اخوان المسلمین کے قتل عام پر سلفیوں اور قبطیوں کی خاموشی

تحریر: الطاف حسین ندوی

3 جولائی 2013ء مصر کی تاریخ کا تاریک ترین دن ہے جب 30 سال بعد مطلق العنانیت کا جنازہ اُٹھانے والے مصری عوام نے حسنی مبارک کے دور کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر محمد مرسی کو بطور صدر مملکت منتخب کرنے کے ایک برس بعد ہی تحریر اسکوائر میں جمع ہو کر ظالم اور فاجر فوجی جرنیلوں اور ان کے سیکولر اور لبرل سیاسی قوتوں کو حکومت ختم کرنے کا ایک موقع فراہم کردیا اور اس طرح صرف ایک ہی سال میں محمد مرسی کی حکومت ختم ہوگئی مگر اخوان المسلمین مصر نے ایک نئی تاریخ اس وقت رقم کی جب اس نے سارا رمضان اور عید الفطر بھی رابعہ العدویہ کے کھلے میدان میں گذارتے ہوئے قریب 41 دن تک لاکھوں لوگوں کے ساتھ معزول صدر کی بحالی کی تحریک میں ثابت قدمی کی ایسی مثال قائم کی جو ماضی میں تلاش کرتے ہوئے بھی مل نہیں پاتی ہے اور اب 14 اگست 2013ء اخوان المسلمین کی تاریخ میں ایک ایسا دن طلوع ہوا جس کی چین کے علاوہ کہیں تاریخ نہیں ملتی ہے اس لیے کہ چین نے بھی ہزاروں طلباء کو جمہوریت کی بحالی کے مطالبے پر بے دریغ قتل کردیا تھا۔

اب جب کہ شہادتوں کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں اور اب تک آخری اطلاعات کے مطابق کم و بیش پانچ ہزار کے قریب شہید اور دس ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیں جن میں کم سے کم ایک مفسر قرآن سمیت تیس عالم دین بھی شامل ہیں اور اس کے علاوہ اخوان کی اعلیٰ قیادت میں کئی قائدین کے قریبی عزیز بھی شہید ہو چکے ہیں جن میں اخوان المسلمین کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کے فرزند عمار بھی جام شہادت نوش کر چکے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ گولیوں کے ذریعے انسان جانوں کے ضیاع کی خبریں بھی آ رہی ہیں اور ایک تازہ افسوس ناک خبر کے مطابق اڑتیس قیدیوں کو جیل منتقلی کے ڈرامے کے دوران راستے میں فوجی گاڑیوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا، اس افسوسناک صورتحال کے ساتھ ساتھ ایک خوفناک خبر یہ بھی ہے کہ مصر کی عبوری لبرل فاشسٹ حکومت نے اخوان المسلمین کو تحلیل کرنے کا فیصلہ اگر چہ حتمی طور پر کرلیا ہے مگر فی الوقت انھیں عوامی غیظ و غضب اور بین الاقوامی مخالفت نے اس کے اعلان سے روک دیا ہے، لہذا اس سے صرف ایک تجویز کی صورت میں ہی پیش کیا گیا تاکہ عوامی موڈ کا پتہ لگا کر فیصلے کے حوالے سے پیش رفت کی جا سکے۔

مصری مسائل پر گہری نگاہ رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں کم و بیش پندرہ لاکھ گھرانوں کے چولھے بجھ جائیں گے اس لیے اخوان صرف ایک مذہبی انقلابی تحریک ہی نہیں بلکہ اس کی آٹھ دہائیوں پر پھیلی زندگی میں اس نے بے شمار رفاعی ادارے بھی کھول رکھے ہیں جن پر تحریک سالانہ تین سو کھرب روپیہ خرچ کرتی ہے، جن میں دو ہزار سے زائد اسکول اور کالج شامل ہیں جن میں مصری طلبا کو مفت تعلیم دی جاتی ہے جبکہ طبی مراکز میں ماہانہ پانچ لاکھ مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے کئی سو شاپنگ کمپلیکس ہیں جہاں غریبوں کو سستے داموں میں میعاری چیزیں فراہم کی جاتی ہیں اور ایسا نمونہ تجارت ساری دنیا میں صرف مصر میں اخوان ہی نے پیش کیا ہے۔

