اخوان المسلمون پر پابندی لگ گئی
ٹی وی شیعہ (ویب ڈیسک)
مصر میں ایک عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں پر پابندی اور اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اسلامی جماعت، اس کی غیر سرکاری تنظیم اور اس سے وابستہ ہر تنظیم پر لاگو ہوتا ہے۔ عدالت نے عبوری حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے اثاثے قبضے میں لے کر اس سلسلے میں کسی اپیل کی شنوائی تک اس کی نگرانی کے لئے ایک پینل تشکیل دے۔ اخوان المسلمون کے اہم رہنما محمد بدیع سمیت کئی سینئر ارکان تشدد اور قتل و غارت پر اکسانے کے الزام میں حراست میں ہیں۔ پچاسی سال پرانی اسلامی جماعت پر مصر کی فوج نے 1954ء میں پابندی عائد کر دی تھی۔ اخوان المسلمون کے مخالفین نے اس کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چلینج کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں جماعت نے رواں سال مارچ میں خود کو ایک این جی او کے طور پر رجسٹرڈ کروا لیا تھا۔
اخوان المسلمون کے قانونی طور پر رجسٹرڈ سیاسی ونگ، فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی، 2011ء میں اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب حسنی مبارک کو مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔ صدر مرسی کی معزولی اور آئین کی معطلی کے بعد قاہرہ میں انتظامی عدالت کو یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی قانونی حیثیت پر نظرثانی کرے۔ آن لائن کے مطابق معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کے تمام اہم رہنماﺅں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا ہے۔
دیگر ذرائع کے مطابق عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کی پشت پناہ جماعت اخوان المسلمون کے تمام اہم رہنمائوں کی گرفتاری کا بھی حکم دیا ہے، جبکہ ملک بھر میں پہلے ہی ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اخوان المسلمون کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے، جس کے دوران فوج کی طرف سے طاقت کے استعمال کے نتیجے میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اخوان المسلمون کی سیاسی جماعت نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد محمد مرسی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن فوج اور صدر مرسی کے درمیان شدید اختلافات کے بعد فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا اور وہ طویل عرصہ سے منظر سے غائب کر د یئے گئے ہیں۔ واضع رہے کہ اس سے قبل 85 سال پرانی اسلامی جماعت پر مصر کی فوج نے 1954ء میں بھی پابندی عائد کر دی تھی۔ اخوان کے مخالفین نے اس کی قانونی حیثیت کو عدالت میں چیلنج کر رکھا تھا، جس کے نتیجے میں جماعت نے رواں سال مارچ میں خود کو ایک این جی او کے طور پر رجسٹر کروا لیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمین کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ سعودی عرب اور اسرائیل نے اخوان المسلمین کو نظریاتی طور پر اغواء کرنے اور حالات کو تیزی کے ساتھ افغانستان کی مانندخراب کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں مصری عوام کو اخوان المسلمین سے متنفر کرنے کے لئے افغانستان کی مانند قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اور اس قتل و غارت کو بھی جہاد کا نام دیا گیا۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس خون خرابے کے پیچھے اخوان المسلمین کے "مجاہدین" کا ہاتھ ہے۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو مصر میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا اور مصر کے صدر مرسی سے بھی پے درپے کئی غلطیاں کروائی گئیں، جن میں سے ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ محمد مرسی نے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کی ایماء پر شام میں سرگرم مسلح باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔
صدر مرسی سے یہ حمایت اس لئے کروائی گئی تاکہ اخوان المسلمین عالم اسلام کی رہنمائی، مصر کی فلاح و بہبود اور دیگر اسلامی تحریکوں کی سرپرستی کے بجائے فرقہ وارانہ اور علاقائی لڑائیوں میں الجھ جائے۔ مصر کو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اس الجھاو میں پھنسانا تو چاہتے تھے لیکن اخوان المسلمین کی مضبوط نظریاتی بنیادیں اور لیڈرشپ اس سلسلے میں آڑے آرہی تھی، سو اخوان المسلمین کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کروایا گیا اور صرف چار روزہ جلسے جلوسوں کو بہانہ بنا کر مصر کی آرمی نے اخوان المسلمین کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
آرمی کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب نے مصری فوج کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اس وقت تک ان ممالک کی آشیرباد کے باعث مصری فوج گذشتہ تین ہفتوں کے دوران 3 ہزار سے زائد نہتّے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے اور قتلِ عام کا یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔ تعجب کی بات ہے یا نہیں کہ اخوان المسلمین کو شدت پسندی اور دہشت گردی میں جھونکنے کے لئے تو سعودی عرب صدر مرسی کی کمر ٹھونک رہا تھا، لیکن اب صدر مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف فوج کی حمایت کر رہا ہے۔
صدر مرسی کے ہاتھوں اخوان المسلمین کے اقتدار ختم ہونے کے اس سانحے میں ہر باشعور انسان کے لئے یہ تین پیغام موجود ہیں۔
1۔ ایک شخص کوئی سسٹم بنا نہیں سکتا لیکن پورے سسٹم کو خراب کرسکتا ہے۔
2۔ تنظیموں کے سربراہوں کی غلطیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔
3۔ سعودی عرب کی حکومت کسی اسلامی مسلک یا مکتب کی ترجمان نہیں بلکہ سعودی حکمران صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے "جہاد" کے نعرے کو استعمال کرتے ہیں۔ لہذا سعودی عرب کے حکمرانوں کے اقدامات کو کسی دینی مسلک یا فرقے کی رائے نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
Add new comment