مٹی پر سجدہ

1۔ عبادت میں سجدے کی اہمیت
اسلام میں خدا کے حضور سجدہ، اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے اور روایات کے مطابق انسان سجدہ کی حالت میں دیگر حالات کی نسبت اللہ سے قریب ترین ہوتا ہے (سجدہ انسانی عروج کا اعلی ترین مرحلہ ہے)۔ عظیم القدر پیشوا بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام طولانی سجدے کیا کرتے تھے۔
خدا کی بارگاہ میں طویل سجدے، انسان کی روح و جان کو پرورش دیتے ہیں؛ اسی وجہ سے نماز کی ہر رکعت کے لئے دو سجدوں کا حکم ہے۔ اور سجدہ شکر سمیت قرآن مجید کی تلاوت کے دوران واجب اور مستحب سجدے سب کے سب سجدے کے مصادیق ہیں۔
سیروسلوک و عرفان کے بزرگ اساتذہ اور اخلاق کے معلمین سجدے کے مسئلے پر بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں۔
جو کچھ مذکورہ بالا سطور میں بیان ہوا اس مشہور حدیث کی روشن دلیل ہے کہ "انسان کا کوغی عمل "سجدے کی مانند" شیطان کی ناراضگی اور پریشانی کا باعٹ نہیں ہوتا اور ایک حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
"وَ إِذَا أرَدْتَ أنْ يَحْشُرَكَ اللهُ مَعِی يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأطِلِ السُّجُودَ بَيْنَ يَدَىِ اللهِ الوَاحِدِ الْقَهّارِ"۔ (1)
ترجمہ: اگر تم چاہتے ہو کہ خداوند متعال تم کو قیامت کے دن میرے ساتھ محشور فرمائے تو تم خدا کی درگاہ میں طویل سجدے بجا لایا کرو۔
2۔ غیراللہ کے سامنے سجدہ جائز نہیں ہے
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خدائے عزّوجلّ کی ذات اقدس کے سوا کسی کے سامنے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سجدہ خضوع و خشوع کی انتہا اور پرستش کا روشن مصداق ہے اور بندگی و عبودیت (پرستش) صرف ذات ربوبی کے لئے مخصوص ہے۔
سورہ رعد میں ارشاد ربانی ہے:
"وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ"۔ (2)
ترجمہ: اور اللہ کے لئے سجدہ ریز ہیں ہیں وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔
اس آیت میں "لِلّہِ" مقدّم ہے یعنی یہ کہ آیت "حصر" پر دلالت کرتی ہے یعنی آسمانوں اور زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات صرف خدا کے سامنے سجدہ کرتی ہیں اور سجدہ صرف اللہ کے لئے مختص ہے اور آسمانوں اور زمین کی مخلوقات صرف اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔
اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ"۔ (3)
ترجمہ: یقیناً جو لوگ تمہارے رب کے نزدیک مقرب ہیں وہ اس کی عبادت سے سرکشی نہیں کرتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں سجدہ کرتے (اور سجدہ ریز رہتے) ہیں۔
یہ آیت خدا کے لئے سجدے کے انحصار کی دوسری نشانی ہے۔
اصولی طور پر سجدہ خضوع کا انتہائی درجہ ہے اور اگر ہم کسی اور شخص یا چیز کے سامنے سجدہ کریں تو گویا ہمم نے اس کو خدا کے ہم رتبہ اور ہم شان قرار دیا ہے اور یہ درست نہیں ہے۔
ہم توحید کے متعدد معانی ہیں جن کے ہم معتقد ہیں اور ان معانی میں ایک "توحید في العبادة" (عبادت اور بندگی میں یکتاپرستی) کے معتقد ہیں۔ یعنی عبادت صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور جب تک عبادت اور بندگی کو خدا کے لئے مخصوص قرار نہ جا‏ئے، عقیدہ توحیدہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔
بالفاظ دیگر غیراللہ کی عبادت شرک کی ایک شاخ ہے اور سجدہ ایک قسم کی پرستش ہے چنانچہ خدا کے سوا کسی اور کے لئے سجدہ کرنا جائز نہيں ہے۔
