:َ
مخمس بر غزل غالب:َ
میری سخنوری پہ عبث قیل و قال ہے
مطلب کو میرے پائے کوئی کیا مجال ہے
کہتا ہوں سب کچھ اور زباں میری لال ہے
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہےاحباب چپ ہیں سن کے دلِ زار کا گلہ
وردِ زباں ہے چرخِ ستمگار کا گلہ
سنتا ہے کون یارِ جفاکار کا گلہ
کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرجِ زبانہائے لال ہےوارفتہ دل کو کب سے ہے ارمان دید کا
آنکھیں مری ہوں کاش کبھی جلوہ آشنا
مشکل تجھے نہیں کہ حجابات دے اٹھا
کس پردے میں ہے آئنہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذرخواہِ لبِ بے سوال ہےپروا اُسے کسی کی ہو کیا وہ تو ہے غنی
پرخاش ہو کسی سے اُسے یہ ہے بدظنی
روکے ہوئے حجاب ہے یا پاک دامنی
ہے ہے! خدانخواستہ وہ اور دشمنی؟
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہےخوشبوئے مصطفیٰ سے معطر ہے یہ مکان
جس پر درود بھیجتے رہتے ہیں انس و جان
اس کے طواف میں ہے شب و روز آسمان
مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہےگردش کا میری اور ہی کچھ رنگ ڈھنگ ہے
گردوں بھی دیکھ کر مری حالت کو دنگ ہے
جوشِ جنوں میں یہ تک و دو کی امنگ ہے
وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ ہے
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہےمرزاؔ کی طرح نفس کو سمجھائیو اسدؔ
اس خواب پر نہ بھول کر اترائیو اسدؔ
دھوکہ نہ واہمے سے کہیں کھائیو اسدؔ
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے(مرزا عزیز بیگ سہارنپوری)
استفاده از مطالب این سایت بدون ذکر منبع مجاز می باشد.
Add new comment