حزب اللہ ضاحیہ میں اپنے ٹھکانے سرکاری فورسز کے حوالے کرے گی۔سید حسن نصراللہ
ٹی وی شیعہ (ویب ڈیسک)حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل اور اسلامی مزاحمت تحریک کے قائد سید حسن نصر اللہ نے کل (سوموار 23 ستمبر 2013 کو) اپنے خطاب میں لبنان اور شام کے حالات نیز جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں لبنانی سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے مسئلے پر تبصرہ کیا۔
انھوں نے کہا: ہم ضاحیہ میں سرکاری فورسز کی تعیناتی کے قومی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اس فیصلے کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ حکومت اور سرکاری اہلکار ملک کے تمام علاقوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریا بطور احسن نبھائیں۔
انھوں نے کہا: ضاحیہ کے علاقے کی حساسیت کا سبب یہ ہے کہ یہ علاقہ دشمن کے حملوں کے نشانے پر ہے تاہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ ملک کے تمام علاقوں کے بارے میں اپنی ذمہ داری نبھائیں تاکہ ملک میں امن و امان حکومت کے توسط سے قائم ہوسکے۔
انھوں ضاحیہ کے عوام سے مخاطب ہوکر کہا: سرکاری فورسز کی اس علاقے میں تعیناتی کو دہشت گردانہ حملوں اور دھماکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک اہم اقدام قرار دیا چنانچہ عوام کو فورسز کے ساتھ مکمل طور تعاون کرنا چاہئے اور ضرورت کے مطابق ان کی مدد کریں۔
انھوں نے کہا: بعض لوگوں نے بیانات دیئے ہیں کہ وہ خودمختار سلامتی کے نظریئے کو مسترد کرتے ہیں چنانچہ ہم بھی اس قسم کی سلامتی کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ ملک کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہم نے کبھی بھی خودمختار سلامتی کا نظریہ پیش نہيں کیا اور کبھی اس قسم کے نظریئے کے بارے میں سوچا تک نہیں لیکن جب ہم خود اپنی حفاظت کے لئے حفاظتی اقدامات پر مجبور ہوئے تا کہ ضاحیہ میں کار بموں کے داخلے کا راستہ روک سکیں۔
انھوں نے کہا: مخالفین نے حزب اللہ کے ان اقدامات کی مذمت کی لیکن آج کے واقعات نے ان کے الزامات کو رد کردیا ہے کیونکہ اگر حزب اللہ چھوٹی حکومت تشکیل دینے کے درپے ہوتی تو ہرگز سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون نہ کرتی۔ جب دھماکے ہوئے تو ہم نے حکومت سے رابطہ کیا لیکن حکومت کو اس سلسلے میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے مزید وقت کی ضرورت ہے۔
انھوں نے حزب اللہ کے حفاظتی اقدامات کی مذمت کرنے والے دھڑوں سے مخاطب ہوکر کہا: میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ ضاحیہ میں لوگوں کے قتل سے خوش تھے؛ باعث افسوس ہے کہ بعض لوگوں کی دشمنی اس حد تک پہنچی ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے کہا: ملک میں امن و سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داری صرف اور صرف لبنانی حکومت ہے اور حزب اللہ ضاحیہ میں اپنے ٹھکانے سرکاری فورسز کے حوالے کرے گی۔
انھوں نے سرکاری حکام سے مخاطب ہوکر کہا: ضاحیہ آج سے آپ کی تحویل میں ہیں اور آپ ہی یہاں امن و سلامتی کے ذمہ دار ہیں۔
سیکریٹری جنرل حزب اللہ نے کہا: ہم قطعی نتائج پر پہنچے ہيں اور ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ کون لوگ الرویسن میں ہونے والے دھماکے کے پیچھے تھے اور وہ لوگ کہاں قیام پذیر ہيں اور کن لوگوں نے انہيں ایسا کرنے کے لئے کہا تھا۔ یہ ایک تکفیری ٹولہ ہے جو شام میں دہشت گردوں کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کے ٹھکانے شام میں واقع ہیں اور سرکاری ادارے بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کے بارے میں لگنے والے الزامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکی وزیر خارجہ نے روس کے ساتھ اتفاق کرنے کے بعد کہا تھا کہ "شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کی لبنان منتقلی کا سد باب ہونا چاہئے!" اور اگلے روز حکومت شام کے مخالفین نے بیانات دیئے اور کہا کہ اسد حکومت نے اپنے کیمیاوی ہتھیار حزب اللہ کے حوالے کئے ہیں؛ اور یہ ایک مضحکہ خیز الزام ہے؛ گویا کہ کیمیاوی ہتھیاروں کی منتقلی آٹے یا گندم کی منتقلی کی طرح ہے؛ اور افسوس کا مقام ہے کہ لبنان میں بھی بعض لوگوں نے ان الزامات سے تشہیر منڈی کو رونق دینے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ کیمیاوی ہتھیاروں کی حزب اللہ کو منتقلی سے خوفزدہ ہیں!
