کلامِ ہدایت اور پیغامِ نجات (قسط اول)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک فلاحی ،پرامن اور محفوظ معاشرے کا قیام انسان کی دیرینہ آرزو ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے بنی نوع انسان نے ہر دور میں جدوجہد کی ہے ۔اس جدو جہد کے دوران کئی مرتبہ نظریات کا ٹکراو ہوا ،افکار کی جنگیں ہوئیں اورعقائد کے درمیان رسہ کشی ہوئی جس کےباعث کئی مرتبہ انسان نے انسان پر اپنے نظریات ٹھونسنے کے لئے شب خون مارا اور اپنے ہی ہم جنسوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔
انسانی معاشرے کے رشد وارتقاکا ایک صفحہ علم و پیغام سے اور دوسرا تحریکوں اور خون سے عبارت ہے۔نظریات کےاجرا کے لئے قلمی علمی اور فکری تحریکیں چلتی رہیں اور تحریکوں کی کامیابی کے لئے انسانی خون بہتا رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ازل سے لے کر آج تک صفحہ ہستی پر متعدد مادی اورمعنوی دین ابھرے اور کئی ایسےنظام سامنے آئے جنہوں نے اپنے آپ کو انسانی فلاح بہبود کا ضامن قرار دیا اور بنی نوع انسان سے ایک فلاحی معاشرے کے قیام کا وعدہ کیا۔
ان ادیان میں سے ایک دین "اسلام " بھی ہے ۔دین اسلام کاا دعا بھی یہ ہے کہ وہ ایک جامع نظام حیات ہے اور اس کی تعلیمات میں بنی نوع انسان کی ہدایت اور نجات کے لئے جوکچھ درکار ہے وہ سب موجود ہے۔
دین اسلام کی ایک اہم انفرادیت جو اسے دوسرے تمام ادیان سے جدا اور ممتازکرتی ہے وہ یہ ہے کہ ا س دین کے اہم اور خاص دینی منابع یعنی قرآن و سنت میں انسان کے ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے جوکچھ بیان ہوا ہے ،وہ اتنا واضح ،منطقی اور شفاف ہے کہ موازنے اور تقابل کے وقت دیگر ادیان کی تمام تر چکاچوند دین اسلام کی آب و تاب کے سامنے ماند پڑجاتی ہے۔
اسلام نے انسان کی عبرت اور ہدایت کے لئے جس طرح انسان کے سامنے قصص قرآن کی صور ت میں اس کے ماضی کو لاکر رکھ دیاہے اسی طرح اس کے حال کو سدھارنے کے لئے بھی قوانین و احکام وضع کئے ہیں اور اس کے مستقبل کو شاندار بنانے کے لئے اسے عقیدہ مہدویت اور معاد کی طرف دعوت دی ہے۔
دین اسلام جو وحی،نبوت اور امامت کا دین ہے۔اس نے گزشتہ چودہ سو برسوں میں بہت سارے نشیب و فراز اور انقلابات و بغاوتوں کا سامنا کیاہے۔تاریخ اسلام کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ جن کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ اسلام کے نام پر کئی لوگوں نے حکومتیں قائم کیں،ان کے نام کے خطبے پڑے جاتے رہے اور بلاد اسلامیہ میں ان کا سکہ چلتارہا جبکہ در حقیقت وہ لوگ فقط نام کے مسلمان تھے۔پیغمبر اسلام ﷺ کے وصال مبارک کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں خاندان وحی کو عملا محبوس کردیاگیا اور ان کی تعلیمات کو شجر ممنوعہ قرار دے دیاگیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ اسلام مظلوم اور کمزور ہوتاگیا جبکہ تخت اسلام پر بیٹھے ہوئے بادشاہ مضبوط اور مستحکم ہوتے چلے گئے۔اسی طرح چودہ برس بیت گئے۔چودہ سو برسوں کے بعد سر زمین ایران سے دین اسلام کے نفاز کا پرچم لے کر ایک مرد مجاہد نے شہنشاہیت اور باد شاہت کے خلاف قیام کیا۔یہ قیام محض عسکری یا عوامی قیام نہیں تھا بلکہ خاندان وحی کی جدوجہد کا تسلسل تھا۔
