پاوں پر مسح کرنے کی شرعی حیثیت کیاے؟

حالانکہ قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ پاؤں پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے اور پیروان اہل بیت (ع) کا عمل قرآن کے عین مطابق اور 30 سے زائد احادیث نبوی کے بھی موافق ہے۔

 بہت سے صحابہ اور تابعین کا عمل بھی پاؤں پر مسح کرنے کی دلیل ہے کیونکہ وہ پاؤں دھونے کے قائل نہيں تھے۔

 مگر افسوس! کہ بعض مخالفین نے ان دلائل کو نظر انداز کرکے۔ غور و فکر کئے بغیر ہمارے خلاف اپنے حملوں کا آغاز کرکے نہایت تند و تیز نازیبا اور حق و عدل سے دور، ناانصافی پر مبنی الفاظ سے اس مکتب کے پیروکاروں پر ملامت کی ہے۔

 اہل سنت کے مشہور عالم "ابن کثیر" اپنی کتاب "تفسیر قرآن العظیم" میں لکھتے ہیں: "روافض (یعنی شیعیان اہل بیت (ع)) نے وضو میں پاؤں دھونے کے مسئلے کی مخالفت کی ہے اور کسی دلیل و سند کے بغیر، جہل و گمراہی کی بنا پر، مسح (ہاتھ پھیرنے) کو کافی سمجھا ہے حالانکہ آیت کریمہ سے پاؤں دھونے کا وجوب ہی سمجھا جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عمل بھی آیت کے مطابق تھا؛ تا ہم انھوں نے (شیعیان اہل بیت (ع)) نے تمام امور کی مخالفت کی ہے اور درحقیقت ان کے پاس اپنے قول و عمل کی کوئی دلیل نہیں ہے!۔ (1)

 بعض دوسرے افراد نے بھی آنکھیں اور کان بند کرکے ابن کثیر کی رائے کی پیروی کی ہے اور ان کے ذہن میں جو بھی تہمت آئی ہے ـ مسئلے میں تحقیق کئے بغیر ـ پیروان اہل بیت (ع) پر تھونپ دی ہے۔

 شاید ان کا وہم یہ تھا کہ صرف عوام (اور شرع مبین سے بے خبر لوگ) ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے اور ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ کسی دن محققین اور علماء ان کے کلام اور ان کی آراء پر تنقید کریں گے اور ان کا تجزیہ کریں گا اور یہ حضرات تاریخ اسلام کے سامنے شرمندہ ہونگے۔

 ہم سب سے پہلے کتاب اللہ ـ قرآن مجید ـ کا دامن تھامتے ہیں:

 (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہونے والی سب سے آخری سورت) سورہ مائدہ میں ارشاد ربانی ہے:

 "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ"۔ (2)

 ترجمہ: اے ایمان لانے والو!جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے منہ اور کہنیوں تک کے ہاتھوں کو دھوؤ اور اپنے سر میں مسح کرو اور پیروں کا گٹوں تک۔

 بالکل واضح ہے کہ اس آیت میں "اَرْجُلَكُمْ" (نحوی لحاظ سے) "رُؤُوسِكُمْ" پر معطوف ہے، اسی لئے دونوں کا مسح واجب و لازم ہے، نہ کہ پیروں کو دھول لیا جائے خواہ "ارجلکم" کو منصوب (اَرْجُلَکُمْ) پڑھیں چاہے اس کو مجرور (اَرْجُلِکُمْ) پڑھیں۔ (3)

 عجیب توجیہات

 لیکن جن لوگوں نے قرآنی حکم کو اپنی ذہنیت اور تنگ نظرانہ و غیر منصفانہ آراء، کے موافق نہ پایا تو توجیہات کی تلاش میں نکل گئے اور ان کی یہ توجیہات انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں:

 1۔ یہ آیت کریمہ سنت نبوی (ص) اور آنحضرت (ص) سے منقولہ احادیث کے ذریعے منسوخ ہوئی ہے!!!

 "ابن حزم الاندلسی" اپنی کتاب "الأحكام فى أصول الأحكام" میں لکھتے ہیں:

 "چونکہ سنت ميں پیروں کے دھونے پر زور ہے لہذا ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ "مسح" کا حکم منسوخ ہوا ہے!۔

 حالانکہ اولاً: تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ سورہ مائدہ قرآن کی آخری سورت ہے اور اس کی کوئی بھی آیت منسوخ نہيں ہوئی ہے۔

 ثانیاً: ـ جیسا کی آنے والی سطروں میں بیان ہوگا ـ ان روایات کے مقابلے میں ـ جو دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ص) وضو میں پیر دھویا کرتے تھے ـ متعدد دوسری روایات موجود ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ آپ (ص) وضو میں پاؤں کا مسح فرمایا کرتے تھے تو ایسے میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ قرآنی اصول کو ایسی روایات کے ذریعے منسوخ کیا جائے جن کا حال یہ ہے؟