انھوں نے کہا: ہم ان الزامات کے پس پردہ عوامل کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں اور اس قسم کے الزامات کے نتائج لبنانی عوام کے لئے بہت خطرناک ہیں اور میں ان بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی دو ٹوک الفاظ میں تردید کرتا ہوں۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم نے شامی برادران سے درخواست نہیں کی وہ کیمیاوی ہتھیاروں کو ہمارے سپرد کریں اور مستقبل می بھی ایسی کوئی درخواست نہيں کریں گے؛ اور اس سلسلے میں دینی ممانعت پائی جاتی ہے اور دینی احکام ہمارے لئے فیصلہ کن ہیں اور حتی کہ ہمیں نفسیاتی جنگ میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی تک کی اجازت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: میں بعض مخالف سیاستدانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس مسئلے کے ساتھ احتیاط سے نمٹیں کیونکہ اس کے نتائج لبنان کے لئے بہت خطرناک ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے مخالفین کے الزامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حزب اللہ نے کبھی بھی رحلہ کے علاقے میں وائرلیس نیٹ ورک نصب کرنے کا منصوبہ نہيں بنایا اور آج بھی اس طرح کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ البقاع اور بعلبک دشمن کے خلاف جنگ کے حوالے سے حکمت عملیوں کا حصہ ہیں اور چند سال قبل رحلہ شہر کے ارد گرد تاریں لگائی گئی تھیں لیکن شہر کے اندر ایسا نہيں ہوا اور یک تاریں صرف مواصلاتی لائنز کے لئے تھیں اور کچھ دن قبل بعض نوجوانوں کو وہاں وہاں مواصلاتی لائنز کی حفاظت کرتے ہوئے دیکھا گیا تو بعض لوگ توہمات میں مبتلا ہوئے اور 14 مارچ اتحاد کی ایک جماعت کے راہنما نے کہا کہ حزب اللہ کا مواصلاتی نیٹ ورک لوگوں کے خصوصی معاملات کی نگرانی کرتا ہے اور کسی سیکورٹی اہلکار کو یہ سوال اٹھانا چاہئے کہ حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک کا مقصد کیا ہے؟
سید حسن نصر اللہ نے شام کے حالات کے بارے میں کہا: خلیج فارس کی بعض ساحلی ریاستیں بالخصوص سعودی حکومت شام پر قبضے کے حوالے سے حزب اللہ پر الزامات لگا رہی ہیں۔ یہ لوگ دعوی کرتے ہیں کہ شام کے اندر جنگ حکومت اور مسلح دہشت گرد ٹولوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ اس ملک میں ایک قابض قوت موجود ہے جس کے خلاف مزاحمت ہورہی ہے اور ہم عربوں کو اس قابض قوت کے خلاف مزاحمت کی حمایت کرنی چاہئے! دوسری طرف سے یہ تصور حزب اللہ سے انتقام لینے کا متقاضی ہے۔ اسی بنا پر لبنان میں حکومت کی تشکیل میں حزب اللہ کی شراکت کے حوالے سے 14 مارچ کے سعودی حمایت یافتہ اتحاد کی طرف سے ویٹو کا استعمال کیا گیا جو ایک سعودی ویٹو ہو۔ خلیج فارس کی ریاستوں میں لبنانی باشندوں کا تعاقب بھی در حقیقت حزب اللہ سے انتقام لینے کے لئے ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے شام میں ایرانی افواج کی موجود کے بارے میں کہا: شام میں سپاہ پاسداران کی پوری افراد قوت کی تعداد چند درجن افراد سے زیادہ نہيں ہے، کیا کوئی عقلمند شخص شام یا لبنان یا دوسرے ممالک میں باور کرسکتا ہے کہ حزب اللہ کے پاس شام پر قبضہ کرنے کی قوت پائی جاتی ہے؟ لہذا خلیج فارس کے عرب حکام کا دعوی توہمات اور خیالی تصورات پر مبنی ہے۔