اب آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کا سجدہ ـ جس کا ذکر قرآن مجید کی کئی آیات میں آیا ہے ـ مفسرین کے اقوال کے مطابق، یا تو احترام و تعظیم اور تکریم کا سجدہ تھا اور پرستش کے معنی میں نہيں تھا اور فرشتوں کا مقصد یہ تھا کہ بقول شاعر:
زيبنده ستايش آن آفريدگارى است *** كارد چنين دل آويز نقشى ز ماء و طينى
ترجمہ: صرف اللہ کی ذات حمد و ثناء کے لائق ہے
جو پانی اور مٹی سے اس طرح کا حسین نقش و نگار رسم فرماتی ہے
یا یہ کہ سجدہ چونکہ فرمان خداوندی کی بنا پر تھا لہذا یہ سجدہ اللہ کی عبودیت اور بندگی سمجھا جاتا ہے یا پھر یہ کہ وہ سجدہ اللہ کی بارگاہ میں شکر کا سجدہ تھا۔
اور یوسف علیہ السلام کے سامنے حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں اور زوجہ کا سجدہ ـ جو سورہ یوسف کی آیت 100 میں مذکور ہے کہ: "وَخَرُّواْ لَهُ سُجَّدًا" (اور وہ سب ان کے سامنے سجدہ میں گر گئے) ـ بھی پروردگار متعال کی بارگاہ میں شکر کا سجدہ تھا یا پھر احترام اور تعظیم م تکریم کے عنوان سے تھا۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں حدیث کا ایک معتبر منبع "وسائل الشیعہ" ہے۔ نماز کے سجدے کے ابواب میں ایک باب کا نام "عدم جواز السجود لغيرالله" (غیراللہ کے لئے سجدے کا عدم جواز) ہے اور اس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے سات حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن میں تاکید ہوئی ہے کہ خدا کے سوا کسی کے سامنے بھی سجدہ جائز نہیں ہے۔ (4)
قارئین یہ بات خاص طور پر ذہن نشین کرلیں تا کہ آنے والے مباحث میں اس سے نتیجہ حاصل کریں۔
3۔ چیز پر سجدہ کرنا چاہئے؟
مکتب اہل بیت علیہم السلام کا اس عقیدے پر اتفاق ہے کہ کہ زمین کے سوا کسی دوسری چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اور اس مکتب کے پیروکاروں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ زمین سے اگنے والی چیزوں پر بھی سجدہ جائز ہے بشرطیکہ وہ اشیاء خوراک اور پوشاک (اشیاء خورد و نوش یا پہننے والی چیزیں) نہ ہوں؛ یعنی پتوں، لکڑی، صف (حصیر اور بوردیا) یا چٹائی وغیرہ پر سجدہ جائز ہے۔
تاہم اہل سنت کے فقہاء متفقہ طور پر تمام اشیاء پر سجدہ جائز سمجھتے ہیں گو کہ بعض سنی فقہاء نے لباس کی آستینوں، عمامے یا دستار کے پلّو وغیرہ کو مستثنی قرار دے کر ان پر سجدہ جائز نہیں سمجھا ہے۔
اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت علیہم السلام کی حدیثوں اور اصحاب کے عمل سے استناد کرتے ہوئے ـ اپنے اس عقیدے پر استوار ہیں چنانچہ وہ مسجد الحرام اور مسجد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں قالینوں اور بچھونوں پر سجدہ نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور پتھروں سجدہ کرتے ہیں اور کبھی حصیر والے مصلے یا چٹائیاں اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور ان پر سجدہ کرتے ہیں۔
ایران، عراق اور شیعہ ممالک (نیز دنیا بھر کے دوسرے ممالک میں) ـ جہاں تمام مساجد قالینوں اور بچھونوں سے سے بھری ہوتی ہیں ـ وہاں مٹی کے ٹکڑے (مہر نماز یا سجدہ گاہی کے عنوان سے تیار کرکے رکھے جاتے ہیں اور پیروان آل محمد (ص) اہی مہروں اور سجدہ گاہوں کو قالینوں اور دریوں پر رکھتے ہیں اور ان ہی پر سجدہ کرتے ہیں تا کہ پیشانی ـ جو انسانی اعضاء میں سب سے افضل و اشرف عضو سمجھی جاتی ہے ـ بارگاہ پروردگار کے سامنے خاک پر رگڑی جائے اور حق تعالی کی درگاہ میں خضوع و خشوع کی انتہا کی جائے۔ کبھی یہ مٹی کا ٹکڑا (سجدہ گاہ یا مہر نماز) شہدا کی تربت سے تیار کیا جاتا ہے جو اللہ کی راہ میں جان کا نذرانہ دینے والوں کی یاد بھی تازہ کی جا‏ئے اور نماز کی حالت میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب کا امکان بھی میسر ہوسکے۔