 علاوہ ازیں روایات کے تعارض و تضاد کر باب میں کہا گیا ہے کہ "جب روایات متضاد ہوں تو ان کا قرآن مجید ہوں، تو ان کا قرآن سے موازنہ کرو؛ جو روایات قران کے موافق ہوں وہ مقبول ہیں اور جو قرآن کے خلاف ہوں وہ مردود اور نامقبول ہیں۔

 2۔ بعض دیگر منجملہ " احمد بن على رازى جصاص" نے اپنی کتاب "احکام القرآن" میں لکھا ہے کہ: وضو کی آیتمُجمَل ہے اور ہم احتیاط پر عمل کرتے ہوئے پاؤں دھولیتے ہیں۔ تا کہ "غََسْل" (دھلائی) اور مسح دونوں حاصل ہوں۔ (4)

 حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ "غَسل" اور "مسح" کے مفاہیم بالکل متباین اور متضاد ہیں اور "مسح"، "غَسل" میں شامل نہیں اور غسل کے دائرے میں نہيں آتا۔

 مگر ہم کریں تو کیا کریں کہ تحقیق و مطالعے کے بغیر غیر منصفانہ فیصلے اور تنگ نظرانہ آراء، ان حضرات کو "ظاہرِ قرآن" عمل ہی نہیں کرنے دیتیں۔

 3۔ فخررازی کہتے ہیں: حتی اگر آیت کو "جَرّ" والی قرائت کے مطابق پڑھ لیں اور "ارجلکم"، "رُؤُوسِكُمْ" پر معطوف ہو ـ جو قطعی طور پر پاؤں پر مسح کی دلیل ہے ـ پھر بھی پاؤں پر مسح مراد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ پاؤں دھوتے وقت پانی کی استعمال میں کفایت شعاری اپنائی جائے اور زیادہ روی سے پرہیز کیا جائے۔ (5)

 حالانکہ اگر قران میں اس طری کے "اجتہادات" اور "تفسیر بالرائے" کے یہ ہجوم، جاق جائز قرار دیئے جائیں تو عمل کے لئے ظواہر قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ اگر ہمیں اس بات کی اجازت ہے کہ "مسح" سے "پاؤں دھونے میں عد اسراف" مراد لیں تو یقیناً تمام قرآنی ظواہر کو مختلف طریقوں سے تفسیر و تاویل کیا جاسکتا ہے۔ نص کے مقابلے میں اجتہاد اور تفسیر بالرائے

 شواہد و قرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ "نص کے مقابلے میں اجتہاد" جتنا ہمارے اس دور میں قبیح سمجھا جاتا ہے، اسلام کی ابتدائی قرون میں اتنا قبیح نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بالفاظ دیگر قرآن مجید کی آیات کریمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث شریفہ کے سامنے تسلیم مطلق اور تعبد کے جس درجے پر ہم ہیں اور جتنی شدت سے ہم قرآن و سنت کے معتقد ہیں، گذشتہ زمانوں میں کبھی بھی ایسا نہ تھا۔

 مثلاً جب عمر بن خطاب نے کہا کہ:

 "متعتان كانتا محللتان فى زمن النبى(صلى الله عليه وآله) و أنا احرمهما و اعاقب عليهما متعة النساء و متعة الحج" نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں دو متعے حلال تھے جنہیں میں حرام قرار دیتا ہوں اور اس (کی خلاف ورزی) پر سزا دونگا، خواتین سے متعہ اور حج تمتع۔ (6) ہم نے کم ہی سنا ہے یا حتی کہ سنا تک نہیں ہے کہ کسی صحابی نے ان کے اس اعلان پر اعتراض اور احتجاج کیا ہو، کہ اے خلیفۂ وقت! نصّ رسول (ص) کے ہوتے ہوئے اجتہاد ـ اور وہ بھی اتنی شدت و حدت کے ساتھ ـ جائز نہیں ہے؛ حالانکہ اگر ہمارے اس زمانے میں اسلام کے عظیم ترین فقہاء بھی ایسی بات کریں کہ "فلاں عمل رسول اللہ (ص) کے زمانے میں جائز اور حلال تھا لیکن میں اس کو حرام قرار دیتا ہوں"، تو سب حیرت کا اظہار کریں گے اور ان کی بات کو بے وقعت اور بے قدر و قیمت سمجھ کر مسترد کریں گے اور کہہ دیں گے کہ: کسی کہ بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کے حلال کو حرام قرار دے یا حرام خدا کو حلال قرار دے؛ کیونکہ احکام کوئی بھی شخص دین کی منسوخی یا نص (قرآن و سنت) کے مقابلے میں اجتہاد کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

 مگر صدر اول میں ایسی صورت حال نہیں تھی؛ اسی وجہ سے متعدد مواقع پر فقہاء نے اپنے آپ کو مجاز سمجھا ہے کہ احکام خداوندی کی مخالفت کریں اور غالباً پیروں کے مسح کا انکار اور اس کی غَسل میں تبدیلی کا مسئلہ بھی اسی رجحان کا حصہ تھا۔

