متعہ زنا نہیں ہے
عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔
محرم عورتوں سے عقد متعہ حرام ہے:
عقد متعہ صرف اُن خواتین کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ خونی رشتے یا رضاعی رشتوں کی وجہ سے حرام نہ ہوں۔ [بالکل ایسے ہی جیسا کہ عقد نکاح میں یہ شرائط موجود ہیں] ۔ کنیز عورت کی صورت میں بھی صرف اُسی کنیز عورت سے ہمبستری کی جا سکتی ہے جو کہ محرمات میں سے نہ ہو۔
مگر زنا میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی اور حتی کہ محرمات کے ساتھ تک کھلا زنا کیا جاتا ہے۔
[نوٹ: اسی طرح عقد متعہ فقط مسلمان یا اہل کتاب عورت سے کیا جا سکتا ہے جبکہ زنا میں کسی مذہب کی کوئی شرط نہیں]
عدت گذار کر عورت کا پاک صاف ہونا:
عقد متعہ صرف ایسی عورت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جو کہ عدت کا عرصہ گذار کر اپنے پچھلے شوہر سے پاک صاف ہو چکی ہو۔ [اسی طرح کنیز عورت سے صرف اس صورت میں ہمبستری کی جا سکتی ہے جب وہ عدت گذار کر پاک صاف ہو چکی ہو]۔ اسی طرح عقد متعہ میں جب مقررہ وقت کے بعد عورت و مرد میں جدائی ہوتی ہے تو عورت پر پھر عدت کا زمانہ گذارنا واجب ہو جاتا ہے۔
جبکہ زنا میں عدت اور پاک صاف ہونے کا کوئی تصور نہیں۔ بلکہ زنا میں ایک عورت ایک ہی دن میں کئی کئی مردوں کے ساتھ سوتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر زنا میں گروپ سیکس کیا جاتا ہے۔
عدت کا عرصہ:
نیز یہ کہ متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا دو مہینے ہے [جبکہ عقد نکاح میں یہ زمانہ تقریبا تین مہینے ہوتا ہے] ۔ بعض لوگ اس کم وقت پر اعتراض کرتے ہیں، مگر ان حضرات کو دیکھنا چاہیے کہ اہلسنت برادران کی فقہ میں کنیز عورت کی عدت اس سے کہیں کم یعنی فقط استبرائے رحم ہے (یعنی تین چار دن بعد خون سے پاک ہو کر وہ اپنے نئے مالک سے ہمبستری کر سکتی ہے)۔
۔ امام رضا علیہ السلام کی روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: متعہ کا عدہ 45 دن ہے۔ [فروع کافی]
۔ زرارہ کی روایت ہے کہ متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہوتا ہے گویا اس وقت میری نظروں میں پھر رہا ہے کہ امام محمد باقر اپنی انگلیوں پر 45 دن شمار کرکے بتلا رہے ہیں۔ پس جب مدت مقررہ گذر جائے تو یہ ان دونوں کی جدائی ہوگی۔ بغیر طلاق کے۔
نیز اہلحدیث فقہ میں آزاد عورت اگر خلع حاصل کرے تو اسکی عدت بھی فقط ایک حیض گذار کر استبرائے رحم ہےاور اس کے متعلق روایات اہلسنت کی کتب میں موجود ہیں:
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔( حوالہ: islam-qa.com)
اولاد کےنسب کا تعین:
اور عقد متعہ اور کنیز عورت کی مسئلے کی صورت میں اسی عدت کی وجہ سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ یہ یقین کی حد تک پتا ہو کہ بچے کا باپ کون ہے (جیسے نکاح میں یقین ہوتا ہے)۔ اور عقد متعہ یا ام الولد کنیز سے پیدا ہونے والے اس بچے کی تمام تر ذمہ داری اور نان و نفقہ باپ پر عائد ہوتی ہے اور اس بچے کو بعینہ وہی تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ عقد نکاح کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کو حاصل ہوتے ہیں (مثلا وراثت کا مسئلہ ، اسکی تعلیم و تربیت کی تمام ذمہ داری باپ پر ہے وغیرہ وغیرہ]۔ ان حقوق میں ذرا برابر بھی فرق نہیں چاہے یہ بچہ عقد نکاح سے پیدا ہوا ہو یا پھر عقد متعہ یا ام ولد والی کنیز عورت سے۔
اسکے مقابلے میں زنا کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا تعلق باپ سے سرے سے ہی نہیں ہے اور نہ وہ اسکا وارث ہے اور نہ باپ اسے اپنا نام دے سکتا ہے۔
چنانچہ عقد متعہ اور عقد نکاح میں کچھ فرق نہیں سوائے مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جانے کے، جبکہ زنا کاری بالکل ہی الگ چیز ہے۔
نوٹ: اہلسنت فقہ مین کنیز باندی سے ہمبستری کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب باپ سے اُسوقت تک نہیں ملتا جبتک کہ باپ اس بات کو مان نہ لے۔ اگر باپ بچے کے نسب کا انکار کر دے تو اُس بچے کا نسب جاری نہیں ہوتا اور وہ بچہ اپنے باپ کا غلام بن جاتا ہے۔
مزید پڑھنے کے لئے کلک کریں:۔
Add new comment