شیعیان اہل بیت (ع) اس حوالے سے شہدائے کربلا کی تربت کو دیگر مٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں مگر نہ تو ہمیشہ کے لئے مٹی کے پابند ہیں اور نہ ہی تربت کے، بلکہ ـ جیسا کہ کہا گیا ـ مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص) جیسی مساجد میں لگنے والے پتھروں پر بآسانی سجدہ کر لیتے۔ (غور فرمائیں)
بہر حال پیروان اہل بیت (ع) زمین پر سجدہ واجب سمجھتے ہیں اور اس کے وجوب کے لئے متعدد دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ ان دلائل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی احادیث شریفہ، اصحاب کی سیرت اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے منقولہ احادیث شام ہیں جو آنے والے صفحات پر پیش کی جائیں گی۔
اس کے باوجود حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اہل سنت برادران اس فتوی کے خلاف اتنا شدید رد عمل کیوں دکھاتے ہیں؟، کبھی تو وہ اس کو بدعت سمجھنے لگتے ہیں اور کبھی اس کا درجہ کفر اور بت پرستی تک بڑھا دیتے ہیں۔
اگر ہم ان برادران کی قابل قبول کتابوں سے ثابت کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور آپ (ص) کے اصحاب زمین پر سجدہہ کرتے تھے تو کیا وہ پھر بھی اس کو بدعت سمجھیں گے؟
اگر ہم ثابت کریں کہ آپ (ص) کے بعض اصحاب ـ منجملہ جابر بن عبداللہ انصاری، گرم موسم میں جب ریت اور پتھر شدید تپش کی وجہ سے سخت گرم ہوجاتے تھے ـ ریت کی کچھ مقدار ہاتھ میں لے کر اس کو دست بدست کرکے ٹھنڈا کر دیتے تھے تا کہ ان کے اوپر (حالت سجدہ میں پیشانی رکھ سکیں؛ (5) تو کیا یہ لوگ جابر ابن عبداللہ الانصاری کو بت پرست یا بدعت گذار سمجھیں گے؟!۔
کیا وہ شخص جو حصیر یا چٹائی پر سجدہ کرتا ہے یا پھر مسجدالحرام یا مسجدالنبی (ص) کے فرش کے پتھروں پر سجدہ کرتا ہے، چٹائی کی پرستش کررہا ہے یا پھر فرش کے پتھروں کی پوجا کررہا ہے؟ (6)
کیا اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ برادران ان اشیاء کے بارے ہماری ہزاروں کتابوں میں سے صرف ایک کتاب کا مطالعہ کریں، جن پر سجدہ جائز ہے تا کہ وہ جان سکیں کہ ان ناروا تہمتوں کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؟
کیا بت پرستی، کفر اور بدعتوں کی تہمتیں اتنی سادہ اور آسان ہیں کہ خداوند متعال قیامت کے دن آسانی سے ان سے درگذر فرمائے گا؟
اس سوال کا جواب پانے کے لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس حدیث کی طرف توجہ کافی ہے:
امام علیہ السلام کے دانشمند شاگرد "ہشام بن حکم" (7) نے آپ (ع) سے پوچھا: کس چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: "السُّجُودُ لاَ يَجُوزُ إِلاَّ عَلَى الاَْرْضِ أَوْ مَا أنْبَتَتْ الأرْضُ إِلاَّ مَا أُكِلَ أوْ لُبِسَ"۔
ترجمہ: سجدہ جائز نہیں ہے مگر زمین یا زمین سے اگنے والی چیزوں پر سوائے ان (اگنے والی) چیزوں کے جو کھائی یا پہنی جاتی ہیں۔
زمین یا زمین سے اگنے والی چیزوں پر سجدے کا فلسفہ
ہشام کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو اس کی حکمت (یا فلسفہ) کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:
"لاَِنَّ السُّجُودَ هُوَ الْخُضُوعُ لِلّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَلاَ يَنْبَغِى أنْ يَكُونَ عَلَى مَا يُؤْكَلُ وَ يُلْبَسُ لاَِنَّ أبْنَاءَ الدُّنْيَا عَبِيدُ مَا يَأْكُلُونَ وَ يَلْبَسُونَ وَ السَّاجِدُ فِى سُجُودِهِ فِى عِبَادَةِ اللهِ فَلاَ يَنْبَغِى أنْ يَضَعَ جَبْهَتَهُ فِى سُجُودِهِ عَلَى مَعْبُودِ أبْنَاءِ الدُّنْيَا الَّذِينَ اغْتَرُّوا بِغُرُورِهَا"۔
ترجمہ: اس لئے کہ سجدہ خدائے عزّ و جلّ کے لئے خضوع کا نام ہے پس جائز نہیں ہے کہ سجدہ اشیاء خورد و نوش اور ملبوسات (کپڑے وغیرہ) پر بجا لایا جائے کیونکہ دنیا کے فرزند (دنیا پرست) ان چیزوں کے بندے ہیں جنہیں وہ کھاتے یا پہنتے ہیں جبکہ سجدہ کرنے والا حالت سجود میں اللہ کی عبادت کررہا ہوتا ہے چنانچہ اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی پیشانی ایسی چیزوں پر رکھ لے جو دنیا پرستوں کے لئے معبود کی حیثیت رکھتی ہیں وہی جو دنیا کی چمک دمک کا دھوکا کھائے بیٹھے ہیں۔
امام علیہ السلام نے اس کے بعد فرمایا:
"وَالسُّجُودُ عَلَى الاَْرْضِ أَفْضَلُ لاَِنَّهُ أبْلَغُ لِلتَّوَاضُعِ وَالْخُضُوعِ لِلّهِ عَزَّ وَ جَلَّ"۔
ترجمہ: اور سجدہ زمین پر افضل ہے کیونکہ زمین پر سجدہ اللہ عزّ و جلّ کے سامنے (سجدہ کرنے والے کے) خضوع کو بہتر انداز میں واضح کردیتا ہے۔ (8)
4۔ اس مسئلے کے مستندات
اب ہم اس مسئلے کے ثبوت و اسناد پپیش کرتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے پرنور کلام سے آغاز کرتے ہیں:
الف: زمین پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں مشہور حدیث نبوی (ص)
زمین پر سجدے سے متعلق معروف و مشہور حدیث نبوی (ص) شیعہ اور سنی منابع نے نقل کی ہے جس کے ضمن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"جُعِلَتْ لِىَ الاَْرْضُ مَسْجِداً وَ طَهُوراً"۔ (9)
ترجمہ: "زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور طہارت (تیمم کا وسیلہ) قرار دیا گیا۔
بعض لوگوں کے بزعم اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ پوری روئے زمین اللہ تعالی کی عبادت کا مقام ہے اور عبادت صرف متعینہ و مخصوص مقامات تک محدود نہیں ہے جیسا کہ یہود و نصاری کا گماں تھا کہ عبادت صرف گرجاگھروں اور خاص قسم کی عبادتگاہوں تک محدود ہونی چاہئے، تا ہم اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو حدیث کی یہ تفسیر و تاویل حدیث کے حقیقی معنی سے ہمآہنگ نہیں ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ: "زمین طہور (طہارت اور پاکیزگی کا وسیلہ) بھی ہے اور مسجد اور سجدہ گاہ بھی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جو طہور ہے اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے، مٹی اور پتھر زمین ہے چنانچہ مٹی اور پتھر کو سجدہ گاہ بھی ہونا چاہئے"۔
اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ معنی بیان کرنا چاہتے جو اہل سنت کے بعض فقہاء نے اس حدیث سے اخذ کئے ہیں تو آپ (ص) کو فرمانا چاہئے تھا کہ: "جُعِلَتْ لِىَ الاَْرْضُ مَسْجِداً وَ تُرابُها طَهُوراً"۔ (پوری زمین میرے لئے مسجد قرا دی گئی اور اس کی مٹی کو طہارت (تیمم) کا وسیلہ قرار دیا گیا)؛ لیکن آپ (ص) نے یہ نہیں فرمایا؛ چنانچہ اس میں شک نہیں ہے کہ "مسجد" اس حدیث میں "سجدہ گاہ" وہی چیز ہونی چاہئے جس پر تیمم کیا جاسکتا ہے۔
پس اگر شیعیان اہل بیت (ع) زمین پر سجدے کی پابندی کرتے ہیں اور بچھونوں وغیرہ پر سجدہ جائز نہیں سمجھتے تو وہ کسی خطا اور غلطی کا ارتکاب نہیں کررہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی تعمیل کررہے ہیں۔