انھوں نے کہا: شام میں دہشت گردوں کے حامی ممالک سے اس طرح کے دعووں کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شام میں شکست کھا چکے ہيں۔
سید حسن نصراللہ نے سوال اٹھایا: کیا شام کے قومی اتحاد نامی جماعت نے تشدد پسندوں اور دہشت گردوں پر شام پر قبضے کا الزام نہيں لگایا ہے؟ کیا یہ قبضہ نہیں ہے؟ ان اقدامات کے پس پشت کونسے ممالک اور کونسے حکام ہیں؟ کیا سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کے حکام نے اجنبی قوتوں کو شام پر قبضہ کرنے کی دعوت نہیں دی؟ کیا ان عرب حکام نے امریکہ اور یورپ سے اپنی افواج شام بھجوانے کی درخواست نہيں کی؟
سید حسن نصر اللہ نے سعودی عرب اور خلیج حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔
انھوں نے کہا: عسکری کامیابی کو حساب میں لانا، غلط اور شکست خوردہ اور تباہ کن ہے۔
انھوں نے عرب حکمرانوں سے کہا: میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ دشمنیوں اور بغض و عناد سے پرہیز کریں اور خطے کی اقوام کے انجام کے بارے میں سوچیں، شامی قوم اور دوسری علاقائی اقوام کی نجات کے بارے میں سوچیں، فتنہ انگیزی کا سد باب کریں اور شام اور دوسرے مسائل کے حل کے لئے سیاسی راہ حل کے بارے میں سوچیں۔ ہماری ندا آج یہ ہے کہ مذاکرات اور سیاسی راہ حل کی طرف توجہ دیں۔
انھوں نے کہا: جو کچھ بحرین میں جاری ہے، اس کے سامنے بہت سے ممالک نے خاموشی اختیار کی ہے حالانکہ کسی بھی انقلابی دھڑے یا فرد نے بحرین میں عسکریت کا سہارا نہيں لیا ہے بلکہ بحرینی عوام آج بھی اپنے حقوق کے حصول کے لئے پرامن روشوں پر اصرار کررہے ہیں جبکہ ان کے حقوق نہ دینے پر اصرار کرنے والی بحرینی حکومت کو عربوں اور بہت سے دوسری حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے کہا: ایک دن بحرینی حکومت نے لبنانیوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا حالانکہ ان افراد کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: بحرین کی حکومت نے منامہ اور بیروت کے درمیان پروازیں معطل کردیں اور دھمکیاں بھی دیں اور یہ سب حکومت بحرین کی کمزوری کی علامت ہے۔
انھوں نے کہا: میں بحرینی حکمرانوں سے کہتا ہوں کہ یہ ہمارا دینی اور سیاسی موقف ہے اور جو لوگ بحرین کی مظلوم قوم کی حمایت کرتے ہیں وہ بحرین کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے اور بحرینی عوام اپنے انقلابی فیصلوں میں مستقل اور خودمختار ہیں۔
انھوں بحرینی حکام سے مخاطب ہوکر کہا: تم ہی ہو جو ضعیف اور کمزور ہو اور اپنی قوم کے حقوق دینے کے بجائے اپنی قوم کو کچلنے کے لئے بیرونی ممالک کو مداخلت کی دعوت دیتے ہو۔
انھوں نے کہا: میں مسلم علماء، حکومتوں اور عرب ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں کہ کم از کم زبانی کلامی طور پر بحرین میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں واضح موقف اپناؤ جو کچھ وہاں ہورہا ہے بہت خطرناک ہے، بعض علماء کی شہریت منسوخ کی جاتی ہے، مساجد کو شہید کیا جاتا ہے اور دینی و سیاسی راہنما اور علماء کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا: ہم نے اپنی امیدیں ملت بحرین سے وابستہ کی ہوئی ہیں اور ظلم و ستم کے مقابلے میں اس ملت کے صبر و تحمل سے مدہوش ہیں اور شرط لگاتے ہیں کہ یہ شریف قوم اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور ان کمزور حاکموں کو ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
Add new comment