 شاید بعض لوگوں کا خیال تھا کہ "بہتر ہے پیروں کو دھو لیا جائے کیونکہ پیر ہر وقت آلودگیوں سے دوچار رہتے ہیں جبکہ پاؤں پر مسح کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے!؛ بالخصوص اس لئے بھی کہ اس زمانے میں بہت سے لوگ عملی طور پر پابرہنہ تھے اور وہ جوتے نہیں پہنتے تھے؛ اسی وجہ سے مہمان کی پذیرائی اور اکرام کا ایک طریقہ یہ تھا کہ مہمان گھر میں آتے ہی پانی لایا جاتا تھا اور اس کے پاؤں دھلائے جاتے تھے۔

 ہماری اس بات کی دلیل "تفسير المنار" کے مؤلف کا وہ قول ہے جو انھوں نے آیت وضو کے ذیل میں "غَسل" (پاؤں دھونے) کے قائلین کی آراء کی توجیہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے؛ لکھتے ہیں: "گرد آلود اور گندے پاؤں پر گیلا ہاتھ پھیرنے کا نہ صرف کوئی فائدہ نہيں ہے بلکہ اس طرح پاؤں مزید گندے ہوجاتے ہیں اور ہاتھ بھی گندا اور آلودہ ہوجاتا ہے۔

 اور اہل سنت کے فقیہ "ابن قدامہ" (متوفی 620 ہجری) نے بعض دیگر سے نقل کیا ہے کہ پاؤں ہر وقت آلودگی کا شکار رہتے ہیں مگر سر ایسا نہیں ہے چنانچہ مناسب یہی ہے کہ سر کا مسح کیا جائے اور پاؤں دھولئے جائیں؛ (7) اس طرح انھوں نے اپنے اجتہاد اور استحسان کو ظاہر آیت قرآنی پر ترجیح دی ہے اور قرآن کے حکم کے مطابق "مسح" کو چھوڑ کر آیت شریفہ کی بلاوجہ اور بے ڈھنگ توجیہ کا راستہ اپنایا ہے۔ (8)

 یہ حضرات بھول شاید بھول گئے ہیں کہ وضو در حقیقت صفائی ستھرائی اور عبادت کا مجموعہ ہے۔ سر کا مسح ـ وہ بھی صرف ایک انگلی سے جیسا کہ بعض حضرات نے فتوی دیا ہے ـ نظافت اور صفائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا، اسی طرح پاؤں کا مسح بھی ہے۔ مگر بہرحال ہم فرمان خداوندی کے تابع ہیں اور ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی عاجز و قاصر عقل کے ذریعے خدا کے احکام و فرامین کو بدل دیں؛ (9) جب خداوند متعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہونے والی قرآن کی آخری سورت میں، فرمان جاری کرتا ہے کہ "وضو میں چہرہ اور ہاتھ دھو لیں اور سر اور پاؤں کا مسح کریں"، ہمیں قاصر و بے بس انسانی عقول کے فلسلفہ بافیوں اور بحث انگیزیوں کے ذریعے اس کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے اور اپنی مخالفت کا ثبوت فراہم کرنے کی خاطر قرآن کی بلاوجہ، بے ڈھنگ اور بے تکے انداز سے تفسیر و تاویل نہیں کرنی چاہئے۔

 جی ہاں! تفسیر بالرائے (اپنی رائے اور نظر کے ذریعے قرآن کی تفسیر) اور نصّ (قرآن و سنت) کے مقابلے میں اجتہاد، دو عظیم آفتیں ہیں جنہوں نے بعض موضوعات میں اسلام فقہ کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

 جوتوں کا مسح!

 اور یہ بھی تاریخ کے عجائب میں سے ہے جو ہر غیرجانبدار محقق کو حیرت زدہ کردیتا ہے ـ کہ یہ برادران جو پیروں پر مسح کرنے کے عدم جواز اور پیر دھونے کے وجوب پر اصرار کرتے ہیں، عام طور پر فتوی دیتے ہیں کہ پیر دھونے کی بجائے جوتوں کا مسح اضطرار کی حالت میں نہیں، بلکہ اختیار کی حالت میں، سفر میں نہیں، بلکہ حضر میں اور ہر حال میں ـ جائز ہے!۔

 حقیقت یہ ہے کہ انسان اس طرح کے حکم سے حیرت اور اکتاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ پیر دھونا یا جوتوں کا مسح! (10)

 البتہ ایک گروہ ایسا بھی تھا ـ جو افسوس کے ساتھ ـ فقہ اہل سنت کی نگاہ میں اقلیتی گروہ قرار دیا گیا ہے، اور علی بن ابی طالب علیہ السلام، عبداللہ بن عباس اور اہل سنت کے امام مالک بن انس پر مشتمل ہے، جس نے جوتوں پر مسح کی مخالفت کی ہے۔ (مالک نے ایک فتوی دے کر اس کی مخالفت کی تھی)۔

 دلچسپ امر یہ ہے کہ ام المؤمنین عائشہ ـ جن کے فتاوی اور روایات اہل سنت کے ہاں خاص اہمیت کے حامل ہیں ـ اپنی مشہور حدیث کے ضمن میں کہتی ہیں:

 "لئن تقطع قدماى أحبّ إلىّ من أن امسح على الخفّين"۔ (11)