ب: سیرت نبوی
متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے اور بچھونوں، لباس وغیرہ پر سجدہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ:
"سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم مطير حتى اني لانظر إلى أثر ذلك في جبهته وأرنبته"۔ (10)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارش کے دن سجدہ کیا حتی کہ میں نے آپ (ص) کی پیشانی اور ناک پر سجدے کے آثار دکھائے دے رہے تھے۔ (10)
اگر قالینوں اور بچھونوں پر سجدہ جائز ہوتا، تو آنحضرت (ص) کو بارش کے دن مٹی پر سجدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
ام المؤمنین عائشہ سے مروی ہے:
"ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم متقيا وجهه بشئ، تعني في السجود"۔ (11)
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی بھی سجدہ کرتے ہوئے اپنی پیشانی کسی چیز سے ڈھانپتے ہوئے ہرگز نہیں دیکھا۔
"ابن حجر" نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ "یہ حدیث اس موضوع کی جانب اشارہ ہے کہ سجدے میں اصل شرط یہ ہے کہ پیشانی زمین تک پہنچے لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو واجب (بھی) نہیں ہے۔ (12)
ام المؤمنین میمونہ سے روایت ہے:
"و رسول الله يصلي على الخمرة فيسجد"۔ (13)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چٹائی یا حصیر کے ٹکڑے پر نماز پڑھتے اور سجدہ فرمایا کرتے تھے۔
مسلماً حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حصیر پر نماز پڑھا کرتے تھے۔
اہل سنت کے منابع و مآخذ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم "خمرہ" پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ (خمرہ کھجوروں کے پتوں سے تیار کردہ چھوٹی سی چٹائی یا مصلے کو کہا جاتا ہے)۔
عجیب بات یہ ہے کہ اگر شیعہ نماز پڑھتے وقت حصیر کے مصلے یا صفیں بچھائیں تو بعض متعصبین ان پر بدعت کا الزام لگاتے ہیں اور انہیں غضبناک نظروں سے دیکھتے ہیں حالانکہ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب سنت نبوی ہے۔ (14)

کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ سنت رسول (ص) کو بدعت کا نام دیا جاتا ہے؟!
میں یہ واقعہ ہرگز نہیں بھول سکتا کہ ایک دفعہ زیارت بیت اللہ کے سفر کے دوران میں مسجد النبی (ص) میں حصیر کے مصلے پر نماز پڑھنا چاہتا تھا کہ ایک متعصب وہابی عالم نے نہایت غصے کے عالم میں مصلے کا ایک کونا پکڑ کر اس کو ایک طرف پھینک دیا... یقیناً وہ بھی "سنت" کو "بدعت" ہی سمجھ رہا تھا۔
ج: صحابہ و تابعین کا عمل
اس بحث ایک دلچسپ موضوع یہ ہے کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے طبقے (یعنی تابعین کہلانے والے طبقے) کے افراد کے حالات میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے؛ بعنوان مثال:
1۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:
"كنت اصلّى مع النبى(صلى الله عليه وآله)الظهر فآخذ قبضة من الحصى فاجعلها فى كفىّ ثم احولها إلى الكف الأخرى حتّى تبرد ثمّ اضعها لجبينى حتّى اسجد عليها من شدّة الحرّ"۔ (15)
ترجمہ: میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امامت میں نماز ظہر پڑھ رہا تھا پس کچھ سنگریزے اٹھاتا اور انہیں دست بدست کرتا تاکہ ٹھنڈے ہوجائیں اور میں ان پر سجدہ کرسکوں، یہ عمل گرمی کی شدت کی وجہ سے تھا۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے؛ حتی کہ وہ گرمی کے لئے بھی چارہ جوئی کرتے اور سوال یہ ہے کہ اگر سجدہ زمین پر واجب و لازم نہ ہوتا تو اس پرمشقت کام کی ضرورت ہی کیا تھی؟
