شاگردوں کی سوانح حیات پر مفصل روشنی ڈالی ہے، قارئین مزید اطلاعات کے لئے کتاب الحسین والتشریع الاسلامی کہ جلد دوم صفحہ ۳۲۲ کی طرف رجوع فرمائیں۔
امام حسن(ع) کے ساتھ ساتھ امام حسین(ع) نے بھی مدینہ میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا، اور یہ دور سنہ ۴۰ سے شروع ہو کر سنہ ۶۰ ھ پرختم ہوا، امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد امام سجاد(ع) نے سنہ ۶۱ ھ سے سنہ ۹۵ھ تک اسی شہر میں لوگوں کو علوم آل محمد سے مستفیض فرمایا، اس عرصۂ داراز میں ۱۸۰ سے زائد شاگردوں نے آپ سے کسب فیض کیا جن میں جابر بن عبد اللہ انصاری، ابان بن تغلب البکری، ثابت بن دینار الثمالی، زید بن علی بن الحسین الہاشمی، سعید بن جبیر الکوفی، سعید بن مسیب المخرومی، محمد بن مسلم بن عبد اللہ الزہری کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، امام سجاد علیہ السلام کے ارشادات کو آپ کے اصحاب نے جمع فرمایا جو صحیفۂ سجادیہ، مناجات خمس عشرۃ، رسالۃ الحقوق، کتاب علی بن حسین کے نام سے شہرت رکھتے ہیں۔
امام باقر و امام صادق علیہما السلام کا دور سنہ ۹۵ ھ سے شروع ہو کر سنہ ۱۴۸ ھ پر ختم ہوا، جس میں اموی حکومت ضعیف ہوتی گئی یہاں تک کہ منقرض ہوگئی اس دور میں امام باقر و صادق(ع) نے مکتب اہلبیت کی خوب ترویج کی، آپ دونوں اماموں سے بیشمار افراد بہرمند ہوئے جن میں سے زرارہ، برید، ابوبصیر، محمد بن مسلم، جابر بن یزید جعفی کو خاصی اہمیت حاصل ہے، صرف جابر جعفی نے امام باقر سے ۹۰ ہزار روایات کو نقل کیا ہے، امام صادق(ع) کے بعد امام علی نقی(ع) تک مدینہ منورہ کو علمی مرکزیت حاصل رہی۔
مکہ مکرمہ:
گرچہ رسول اسلام کی ولادت اور بعثت مکہ مکرمہ میں واقع ہوئی، لیکن ہجرت رسول کی وجہ سے اس شہر کو علمی مرکزیت حاصل نہ ہو سکی، مولا علی(ع) کی شہادت کے بعد عبد اللہ ابن عباس اکثر مکہ مکرمہ میں زندگی بسر کرتے تھے لہذا اس دور میں آپ نے تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کیا، عبد اللہ ابن عباس مکہ مکرمہ میں ایک دن درس فقہ، دوسرے دن درس تاویل، تیسرے دن درس عزوات، چوتھے دن درس شعر ، اور پانچویں دن عرب کے واقعات کو بیان فرماتے تھے، واقعۂ حرہ کے بعد اصحاب و تابعین مدینہ سے ہجرت کرکے مکہ مکرمہ آگئے اور اس طرح مکہ مکرمہ ایک مدت تک کے لئے علمی مرکز بنا رہا۔
کوفہ:
مولا امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جنگ جمل کے بعد سنہ ۳۶ ھ میں کوفہ کو اپنی حکومت کا دار الخلافہ قرار دیا، جس کے بعد بیشمار اصحاب کوفہ منتقل ہوئے ، اور اس شہر کو علمی مرکزیت حاصل ہوئی۔