 ترجمہ: ہر گاہ میرے دو پیر کٹ جائیں، میرے لئے بہتر ہے کہ (وضو کے دوران) جوتوں کا مسح کروں۔

 حالانکہ وہ شب و روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھیں اور آنحضرت (ص) کے وضو کا قریب سے مشاہدہ کرتی رہتی تھیں۔

 بہرحال اگر یہ برادران، اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کا اتباع کرتے جو ظواہر قرآن کے عین مطابق ہیں، پیروں پر مسح کے سوا کوئی بھی دوسرا فتوی قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔

 پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحیح اور معتبر حدیث میں فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: کتاب اللہ اور اپنی عترت، یعنی اہل بیت، جب تک تم ان دو کا تھامے رہوگے ہرگز گمراہی کا شکار نہ ہوگے۔ (12)

 امام محمد باقر علیہ السلام ایک معتبر روایت میں فرماتے ہیں:

 "ثَلاَثَةٌ لاَ اتَّقِى فِيهِنَّ أحَداً شُرْبُ المُسْكِرِ، وَ مَسْحُ الخُفَّيْنِ وَ مُتْعَةُ الحَجِّ"۔ (13)

 ترجمہ: تین چیزیں ایسی ہیں جن سے اجتناب کرتے ہوئے میں کسی سے تقیہ نہیں کرتا: شرب مسکرات (نشہ آور اشیاء) کے استعمال) ـ (جبکہ بعض لوگ نبیذ (خرما اور جو کی شراب) پینا جائز سمجھتے تھے)، جوتوں کا مسح اور حج تمتع۔

 ٭٭٭

 اسلامی روایات اور پیروں کا مسح

 امامیہ فقہاء کا اتفاق ہے کہ وضو میں پیروں کے مسح کے بغیر کوئی چیز بھی قابل قبول نہيں ہے اور اہل بیت علیہم السلام کے توسط سے وارد ہونے والی روایات بھی اسی عقیدے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں اور قارئین نے مندرجہ بالا سطور میں امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث ملاحظہ کی ہے جبکہ اس سلسلے میں احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

 لیکن جو احادیث اہل سنت کے منابع سے وارد ہوئی ہیں وہ بالکل مختلف ہیں؛ درجنون حدیثیں پیروں پر مسح کرنے پر دلالت کرتی ہیں یا پھر ثابت کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر پر مسح کرنے کے بعد پاؤں کا مسح فرمایا کرتے تھے جبکہ بعض دیگر روایات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پاؤں دھونے کی نسبت دی گئی ہے اور بعض دیگر روایات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جوتوں پر مسح کرنے کی نسبت بھی دی گئی ہے!۔

 اول الذکر قسم کی احادیث، جو صرف مسح پر دلالت کرتی ہیں، مشہور کتب سے اخذ کی گئی ہیں حیسے:

 1ـ صحيح بخارى

 2ـ مسند احمد

 3ـ سنن ابن ماجه

 4ـ مستدرك حاكم

 5ـ تفسير طبرى

 6ـ درّالمنثور

 7ـ كنزالعمّال وغیرہ، جن کا اعتبار اہل سنت برادران کے نزدیک مسلم ہے۔

 اور ان روایات کے راویوں کے نام یہ ہیں:

 1ـ اميرمؤمنان على(عليه السلام)

 2ـ ابن عبّاس

 3ـ انس بن مالك (جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خادم خاص تھے)

 4ـ عثمان بن عفان

 5ـ بسر بن سعيد

 6ـ رفاعہ

 7ـ ابوظبيان، و غيرہ جو مشہور راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔

 اور ہم یہاں ان روایات میں سے صرف پانچ روایتیں بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں؛ اور کتنی عجیب ہے کہ مشہور مفسر الآلوسی" جیسے لوگوں کی یہ بات کہ: پیروں پر مسح کے حوالے سے ایک روایت وارد ہوئی ہے جس کو اہل تشیع نے دستاویز قرار دیا ہے!! (14)

 1۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام کی روایت

 "عَنْ عَلِى بْنِ أبِى طَالِب(عليه السلام) قَالَ : كُنْتُ أرى أنَّ بَاطِنَ الْقَدَمَيْنِ أحَقُّ بِالْمَسْحِ مِنْ ظَاهِرِهِمَا حَتَّى رَأَيْتُ رَسُولَ الهِ(صلى الله عليه وآله) يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا"۔ (15)

 ترجمہ: علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: میری رائے یہ تھی کہ شاید پیروں کے بطن (تلوے) کا مسح ان کے ظاہر (اوپر والے حصے) کے مسح سے افضل ہے تا آنکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جو پیروں کے ظاہر (اوپر والے حصوں) کا مسح کررہے ہیں۔

 اس حدیث میں پوری وضاحت سے پیروں کے مسح کا عمل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ـ اور وہ حضرت علی علیہ السلام کے توسط سے ـ ثابت ہے۔