2۔ انس بن مالک سے روایت ہے:
"كنّا مع رسول الله(صلى الله عليه وآله) فى شدّة الحرّ فيأخذ أحدنا الحصباء فى يده فإذا برد وضعه و سجد عليه"۔ (16)
ترجمہ: ہم شدید گرمی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے اور ہم میں سے بعض صحابی سنگریزے ہاتھ میں لیتے تا کہ ٹھنڈے ہوجائیں اور پھر انہیں زمین پر رکھتے اور ان پر سجدہ کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر سجدہ صحابہ کے درمیان رائج تھا۔
3۔ ابوعبیدہ سے روایت ہے:
"كان ابن مسعود لا يسجد - أو قال لا يصلي - إلا على الارض"۔ (17)
ترجمہ: (مشہور صحابی) ابن مسعود زمین کے سوا کسی چیز پر نماز نہیں پڑھتے تھے ـ یا کہا کہ ـ سجدہ نہیں کرتے تھے۔
اگر زمین سے مراد قالین (قالین، دری، چادر وغیرہ) ہو تو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ پس زمین سے مراد مٹی، پتھر، سنگریزے، ریت وغیرہ ہے۔
4۔ مسروق بن اجدع کی روایت
ابن مسعود کے قریبی دوست "مسروق بن اجدع" کے حالات میں ہے کہ:
"كان لا يرخص فى السجود على غير الأرض حتّى فى السفينة و كان يحمل فى السفينة شيئاً يسجد عليه"۔ (18)
ترجمہ: ابن اجدع زمین کے سوا کسی چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حتی کہ جب کشتی میں سوار ہوتے تو کوئی چیز اپنے ساتھ لے جاتے اور اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
5۔ علی بن عبداللہ بن عباس کا خط
علی بن عبداللہ بن عباس نے "رزین" کو لکھا:
"ابعث إلىّ بلوح من أحجار المروة عليه اسجد"۔ (19)
ترجمہ: جبل مروہ کے پتھروں میں سے ایک ہموار تختہ میرے لئے ارسال کرو تا کہ میں اس پر سجدہ کیا کروں۔
6۔ عمر بن عبدالعزیز اور حصیر پر مٹی
فتح الباری في شرح صحيح البخاري میں منقول ہے کہ:
"كان عمر بن عبدالعزيز لا يكتفى بالخمرة بل يضع عليها التراب و يسجد عليه"۔ (20)
ترجمہ: عمر بن عبدالعزیز حصیر (چٹائی) پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے اوپر مٹی رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔
٭٭٭
ہم ان روایات و اخبار سے من حیث المجموع کیا سمجھتے ہیں اور ان سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں؟ کیا ان سے یہی نتیجہ نہیں اخذ کیا جاتا کہ ابتدائی صدیوں میں اصحاب اور تابعین کی سیرت و روش یہی تھی کہ وہ زمین یعنی مٹی، پتھر اور ریت کے اوپر سجدہ کیا کرتے تھے؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے اس زمانے میں بعض لوگ اس سنت کا احیاء کرنا چاہیں تو کیا ان کے اس عمل کو بدعت کا نام دینا چاہئے؟
کیا فقہائے اہل سنت کو آگے بڑھ کر اس سنت کا احیاء نہیں کرنا چاہئے؟ وہی سنت جو بارگاہ الہی میں انتہائے خضوع کی علامت اور سجدہ کی حقیقت اور اس کی روح سے زیادہ سازگار و ہمآہنگ ہے؟ ہمیں اس دن کی امید ہے۔
٭٭٭
حوالہ جات و توضیحات
1۔ سفينة البحار، مادّه سجود. شجرة طوبى الشيخ محمد مهدي الحائري جلد 2 صفحه 430 پر یہ حدیث کچھ یوں ہے: "إذا أردت أن يحشرك الله معي فاكثر من السجود بين يدي الواحد القهار، وليس في الاعمال عمل أحب إلى الله من السجود بين يديه"۔ یعنی کثرت سے سجدے کرو اور کوئی بھی عمل اللہ کے نزدیک خداوند متعال کے نزدیک سجدے سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ بحار الأنوار ـ العلامة المجلسي جلد 82 ۔صفحه 164.