رسول اسلام کی وفات کے بعد حاکمان وقت نے حدیث رسول کے نقل کرنے پر پابندی عائد کی تھی، لیکن مولا امیر المومنین نے اپنے دور میں صحابہ کو نقل حدیث کی اجازت فرمائی، اس دور میں جہاں مولا علی(ع) مشغول تعلیم و تربیت تھے وہیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا بھی کوفہ کی عورتوں کو تفسیر قرآن اور شرعی احکام کی تعلیم دیتی تھیں۔
کربلاء معلی:
سنہ ۶۶ھ میں جب روضۂ امام حسین علیہ السلام آمادہ ہوا تو اس دور کے فقہاء نے آہستہ آہستہ اس شہر میں قیام کرنا شروع کیا اور جس وقت امام صادق (ع) کا دور آیا تو آپ کثرت سے کربلا تشریف لے جانے لگے اور وہاں تعلیم و تربیت میں مشغو ل ہوئے، آج بھی مرقد امام حسین(ع) سے قریب ایک مقام ہے کہ جسے مقام امام صادق(ع) سے یاد کیا جاتا ہے۔
امام موسی کاظم علیہ السلام بھی تقریبا سنہ ۱۵۹ ھ کو کربلا تشریف لائے اور کچھ مدت کے لئے آپ نے بین الحرمین کے مقام بزقاق السادۃ میں قیام فرمایا ، آپ کے اطراف بھی شیعہ جمع ہوئے اس طرح امام کاظم (ع) بھی اس مقام پر اپنے اصحاب کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے۔
کربلا میں سب سے پہلا مدرسہ سنہ ۳۶۹ھ میں سلطان عضد الدولہ نے تاسیس کیا، جس کے بعد مدارس کی تاسیس ہوتی رہی اور آج تک امام حسین علیہ السلام کے سایہ میں علماء علوم دینیہ سے مستفیض ہوتے ہیں۔
بغداد (کاظمیہ مشرفہ):
بغداد میں شیعوں کی تاریخ اس شہر کے وجود میں آنے کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس شہر کا محلہ کرخ شیعیت کا مرکز تھا ، جس میں بزرگان شیعہ زندگی بسر کرتے تھے،اس شہر میں مختلف مذاہب کے علماء نے بھی زندگی کی، جن میں اہل سنت کے امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل بھی شامل ہیں۔
سنہ ۲۰۴ھ میں جب مامون عباسی نے طوس سے بغداد کی طرف ہجرت کی تو سب سے پہلے سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے امام جواد (ع) کو مدینہ سے بغداد آنے کی دعوت دی جس کے بعد اس دور کے اکثر فقہاء کو بھی بغداد میں جمع کیا گیا تاکہ طوس میں پیش آنے والے مناظروں کی صورت حال بغداد میں بھی برقرار رہ سکے ۔
جب بغداد کے علماء (جو امام جواد (ع) کی کمسنی کو دیکھتے ہوئے انھیں علم حاصل کرنے کی تجویز پیش کر رہے تھے) امام کے علم و کمال سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے آپ سے کسب علم کی خواہش کا اظہار کیا، جب تک امام جواد (ع) بغداد میں تشریف فرما تھے آپ نے تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔
امام مہدی(ع) کے نواب اربعہ بھی بغداد میں امام کی طرف سے نیابت کے فرائض انجام دیتے تھے اور آپ میں سے ہر ایک نے اسی شہر میں وفات پائی، جن کی قبریں آج بھی بغداد میں موجود ہیں۔