سب سے رُلا دینے والی خبر یہ ہے کہ عالم عرب کے خود ساختہ سلفی حکمران اخوان المسلمین کے قتل عام پر نہ صرف خوش ہیں بلکہ مصری فوج کے سربراہ جرنل عبدالفتاح السیسی کی نئی نئی امدادی پیشکشوں کے ذریعے پیٹھ بھی تھپتھپاتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس سے قبل اسی عنوان سے ملتے جلتے ایک مضمون ”اخوان المسلمین نے بےنقاب کردیا عرب سلفیت کو“ میں ہم نے عرض کیا تھا کہ ”مصر کی النور پارٹی“ جو مصری سلفی حضرات کی مشہور مذہبی اور سیاسی تنظیم ہے نے بھی سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرکے جیل بھیجنے کا خیر مقدم کیا ہے بلکہ جرنل سیسی کے اقدام کو درست قرار دیکر آپ اپنی دینداری کا بھانڈا سرِ راہ پھوڑ ڈالا ہے، عربی سلفی حضرات کا یہ تصور تو بہت خوفناک ہے کہ عقائد میں بڑے حساس اور بظاہر بڑے موحد مگر جب اسی توحید اور رسالت کو زمین پر نافذ کرنے کے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے تو یہی توحید کے جھوٹے دعویدار اس کے خلاف علم بغاوت بلند کریں تو ایسی توحید و سنت کی دعوت کو عملی طور پر سمجھنے میں کسی ”جاہل اور ان پڑھ“ کو بھی دشواری محسوس نہیں ہو سکتی ہے چہ جائیکہ دو لفظ پڑھنے اور سمجھنے والے کو۔؟

اب اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ دراصل ان عرب ملوکوں اور مطلق العنانوں کو اخوان المسلمین کے مصری حکومت میں قدم جمانے سے اپنی بدمعاشیوں پر کاری ضرب پڑتی ہوئی نظر آتی ہے اس لیے کہ انہوں نے زین العابدین، حسنی مبارک اور کرنل قذافی کا انجام تو دیکھ لیا انہیں راتوں کو مرسی کی صورت میں وہ بھوت نظر آتے تھے جو ان کی بادشاہتوں کی طنابیں غیر محسوس انداز میں ڈھیلی کرتے ہو ئے دکھائی دیتے تھے۔ دور حاضر کے ان فرعونوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کے رکھدیا ہے دنیا کو بالعموم اور مغرب کو بالخصوص آج تک یہ غلط پیغام ان کی سیاہ کاریوں سے ملتا رہا کہ اسلام بھی شاید حکومت ایک خاندان کی لونڈی تصور کرتا ہے حالانکہ اسلام اسے ایک عارضی امانت تصور کرتے ہو ئے ”صاحب اقتدار کی آزمائیش“ قرار دیتا ہے، پھر مصیبت یہ کہ جب سے عرب میں تیل دریافت ہوا تب سے روپیوں کی ریل پیل نے ان کا دماغ اور تصور اسلام مکمل طور پر بگاڑ کے رکھدیا ہے۔

ان کی ساری دینی خدمات چند رفاعی امور تک محدود رہ چکی ہیں اور ”آل سعود تو خادمین حرمین شریفین“ لکھنے میں تو مبالغہ کرتے ہوئے یہ تاثر دیتے ہیں کہ شاید اللہ کے ہاں اس عمل کے عوض ان کے دوسرے سیاہ کاریوں پر سے پردہ پڑا رہے گا انہیں اس بات کا کوئی احساس ہی نہیں ہے کہ حضور اکرم (ص) نے مومن کی جان کو مسلمان پر حرام قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجش بیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاو، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ (ص) نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔ (صحیح مسلم)