 2۔ ابو مطر کی روایت

 عن ابى مطر قال: "بينما نحن جلوس مع على(عليه السلام) فى المسجد جاءرجل إلى على(عليه السلام) و قال: أنى وضوء رسول الله(صلى الله عليه وآله) فدعا قنبر فقال: اتيتنى بكوز من ماء، فغسل يده و وجهه ثلاثاً فأدخل بعض أصابعه فى فيه و استنشق ثلاثاً و غسل ذارعيه ثلاثاً و مسح رأسه واحدة... و رجليه إلى الكعبين"۔ (16)

 ترجمہ: ابومطر کہتے ہیں: ہم مسجد میں علی علیہ السلام کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک شخص علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو دکھائیں۔ پس علی علیہ السلام نے قنبر کو بلوایا اور فرمایا: میرے لئے پانی کا کوزہ لاؤ؛ پس آپ (ع) نے ہاتھ منہ تین مرتبہ دھوئے اور انگلیوں سے مسواک کیا اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر استنشاق کیا اور ہاتھ تین مرتبہ کہنیوں تک دھولئے اور پھر سر کا مسح کیا اور گٹوں تک ہیروں کا مسح کیا۔ (17)

 

گو کہ دونوں حدیثیں امیرالمؤمنین علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نقل ہوئی ہیں مگر دو الگ الگ واقعات کو بیان کرتی ہیں اور ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کے موقع پر پاؤں کا مسح فرمایا کرتے تھے۔

 

3۔ بسر بن سعید کی روایت

 

عن بسر بن سعيد قال: "أتى عثمان المقاعد فدعا بوضوء فتمضمض و استنشق ثمّ غسل وجهه ثلاثاً و يديه ثلاثاً ثلاثاً ثمّ مسح برأسه و رجليه ثلاثاً ثلاثاً، ثمّ قال: رأيت رسول الله(صلى الله عليه وآله)هكذا توضّأ، يا هؤلاء أكذلك؟ قالوا: نعم، لنفر من أصحاب رسول الله(صلى الله عليه وآله) عنده"۔ (18)

 

ترجمہ: عثمان مقاعد (بیٹھک کے مقام) پر آئے اور پانی منگوایا کلی کی اور استنشاق کیا اور اس کے بعد تین تین مرتبہ چہرہ اور ہاتھ دھولئے اور پھر سر اور پیروں کا تین تین مرتبہ مسح کیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا اور پھر حاضرین ـ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ تھے ـ سے تصدیق چاہی اور کہا: کیا ایسا ہی ہے؟ سب نے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔

 

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نہ صرف عثمان بلکہ صحابہ کے ایک گروہ نے بھی گوہابی دی ہے کہ وضو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول پیروں کا مسح تھا۔ (گو کہ اس روایت میں تین تین مرتبہ سر اور پیروں کا مسح بیان ہوا ہے جو شاید بعض حضرات کے نزدیک مستحب ہو یا پھر راوی نے اشتباہ کیا ہو)۔

 

4۔ رفاعہ کی روایت

 

عن رفاعة بن رافع "أنّه سمع رسول الله(صلى الله عليه وآله) يقول: أنّه لا تتمّ صلوة لأحد حتّى يسبغ الوضوء، كما أمره الله عزّ و جلّ يغسل وجهه و يديه إلى المرفقين و يمسح برأسه و رجليه إلى الكعبين"۔ (19)

 

ترجمہ: رفاعہ بن رافع کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: تم میں سے کسی شخص کی نماز بھی صحیح نہیں ہے جب تک وضوء اس روش پر انجام نہ دے جیسا کہ خداوند عزّ و جلّ نے فرمان دیا ہے کہ: وضو میں چہرہ اور ہاتھ ـ کہنیوں تک ـ دھولے اور سر کا اور پیروں کو گٹوں تک مسح کرے۔

 

5۔ مالک الاشعری کی روایت

 

عن ابى مالك الأشعرى أنّه قال لقومه: "اجتمعوا اصلّى بكم صلوة رسول الله(صلى الله عليه وآله) فلمّا اجتمعوا قال: هل فيكم أحد من غيركم؟ قالوا: لا، إلاّ ابن اخت لنا، قال: ابن اخت القوم منهم، فدعا بجفنة فيها ماء فتوضّأ و مضمض و استنشق و غسل وجهه ثلاثاً و ذراعيه ثلاثاً ثلاثاً و مسح برأسه و ظهر قدميه ثمّ صلّى بهم"۔ (20)

 

ترجمہ: ابو مالک الاشعری سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا: اکٹھے ہوجاؤ تاکہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز پڑھا دوں۔ جب قوم کے افراد اکٹھے ہوئے تو مالک نے کہا: کیا تمہارے درمیان کوئی غیر بھی ہے؟ لوگوں نے کہا؛ نہیں سوائے ہمارے ایک بھانجے کے۔ انھوں نے کہا: قوم کا بھانجا، قوم ہی میں سے ہے۔ (اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکمران نظام ـ سیاسی محرکات کی بنا پر ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز اور اور آپ کے وضو کو اس کی اصل صورت میں بیان کرنے کی راہ میں رکاوٹ تھا) چنانچہ ابو مالک نے پانی کا برتن منگوایا، کلی کی، اسنشاق کیا، چہرہ تین بار دھویا، دونوں ہاتھ تین بار دھوئے اور سر اور پیروں کی پشت کا مسح کیا اور اپنے قوم کو نماز پڑھائی۔