شہر بغداد میں محمد بن یعقوب کلینی، محمد بن محمد المفید (شیخ مفید)، سید مرتضی، سید رضی، محمد بن حسن طوسی(شیخ طوسی) اور دیگر جید علماء شیعہ نے تبلیغ علوم آل محمد میں اپنی تمام زندگی کو صرف کیا ہے۔
نجف اشرف:
شہر نجف مولا امیر المومنین علی بن ابیطالب کے وجود اقدس سے آباد ہوا ، گرچہ حضرت علی(ع) اس شہر میں سنہ ۴۰ ھ کو دفن ہوئے، لیکن کوفہ میں خوارج و دشمنان اہلبیت کی وجہ سے ۱۳۰ سال تک آپ کی قبرمبارک پوشیدہ رہی، اور سنہ ۱۷۰ھ میں ظاہر ہوئی، جس کے بعد محبان اہلبیت اس شہر میں جمع ہوتے گئے اور یہ شہر آباد ہو گیا۔
شہر نجف و ہ با برکت شہر ہے کہ جہاں بیشمار علماء نے علوم حاصل کئے ، سب سے پہلے محمد بن حسن الطوسی(شیخ طوسی، شیخ الطائفہ) نے سنہ ۴۵۰ ھ میں اس شہر میں سکونت اختیار کی، جس کے بعد یہ شہر علمی مرکز میں تبدیل ہوگیا۔
اس مقام پر محقق زمان آیت اللہ محمد صادق الکرباسی نے ان تمام فقہاء و مراجع کرام کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا ہے کہ جنھوں نے نجف میں حوزہ ھای علمیہ کو وجود بخشا اور جنھیں حوزہ کی زعامت بھی حاصل تھی، ہم یہاں اختصار کے ساتھ ان علماء اعلام کے نام پیش کرتے ہیں:
محمد بن حسن الطوسی، حسن بن محمد بن حسن الطوسی، محمد بن حسن بن محمد بن حسن الطوسی، علی بن حسین الکرکی، احمد بن محمد اردبیلی (مقدس اردبیلی)، محمد مہدی بن مرتضی بحر العلوم، جعفر بن خضر الجناجی، موسی بن جعفر کاشف الغطاء، علی بن جعفر کاشف الغطاء، حسن بن جعفر کاشف الغطاء، محمد حسن بن باقر النجفی، مرتضی بن محمد امین الانصاری(شیخ انصاری)، حسین بن محمد الکوہکمری، حسین بن خلیل الخلیلی، محمد کاظم بن حسین الخراسانی، محمد کاظم بن عبد العظیم یزدی، فتح اللہ بن محمد جواد الاصفہانی، حسین بن عبد الرحیم النائینی، ابو الحسن بن محمد الاصفہانی، عبد الہادی بن اسماعیل الشیرازی، محسن بن مہدی الحکیم، محمود بن علی الشاہرودی، ابو القاسم بن علی اکبر الخوئی، عبد الاعلی بن علی رضا السبزواری، علی بن محمد باقر السیستانی۔
سامراء المشرفہ:
گرچہ شہر سامراء کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن عہد اسلامی میں اس شہر کو معتصم عباسی کے کہنے پر سنہ ۲۲۱ ھ میں آباد کیا گیا، اور متوکل عباسی نے امام نقی اور امام عسکری علیہما السلام کو اس شہر میں بلایا جہاں یہ دونوں امام شہید کئے گئے، امام زمانہ بھی اسی شہر میں متولد ہوئے لہذا اس شہر کو تین ائمہ نے علمی مرکزیت عطا کی، طول تاریخ میں پانچ سو سے زائد فقہاء نے اس شہر میں سکونت اختیار کی۔
شام:
علماء مذہب امامیہ نے قرن ہشتم ہجری سے سوریا کے شہر دمشق کو علمی مرکز قرار دیا، گرچہ قرن سوم و چہارم ہجری سے اس شہر میں شیعہ کی تعداد بڑھتی گئی لیکن ہر دور میں امامیہ مذہب کے پیروکار اس شہر میں سختیوں اور سخت دباؤ میں رہے، اور شہید اول (صاحب کتاب لمعۂ دمشقیہ) کی شہادت بھی اسی شہر میں واقع ہوئی، لہذا اس شہر میں امامیہ مذہب کےعلمی مراکز کو زیادہ پیشرفت حاصل نہ ہو سکی، آج بھی شام میں صرف ۱۲ دینی مدارس پائے جاتے ہیں۔
حلب:
شہر حلب میں حمدانیین کے پہلے شیعہ بادشاہ یعنی سیف الدولہ نے مقام راس الحسین اور مقام جناب محسن(امام حسین(ع) کے سقط شدہ فرزند) کو سنہ ۳۵۱ھ میں تعمیر کروایا، قرن سوم سے قرن ششم ہجری تک اس شہر میں بزرگ علماء شیعہ وجود میں آئے جن کے اسامی ہم یہاں پیش کرتے ہیں:
علی بن محمد التنوخی، حسین بن احمد السبیعی، حسن بن علی الحرانی، علی بن عبد الملک الحلبی، تقی بن نجم الحلبی، ثابت بن اسلم الحلبی، حمزہ بن عبد العزیز الدیلمی، عبد الرحمان بن احمد النیشاپوری، محمد بن یحیی الخشاب، حیدر بن حسن الحلبی، بواب بن حسن الحلبی، کردی علی الفارسی، محمد بن حسن الحلبی، حسین بن عقیل بن الخفاجی، حسین بن احمد بن عیاش، اسد بن علی الغسانی، محمد بن عبد المک جرادۃ، حمزہ بن علی الحسینی، محمد بن علی المازندرانی، اسد بن ایوب الحلبی، حسن بن حسین الحلبی، علی بن منصور الحلبی، محمد بن علی الحلبی۔
طرابلس:
طرابلس (جو لبنان میں واقع ہے) میں امامیہ مذہب کے فقیہ حسن بن عمار نے دولت عماریہ مستقر کی جو سنہ ۴۶۲ ھ میں شروع ہو کر سنہ ۵۰۲ھ میں ختم ہوئی اس دور میں بیشمار علمی مراکز وجود میں آئے، اور امین الدولہ، حسین بن بشر الطرابلسی، اسعد طب ابی روح جیسے فقہاء کو اسی شہر سے نسبت حاصل ہے۔
جبل عامل:
جبل عامل( جو جنوب لبنان میں واقع ہے)سے علماء شیعہ کی ایک کثیر تعداد وجود میں آئی جن میں محقق اول علی بن عبد العالی المیسی، محقق دوم علی بن حسین بن علی الکرکی العاملی، شہید اول محمد بن مکی العاملی، شہید ثانی زین الدین بن علی العاملی، حسین بن عبد الصمد بن محمد العاملی (پدر شیخ بہائی)، محمد بن حسین بن عبد الصمد (شیخ بہائی)، شیخ محمد بن حسن الحر العاملی(صاحب کتاب وسائل)، محمد جواد بن محمدالعاملی(صاحب کتاب المفتاح) جیسے بزرگ علماء شامل ہیں، کتاب "الحسین والتشریع الاسلامی" کے مصنف آیت اللہ محمد صادق الکباسی نے جبل عامل کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ قدس و بعلبک ، مصر ،تونس، فاس (مراکو کا پائتخت)، قرطبہ(اسپین کا شہر) میں وجود میں آنے والے اسلامی مراکز پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.