2۔ سورہ رعد آیت 15۔
3۔ سورہ اعراف آیت 206۔
4۔ وسائل الشيعه، جلد 4، صفحه 984۔
5۔ مسند احمد، جلد 3، صفحه 327 و سنن بيهقى، جلد 1، صفحه 239۔ مسند ابن حنبل مطبوعہ دار صادر بيروت جلد 3 صفحه 52 پر مروی ہے: عن جابر عن أبى سعيد قال دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلى على حصير * جابر نے ابوسعید سے روایت کی ہے کہ میں رسول اللہ (ص) پر وارد ہوا اور آپ کو حصیر یا چٹائی پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ مسند ہی کی جلد 3 صفحہ 60 پر مروی ہے: عن أبى سلمة ... رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين حتى رأيت أثر الطين في جبهته ٭ (بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹھپکنے لگی تو رسول اللہ (ص) پانی اور مٹی میں سجدہ فرماتے رہے حتی کہ میں آپ (ص) کی پیشانی پر مٹی کے اثرات دیکھ لئے۔ نیز مسند کی جلد 4 صفحہ 317 پر روایت ہے: عن عبد الجبار بن وائل عن ابيه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد على الارض ٭ عبدالجبار بن وائل نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جو زمین پر سجدہ کررہے تھے۔/ مترجم

6۔ اگر پتھر یا چٹائی یا مٹی پر سجدہ پتھر یا چٹائی اور مٹی کی پرستش سمجھی جائے تو کیا چادر، قالین یا درہ وغیرہ پر سجدہ (جو اہل سنت برادران کے ہاں جائز ہے) قالین یا چادر یا دری کی پرستش نہیں ہے؟۔/مترجم
7۔ ابومحمد محمد هشام بن الحَكَم الکوفی الواسطی" اصل میں کوفی تھے اور واسط میں پیدا ہوئے تھے اور بغداد میں کرخ کے مقام پر ان کا تجارتی کاروبار تھا اور سنہ 179 میں ہارون عباسی کے دور میں کوفہ میں وفات پائی۔ (اختيار معرفة الرجال المعروف برجال الكشى لشيخ الطائفة ابى جعفر الطوسى)۔ ہشام بن حکم امام صادق علیہ السلام کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور دوسرے علوم کے علاوہ علم مناظرہ میں بھی استاد تھے۔/مترجم
8۔ علل الشرايع، جلد 2، صفحه 341 فقه الصادق عليه السلام ـ السيد محمد صادق الروحاني ـ جلد 4 صفحه 272 بحوالہ وسائل الشیعة جلد 3 صفحه 591۔
9۔ صحيح بخارى، جلد 1، صفحه 91 اور سنن بيهقى، جلد 2، صفحه 433 نیز یہ حدیث بہت سی دوسری کتب میں بھی نقل ہوئی ہے)
10۔ مجمع الزوائد، جلد 2، صفحه 126۔ احمد بن حنبل نے مسند کی جلد 3 صفحہ 60 نقل کیا ہے کہ بارش کی وجہ سے مسجد کی چھت ٹھپک رہی تھی چنانچہ رسول اللہ (ص) پانی اور مٹی میں سجدہ فرماتے رہے حتی کہ میں آپ (ص) کی پیشانی پر مٹی کے اثرات دکھائی دیئے۔/مترجم
11۔ مصنف ابن ابى شيبه، جلد 1، صفحه 397۔
12۔ فتح الباري شرح صحيح البخاري شهاب الدين ابن حجر العسقلاني جلد 1، صفحه 404۔
13۔ مسند احمد بن حنبل، جلد 6، صفحه 331۔
14۔ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: "روى عن عمر بن عبد العزيز أنه كان يؤتى بتراب فيوضع على الخمرة فيسجد عليه"۔ عمر ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ وہ چٹائی یا حصیر کے اوپر مٹی ڈال کر اس پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري جلد 1 صفحه 410)۔/ واضح رہے کہ اہل سنت کے ہاں عمر بن عبدالعژیژ کو خلیفہ راشد کا درجہ دیا جاتا ہے۔/ مترجم
15۔ مسند احمد، جلد 3، صفحه 327 ; سنن بيهقى، جلد 1، صفحه 439۔
16۔ السنن الكبرى بيهقى، جلد 2، صفحه 106۔
17۔ المصنف ابن ابى شيبه، جلد 1، صفحه 397۔
17۔ طبقات الكبرى، ابن سعد، جلد 6، صفحه 53۔
19۔ اخبار مكّه ازرقى، جلد 2، صفحه 151۔
20۔ فتح البارى، جلد 1، صفحه 410۔

بشکریہ ابنا

Add new comment