 

٭٭٭

 

مذکورہ بالا چند روایات ان متعدد روایات و احادیث میں "مشتے نمونۂ خروارے" کا مصداق ہیں جو اہل سنت کی مشہور کتب میں مشہور و معروف راویوں سے نقل ہوئی ہیں۔

 

چنانچہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی یا پھر صرف ایک حدیث نقل ہوئی ہے جو پیروں کے مسح پر دلالت کرتی ہے، نا آگاہ اور متعصب لوگ ہیں جو اس وہم میں مبتلا ہیں کہ اگر حقائق کا انکار کیا جائے یا انہیں نظر انداز کیا جائے تو وہ (حقائق) خود بخود معدوم (اور نیست و نابود) ہوجائیں گے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے مسح کے وجوب پر سورہ مائدہ کی چھٹی آیت کی دلالت کا نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ یہ تک کہا ہے کہ مذکورہ آیت پاؤں دھونے کی دلیل ہے، جیسا کہ گذشتہ صفحات پر بیان ہوا۔

 

مخالف روایات

 

ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ مذکورہ روایات کے مقابلے میں روایات کی دو اور متضاد قسمیں بھی ہیں جو اہل سنت برادران کے مصادر و مآخذ میں نقل ہوئی ہیں۔

 

پہلی قسم وہ روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو میں اپنے پیر دھو لیا کرتے تھے۔

 

دوسری قسم ان روایات پر مشتمل ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ تو مسح کرتے تھے اور نہ ہی پاؤں دھویا کرتے تھے بلکہ جوتوں کا مسح فرمایا کرتے تھے!!

 

تاہم علم اصول کے اس مسلمہ قاعدے کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ اگر ایک حکم کے سلسلے میں دو متضاد روایات موجود ہوں تو پہلے مرحلے میں ان روایات کو دلالت کے لحاظ سے اکٹھا کیا جائے اور اس کی تفسیر کچھ اس طرح سے کی جائے کہ دونوں ہمآہنگ ہوجائیں (البتہ ان میں عرف عام کے فہم و ادراک کے پیمانوں کا لحاظ رکھنا ہوگا)۔

 

اور (دوسرے مرحلے میں) اگر دلائل (مذکورہ روایات) کو جمع کرنا ممکن نہ ہو تو انہیں قرآن مجید کی کسوٹی پر پرکھنا چاہئے۔ یعنی دیکھنا چاہئے کہ ان متضاد اور متعارض روایات و دلائل میں کون سی دلیل و روایت قرآن سے مطابقت رکھتی ہے۔ جو قرآن کے مطابق ہو اس کو لے لینا چاہئے اور جو قرآن کے خلاف ہو اس کو ترک کردینا چاہئے۔۔ یہ وہ دلیل ہے جو بذات خود معتبر دلائل سے ثابت ہوا ہے۔ (21)

 

چنانچہ مسح اور غَسْل (مسح کرنے اور دھونے میں) پر دلالت کرنے والی روایات کو یوں جمع کیا جاسکتا ہے:

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو میں فریضۂ مسح پر عمل فرمایا کرتے تھے اور صفائی کی خاطر کبھی اپنے پیر بھی دھو لیتے تھے؛ جبکہ پیر دھونا وضو کے فرائض میں نہ تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس عمل کے شاہد راویوں نے یہ دیکھ کر سمجھا ہے کہ شاید پیر دھونا بھی وضو کے فرائض میں شامل ہے۔

 

قابل توجہ امر یہ ہے کہ شیعیان اہل بیت (ع) کی کثیر تعداد یہی عمل انجام دیتی ہے اور وضو کے فریضے (یعنی مسح) پر عمل کرنے کے بعد (یا وضو سے پہلے) اپنے پیروں کو صفائی کی نیت سے مکمل طور پر دھولیتے ہیں۔

 

یہ عمل ان علاقوں میں زیادہ ضروری نظر آتا ہے جہاں گرمی کی وجہ سے نعلین (سلیپر اور چپل وغیر) کا استعمال زیادہ ہوتا ہے اور بند جوتے کم استعمال ہوتے تھے کیونکہ نعلین آلودگی اور گرد و خاک یا کیچڑ وغیرہ سے پیروں کی مکمل حفاظت نہیں کرتے۔

 

بہرحال عمل واجب یعنی "مسح" معمول کے مطابق صفائی کے مقصد پیروں کو دھونے کے عمل سے بالکل جدا تھا اور ہے۔

 

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ "نصّ" کے مقابلے میں اجتہاد" نے بعض فقہاء کو پاؤں دھونے کے وجوب کا فتوی جاری کرنے پر آمادہ کیا ہو کیونکہ ان کا خیال تھا کہ دھونے کی وجہ سے پیروں کی آلودگی ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد ان حضرات نے سورہ مائدہ کی چھٹی آیت کریمہ کو نظرانداز کیا ہے جو مسح کے وجوب کو ثابت کرتی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ صفحات میں اہل سنت کے بعض علماء کا قول بیان ہوا، جن کی رائے یہ تھی بہتر ہے کہ پیروں کو روزمرہ آلودگی کی وجہ دھولیا جائے اور مسح کافی نہیں ہے۔