اس سب کے بیچ ایک نڈھال کر دینے والی خبر یہ بھی آ رہی ہے کہ اخوان المسلمین کو تباہ و برباد کرنے میں جتنی زیادہ دلچسپی جرنل سیسی اور اس کے جرنیلوں کو ہے اسے زیادہ گہری دلچسپی قبطی عیسائیوں کے ساتھ ساتھ عرب دنیا کے بعض سلفی حضرات کو بھی ہے اور یہ حیرت کا مقام ہے کہ عیسائی اور سلفی دونوں اخوان کے خاتمے میں یک رائے ہیں!!! اس کا پس منظر سمجھنا کوئی دشوار کام نہیں مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم سلفیت کے عقائد، تاریخ، عزائم اور مزاج سے واقفیت رکھتے ہوں میں نے اس کو کریدنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ بعض سعودی اور مصری سلفی، شیعہ حضرات کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمین، اس کے بانی امام حسن البنا (رہ) شہید، اس کے عظیم فکری رہنما سید قطب شہید (رہ)، جماعت اسلامی اور اس کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی (رہ) کو گمراہ سمجھتے ہیں بلکہ بڑی بےباکی اور بےخوفی کے ساتھ العیاذ باللہ ان کے خلاف حکم کفر بھی صادر کر چکے ہیں۔۔۔ اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان حضرات نے شیعہ علماء کی طرح بعض صحابہ کرام پر سخت تنقید کی ہے جب کہ یہ فعل ان کے اپنے علماء نے بھی انجام دیا ہے جس کی ہم ایک دو درجن نہیں سینکڑوں مثالیں انہی کی کتابوں سے پیش کرسکتے ہیں مگر مسلمانوں کی تنقیدی دنیا بھی نرالی ہے یہ جس کام کی دوسروں پر تنقید کرتے ہیں خود بھی وہی ناپسندیدہ کام پہلے کرچکے ہوتے ہیں ایسے میں سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

یہاں بعض اہم سوالات ایک عام لکھے پڑھے نوجوان کے ذہن میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب وہ مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج کے برعکس کسی مسلمان تنظیم کو خاموش پاتا ہے حیرت کی بات یہ کہ بعض حضرات نے تو سوشل نیٹ ورک پر ہمارے تنقیدی مضامین اور پوسٹس کو اپنے لیے چلینج سمجھتے ہوئے اپنی اصلاح کے برعکس اخوان المسلمین کو فکری اور عقائد کے لحاظ سے گمراہ جماعت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے بہت سارا مواد بھیجنے کی کوشش کرتے ہوئے گویا اپنے کو اسی فکر سے وابستہ ہونے کا احمقانہ اور مجنونانہ ثبوت پیش کیا حالانکہ اس ”سلفیت کو بدنام کرنے والے مجنون فیس بک فورس“ کو یہ تک نہیں معلوم ہے کہ وہ جن کا مواد اخوان کو گمراہ ثابت کرنے کے لیے پیش کر رہے ہیں وہ حضرات خود سلفیوں کے نزدیک بھی گمراہ ہیں مگر ان مجنونوں کو کون سمجھائے کہ تم لوگوں کو دین اور سلفیت کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے عرب سلفیوں کے کئی گروہ اور فرقے ہو چکے ہیں جن میں ایک تکفیری گروہ بھی کام کر رہا ہے انہیں حکم کفر داغنے میں مشہوری ہی سے پہچانا جاتا ہے اور ان سلفیوں سے اکثر حجازی سلفیوں نے کب کا اعلان برات کر رکھا ہے مگر حیرت کیجیے کہ ہندوپاک میں سرگرم سلفی اپنے آپ کو اس تکفیری جماعت سے الگ کرنے کے برعکس تذبذب میں مبتلا ہو کر اخوان المسلمین کے قتل عام پر خاموش رہ کر آپ اپنے متعلق غلط فہمیوں کا انبار پیدا کرنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

Add new comment