ایران:
ملک ایران میں رسول اسلام کے دور میں اسلام وارد ہوا، آنحضرت کے بزرگ صحابی سلمان فارسی کا اسی ملک سے تعلق تھا، سنہ ۲۳ھ سے اس سر زمین پر اسلام تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا، یہ وہ سرزمین ہے کہ جس کے مخلتف شہروں سے بیشمار جید علماء وجود میں آئے، اہلسنت کے ائمہ اربعہ میں سے بعض اور صحاح ستہ اور کتب اربعہ کے تمام مصنفین کا تعلق اسی ملک سے ہے، ہم یہاں اختصار کے ساتھ ایران کے ان اہم شہروں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جنھیں تشریع اسلام کی تاریخ میں علمی مرکز ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔
شہر ری:
ری ایران کا بہت قدیم شہر ہے ، یہاں کے رہنے والوں کو رازی کہا گیا چونکہ اس شہر کا دوسرا نام راز تھا، اس شہر میں اسلام سنہ ۲۳ھ میں وارد ہوا، بنی امیہ و بنی عباس کے ظلم سے بچنے کے لئے بہت سارے سادات کرام نے ایران کی طر ف مہاجرت کی جنمیں عبد العظیم بن عبد اللہ بن علی بن حسن بن زید بن امام حسن علیہ السلام بھی شامل ہیں جو سنہ ۲۵۰ھ کو شہر ری میں وارد ہوئے اور تقریبا سنہ ۲۵۳ھ میں وفات پائی، آپ فقیہ و محدث زمانہ تھے، آپ نے امام جواد و امام ہادی علیہما السلام سے روایات نقل کی ہیں، اس شہر سے بیشمار علماء اعلام وجود میں آئے جن میں علی بن ابراہیم (اعلان) الرازی، محمد بن عقیل الکلینی، محمد بن یعقوب الکلینی، احمد بن فارس الرازی، عبد الجبار بن عبد اللہ الرازی، حسین بن علی الرازی، محمد بن محمد الرازی شامل ہیں۔
قم المقدسہ:
جب حجاج بن یوسف الثقفی نے محبان اہلبیت کا قتل عام کیا تو خاندان اہلبیت اور دوستداران اہلبیت کی کثیر تعداد قم میں وارد ہوئی، ائمہ علیہم السلام کے بزرگ اصحاب اور علماء شیعہ نے اسی شہر میں قیام کیا جن میں زکریا بن ادریس(امام صادق، امام کاظم، امام رضا علیہم السلام کےصحابی)، آدم بن اسحاق بن آدم القمی، علی بن ابراہیم القمی، علی بن حسین بن موسی بن بابویہ القمی، جعفر بن محمد بن موسی بن قولویہ القمی شامل ہیں، لہذا ابتداء سے شہر قم میں موالیان اہلبیت کی کثیر تعداد پائی جاتی تھی یہاں تک کہ معصومہ قم ہمشیرہ امام رضا علیہا السلام کو بھی اسی شہر میں دفن کیا گیا۔
سنہ ۱۳۴۰ھ میں عبد الکریم الحائری نے اس شہر کو دوبارہ علمی مرکزیت عطا کی ، جس کے بعد فقہاء و مراجع کرام کی ایک کثیر تعداد اس شہر سے وجود میں آئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلاب ایران کامیاب ہوا اور آج بھی شہر قم کو مذہب امامیہ کا علمی مرکز جانا جاتا ہے۔
آج اس شہر میں بہت زیادہ دیتی مراکز پائے جاتے ہیں جن کی تعداد ۵۶ سے زیادہ ہے لہذا ہم اس مقام پر گیارہ قدیم مدارس کو انکی تاریخ تاسیس کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