 

سہل و آسان شریعت

 

یقیناً اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے اور ہر عصر و ہر زمانے میں روئے زمین کے تمام حصوں کے لئے آیا ہے اور اپنی عالمگیریت اور آفاقیت کے ساتھ ساتھ شریعت "سمحۂ سہلہ" (درگذر کرنے والی آسان شریعت) ہے جو بالکل آسان ہے، قارئین محترم اندازہ کریں کہ ہر روز پانچ مرتبہ پاؤں دھولینے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں کو کتنی اہم مشکلات کا سامانا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ اس سخت گیری کی وجہ سے وضو اور نماز ہی سے بیزار ہوجاتے ہیں؛ یہ ہے نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کا نتیجہ۔

 

یہ احتمال بھی بعید از قیاس نہیں ہے کہ غَسل (پاؤں دھونے) سے متعلق روایات میں سے بعض روایات بنوامیہ کے دور میں وضع ہوئی ہیں؛ اور یہ وہ زمانہ تھا جب حدیث جعل کرنے (اور وضع کرنے) کا بازار گرم تھا اور معاویہ بن ابی سفیان نے حدیث وضع کرنے والوں کے لئے بڑی بڑی رقوم مختص کردی تھیں۔

کیونکہ دنیا جانتی تھی کہ علی علیہ السلام پیروں پر مسح کرنے کے قائل تھے اور معاویہ کا اصرار تھا کہ تمام موضوعات و مسائل میں علی علیہ السلام کی مخالفت کی ہو۔

 

 

۔۔۔۔

 

 

حوالہ جات و توضیحات

 

1۔ تفسیر قرآن العظیم جلد 2 صفحه 518۔

 

2۔ سورہ مائدہ آیت 6۔

 

3۔ توضیح یہ ہے کہ لفظ "ارجلکم" میں دو قرائتیں مشہور ہیں: "قرائتِ جر" جس کے قائلین میں بعض مشہور قراء منجملہ "حمزہ"، "ابوعمرو"، "ابن کثیر" اور حتی کہ "عاصم" (بروایت ابوبکر)، نے "لِ" کو مکسور (یعنی اَرْجُلِکُمْ) پڑھا ہے اور بعض دیگر مشہور قراء نے نصب کے ساتھ (اَرْجُلَکُمْ) پڑھا ہے اور موجودہ قرآنی نسخے اسی قرائت کے مطابق لکھے گئے ہیں۔

 

لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ان دو اِعرابوں میں معنوی لحاظ سے کوئی فرق نہيں ہے۔

 

کیونکہ اگر مکسور (اَرْجُلِکُمْ) پڑھا جائے وضوح کے ساتھ "رؤوس" پر عطف ہوگا اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ وضو میں پاؤں کا مسح کرو (جس طرح کہ سر کا مسح کرتے ہو)۔

 

اگر پیروان اہل بیت (ع) نے اس قرائت پر عمل کیا ہو ـ جس کے حامیوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے ـ تو کیا یہ ان کے لئے عیب کی بات ہے؟

 

علاوہ ازیں اگر ہم اس کو مفتوح (اَرْجُلَکُمْ) پڑھیں تو بھی "رؤوسکم" پر ہی عطف بر محل ہوگا اور ہم جانتے ہیں کہ "رؤوسکم" کا محل "نصب" ہوگا کیونکہ رؤوسکم "وَامْسَحُواْ" کا مفعول ہے لہذا دونوں صورتوں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "پیروں کا مسح کرو"۔

 

تاہم ایک گروہ کا وہم و گماں یہ ہے کہ اگر "اَرْجُلَکُمْ" کو منصوب پڑھا جائے تو "وُجُوهَكُمْ" پر عطف ہوگا اور کے معنی یہ ہونگے کہ: "چہرے اور ہاتھوں کو دھولو اور پیروں کو بھی!" حالانکہ کہ گماں ادبیات عرب کے قواعد کے خلاف ہے ہور قرآن مجید کی فصاحت سے بھی ہمآہنگی نہیں رکھتا۔

 

ادبیات عرب سے اس کی مخالفت کا سبب یہ ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان اجنبی جملہ واقع نہیں ہوتا، اور اہل سنت کے مشہور دانشور کے بقول "محال" ہے کہ "ارجلکم"، "وجوہکم" پر عطف ہوا ہو۔ کیونکہ ہرگز کسی نے فصحی عربی زبان میں یہ نہیں سنا ہے کہ کوئی کہہ دے کہ:

 

"ضربت زيداً و مررت ببكر و عمراً"

 

یعنی میں نے زیاد کو مارا اور بکر کے پاس سے گذرا اور عمرو کو؛ یعنی عمرو کو بھی مارا!۔ (منیة المصلي صفحه 16).