حضرت امام خمینی نے بادشاہت کے چنگل سے اسلام کو آزاد کرایا اور دین اسلام کو از سر نو پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کے اہل بیت ؑکی تعلیمات کے مطابق دنیا کے سامنے منطقی،علمی ،عملی اور حقیقی طور پر پیش کیا۔
خدا کے فضل و کرم سے اس وقت ہم خاندان وحی یعنی محمد و آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو
کلامِ ہدایت اور پیغامِ نجات کے عنوان سے قسط وار پیش کررہے ہیں اوراس وقت پہلی قسط آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
امام جواد ؑ کی دس احادیث
۱۔جو آدمی بھی جس کسی کی بات توجہ کے ساتھ سنتاہے تو وہ گویا اس کی عبادت کرتاہے۔پس اگر گفتگو کرنے والا اللہ کی طرف سے ہے تو اس نے اللہ کی پرستش کی اور اگر گفتگو کرنے والا شیطانی زبان رکھتاہے تو سننے والے نے گویا شیطان کی عبادت کی۔
۲۔ایک شخص نے امام تقی ؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے وعظ و نصیحت کیجئے،امام ؑ نے فرمایا کیا تو عمل بھی کرے گا؟
اس نے کہا جی ہاں کیوں نہیں۔
امام ؑ نے فرمایا:
صبر وتحمل کی ٹیک لگائے رکھ،فقر کے ساتھ نبھا لے،حد سے بڑھی ہوئی خواہشات سے دوری کر،خواہشات نفسانی کی مخالفت کر اور جان لے کہ تجھے ہر حال میں خدا دیکھ رہاہے پس محتاط رہ کہ کیا کررہاہے۔
۳۔ مومن کو تین چیزوں کی ضرورت ہے:
الف۔اللہ کی طرف سے توفیق
ب۔اپنے آپ کو خود وعظ و نصیحت کرتا رہے
ج۔جوبھی اسے نصیحت کرے ،اس کی نصیحت قبول کرلے
۴۔اللہ نے اپنے ایک پیغمبرؑ کو وحی کی:
دنیا سے منہ موڑے رہو گے تو سکون میں رہوگے اور مجھ سے لو لگانا میرے نزدیک عزت و سربلندی کا باعث ہے البتہ یہ دیکھا جائے گا کہ کیا آپ نے میرے دوستوں کے ساتھ دوستی اور میرے دشمنوں کے ساتھ دشمنی کی ہے؟
۵۔جس کے صبر پر بے تابی غالب آجائے اس کااجر ضائع ہوجاتاہے۔
۶۔توبہ میں دیر کرنا (شیطان کے ہاتھوں)دھوکہ کھاناہے اور توبہ میں ٹال مٹول سے کام لینا سرگردانی کاباعث ہے،خدا کے سامنے بہانہ جوئی کر باعث ِہلاکت ہے اور گناہوں پر تکرار خدا کی پکڑ سے لاپرواہی ہے اور خدا کی پکڑا سے لاپرواہی کا مظاہر ہ سوائے نقصان
اٹھانے والوں کے کوئی اور نہیں کرتا۔
۷۔شریر لوگوں کی ہمنشینی سے بچو !اس لئے کہ شریر کھچی ہوئی تلوار کی مانند ہے کہ آنکھوں کو تو حَسِین لگتی ہے لیکن اس کا وار مہلک ہوتاہے۔
۸۔جس کا خدا ضامن اور کفالت کرنے والاہو وہ نہ تنہائی کا شکار ہوسکتاہے اور نہ برباد ہوسکتاہے اور جسے خدا اپنی پکڑ میں لانا چاہے وہ کہاں بھاگ سکتاہے اور جو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف جاتاہے خدا اسے اسی کے حوالے کردیتاہے
۹۔کسی بھی منصوبے کو پختہ ہونے سے پہلے اگر آشکار کردیاجائے تو وہ خراب ہوجاتاہے۔
۱۰۔دینی بھائیوں سے میل جول سکون اور عقل میں اضافے کا باعث ہے اگرچہ یہ میل جول تھوڑاہی ہو۔
اربعین الاولیا۔۔۔۔۔اصغر تاجیک ورامینی
Add new comment