۱۔ مدرسہ فیضیہ: سنہ تعمیر ۹۳۴ھ، ۲۔ مدرسہ دار الشفاء: سنہ تعمیر ۱۰۵۵ھ، ۳۔ مدرسہ مومنیہ: سنہ تعمیر ۱۱۱۳ھ، ۴۔ مدرسہ خان: سنہ تعمیر ۱۱۲۳ھ، ۵۔ مدرسہ جہانگیر: سنہ تعمیر قبل ۱۱۴۹ھ، ۶۔ مدرسہ رضویہ: سنہ تعمیر ۱۲۰۰ھ، ۷۔ مدرسہ والدہ الشاہ: سنہ تعمیر تقریبا ۱۲۶۴ھ، ۸۔ مدرسہ حاجی: سنہ تعمیر ۱۲۷۳ھ، ۹۔ مدرسہ حجتیہ صغری: سنہ تعمیر۱۳۶۴ھ، ۱۰۔ مدرسہ حجتیہ کبری: سنہ تعمیر ۱۳۶۶ھ، ۱۱۔ مدرسہ الحاج صادق: سنہ تعمیر قبل از ۱۲۹۷ھ۔، ان مدارس علمیہ کے بعد بہت سارے دیگر مدارس بھی وجود میں آئے ہیں جن کے اسامی یہ ہیں:
مدرسہ آملی، مدرسہ شہید حسن شیرازی، مدرسہ اصفہانی، مدرسہ وندی، مدرسہ امام امیر المومین، مدرسہ امام باقر، مدرسہ امام حسین، مدرسہ امام صادق، مدرسہ امام عسکری، مدرسہ امام مہدی، مدرسہ امام موسی ابن جعفر، مدرسہ امام ہادی، مدرسہ شہید صدر، مدرسہ بعثت، مدرسہ جابر بن حیان، مدرسہ جامعۃ الزہراء، مدرسہ جعفریہ، مدرسہ حسنیہ، مدرسہ حقانی، مدرسہ دار الزہرا، مدرسۃ الرسالۃ، مدرسہ رسول اعظم، مدرسۃ الستیہ، مدرسۃ السعادۃ، مدرسہ شہابیہ، مدرسہ شہیدین، مدرسہ صدوق، مدرسہ علوی، مدرسہ غدیریہ، مدرسہ فاطمیہ، مدرسہ کرمانیہ، مدرسہ گلپائکانی، مدرسہ مدینۃ العلم، مدرسہ مرعشی، مدرسہ معصومیہ، مدرسۃ معھد الدراسات الاسلامیۃ، مدرسۃ المعھد العالمی، مدرسہ مکتب توحید، مکتب المعصومۃ، مدرسہ مہدیہ، مدرسہ نائینی، مدرسہ وحیدیہ، مدرسہ امام مہدی المنتظر، مدرسہ امام رضا، مدرسۃ الزہراء، مدرسہ امام خمینی، دائرۃ المعارف الحسینیہ کے مصنف آیت اللہ محمد صادق الکرباسی نے اس مقام پر قزوین، اصفہان ، خراسان اور نیشاپور کے علمی مراکز پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے، جس کے بعد انھوں نے ہندوستان، پاکستان، افغانستان میں موجودہ علمی مراکز کو بھی بیان فرمایا ہے۔
مذکورہ تمام مطالب کے بعد قارئین کی سہولت کے لئے اس کتاب کے آخر میں مختلف فہرستوں کو درج کیا گیا ہے جنمیں فھرست آیات مبارکہ، فھرست احادیث و اخبار، فھرست امثال و حکم، فھرست اعلام و شخصیات، فھرست قبائل و انساب و جماعات، فہرست طوائف و ملل، فہرست اشعار، فہرست تاریخ، فہرست لغوی، فہرست مصطلحات شریعت اور دیگر مفید فہرستیں شامل ہیں۔
اس کتاب کے آخر میں افغانستان سے ڈاکٹر عبد الاحمد بن عبد الصمد (جو حنفی مذہب سے تعلق رکتھے ہیں) کا پشتو زبان میں مقالہ درج کیا گیا ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ آیت اللہ محمد صادق الکرباسی کی یہ کاوش تاریخ تشیع میں بےنظیر ہے۔
دینی مراکز کی تأسیس اور تعلیمی درسگاہوں کی اہمیت ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کم ارباب تحقیق نے توجہ کی، اگرچہ تاریخ نویسی میں اہل علم حضرات نے اپنی توانیاں بروئے کار لاکر مختلف موضوعات پر دائرۃ المعارف مرتب کئے لیکن جو کام دائرۃ المعارف الحسینیہ میں علمی و تحقیقی انداز میں ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے اہم موضوعات پر ہر حوالہ سے تحقیق کا کام کیا جائے تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے معلومات یکجا ہوں اور حالات کے ہر لمحہ تبدیل ہونے والی صورت کے ساتھ ساتھ علمی حلقوں میں ترقی اور تکا مل کی راہیں ہموار ہو سکیں اور دینی و تعلیمی مراکز کی اہمیت و آثار سے آگاہی کا حصول ہو سکے۔
Add new comment