 

عام لوگ اس طرح بات نہیں کرتے چہ جائیکہ قرآن مجید، جو فصاحت اکمل و اتم نمونہ ہے۔

 

چنانچہ جس طرح کہ بعض سنی محققین نے کہا ہے، اس میں شک نہیں ہے کہ "اَرْجُلَکُمْ" پڑھا جائے "بِرُؤُوسِكُمْ" کے محل پر معطوف ہوگا اور ہر آیت کا مفہوم یہی ہے کہ: وضو کے وقت سر اور پاؤں کا مسح کرو۔

 

4۔ أحكام القرآن، جلد 2،صفحه 434۔

 

5۔ بحوالۂ: تفسير كشّاف، جلد 1، صفحه 610۔

 

6۔ اس روایت کے حوالہ جات اسی کتاب کے باب "میعادی نکاح" پیش کئے جاچکے ہیں۔

 

7۔ المغنى ابن قدامه، جلد 1، صفحه 117۔

 

8۔ جناب شیخ محمد عبدہ نے تفسیر المنار میں اور ابن قدامہ نے اپنی تفسیر میں اللہ کے حکم کو چھوڑ کر فرمایا ہے کہ "بہتر ہے کہ پاؤں دھولیئے جائيں ورنہ تو پاؤں کی صفائی نہيں ہوگی۔ اور ان کے ان اقوال سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ مسح کو کلی طور پر مسترد کرنے کےلئے قرآن و سنت سے کوئی دلیل لانے سے مایوس ہوگئے ہیں۔ پیروان اہل بیت (ع) کے ہاں اس بات کا راستہ یوں نکالا گیا ہے کہ اگر ان کے پاؤں آلودہ، نجس یا گندے ہوں تو وہ وضو سے قبل پاؤں دھولیتے ہیں اور مسح کے لئے پیروں کا سکھا دیتے ہیں۔ /مترجم

 

9۔ عجب تو یہ ہے کہ ان محدثین و فقہاء نے ہی اشعری مکتب کی بنیاد رکھی ہے اور ان ہی کی متفقہ رائے ہے کہ توحید و یکتائی اور صفات و افعال خداوندی میں عقل کوئی عمل دخل نہیں رکھتی۔ حتی یہ حضرات "قبح عقلی" کے منکر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خدا کے افعال جیسے بھی ہوں عقل ان کی اچھائی اور برائی کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔ کہتے ہیں کہ چاہے خدا اچھا کرے یا برا کرے، وہ صحیح ہے اور عقل کو اس کے بارے میں فیصلہ دینے کا حق نہیں ہے مگر احکام الہی میں قیاس و استحسان اور اجتہاد کا بہانہ بنا کرکے اسی قاصر عقل کی بنیاد پر، ظواہر قرآن تک کو، بدلنے پر اصرار کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہی عقل یہاں احکام میں کیونکر فعال ہوجاتی ہے جو اصول دین میں معصطل سمجھی جاتی ہے۔/مترجم

 

10۔ کیا عجب ہے کہ جب قرآن و سنت میں پاؤں کے مسح کے لئے کوئی ثبوت نہيں ملتا تو کہتے ہیں کہ پاؤں آلودہ اور گندے ہوتے ہیں اور گندے پاؤں پر گیلا ہاتھ پھیرنے سے ہاتھ بھی گندے ہوجاتے ہیں لیکن جوتوں پر مسح کو جائز قرار دیتے ہیں جبکہ جوتے قطعی طور پر آلودہ ہوتے ہیں!؟

 

11۔ مبسوط سرخسى، جلد 1، صفحه 98۔

 

12۔ "اني تارك فيكم الثقلين كتابَ اللهِ و عِترتي اهل بيتي ما ان تمسكتم بهما لن تضلوا بعدي"۔ یہ حدیث تمام شیعہ منابع میں مندرج ہے اور اہل سنت کے اہم ترین منابع میں اس حدیث کو بکثرت نقل کیا گیا ہے جیسے: صحیح مسلم (ج4، ص1873ـ 1874)، مسند احمد (ج3، ص14، 17، 26 و 59)، المستدرک علی الصحیحین (ج3، ص109 و 148)، المصنّفِ ابن ابی‌شیبه (ج7، ص 176)، السنن الکبری نسائی (ج5، ص 45، 51 و 130)، مسند ابی‌یعلی (ج2، ص 297، 303 و 376)، السنن الکبری بیهقی (ج7، ص 30 و ج10، ص 114)، المعجم الأوسط (ج3، ص 374 و ج4، ص 33).

 

13۔ الكافي، الكليني جلد 3، صفحه 32۔

 

14۔ تفسیر روح المعانی محمود بن عبدالله آلوسى، جلد 6 صفحه 87.

 

15۔ مسند احمد، جلد 1، صفحه 124۔

 

16۔ كنزالعمّال، متقی هندي جلد 9، صفحه 448.

 

17۔ لگتا ہے کہ راوی ترتیب وضو کو صحیح انداز سے نقل نہیں کرسکا ہے۔/مترجم

 

18۔ مسند احمد، جلد 1، صفحه 67۔

 

19۔ سنن ابن ماجه، جلد 1، صفحه 156۔

 

20۔ مسند احمد، جلد 5، صفحه 342۔

 

Add new comment